استحکامِ پاکستان پارٹی شاہین اور صدرِ مملکت کا انٹرویو
کئی دن گزر چکے ہیں، مگرصدر صاحب کے اِس انٹرویو سے اب تک پاکستان کے کروڑوں عوام سناٹے میں ہیں
انتخابات نجانے ہونگے بھی یا نہیں، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نَو مولود سیاسی جماعت ''استحکامِ پاکستان'' المعروفIPP کو ''شاہین'' کا انتخابی نشان تفویض کر دیا ہے۔
آئی پی پی میں مرکزی مقام حاصل کر جانیوالی محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے شاہین کے انتخابی نشان کی بڑی اعلیٰ صفات بیان کی ہے۔
ایک صفت اور خوبی یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ ''جس طرح شاہین اپنے شکار کو زندہ کھا جاتا ہے، آئی پی پی بھی انتخابات میں اپنے حریفوں کو کھا جائیگی۔'' جس کسی نے شاہین کو چڑیا اور کبوتر کو اپنے مضبوط پنجوں میں دبوچے اپنے کمزور شکار کو اپنی خنجر ایسی تیز دھار اور خمدار چونچ سے نوچتے اور بھنبھوڑتے دیکھا ہے ، وہ اگر یہ منظر اپنی نظروں میں لا کر تولے تو ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا بیان خاصا ڈراؤنا اور بھیانک محسوس ہوتا ہے ۔
لیکن پہلے انتخابات کا تو اعلان ہو۔ پھر شاہین کی پھرتیاں،پلٹنیاں اور خونخواریاں دیکھی جائیں گی۔ ابھی تو انتخابات ہی سرے سے ابہام اور غیر یقینی کے بادلوں میں چھپے ہُوئے ہیں ۔ 25اکتوبر 2023ء کو صدرِ مملکت جناب عارف علوی نے جو انٹرویو دیا ہے، اس میں تو موصوف نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ '' یقین نہیں کہ الیکشن جنوری2024ء کے آخر میں ہو جائیں گے'' جن کا( الیکشن کمیشن کی جانب سے) دعویٰ کیا گیا ہے۔
صدرِ مملکت، ڈاکٹر عارف علوی، کا یہ انٹرویو بھی دراصل گذشتہ کئی انٹرویوز کی مانند پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی کے ایک جیالے اور عاشق کا انٹرویو تھا ۔ جنابِ صدر مملکت کے ایک ایک لفظ سے پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی سے وابستگی اور محبت ٹپکتی تھی ۔
وہ بین السطور نہیں، غیر مبہم اسلوب میں پی ٹی آئی اور اس کے پسِ دیوارِ زندان سربراہ کو معاف کردینے اور اُنہیں رہا کر کے آزادانہ انتخابات میں حصہ لینے کی تبلیغ کرتے نظر آئے ۔اِس ''تبلیغ'' کو ہر سننے اور دیکھنے والے نے واضح طور پر محسوس کیا۔ اور اُس وقت تو سارے حجاب ہی اُٹھ گئے جب قبلہ صدرِ مملکت نے یہ ارشاد فرمایا : ''چیئرمین پی ٹی آئی اب بھی میرے لیڈر ہیں۔''
کئی دن گزر چکے ہیں، مگرصدر صاحب کے اِس انٹرویو سے اب تک پاکستان کے کروڑوں عوام سناٹے میں ہیں۔ وہ جو رعاتیں اپنے محبوب چیئرمین اور لیڈر کے لیے مانگ رہے ہیں، ایسا اسلوب اُنھوں نے بطورِ صدرِ مملکت اُس وقت کبھی اختیار نہیں کیا جب خان صاحب کے دَور میں نون لیگ ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف کے کئی لیڈر جیلوں میں ٹھونس دیئے گئے تھے۔
جبراً اور انتقاماً اُنہیں کئی کئی ماہ جیلوں میں رکھا گیا۔ صدر صاحب کی اِس یکطرفہ اورجانبدارانہ محبت نے ایک معاصر کو یہ کہنے پر لکھنے پر مجبور کر دیا:'' صدر صاحب نے اپنے انٹرویو میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ کو اپنا لیڈر قرار دے کر اپنے منصب کی توہین کی ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ وفاق کی علامت کے طور پر نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ترجمان کی حیثیت میں بات کررہے ہیں۔عارف علوی کو بیانات اور انٹرویوز دیتے وقت اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ کوئی سیاسی رہنما یا ایک عام آدمی نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کے سربراہ ہیں ۔ اگر اُنہیں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی بہت عزیز ہے یا وہ ایک سیاسی رہنما کے طور پر خود کو منوانا چاہتے ہیںتو صدرِ مملکت کے منصب سے مستعفی ہو کر اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں ۔''
