تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات
عہدوں کے لئے جوڑ توڑ شروع
جہاں آئندہ عام انتخابات میں کارکردگی کے حوالے سے تحریک انصاف پر سب کی نظریں ہیں۔
وہیں تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات پر بھی سب نظریں جمائے ہوئے ہیں، کیونکہ تحریک انصاف میں جس تیزی کے ساتھ مختلف الخیال لوگ اپنی پارٹیاں اور پرانی رفاقتیں چھوڑ کر آئے اور انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت کے وقت جو تاثر دیا تھا وہ کافی حد تک پارٹی الیکشن کے موقع پر زائل ہونے لگا ہے ۔
کیونکہ الیکشن کی وجہ سے تحریک انصاف کے اندر اچھی خاصی گروپ بندیاں بن چکی ہیں جس میں کئی لیڈر اور رہنما باالواسطہ یا بلاواسطہ طریقہ سے شریک ہیں، جبکہ جو رہنما باقی بچ گئے ہیں وہ آئندہ عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے موقع پر یہ شوق پورا کریں گے اسی لیے وہ اس وقت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف کی صورت حال یہ ہے کہ صوبائی صدارت کے لیے اس وقت چار امیدوار میدان میں موجود ہیں اور چاروں کی جانب سے یہی تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سب سے مضبوط پوزیشن میں وہی ہیں ،ان امیدواروں میں پرویز خٹک جو اس وقت بھی صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں وہ وزارت چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے ہیں۔
پرویز خٹک کو جوڑ توڑ کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور اس کا مظاہرہ انہوں نے کئی مواقعوں پر کیا بھی ہے تاہم تحریک انصاف میں ان کی صورت حال یہ ہے کہ وہ ابھی اس پارٹی میں نووارد ہیں اور بہت سے پرانے ساتھیوں کے ساتھ ان کے شاید ہی وہ تعلقات ہوں جو اسد قیصر اورشوکت یوسفزئی کے ہیں۔
کیونکہ یہ دونوں صدارتی امیدوار ایک عرصہ سے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں اور اب تحریک انصاف ان کی پہچان بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اندر کی خبر رکھنے والے یہی پتا دے رہے ہیں کہ رواں ماہ کے اواخر میں تحریک انصاف کے صوبائی سطح کے انتخابات میں صدارت کے لیے اصل مقابلہ اسد قیصر اور شوکت یوسفزئی کے درمیان ہی ہوگا ۔
تاہم دوسری جانب پرویز خٹک اپنے تجربہ اور پوشیدہ جوڑ توڑ کی صلاحیتوں کی بدولت کسی بھی وقت پانسا پلٹ سکتے ہیں جن کو ممکنہ طور پر افتخار جھگڑا کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ صوبائی صدارت کے چوتھے امیدوار مسعود شریف خٹک میدان میں رہتے ہیں یا اپنا وزن کسی دوسرے امیدوار کے پلڑے میں ڈالتے ہیں اس کا پتا بھی جلد چل جائے گا۔
تحریک انصاف میں شامل ہونے کا جو ق درجوق جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب تھم چکا ہے اور بعض جگہوں پر تو اس سے واپسی کا سفر بھی شروع ہوگیا ہے،خواجہ محمد ہوتی جو اے این پی سے ناطہ توڑ کر تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اب تحریک انصاف سے بھی الگ ہوگئے ہیں اور کسی نئی سیاسی راہ کی تلاش میں ہیں جس میں وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی جاسکتے ہیں اور اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہوجائیں ۔
مسلم لیگ(ن)کی صورت حال یہ ہے کہ ایک امیر مقام ان سے سنبھالے نہیں سنبھل رہے اورامیر مقام اور ان کے ساتھیوں پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب کے ساتھ جو اختلافات ہیں اس کا نتیجہ بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ شاید امیر مقام پارٹی صدارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں جس کے لیے کئی رہنما اور حلقے اپنے طور پر سرگرم بھی ہیں ۔
ان حالات میں خواجہ محمد ہوتی کی مسلم لیگ(ن)میں شمولیت سے ایک جانب تو مسلم لیگ(ن)کے موجودہ اندرونی مسائل میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب خود خواجہ محمد ہوتی بھی رہنمائوں سے بھری ایک پارٹی سے نکل کر دوسری اسی قسم کی پارٹی میں پھنس جائیں گے اسی لیے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان کی پیپلز پارٹی میں واپسی کی خبریں بھی گرم ہیں اور ابھی دونوں میں کسی ایک کے بارے میں بھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ۔
ادھر پیپلز پارٹی اور اے این پی کی صورت حال یہ ہے کہ کمروں اور ڈارئنگ روموں کے اندر اور نجی محفلوں میں تو دونوںکی جانب سے اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ دونوں پارٹیوں کو اکھٹے ہوکر الیکشن کے لیے میدان میں اترنے کی بجائے الگ الگ الیکشن لڑنا چاہیے کیونکہ دونوں پارٹیوں کے ورکر ایک دوسرے پر اعتماد کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں۔
تاہم اب سینیٹر الیاس بلور نے یہی بات کھل کر بھی کہہ دی ہے ۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ اگر متحدہ مجلس عمل کی بحالی نہیں ہوتی تو ممکنہ طور پر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان معاملات طے پائیں گے۔
جبکہ جمعیت علماء اسلام(ف)اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان گٹھ جوڑ ہوگا اور پیپلز پارٹی شیر پائو(جس کا نام تبدیل ہونے والاہے) ان دونوں اتحادوں میں سے کسی ایک یا ممکنہ طور پر دونوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی ،ایسے حالات میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہوگا اور دونوں پارٹیوں کی قیادت اس بات کو خوب سمجھتی ہے اس لیے وہ اپنے لب سیئے ہوئے ہیں اور الیکشن قریب آنے پر ہی وہ اس بارے میں فیصلہ کریں گے ۔
