سابقہ حکومت کی لاپرواہی نصف سیشن گزر گیا سندھ کے طلبہ کو 20 لاکھ کتابوں کی کمی کا سامنا
پورے سندھ میں یہ تعداد کئی لاکھ ہے جس کے سبب اسکولوں میں تدریس سرگرمیاں شدید متاثر ہیں
سابقہ سندھ حکومت کی شعبہ تعلیم میں ناقص حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے فقدان کے سبب سرکاری اسکولوں کے لاکھوں نصف تعلیمی سیشن درسی کتب کے شدید فقدان کے ساتھ گزاریں گے اورطلبہ کو تقریباً نصف تعلیمی سیشن تک مطلوبہ تعداد میں درسی کتب میسر نہیں آسکیں گی۔
سندھ کے سرکاری اسکولوں کو اس وقت 2 ملین (20 لاکھ) درسی کتب کا کمی کا سامنا ہے جس میں سے صرف کراچی میں سرکاری اسکولوں کی سطح پر درسی کتابوں کے 2 لاکھ 35 ہزار سے زائد کتابوں اور سیٹس کی کمی ہے جبکہ پورے سندھ میں یہ تعداد کئی لاکھ ہے جس کے سبب اسکولوں میں تدریس سرگرمیاں شدید متاثر ہیں اور طلبہ کے پاس پڑھنے کے لیے مختلف مضامین کی کتابیں موجود نہیں ہیں جس سے انھیں تدریسی سلسلے میں تعطل کا سامنا ہے۔
درسی کتب کی کمی کا معاملہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب بدترین مہنگائی اور دیگر وجوہات کی بنا پر سندھ کے سرکاری اسکولوں میں انرولمنٹ میں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے اور بڑی تعداد میں طلبہ نے نجی سے سرکاری اسکولوں کا رخ کیا ہے اور سیکریٹری اسکول ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر سیکنڈری اسکولز کراچی اس اضافے کی تصدیق بھی کرچکے ہیں تاہم سابق حکومت کی جانب سے شعبہ تعلیم کے معاملات میں عدم دلچسپی کے سبب طلبہ کی تعداد بڑھنے پر درسی کتب کی تعداد بھی بڑھنے کے بجائے مزید ہوگئی ہے۔
ادھر حال ہی میں موجودہ نگراں حکومت نے سرکاری اسکولوں میں درسی کتب کی شدید کمی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کتابوں کہ چھپائی کے لیے 1 ارب روپے کے فنڈز تو جاری کردیے ہیں تاہم ان کتابوں کی چھپائی میں قریب ایک ماہ درکار ہے۔
پبلشرز کا کہنا ہے کہ اگر بہت جلدی بھی ممکن ہوا تو یہ کتابیں نومبر کے آخر تک اسکولوں میں پہنچ سکیں گی یا پھر بات اس سے آگے بھی نکل سکتی ہے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے صدر عزیز خالد نے "ایکسپریس" کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ مزید درسی کتب کی چھپائی کے لیے مختلف پبلشر ز کو اکتوبر کے آخری ہفتے میں آرڈر جاری ہوا ہے یہ کتابیں مختلف مضامین کی ہیں چھپائی سے لے کر انھیں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے حوالے کرنے کے بعد ان کی اسکولوں می تقسیم کا سلسلہ شروع ہوگا"
واضح رہے کہ درسی کتب کی تقسیم کا کام از خود کئی روز کی مشق ہے یہ کتابیں پہلے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے گوداموں اور ویئر ہائوسز تک پہنچائی جاتی ہیں جہاں سے اسکولوں کے لیے کتابوں کو ضلعی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے جس کے سبب خیال کیا جارہا ہے کہ سرکاری اسکولوں کی کتابوں کا short fall نومبر کے آخر یا دسمبر کے آغاز میں بھی بمشکل پورا ہوسکے گا جبکہ خود محکمہ تعلیم کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے سندھ میں نیا تعلیمی سیشن 2024/25 یکم اپریل سے شروع کرنے کی تجویز دے رکھی ہے اور اپریل 2024 میں ہی امتحانات کی تاریخیں دی گئی ہیں۔
ایسی صورت میں رواں تعلیمی سیشن 2023/24 آئندہ برس مارچ 2024 میں ختم ہوجائے گا اور عملی طور پر یہ سیشن 8 ماہ کا ہوگا جس میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے پاس سیشن کے چوتھے ماہ تک درسی کتب ہی نہیں ہونگی۔
