پاکستان کی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ ہے نیپالی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز
3 روزہ کانفرنس نے خاص طور پر نیپالی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کیلیے مستقبل کے لاتحہ فراہم کیا، نیپالی مندوبین
نیپالی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز نے پاکستان کی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جدوجہد مشعل راہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس خطے میں ایک کامیابی کی کہانی ہے جہاں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو کئی برس کی طویل جدوجہد کے بعد مستقل ملازمت کا درجہ ملا۔
کراچی میں "کمیونٹی ہیلتھ ورک بھی ایک کام ہے"کے عنوان سے تین روزہ اجلاس میں ایسے قوانین کے نفاذ پر زور دیا گیا جس سے کسی بھی شعبے میں بالعموم خواتین ورکرز کو اور بالخصوص کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو فائدہ پہنچے تاکہ انہیں وہی فوائد حاصل ہوں جو کہ پبلک سیکٹر کے دیگر ملازمین کے لیے دستیاب ہیں۔
نیپال کی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز یونین اور سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرزیونین نے اجلاس میں آل سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرز اینڈ ایمپلائز یونین ، پنجاب اور بلوچستان لیڈی ہیلتھ ورکرز یونین ، ہیلتھ والینٹیر آرگناٌئزیشن آف نیپال ، نیپال ہیلتھ والینٹیر ایسوسی ایشن نے اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔
''نیپالی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کیلیے لائحہ عمل ترتیب دیا ہے''
اس موقع پر پی ایس آئی نیپال کی نمائندہ جینی تھاپا نے کہا کہ تین روزہ کانفرنس نے خاص طور پر نیپال میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے لیے مستقبل کے لاتحہ عمل کے لیے ایک راستہ ترتیب دیا ہے۔
پی ایس آئی پاکستان کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر میر ذولفقار علی نے نیپال اور پاکستان میں مزدوروں سے متعلق منفی پالیسیوں اور قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا اس کے باوجود ہم نا امید نہیں ہیں اور اپنے جدوجہد سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حقوق حاصل کر کے رہیں گے۔
''زیادہ تر خواتین قابلیت کی کمی کی وجہ سے صحت عامہ کے شعبے میں مراعات سے محروم ہیں''
پبلک سروس انٹرنیشنل کی پروجیکٹ آفیسر عائشہ بہادرنے نیپال اور پاکستان میں عوامی خدمات کے لیے کام کرنےکی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر خواتین قابلیت کی کمی کی وجہ سے صحت عامہ کے شعبے میں مراعات سے محروم ہیں، جو اگر انہیں مراعات فراہم کر دی جائیں تو بہت بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحت کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہونے کے ناطے، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی خدمات کو حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کی سطح پر بھی تسلیم کیا جانا چاہیے اور ان کو ہراسگی سے پاک ماحول میں کام کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ ان کے کام کو رضاکارانہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ انہیں ان کے کام کا پورا معاوضہ ملنا چاہیے۔
'' 70% خواتین گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتی ہیں، جی ڈی پی میں ان کا حصہ تقریباً صفر ہے''