ہم سمجھتے ہیں کہ جنوری2024ء کے آخری ہفتے جنرل الیکشن نہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کرکے صدر صاحب نے عوام کو کنفیوژ کرنے اور عوام میں ابہام پھیلانے کا اقدام کیا ہے ۔ یہ اقدام دانستہ بھی ہو سکتا ہے اور نادانستہ بھی ۔ آئی پی پی مگر بہت خوش ہے کہ اُسے اپنی پسند کے مطابق شاہین کا انتخابی نشان مل گیا ہے ۔
الیکشن کمیشن کے مطابق چار سیاسی جماعتوں(استحکامِ پاکستان پارٹی، پاکستان مسلم پارٹی ، آل پاکستان متحدہ لیگ اور پاکستان فلاحی تحریک) نے شاہین کے انتخابی نشان کے لیے اپلائی کیا تھا ۔ قرعہ فال مگر آئی پی پی کے نام نکلا ہے ۔ ہماری طرف سے مبارک ہو۔
شاہین کی عادات کے حوالے سے مگر مجھے یہاں کچھ کہنا ہے۔ مثال کے طور پر شاہین میں چند ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو دوسرے کسی پرندے میں نہیں پائی جاتیں۔ مثلاً(۱) شاہین کی بصارت بے پناہ تیز ہوتی ہے (۲) یہ ہمیشہ بلند پرواز رہتا ہے (۳) اتنا جرأتمند، بے خوف اور دلیر ہوتا ہے کہ شکار پر جھپٹتے وقت یہ کبھی نہیں دیکھتا کہ وہ سائز، طاقت اور حجم میں اُس سے بڑا ہے (۴) ہمیشہ یہ مخالف اور تیز ہواؤں کے مقابل پرواز کرتا ہے(۵) خود بھی مردار نہیں کھاتا اور نہ ہی اپنے بچوں کو مردار کھلاتا ہے ۔
شاہین کی اِن خصوصیات کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے جب ہم آئی پی پی کی قیادت کی طرف ایک جھانک مارتے ہیں تو اِن میں مذکورہ خصوصیات کم کم نظر آتی ہیں۔
اِس کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں ہے کہ جرأت و دلیری ان میں کم ہے ۔ یہ جب تک پی ٹی آئی میں رہے ، کبھی چیئرمین پی ٹی آئی کے سامنے چُوں تک کرنے کی جسارت نہیں کی ۔ وہ جیل پہنچا ہے تو پی ٹی آئی منحرفین شاہین بن گئے ہیں۔ کئی منحرفین پریس کانفرنسیں کرکے اپنی ''جرأت'' کا اظہار بھی کررہے ہیں ۔
اِن کی نظریں نواز شریف کی جانب بھی لگی ہیں اور اپنی تعمیر کی جانب بھی ۔واقعہ یہ ہے کہ شاہین کا انتخابی نشان الاٹ کروا کر آئی پی پی نے اپنے لیے کئی امتحانوں اور آزمائشوں کو خود ہی دعوت دے ڈالی ہے ۔ ہر کوئی شاہین کی منفرد خصوصیات کے آئینے میں آئی پی پی کی لیڈر شپ کو دیکھنے کی کوشش کرے گا ۔
اپنی بے مثال جرأت و جانبازی کی بِنا پر شاہین ازمنہ قدیم ہی سے انسانوں کا محبوب پرندہ رہا ہے۔ شاہین رُومی بادشاہوں اور جرنیلوں کا شاہی نشان رہا ہے۔ رُومی سینیٹ کے بڑے گیٹ پر شاہین کے مجسمے رکھے جاتے تھے تاکہ اِس کی تیز بصارت کو رُومی سینیٹرز اپنی سیاسی بصیرت اور وژن کے لیے ماڈل بنائیں ۔ امریکی مرکزی سیاست و معیشت میں شاہین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ گنجے شاہین کو امریکہ میں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستان ائر فورس کا بھی یہ قابلِ فخر نشان ہے۔ شاہین کی طاقت اور جانبازی کی بنیادی اور جبلّی خصوصیات کی اساس پر ہٹلر نے اِسے اپنا سرکاری نشان بنایا تھا ۔
شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال نے بے پناہ اور لاتعداد خصوصیات کی بنیاد پر شاہین کو اپنا لاڈلا اور محبوب پرندہ بنایا اور اپنی شاعری میں اِسے مرکزی حیثیت دی ۔ شاہین ، عقاب اور شہباز کے زیر عنوان اقبالؒ نے بہت سے اشعار کہے۔ اقبال ؒ مسلم نوجوان کو شاہین صفت دیکھنے کے متمنی تھے ، مگر یہ شاہین اب یا تو وٹس ایپ اور فیس بک کے جنگلوں میں گم ہو چکا ہے یا پھر چیئرمین پی ٹی آئی کا Key Warrierبن چکا ہے۔