وہیں تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات پر بھی سب نظریں جمائے ہوئے ہیں، کیونکہ تحریک انصاف میں جس تیزی کے ساتھ مختلف الخیال لوگ اپنی پارٹیاں اور پرانی رفاقتیں چھوڑ کر آئے اور انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت کے وقت جو تاثر دیا تھا وہ کافی حد تک پارٹی الیکشن کے موقع پر زائل ہونے لگا ہے ۔
کیونکہ الیکشن کی وجہ سے تحریک انصاف کے اندر اچھی خاصی گروپ بندیاں بن چکی ہیں جس میں کئی لیڈر اور رہنما باالواسطہ یا بلاواسطہ طریقہ سے شریک ہیں، جبکہ جو رہنما باقی بچ گئے ہیں وہ آئندہ عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے موقع پر یہ شوق پورا کریں گے اسی لیے وہ اس وقت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف کی صورت حال یہ ہے کہ صوبائی صدارت کے لیے اس وقت چار امیدوار میدان میں موجود ہیں اور چاروں کی جانب سے یہی تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سب سے مضبوط پوزیشن میں وہی ہیں ،ان امیدواروں میں پرویز خٹک جو اس وقت بھی صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں وہ وزارت چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے ہیں۔
پرویز خٹک کو جوڑ توڑ کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور اس کا مظاہرہ انہوں نے کئی مواقعوں پر کیا بھی ہے تاہم تحریک انصاف میں ان کی صورت حال یہ ہے کہ وہ ابھی اس پارٹی میں نووارد ہیں اور بہت سے پرانے ساتھیوں کے ساتھ ان کے شاید ہی وہ تعلقات ہوں جو اسد قیصر اورشوکت یوسفزئی کے ہیں۔
کیونکہ یہ دونوں صدارتی امیدوار ایک عرصہ سے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں اور اب تحریک انصاف ان کی پہچان بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اندر کی خبر رکھنے والے یہی پتا دے رہے ہیں کہ رواں ماہ کے اواخر میں تحریک انصاف کے صوبائی سطح کے انتخابات میں صدارت کے لیے اصل مقابلہ اسد قیصر اور شوکت یوسفزئی کے درمیان ہی ہوگا ۔
تاہم دوسری جانب پرویز خٹک اپنے تجربہ اور پوشیدہ جوڑ توڑ کی صلاحیتوں کی بدولت کسی بھی وقت پانسا پلٹ سکتے ہیں جن کو ممکنہ طور پر افتخار جھگڑا کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ صوبائی صدارت کے چوتھے امیدوار مسعود شریف خٹک میدان میں رہتے ہیں یا اپنا وزن کسی دوسرے امیدوار کے پلڑے میں ڈالتے ہیں اس کا پتا بھی جلد چل جائے گا۔
تحریک انصاف میں شامل ہونے کا جو ق درجوق جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب تھم چکا ہے اور بعض جگہوں پر تو اس سے واپسی کا سفر بھی شروع ہوگیا ہے،خواجہ محمد ہوتی جو اے این پی سے ناطہ توڑ کر تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اب تحریک انصاف سے بھی الگ ہوگئے ہیں اور کسی نئی سیاسی راہ کی تلاش میں ہیں جس میں وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی جاسکتے ہیں اور اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہوجائیں ۔
مسلم لیگ(ن)کی صورت حال یہ ہے کہ ایک امیر مقام ان سے سنبھالے نہیں سنبھل رہے اورامیر مقام اور ان کے ساتھیوں پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب کے ساتھ جو اختلافات ہیں اس کا نتیجہ بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ شاید امیر مقام پارٹی صدارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں جس کے لیے کئی رہنما اور حلقے اپنے طور پر سرگرم بھی ہیں ۔
ان حالات میں خواجہ محمد ہوتی کی مسلم لیگ(ن)میں شمولیت سے ایک جانب تو مسلم لیگ(ن)کے موجودہ اندرونی مسائل میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب خود خواجہ محمد ہوتی بھی رہنمائوں سے بھری ایک پارٹی سے نکل کر دوسری اسی قسم کی پارٹی میں پھنس جائیں گے اسی لیے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان کی پیپلز پارٹی میں واپسی کی خبریں بھی گرم ہیں اور ابھی دونوں میں کسی ایک کے بارے میں بھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ۔
ادھر پیپلز پارٹی اور اے این پی کی صورت حال یہ ہے کہ کمروں اور ڈارئنگ روموں کے اندر اور نجی محفلوں میں تو دونوںکی جانب سے اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ دونوں پارٹیوں کو اکھٹے ہوکر الیکشن کے لیے میدان میں اترنے کی بجائے الگ الگ الیکشن لڑنا چاہیے کیونکہ دونوں پارٹیوں کے ورکر ایک دوسرے پر اعتماد کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں۔
تاہم اب سینیٹر الیاس بلور نے یہی بات کھل کر بھی کہہ دی ہے ۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ اگر متحدہ مجلس عمل کی بحالی نہیں ہوتی تو ممکنہ طور پر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان معاملات طے پائیں گے۔
جبکہ جمعیت علماء اسلام(ف)اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان گٹھ جوڑ ہوگا اور پیپلز پارٹی شیر پائو(جس کا نام تبدیل ہونے والاہے) ان دونوں اتحادوں میں سے کسی ایک یا ممکنہ طور پر دونوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی ،ایسے حالات میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہوگا اور دونوں پارٹیوں کی قیادت اس بات کو خوب سمجھتی ہے اس لیے وہ اپنے لب سیئے ہوئے ہیں اور الیکشن قریب آنے پر ہی وہ اس بارے میں فیصلہ کریں گے ۔