سینئر ٹریڈ یونین رہنما اور پیپلز لیبر بیورو سندھ کے صدر حبیب الدین جنیدی نے "ویمن ان ٹریڈ یونینز" کے موضوع پر ایک پینل ڈسکشن میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جنیوا میں آئی ایل او کی کانفرنس میں بطور مشیر منتخب کیا گیا تھا، وہ مساوی مواقع سے متعلق کمیٹی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ حیران تھے کہ پاکستان سے کسی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا اور ان سمیت دو مرد پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں جو کے بین الاقوامی فورمز پر خواتین کی پسماندگی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 70% خواتین گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتی ہیں، جی ڈی پی میں ان کا حصہ تقریباً صفر ہے کیونکہ یہ شعبہ غیر منظم سمجھا جاتا ہے، اسی طرح ٹیکسٹائل سیکٹر میں خواتین ورکرز کا غلبہ ہونے کے باوجود انہیں ورکرز تسلیم کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے کیونکہ خواتین اور بچوں کی اکثریت عام طور پر یومیہ اجرت پر کام کرتی ہے اور انہیں قانون کے مطابق اجرت نہیں دی جاتی۔
چیئرمین سندھ کمیشن آف ویمن آف اسٹیٹس نزہت شیریں نے کہا کہ کمیشن نے بطور چیئرمین اپنی 6 برس سروس میں مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے باوجود ماہی گیری اور زراعت سمیت ہر شعبے میں خواتین کے لیے آواز اٹھائی ہے، "میرے دائرہ اختیار کو اس وقت چیلنج کیا گیا جب میں نے خواتین کو ان کے کام کی جگہوں پر ہراساں کرنے کا مسئلہ اٹھایا، اور کہا کہ یہ معاملہ محتسب کے دفتر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے''۔
ماہی گیری سے متعلق پالیسی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار
فشر فوک فورم کی فاطمہ مجید نے قیام پاکستان کے 72 سال گزرنے کے باوجود ماہی گیری سے متعلق پالیسی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پالیسی میں خواتین کی نمایاں نمائندگی کو یقینی بنانے کا اعلان کرے۔
خواتین صحافیوں کو درپیش چیلنجز پر بات کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی نائب صدر شہر بانو نے کہا کہ ایک صنفی معاشرہ ہونے کے ناطے پاکستان میں خواتین صحافی ہمیشہ صحافت کے شعبے کو درپیش کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کی پہلی متاثرہ ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کنٹریکٹ لیٹر جاری نہ ہونا، تنخواہوں میں تاخیر، 8ویں ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل درآمد نہ ہونا اور خواتین کے حامی قوانین اور آئی ایل او کنونشنز جن کی پاکستان نے توثیق کی، صنفی نابینا قوانین، تربیت کی کمی، ملازمت کے تحفظ کی غیر حاضری، کام کی جگہ پر ہراساں کرنا، این آئی آر سی اور آئی ٹی این ای میں خواتین کی عدم موجودگی، لیبر ڈپارٹمنٹ اور لیبر انسپکشن سسٹم جیسے پلیٹ فارمز پر خواتین کی عدم موجودگی سنگین مسائل کی نمائندگی کرتا ہے۔
کراچی میں "کمیونٹی ہیلتھ ورک بھی ایک کام ہے"کے عنوان سے تین روزہ اجلاس میں ایسے قوانین کے نفاذ پر زور دیا گیا جس سے کسی بھی شعبے میں بالعموم خواتین ورکرز کو اور بالخصوص کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو فائدہ پہنچے تاکہ انہیں وہی فوائد حاصل ہوں جو کہ پبلک سیکٹر کے دیگر ملازمین کے لیے دستیاب ہیں۔
نیپال کی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز یونین اور سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرزیونین نے اجلاس میں آل سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرز اینڈ ایمپلائز یونین ، پنجاب اور بلوچستان لیڈی ہیلتھ ورکرز یونین ، ہیلتھ والینٹیر آرگناٌئزیشن آف نیپال ، نیپال ہیلتھ والینٹیر ایسوسی ایشن نے اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔
''نیپالی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کیلیے لائحہ عمل ترتیب دیا ہے''
اس موقع پر پی ایس آئی نیپال کی نمائندہ جینی تھاپا نے کہا کہ تین روزہ کانفرنس نے خاص طور پر نیپال میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے لیے مستقبل کے لاتحہ عمل کے لیے ایک راستہ ترتیب دیا ہے۔
پی ایس آئی پاکستان کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر میر ذولفقار علی نے نیپال اور پاکستان میں مزدوروں سے متعلق منفی پالیسیوں اور قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا اس کے باوجود ہم نا امید نہیں ہیں اور اپنے جدوجہد سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حقوق حاصل کر کے رہیں گے۔
''زیادہ تر خواتین قابلیت کی کمی کی وجہ سے صحت عامہ کے شعبے میں مراعات سے محروم ہیں''