آئی پی پی میں مرکزی مقام حاصل کر جانیوالی محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے شاہین کے انتخابی نشان کی بڑی اعلیٰ صفات بیان کی ہے۔
ایک صفت اور خوبی یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ ''جس طرح شاہین اپنے شکار کو زندہ کھا جاتا ہے، آئی پی پی بھی انتخابات میں اپنے حریفوں کو کھا جائیگی۔'' جس کسی نے شاہین کو چڑیا اور کبوتر کو اپنے مضبوط پنجوں میں دبوچے اپنے کمزور شکار کو اپنی خنجر ایسی تیز دھار اور خمدار چونچ سے نوچتے اور بھنبھوڑتے دیکھا ہے ، وہ اگر یہ منظر اپنی نظروں میں لا کر تولے تو ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا بیان خاصا ڈراؤنا اور بھیانک محسوس ہوتا ہے ۔
لیکن پہلے انتخابات کا تو اعلان ہو۔ پھر شاہین کی پھرتیاں،پلٹنیاں اور خونخواریاں دیکھی جائیں گی۔ ابھی تو انتخابات ہی سرے سے ابہام اور غیر یقینی کے بادلوں میں چھپے ہُوئے ہیں ۔ 25اکتوبر 2023ء کو صدرِ مملکت جناب عارف علوی نے جو انٹرویو دیا ہے، اس میں تو موصوف نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ '' یقین نہیں کہ الیکشن جنوری2024ء کے آخر میں ہو جائیں گے'' جن کا( الیکشن کمیشن کی جانب سے) دعویٰ کیا گیا ہے۔
صدرِ مملکت، ڈاکٹر عارف علوی، کا یہ انٹرویو بھی دراصل گذشتہ کئی انٹرویوز کی مانند پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی کے ایک جیالے اور عاشق کا انٹرویو تھا ۔ جنابِ صدر مملکت کے ایک ایک لفظ سے پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی سے وابستگی اور محبت ٹپکتی تھی ۔
وہ بین السطور نہیں، غیر مبہم اسلوب میں پی ٹی آئی اور اس کے پسِ دیوارِ زندان سربراہ کو معاف کردینے اور اُنہیں رہا کر کے آزادانہ انتخابات میں حصہ لینے کی تبلیغ کرتے نظر آئے ۔اِس ''تبلیغ'' کو ہر سننے اور دیکھنے والے نے واضح طور پر محسوس کیا۔ اور اُس وقت تو سارے حجاب ہی اُٹھ گئے جب قبلہ صدرِ مملکت نے یہ ارشاد فرمایا : ''چیئرمین پی ٹی آئی اب بھی میرے لیڈر ہیں۔''
کئی دن گزر چکے ہیں، مگرصدر صاحب کے اِس انٹرویو سے اب تک پاکستان کے کروڑوں عوام سناٹے میں ہیں۔ وہ جو رعاتیں اپنے محبوب چیئرمین اور لیڈر کے لیے مانگ رہے ہیں، ایسا اسلوب اُنھوں نے بطورِ صدرِ مملکت اُس وقت کبھی اختیار نہیں کیا جب خان صاحب کے دَور میں نون لیگ ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف کے کئی لیڈر جیلوں میں ٹھونس دیئے گئے تھے۔
جبراً اور انتقاماً اُنہیں کئی کئی ماہ جیلوں میں رکھا گیا۔ صدر صاحب کی اِس یکطرفہ اورجانبدارانہ محبت نے ایک معاصر کو یہ کہنے پر لکھنے پر مجبور کر دیا:'' صدر صاحب نے اپنے انٹرویو میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ کو اپنا لیڈر قرار دے کر اپنے منصب کی توہین کی ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ وفاق کی علامت کے طور پر نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ترجمان کی حیثیت میں بات کررہے ہیں۔عارف علوی کو بیانات اور انٹرویوز دیتے وقت اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ کوئی سیاسی رہنما یا ایک عام آدمی نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کے سربراہ ہیں ۔ اگر اُنہیں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی بہت عزیز ہے یا وہ ایک سیاسی رہنما کے طور پر خود کو منوانا چاہتے ہیںتو صدرِ مملکت کے منصب سے مستعفی ہو کر اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں ۔''
