پریشر کُکر
ہم نے تو ساری امیدیں چھوڑ دی ہیں، کیونکہ حالات سدھرنے نہیں ہیں
حالات سدھر نہیں سکتے، جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے، انھیں عوام سے کوئی ہمدردی نہیں، کہنے کو جمہوریت ہے، لیکن کہاں ہے؟ ہمیں تو کہیں نظر نہیں آتی۔
جمہوریت کا ''ج'' بھی موجود نہیں، ہفتہ وار پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اسحاق ڈار، ڈالر کو 200 تک لانے کے لیے لائے گئے تھے۔،پھر کیا ہوا؟ وہ اپنے کام کروا کے رخصت ہوئے۔ اقبال نے سچ کہا کہ:
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں' تولا نہیں کرتے
لیکن ہمارے ہاں تو گنتی کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ جمہوریت کا لارا لپا دینا ضروری ہے تاکہ بیرونی دنیا کو تاثر دیا جائے کہ ہم جمہوریت پسند ہیں، لیکن جو صورت حال ہمارے ہاں ہے وہ تو بڑی ناگفتہ بہ ہے۔ کوئی سمت نہیں، قوم ہے ہی نہیں، بھان متی کا کنبہ ہے۔ کریں تو کیا کریں، لکھنے پر پابندی، بولنے پر پابندی یوں کہیے کہ:
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
لکھیں تو کیا لکھیں؟ ایک خوف کا ماحول ہے، پہلے ٹاک شو دلچسپی سے دیکھے جاتے تھے، کچھ سیکھنے اور جاننے کو ملتا تھا، اب دیکھے تو صاف پتا چلتا ہے کہ سب کچھ Arranged ہے، میزبان اتنے چوکنا کہ اگر کسی نے پڑھائے ہوئے سبق کے بجائے کچھ ''سچ'' کہا تھا تو یا تو اس کی آواز کو بند کردیا گیا یا فوری وقفہ لے لیا گیا، ایک حبس کا عالم ہے۔
مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ بچا کچھا پاکستان بھی ایک دن پریشر کُکر نہ بن جائے۔ ہر چیز زوال کی طرف رواں ہے۔ اسٹیل مل اور پی آئی اے دونوں سفید ہاتھی ہیں لیکن ان کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ پرویز مشرف کے دور میں کچھ پیش رفت اسٹیل مل کے حوالے سے ہوئی تھی، لیکن بعد میں معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
پی آئی اے نے بینکوں سے 17 ارب کا قرضہ لے کر سفید ہاتھی کے پیٹ میں بھر دیا، ہر سیاسی جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ورکروں کو یا تو پی آئی اے میں کھپایا یا اسٹیل مل میں۔ 30 میں سے 15 جہاز ناکارہ کھڑے ہیں، لوگوں کا اعتماد قومی ایئرلائن پر سے اٹھ چکا ہے۔ ایک خبر کے مطابق امریکا میں پی آئی اے کے روز ویلٹ ہوٹل کی فروخت کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔
کسی اچھی خبر کو سنے مدتیں بیت گئیں جو آیا اس نے ملک کو ملیامیٹ کیا سب سے زیادہ نقصان ضیا الحق کے دور میں ہوا انھوں نے صحافیوں کو کوڑے لگوائے افغانیوں اور ہیروئن کا تحفہ عوام کردیا، اس ملک کو نظریات کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے، یہ ملک چونکہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اس لیے اللہ ہی اس کی حفاظت بھی کرے گا۔
تو حضور جب اللہ ہی کو اس کی حفاظت کرنی ہے تو آپ کیوں عوام سے ووٹ لے کر اپنے اپنے محلات شاہی میں فروکش ہوتے ہیں، عوام سے الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے جاتے ہیں، انتخابات کے نتائج آتے ہی اور اقتدار کی ڈگڈگی بجتے ہی عوام سے دوری کیوں اختیار کرلی جاتی ہے۔