پبلک سروس انٹرنیشنل کی پروجیکٹ آفیسر عائشہ بہادرنے نیپال اور پاکستان میں عوامی خدمات کے لیے کام کرنےکی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر خواتین قابلیت کی کمی کی وجہ سے صحت عامہ کے شعبے میں مراعات سے محروم ہیں، جو اگر انہیں مراعات فراہم کر دی جائیں تو بہت بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحت کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہونے کے ناطے، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی خدمات کو حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کی سطح پر بھی تسلیم کیا جانا چاہیے اور ان کو ہراسگی سے پاک ماحول میں کام کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ ان کے کام کو رضاکارانہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ انہیں ان کے کام کا پورا معاوضہ ملنا چاہیے۔
'' 70% خواتین گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتی ہیں، جی ڈی پی میں ان کا حصہ تقریباً صفر ہے''
سینئر ٹریڈ یونین رہنما اور پیپلز لیبر بیورو سندھ کے صدر حبیب الدین جنیدی نے "ویمن ان ٹریڈ یونینز" کے موضوع پر ایک پینل ڈسکشن میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جنیوا میں آئی ایل او کی کانفرنس میں بطور مشیر منتخب کیا گیا تھا، وہ مساوی مواقع سے متعلق کمیٹی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ حیران تھے کہ پاکستان سے کسی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا اور ان سمیت دو مرد پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں جو کے بین الاقوامی فورمز پر خواتین کی پسماندگی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 70% خواتین گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتی ہیں، جی ڈی پی میں ان کا حصہ تقریباً صفر ہے کیونکہ یہ شعبہ غیر منظم سمجھا جاتا ہے، اسی طرح ٹیکسٹائل سیکٹر میں خواتین ورکرز کا غلبہ ہونے کے باوجود انہیں ورکرز تسلیم کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے کیونکہ خواتین اور بچوں کی اکثریت عام طور پر یومیہ اجرت پر کام کرتی ہے اور انہیں قانون کے مطابق اجرت نہیں دی جاتی۔
چیئرمین سندھ کمیشن آف ویمن آف اسٹیٹس نزہت شیریں نے کہا کہ کمیشن نے بطور چیئرمین اپنی 6 برس سروس میں مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے باوجود ماہی گیری اور زراعت سمیت ہر شعبے میں خواتین کے لیے آواز اٹھائی ہے، "میرے دائرہ اختیار کو اس وقت چیلنج کیا گیا جب میں نے خواتین کو ان کے کام کی جگہوں پر ہراساں کرنے کا مسئلہ اٹھایا، اور کہا کہ یہ معاملہ محتسب کے دفتر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے''۔
ماہی گیری سے متعلق پالیسی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار
فشر فوک فورم کی فاطمہ مجید نے قیام پاکستان کے 72 سال گزرنے کے باوجود ماہی گیری سے متعلق پالیسی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پالیسی میں خواتین کی نمایاں نمائندگی کو یقینی بنانے کا اعلان کرے۔
خواتین صحافیوں کو درپیش چیلنجز پر بات کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی نائب صدر شہر بانو نے کہا کہ ایک صنفی معاشرہ ہونے کے ناطے پاکستان میں خواتین صحافی ہمیشہ صحافت کے شعبے کو درپیش کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کی پہلی متاثرہ ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کنٹریکٹ لیٹر جاری نہ ہونا، تنخواہوں میں تاخیر، 8ویں ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل درآمد نہ ہونا اور خواتین کے حامی قوانین اور آئی ایل او کنونشنز جن کی پاکستان نے توثیق کی، صنفی نابینا قوانین، تربیت کی کمی، ملازمت کے تحفظ کی غیر حاضری، کام کی جگہ پر ہراساں کرنا، این آئی آر سی اور آئی ٹی این ای میں خواتین کی عدم موجودگی، لیبر ڈپارٹمنٹ اور لیبر انسپکشن سسٹم جیسے پلیٹ فارمز پر خواتین کی عدم موجودگی سنگین مسائل کی نمائندگی کرتا ہے۔