ہم سمجھتے ہیں کہ جنوری2024ء کے آخری ہفتے جنرل الیکشن نہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کرکے صدر صاحب نے عوام کو کنفیوژ کرنے اور عوام میں ابہام پھیلانے کا اقدام کیا ہے ۔ یہ اقدام دانستہ بھی ہو سکتا ہے اور نادانستہ بھی ۔ آئی پی پی مگر بہت خوش ہے کہ اُسے اپنی پسند کے مطابق شاہین کا انتخابی نشان مل گیا ہے ۔
الیکشن کمیشن کے مطابق چار سیاسی جماعتوں(استحکامِ پاکستان پارٹی، پاکستان مسلم پارٹی ، آل پاکستان متحدہ لیگ اور پاکستان فلاحی تحریک) نے شاہین کے انتخابی نشان کے لیے اپلائی کیا تھا ۔ قرعہ فال مگر آئی پی پی کے نام نکلا ہے ۔ ہماری طرف سے مبارک ہو۔
شاہین کی عادات کے حوالے سے مگر مجھے یہاں کچھ کہنا ہے۔ مثال کے طور پر شاہین میں چند ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو دوسرے کسی پرندے میں نہیں پائی جاتیں۔ مثلاً(۱) شاہین کی بصارت بے پناہ تیز ہوتی ہے (۲) یہ ہمیشہ بلند پرواز رہتا ہے (۳) اتنا جرأتمند، بے خوف اور دلیر ہوتا ہے کہ شکار پر جھپٹتے وقت یہ کبھی نہیں دیکھتا کہ وہ سائز، طاقت اور حجم میں اُس سے بڑا ہے (۴) ہمیشہ یہ مخالف اور تیز ہواؤں کے مقابل پرواز کرتا ہے(۵) خود بھی مردار نہیں کھاتا اور نہ ہی اپنے بچوں کو مردار کھلاتا ہے ۔
شاہین کی اِن خصوصیات کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے جب ہم آئی پی پی کی قیادت کی طرف ایک جھانک مارتے ہیں تو اِن میں مذکورہ خصوصیات کم کم نظر آتی ہیں۔
اِس کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں ہے کہ جرأت و دلیری ان میں کم ہے ۔ یہ جب تک پی ٹی آئی میں رہے ، کبھی چیئرمین پی ٹی آئی کے سامنے چُوں تک کرنے کی جسارت نہیں کی ۔ وہ جیل پہنچا ہے تو پی ٹی آئی منحرفین شاہین بن گئے ہیں۔ کئی منحرفین پریس کانفرنسیں کرکے اپنی ''جرأت'' کا اظہار بھی کررہے ہیں ۔
اِن کی نظریں نواز شریف کی جانب بھی لگی ہیں اور اپنی تعمیر کی جانب بھی ۔واقعہ یہ ہے کہ شاہین کا انتخابی نشان الاٹ کروا کر آئی پی پی نے اپنے لیے کئی امتحانوں اور آزمائشوں کو خود ہی دعوت دے ڈالی ہے ۔ ہر کوئی شاہین کی منفرد خصوصیات کے آئینے میں آئی پی پی کی لیڈر شپ کو دیکھنے کی کوشش کرے گا ۔
اپنی بے مثال جرأت و جانبازی کی بِنا پر شاہین ازمنہ قدیم ہی سے انسانوں کا محبوب پرندہ رہا ہے۔ شاہین رُومی بادشاہوں اور جرنیلوں کا شاہی نشان رہا ہے۔ رُومی سینیٹ کے بڑے گیٹ پر شاہین کے مجسمے رکھے جاتے تھے تاکہ اِس کی تیز بصارت کو رُومی سینیٹرز اپنی سیاسی بصیرت اور وژن کے لیے ماڈل بنائیں ۔ امریکی مرکزی سیاست و معیشت میں شاہین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ گنجے شاہین کو امریکہ میں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستان ائر فورس کا بھی یہ قابلِ فخر نشان ہے۔ شاہین کی طاقت اور جانبازی کی بنیادی اور جبلّی خصوصیات کی اساس پر ہٹلر نے اِسے اپنا سرکاری نشان بنایا تھا ۔
شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال نے بے پناہ اور لاتعداد خصوصیات کی بنیاد پر شاہین کو اپنا لاڈلا اور محبوب پرندہ بنایا اور اپنی شاعری میں اِسے مرکزی حیثیت دی ۔ شاہین ، عقاب اور شہباز کے زیر عنوان اقبالؒ نے بہت سے اشعار کہے۔ اقبال ؒ مسلم نوجوان کو شاہین صفت دیکھنے کے متمنی تھے ، مگر یہ شاہین اب یا تو وٹس ایپ اور فیس بک کے جنگلوں میں گم ہو چکا ہے یا پھر چیئرمین پی ٹی آئی کا Key Warrierبن چکا ہے۔