"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سندھ شیریں ناریجو سے رابطہ کرکے پوچھا کہ آخر اس تمام صورتحال کا ذمے دار کون ہے " جس پر ان کا کہنا تھا کہ چھپائی کے وقت آرڈر کم دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت حکومت کے پاس فنڈز کی قلت تھی ایک سوال پر آن کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں جس وقت درسی کتب چھپائی کے لیے دہ جارہی تھی اس وقت ڈالر کی قدر بہت بڑھ گئی تھی کاغذ بہت مہنگا ہوچکا تھا اس لیے کتابوں کی چھپائی کا آرڈر محدود پیمانے پر دیا گیا تاہم اب وزیر اعلی سندھ نے نوٹس ہے اور ہم نے کتابیں چھپائی کا آرڈر جاری کردیا ہے" یاد رہے کہ گزشتہ دور حکومت میں جب کتابوں کی چھپائی کا آرڈر جارہا تھا تو سندھ میں وزیر اعلی مراد علی شاہ، وزیر تعلیم سردار شاہ اور سیکریٹری اسکول ایجوکیشن اکبر لغاری اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین پرویز بلوچ تھے۔
واضح رہے کہ "ایکسپریس" کو محکمہ اسکول ایجوکیشن سے درسی کتب کی کمی کے حوالے سے جو اعداد و شمار موصول ہوئے ہیں اس کے مطابق کراچی میں پرائمری کی سطح پر 1 لاکھ 12 ہزار سے زائد جبکہ سیکنڈری کی سطح پر 1 لاکھ 22 ہزار سے زائد کتابوں کی کمی کا سامنا ہے جس میں مختلف جماعتوں میں انگریزی، جنرل نالج، ریاضی، سندھی ریڈر ،آسان اردو، سائنس ، معاشرتی علوم، اسلامیات اور کمپیوٹر کے مضامین کی درسی کتب بڑی تعداد میں طلبہ کو میسر نہیں آرہی ہیں۔
پرائمری اسکولوں کا موصولہ ڈیٹا بتارہا ہے کہ کلاسز کی بنیاد پر مختلف مضامین کے کتابوں کے جتنے سیٹس کا سندھ ٹیکسٹ بک سے تقاضہ demand کیا گیا تھا بیشتر کلاسز میں اس ڈیمانڈ سے 50 فیصد یا اس سے بھی کم درسی کتابیں فراہم کی گئی ہیں جس سے اندازا ہوتا ہے کہ ہر کلاس میں 50 فیصد کے آس پاس طلبہ کی تعداد کتابوں سے محروم ہیں تاہم یہاں ایک تعلیمی افسر کا کہنا ہے کہ یہ تعداد رجسٹرڈ انرولمنٹ کے مطابق ہے اور عمومی طور پر سرکاری اسکولوں میں حاضری انرولمنٹ کی 70 فیصد تک کی ہوتی ہے لہذا ہم نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے تقاضہ کیا ہے کہ ہمیں 20 فیصد ہی مزید کتابیں دے دیں جس سے یہ short fall ختم ہوجائے۔
علاوہ ازیں رابطہ کرنے پر کراچی کے ایک پرائمری اسکول کی پرنسپل نے بتایا کہ " کتابیں نہ ہونے سے مشکلات ہیں ہم بچوں سے کہتے ہیں کہ کتاب شیئر کردیں اور کلاس میں تو وقتی طور پر شیئرنگ کی بنیاد پر کام چل جاتا ہے لیکن طلبہ کو گھروں میں بھی پڑھنا ہوتا ہے ہم طالب علم سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب فوٹو کاپی کرالیں بعض والدین خود کی کرلیتے ہیں لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے"
کتابوں کی عدم دستیابی کے معاملے پر ماہر تعلیم اور سندھ مدرسہ السلام کے سابق وائس چانسلر اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر محمد علی شیخ کا کہنا ہے کہ "یہ ہر سال کا معاملہ بن گیا ہے 3 ارب کا ٹھیکہ ہوتا ہے جس کے سبب لوگوں کے انٹرسٹ ہوتے ہیں اور بعد ازاں ہمارے بچے مشکلات سہتے ہیں اب نگراں وزیر اعلی کو چاہیے کہ ہمت کریں ایک غیر جانبدار کمیٹی بنائیں اور تحقیقات کروائیں آخر کون ذمے دار ہے چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ یا سیکریٹری ایجوکیشن جو بھی ہو اسے فکس کری ان کا کہنا تھا میں خیال میں یہ بنیادی ذمے داری چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ہے "
مزید براں جب اس صورتحال پر سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے موجودہ چیئرمین آغا سہیل پٹھان سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے دعوی کیا کہ 10 نومبر سے مرحلہ وار کتابیں چھپ کر آنا شروع ہوجائیں گی انھوں نے تصدہق کی کہ سابق حکومت کے دور میں صرف 50 فیصد درسی کتب کی چھپائی کا ورک آرڈر دیا گیا تھا جس کی مالیت 1 ارب 80 کروڑ روپے بنتی ہے اس فیصلے کا خمیازہ اس وقت ہمارے صوبے کے طلبہ بھگت رہے ہیں سہیل پٹھان کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹرز اسکولز کہ ڈیمانڈ پر ہم نے اس وقت بھی 20 فیصد کتابیں اشاعت کے لیے بھجوائیں ہیں جن کی تعداد 2 ملین ہے"۔