بڑے بڑے محلات اور خلوت گاہیں، جن میں قدم قدم پر پہریدار موجود، پتہ بھی کھڑکے تو پہریدار اپنی بندوقیں سیدھی کر لیتے ہیں، سڑک پر آپ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ نکلیں تو سڑکیں خالی کرا لی جاتی ہیں، کرسی سنبھالتے ہی آپ کے دماغوں میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ آپ کی حیثیت صرف ایک ''بچہ جمورا'' کی ہے، اگر آپ ڈگڈگی کی آواز کے ردھم سے ذرا بھی اِدھر اُدھر ہوئے آپ کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔
ایک گھٹن ہے جو وجود میں اتر رہی ہے۔ کیا لکھیں؟ حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ جتنا برا کرنا تھا کرلیا، لکھنے والے وہ کچھ نہیں لکھ پا رہے جو ان کا ضمیر کہتا ہے، بولنے وہ بول نہیں پا رہے جو وہ بولنا چاہتے ہیں، ہر طرف بے سکونی اور خوف و ہراس کے بادل منڈلا رہے ہیں، کسے خبر کہ کب صبح کے چار بجے آپ کی ڈور بیل اپ کا دل دہلا دے اور پھر آپ کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کر نامعلوم مقام تک لے جایا جائے۔
البتہ جنھوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور معاشرے کے بگاڑ کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں وہ مزے میں ہیں، ٹاک شوز کے میزبان بہت سمجھ دار ہیں، روزی روٹی کا سوال ہے، یہ پیٹ کمبخت بڑا ظالم ہے قحط بنگال میں لوگوں نے ایک بوری چاول کے عوض اپنے بچے بیچ دیے،کیونکہ آج کے حالات میں کون بے روزگاری کا عذاب جھیل سکتا ہے۔
آج کی جو صورت حال اس پر مجھے فلم ''گمن'' میں گائی ہوئی شہریار کی یہ غزل یاد آتی ہے جسے فاروق شیخ پر فلمایا گیا ہے اور جسے چیتن راول نے گایا ہے، بول کچھ یوں ہیں:
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل سے رفیقوں
تاحد نظر ایک بیاباں سا کیوں ہے
ہم نے تو ساری امیدیں چھوڑ دی ہیں، کیونکہ حالات سدھرنے نہیں ہیں۔ ہم کیا کرسکتے ہیں، صرف مسائل کی نشان دہی کرسکتے ہیں اور اللہ سے دعا کرسکتے ہیں کہ یا الٰہی پاکستان کو کوئی سمجھ دار، مسائل کا ادراک رکھنے اور انھیں حل کرنے والا ایمان دار حکمران نصیب ہو تو اب ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ مقتدر شخصیتیں جس کو وزارت کی کرسی پر بٹھاتی ہیں۔ وہ صرف اپنی اور اپنے خاندان کے لیے شوگر ملیں، پراپرٹی اور پٹرول پمپ بنانے میں لگ جاتی ہے۔
پاکستان میں ہمیشہ انھی کی حکومت رہے گی جن کی گزشتہ 75 سال سے ہے۔ اس لیے اب تو دعا مانگنا بھی فضول لگتا ہے۔ اس ملک کا واقعی خدا ہی حافظ ہے۔ تجربات اور نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا یہ وطن افغانستان کی جنگ میں خود کو فریق بنا لیا گیا۔
پی ٹی آئی کو لانے والوں نے جب بہ زور طاقت حکومت ختم کی تو انھیں لا بٹھایا جن پر کرپشن کے بے شمار مقدمات تھے۔ قوم کا مورال کیوں نہ گرے گا وہ کیوں نہ بدظن ہوں گے جب دیکھیں گے کہ جس کے سر پہ تاج اس کے اور ان کے بیٹے تمام الزامات سے بری ہو کر ''پاک صاف'' ہوکر لندن جا بیٹھے۔ اب مسلسل تمام پارٹیاں ایک ہی راگ الاپ رہی ہیں کہ الیکشن کب ہوں گے۔