سندھ کے سرکاری اسکولوں کو اس وقت 2 ملین (20 لاکھ) درسی کتب کا کمی کا سامنا ہے جس میں سے صرف کراچی میں سرکاری اسکولوں کی سطح پر درسی کتابوں کے 2 لاکھ 35 ہزار سے زائد کتابوں اور سیٹس کی کمی ہے جبکہ پورے سندھ میں یہ تعداد کئی لاکھ ہے جس کے سبب اسکولوں میں تدریس سرگرمیاں شدید متاثر ہیں اور طلبہ کے پاس پڑھنے کے لیے مختلف مضامین کی کتابیں موجود نہیں ہیں جس سے انھیں تدریسی سلسلے میں تعطل کا سامنا ہے۔
درسی کتب کی کمی کا معاملہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب بدترین مہنگائی اور دیگر وجوہات کی بنا پر سندھ کے سرکاری اسکولوں میں انرولمنٹ میں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے اور بڑی تعداد میں طلبہ نے نجی سے سرکاری اسکولوں کا رخ کیا ہے اور سیکریٹری اسکول ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر سیکنڈری اسکولز کراچی اس اضافے کی تصدیق بھی کرچکے ہیں تاہم سابق حکومت کی جانب سے شعبہ تعلیم کے معاملات میں عدم دلچسپی کے سبب طلبہ کی تعداد بڑھنے پر درسی کتب کی تعداد بھی بڑھنے کے بجائے مزید ہوگئی ہے۔
ادھر حال ہی میں موجودہ نگراں حکومت نے سرکاری اسکولوں میں درسی کتب کی شدید کمی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کتابوں کہ چھپائی کے لیے 1 ارب روپے کے فنڈز تو جاری کردیے ہیں تاہم ان کتابوں کی چھپائی میں قریب ایک ماہ درکار ہے۔
پبلشرز کا کہنا ہے کہ اگر بہت جلدی بھی ممکن ہوا تو یہ کتابیں نومبر کے آخر تک اسکولوں میں پہنچ سکیں گی یا پھر بات اس سے آگے بھی نکل سکتی ہے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے صدر عزیز خالد نے "ایکسپریس" کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ مزید درسی کتب کی چھپائی کے لیے مختلف پبلشر ز کو اکتوبر کے آخری ہفتے میں آرڈر جاری ہوا ہے یہ کتابیں مختلف مضامین کی ہیں چھپائی سے لے کر انھیں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے حوالے کرنے کے بعد ان کی اسکولوں می تقسیم کا سلسلہ شروع ہوگا"
واضح رہے کہ درسی کتب کی تقسیم کا کام از خود کئی روز کی مشق ہے یہ کتابیں پہلے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے گوداموں اور ویئر ہائوسز تک پہنچائی جاتی ہیں جہاں سے اسکولوں کے لیے کتابوں کو ضلعی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے جس کے سبب خیال کیا جارہا ہے کہ سرکاری اسکولوں کی کتابوں کا short fall نومبر کے آخر یا دسمبر کے آغاز میں بھی بمشکل پورا ہوسکے گا جبکہ خود محکمہ تعلیم کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے سندھ میں نیا تعلیمی سیشن 2024/25 یکم اپریل سے شروع کرنے کی تجویز دے رکھی ہے اور اپریل 2024 میں ہی امتحانات کی تاریخیں دی گئی ہیں۔
ایسی صورت میں رواں تعلیمی سیشن 2023/24 آئندہ برس مارچ 2024 میں ختم ہوجائے گا اور عملی طور پر یہ سیشن 8 ماہ کا ہوگا جس میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے پاس سیشن کے چوتھے ماہ تک درسی کتب ہی نہیں ہونگی۔