ہوں گے بھی یا نہیں؟ ہوں گے بھی یا نہیں؟ کیسے لوگ ہیں، زمینی مسائل کا ادراک نہیں ہے اور پھر۔۔۔۔ الیکشن ہو بھی گئے؟ جبکہ 75 سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی بندربانٹ اور کرپشن میں ڈوبی ہوئی حکومتوں سے لوگ بے زار تھے۔
اسی لیے انھوں نے غیر سول حکومتوں کا خیرمقدم کیا۔ جمہوریت کے نام پر جو آمر قوم پر مسلط کیے جاتے ہیں ان کی کارکردگی سب کو یاد ہے۔
کسی نے سرے محل بنائے اور چشموں میں ہیرے جڑوائے، کسی نے شوگر ملیں اور لندن میں اپارٹمنٹ خریدے، غریب عوام کے بچے ننگے پاؤں اور وزیر کے جوتے لاکھوں میں، صرف ایک تصویر مہنگے ترین جوتے اور برانڈڈ سوٹ پہن کر ان بچوں کے ساتھ تصویر بنوا کر کون سا تیر مار لیا۔ ترقی کے لیے نام نہاد جمہوریت ضروری نہیں، روس اور چین نے بغیر جمہوریت کے اتنی ترقی کرلی ہے کہ مثال نہیں ملتی، چین دنیا کی تیسری بڑی طاقت بن گیا ہے۔
ایک ماچس سے لے کر الیکٹرانک کی مصنوعات سمیت ہر شے چائنا برآمد کر رہا ہے۔ بازار چین کی مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک ایک چائے بیچنے والے کے زیر نگیں ہے حالیہ جی 20 کانفرنس میں صرف سعودی عرب نے پچاس معاہدوں پر دستخط کیے۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا اس لحاظ سے دنیا کا تیسرا ملک بن گیا اور ہم کیا کر رہے ہیں، بس الیکشن کے انعقاد پر سوئی اٹکی ہوئی ہے۔ پتا نہیں آیندہ کیا ہوگا؟ یہ سرزمین صرف تجربات کی بھینٹ چڑھ گئی۔
جمہوریت کا ''ج'' بھی موجود نہیں، ہفتہ وار پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اسحاق ڈار، ڈالر کو 200 تک لانے کے لیے لائے گئے تھے۔،پھر کیا ہوا؟ وہ اپنے کام کروا کے رخصت ہوئے۔ اقبال نے سچ کہا کہ:
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں' تولا نہیں کرتے
لیکن ہمارے ہاں تو گنتی کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ جمہوریت کا لارا لپا دینا ضروری ہے تاکہ بیرونی دنیا کو تاثر دیا جائے کہ ہم جمہوریت پسند ہیں، لیکن جو صورت حال ہمارے ہاں ہے وہ تو بڑی ناگفتہ بہ ہے۔ کوئی سمت نہیں، قوم ہے ہی نہیں، بھان متی کا کنبہ ہے۔ کریں تو کیا کریں، لکھنے پر پابندی، بولنے پر پابندی یوں کہیے کہ:
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
لکھیں تو کیا لکھیں؟ ایک خوف کا ماحول ہے، پہلے ٹاک شو دلچسپی سے دیکھے جاتے تھے، کچھ سیکھنے اور جاننے کو ملتا تھا، اب دیکھے تو صاف پتا چلتا ہے کہ سب کچھ Arranged ہے، میزبان اتنے چوکنا کہ اگر کسی نے پڑھائے ہوئے سبق کے بجائے کچھ ''سچ'' کہا تھا تو یا تو اس کی آواز کو بند کردیا گیا یا فوری وقفہ لے لیا گیا، ایک حبس کا عالم ہے۔
مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ بچا کچھا پاکستان بھی ایک دن پریشر کُکر نہ بن جائے۔ ہر چیز زوال کی طرف رواں ہے۔ اسٹیل مل اور پی آئی اے دونوں سفید ہاتھی ہیں لیکن ان کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ پرویز مشرف کے دور میں کچھ پیش رفت اسٹیل مل کے حوالے سے ہوئی تھی، لیکن بعد میں معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
پی آئی اے نے بینکوں سے 17 ارب کا قرضہ لے کر سفید ہاتھی کے پیٹ میں بھر دیا، ہر سیاسی جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ورکروں کو یا تو پی آئی اے میں کھپایا یا اسٹیل مل میں۔ 30 میں سے 15 جہاز ناکارہ کھڑے ہیں، لوگوں کا اعتماد قومی ایئرلائن پر سے اٹھ چکا ہے۔ ایک خبر کے مطابق امریکا میں پی آئی اے کے روز ویلٹ ہوٹل کی فروخت کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔
کسی اچھی خبر کو سنے مدتیں بیت گئیں جو آیا اس نے ملک کو ملیامیٹ کیا سب سے زیادہ نقصان ضیا الحق کے دور میں ہوا انھوں نے صحافیوں کو کوڑے لگوائے افغانیوں اور ہیروئن کا تحفہ عوام کردیا، اس ملک کو نظریات کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے، یہ ملک چونکہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اس لیے اللہ ہی اس کی حفاظت بھی کرے گا۔
تو حضور جب اللہ ہی کو اس کی حفاظت کرنی ہے تو آپ کیوں عوام سے ووٹ لے کر اپنے اپنے محلات شاہی میں فروکش ہوتے ہیں، عوام سے الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے جاتے ہیں، انتخابات کے نتائج آتے ہی اور اقتدار کی ڈگڈگی بجتے ہی عوام سے دوری کیوں اختیار کرلی جاتی ہے۔
بڑے بڑے محلات اور خلوت گاہیں، جن میں قدم قدم پر پہریدار موجود، پتہ بھی کھڑکے تو پہریدار اپنی بندوقیں سیدھی کر لیتے ہیں، سڑک پر آپ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ نکلیں تو سڑکیں خالی کرا لی جاتی ہیں، کرسی سنبھالتے ہی آپ کے دماغوں میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ آپ کی حیثیت صرف ایک ''بچہ جمورا'' کی ہے، اگر آپ ڈگڈگی کی آواز کے ردھم سے ذرا بھی اِدھر اُدھر ہوئے آپ کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔
ایک گھٹن ہے جو وجود میں اتر رہی ہے۔ کیا لکھیں؟ حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ جتنا برا کرنا تھا کرلیا، لکھنے والے وہ کچھ نہیں لکھ پا رہے جو ان کا ضمیر کہتا ہے، بولنے وہ بول نہیں پا رہے جو وہ بولنا چاہتے ہیں، ہر طرف بے سکونی اور خوف و ہراس کے بادل منڈلا رہے ہیں، کسے خبر کہ کب صبح کے چار بجے آپ کی ڈور بیل اپ کا دل دہلا دے اور پھر آپ کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کر نامعلوم مقام تک لے جایا جائے۔
البتہ جنھوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور معاشرے کے بگاڑ کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں وہ مزے میں ہیں، ٹاک شوز کے میزبان بہت سمجھ دار ہیں، روزی روٹی کا سوال ہے، یہ پیٹ کمبخت بڑا ظالم ہے قحط بنگال میں لوگوں نے ایک بوری چاول کے عوض اپنے بچے بیچ دیے،کیونکہ آج کے حالات میں کون بے روزگاری کا عذاب جھیل سکتا ہے۔