"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سندھ شیریں ناریجو سے رابطہ کرکے پوچھا کہ آخر اس تمام صورتحال کا ذمے دار کون ہے " جس پر ان کا کہنا تھا کہ چھپائی کے وقت آرڈر کم دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت حکومت کے پاس فنڈز کی قلت تھی ایک سوال پر آن کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں جس وقت درسی کتب چھپائی کے لیے دہ جارہی تھی اس وقت ڈالر کی قدر بہت بڑھ گئی تھی کاغذ بہت مہنگا ہوچکا تھا اس لیے کتابوں کی چھپائی کا آرڈر محدود پیمانے پر دیا گیا تاہم اب وزیر اعلی سندھ نے نوٹس ہے اور ہم نے کتابیں چھپائی کا آرڈر جاری کردیا ہے" یاد رہے کہ گزشتہ دور حکومت میں جب کتابوں کی چھپائی کا آرڈر جارہا تھا تو سندھ میں وزیر اعلی مراد علی شاہ، وزیر تعلیم سردار شاہ اور سیکریٹری اسکول ایجوکیشن اکبر لغاری اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین پرویز بلوچ تھے۔
واضح رہے کہ "ایکسپریس" کو محکمہ اسکول ایجوکیشن سے درسی کتب کی کمی کے حوالے سے جو اعداد و شمار موصول ہوئے ہیں اس کے مطابق کراچی میں پرائمری کی سطح پر 1 لاکھ 12 ہزار سے زائد جبکہ سیکنڈری کی سطح پر 1 لاکھ 22 ہزار سے زائد کتابوں کی کمی کا سامنا ہے جس میں مختلف جماعتوں میں انگریزی، جنرل نالج، ریاضی، سندھی ریڈر ،آسان اردو، سائنس ، معاشرتی علوم، اسلامیات اور کمپیوٹر کے مضامین کی درسی کتب بڑی تعداد میں طلبہ کو میسر نہیں آرہی ہیں۔
پرائمری اسکولوں کا موصولہ ڈیٹا بتارہا ہے کہ کلاسز کی بنیاد پر مختلف مضامین کے کتابوں کے جتنے سیٹس کا سندھ ٹیکسٹ بک سے تقاضہ demand کیا گیا تھا بیشتر کلاسز میں اس ڈیمانڈ سے 50 فیصد یا اس سے بھی کم درسی کتابیں فراہم کی گئی ہیں جس سے اندازا ہوتا ہے کہ ہر کلاس میں 50 فیصد کے آس پاس طلبہ کی تعداد کتابوں سے محروم ہیں تاہم یہاں ایک تعلیمی افسر کا کہنا ہے کہ یہ تعداد رجسٹرڈ انرولمنٹ کے مطابق ہے اور عمومی طور پر سرکاری اسکولوں میں حاضری انرولمنٹ کی 70 فیصد تک کی ہوتی ہے لہذا ہم نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے تقاضہ کیا ہے کہ ہمیں 20 فیصد ہی مزید کتابیں دے دیں جس سے یہ short fall ختم ہوجائے۔
علاوہ ازیں رابطہ کرنے پر کراچی کے ایک پرائمری اسکول کی پرنسپل نے بتایا کہ " کتابیں نہ ہونے سے مشکلات ہیں ہم بچوں سے کہتے ہیں کہ کتاب شیئر کردیں اور کلاس میں تو وقتی طور پر شیئرنگ کی بنیاد پر کام چل جاتا ہے لیکن طلبہ کو گھروں میں بھی پڑھنا ہوتا ہے ہم طالب علم سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب فوٹو کاپی کرالیں بعض والدین خود کی کرلیتے ہیں لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے"
کتابوں کی عدم دستیابی کے معاملے پر ماہر تعلیم اور سندھ مدرسہ السلام کے سابق وائس چانسلر اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر محمد علی شیخ کا کہنا ہے کہ "یہ ہر سال کا معاملہ بن گیا ہے 3 ارب کا ٹھیکہ ہوتا ہے جس کے سبب لوگوں کے انٹرسٹ ہوتے ہیں اور بعد ازاں ہمارے بچے مشکلات سہتے ہیں اب نگراں وزیر اعلی کو چاہیے کہ ہمت کریں ایک غیر جانبدار کمیٹی بنائیں اور تحقیقات کروائیں آخر کون ذمے دار ہے چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ یا سیکریٹری ایجوکیشن جو بھی ہو اسے فکس کری ان کا کہنا تھا میں خیال میں یہ بنیادی ذمے داری چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ہے "
مزید براں جب اس صورتحال پر سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے موجودہ چیئرمین آغا سہیل پٹھان سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے دعوی کیا کہ 10 نومبر سے مرحلہ وار کتابیں چھپ کر آنا شروع ہوجائیں گی انھوں نے تصدہق کی کہ سابق حکومت کے دور میں صرف 50 فیصد درسی کتب کی چھپائی کا ورک آرڈر دیا گیا تھا جس کی مالیت 1 ارب 80 کروڑ روپے بنتی ہے اس فیصلے کا خمیازہ اس وقت ہمارے صوبے کے طلبہ بھگت رہے ہیں سہیل پٹھان کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹرز اسکولز کہ ڈیمانڈ پر ہم نے اس وقت بھی 20 فیصد کتابیں اشاعت کے لیے بھجوائیں ہیں جن کی تعداد 2 ملین ہے"۔