آج کی جو صورت حال اس پر مجھے فلم ''گمن'' میں گائی ہوئی شہریار کی یہ غزل یاد آتی ہے جسے فاروق شیخ پر فلمایا گیا ہے اور جسے چیتن راول نے گایا ہے، بول کچھ یوں ہیں:
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل سے رفیقوں
تاحد نظر ایک بیاباں سا کیوں ہے
ہم نے تو ساری امیدیں چھوڑ دی ہیں، کیونکہ حالات سدھرنے نہیں ہیں۔ ہم کیا کرسکتے ہیں، صرف مسائل کی نشان دہی کرسکتے ہیں اور اللہ سے دعا کرسکتے ہیں کہ یا الٰہی پاکستان کو کوئی سمجھ دار، مسائل کا ادراک رکھنے اور انھیں حل کرنے والا ایمان دار حکمران نصیب ہو تو اب ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ مقتدر شخصیتیں جس کو وزارت کی کرسی پر بٹھاتی ہیں۔ وہ صرف اپنی اور اپنے خاندان کے لیے شوگر ملیں، پراپرٹی اور پٹرول پمپ بنانے میں لگ جاتی ہے۔
پاکستان میں ہمیشہ انھی کی حکومت رہے گی جن کی گزشتہ 75 سال سے ہے۔ اس لیے اب تو دعا مانگنا بھی فضول لگتا ہے۔ اس ملک کا واقعی خدا ہی حافظ ہے۔ تجربات اور نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا یہ وطن افغانستان کی جنگ میں خود کو فریق بنا لیا گیا۔
پی ٹی آئی کو لانے والوں نے جب بہ زور طاقت حکومت ختم کی تو انھیں لا بٹھایا جن پر کرپشن کے بے شمار مقدمات تھے۔ قوم کا مورال کیوں نہ گرے گا وہ کیوں نہ بدظن ہوں گے جب دیکھیں گے کہ جس کے سر پہ تاج اس کے اور ان کے بیٹے تمام الزامات سے بری ہو کر ''پاک صاف'' ہوکر لندن جا بیٹھے۔ اب مسلسل تمام پارٹیاں ایک ہی راگ الاپ رہی ہیں کہ الیکشن کب ہوں گے۔
ہوں گے بھی یا نہیں؟ ہوں گے بھی یا نہیں؟ کیسے لوگ ہیں، زمینی مسائل کا ادراک نہیں ہے اور پھر۔۔۔۔ الیکشن ہو بھی گئے؟ جبکہ 75 سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی بندربانٹ اور کرپشن میں ڈوبی ہوئی حکومتوں سے لوگ بے زار تھے۔
اسی لیے انھوں نے غیر سول حکومتوں کا خیرمقدم کیا۔ جمہوریت کے نام پر جو آمر قوم پر مسلط کیے جاتے ہیں ان کی کارکردگی سب کو یاد ہے۔
کسی نے سرے محل بنائے اور چشموں میں ہیرے جڑوائے، کسی نے شوگر ملیں اور لندن میں اپارٹمنٹ خریدے، غریب عوام کے بچے ننگے پاؤں اور وزیر کے جوتے لاکھوں میں، صرف ایک تصویر مہنگے ترین جوتے اور برانڈڈ سوٹ پہن کر ان بچوں کے ساتھ تصویر بنوا کر کون سا تیر مار لیا۔ ترقی کے لیے نام نہاد جمہوریت ضروری نہیں، روس اور چین نے بغیر جمہوریت کے اتنی ترقی کرلی ہے کہ مثال نہیں ملتی، چین دنیا کی تیسری بڑی طاقت بن گیا ہے۔
ایک ماچس سے لے کر الیکٹرانک کی مصنوعات سمیت ہر شے چائنا برآمد کر رہا ہے۔ بازار چین کی مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک ایک چائے بیچنے والے کے زیر نگیں ہے حالیہ جی 20 کانفرنس میں صرف سعودی عرب نے پچاس معاہدوں پر دستخط کیے۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا اس لحاظ سے دنیا کا تیسرا ملک بن گیا اور ہم کیا کر رہے ہیں، بس الیکشن کے انعقاد پر سوئی اٹکی ہوئی ہے۔ پتا نہیں آیندہ کیا ہوگا؟ یہ سرزمین صرف تجربات کی بھینٹ چڑھ گئی۔