آئی ایم ایف کے اہداف کا حصول اور ملکی معیشت

زراعت کے شعبے میں لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے ریفارمز انقلاب برپا کر سکتے ہیں

زراعت کے شعبے میں لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے ریفارمز انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے،جوکہ دس دن تک جاری رہیں گے،آئی ایم ایف نے اہداف حاصل کرنے پر پاکستانی حکومت کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

جائزہ مشن چیف ناتھن پورٹر نے مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران حکومت کی مالی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اب تک اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے۔پاکستانی وفد کی قیادت نگراں وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کی۔

بلاشبہ پاکستان معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ کرنسی کی قدر میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ روپے کی مضبوطی سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملنے کا امکان ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے اقدامات سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

ملکی معیشت کے بارے میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2023میں اپنے تجارتی خسارے میں 40 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 85 فیصد تک کم کرنے میں نمایاں پیش رفت دیکھی گئی، جو ادائیگیوں کے بہتر توازن کو ظاہر کرتا ہے۔

جی ڈی پی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27.1 فیصد اضافے کے ساتھ غیر معمولی نمو دکھائی دی جو کہ ملکی ترقی میں مثبت علامت ہے، آئی ٹی صنعت نے 1.72 بلین ڈالر کا تجارتی سرپلس حاصل کیا ہے جو برآمدات اور اقتصادی ترقی کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان میں (SIFC) کا قیام اور سعودی عرب سمیت کئی غیر ملکی کان کنی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی ملکی معیشت کی مضبوطی کی جانب واضح اشارہ ہے۔ زراعت کے شعبے میں لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے ریفارمز انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کی نجکاری میں دلچسپی ملک میں پائیدار صنعتوں اور روزگار کے مواقعوں کی نشاندہی کرتا ہے، اسلام آباد میں سی پیک بینک آف چائنا کا آغاز ملکی معاشی استحکام کی اہم نشانی ہے، ملک میں چاول کی برآمد کے بڑھتے مواقعے کو معیشت کی مضبوطی میں اہم جزو قراردیا گیا ہے، پاک فوج اور حالیہ حکومت کی مشترکہ کوششیں پائیدار امن اور مضبوط پاکستان کی نوید ہیں۔

نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا ہے کہ حکومتی اقدامات سے معاشی صورتحال بہتر ہورہی ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پہلے 3 ماہ میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اہداف سے زائد ٹیکس وصولی کی ہے۔

نگران وزیر خزانہ پہلے ہی کہہ چکی ہیں، نگران حکومت آئی تو معیشت مشکلات کا شکار تھی، حکومتی اقدامات سے معاشی صورتحال میں بہتری آرہی ہے، بحرانوں کے باوجود معیشت کو بحال رکھنے کی کوشش کی ہے۔

اس بات سے انکار نہیں کہ چیلنجوں کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ درآمدات میں نمایاں طور پر 28.4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو تجارتی توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے، کوئلہ، ڈولومائٹ، بیریٹس اور دیگر اہم معدنیات کی پیداوار میں اضافہ کان کنی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتا ہے جو اقتصادی ترقی میں معاون ہے۔

آئی ٹی شعبے میں چین کی دلچسپی ملکی اقتصادی ڈھانچے کی مضبوطی کو نمایاں کرتی ہے، ٹیلی کام سیکٹر کی اہم شراکت داری نے ملک میں مزید ترقی کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہوئے قومی خزانے میں نمایاں حصہ ڈالا ہے۔

ایک جانب نگران حکومت ملکی معیشت کے ٹریک پر آنے اور بحالی کے دعوے کرتی نظر آتی ہے تو دوسری جانب ایک طبقے کی یہ بھی رائے ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض ملکی معیشت پر بوجھ کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھاتا ہے، گو کہ وقتی طور پر بوجھ کم ہوتا اور معیشت مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

آئی ایم ایف سود پر قرض دیتا ہے اور سودی قرض کا بہت بڑا نقصان ہی یہی ہے کہ قرض لینے والا باآسانی اس سے نکل نہیں پاتا اور وہ سود در سود کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف قرض بھی ایسے دیتا ہے جیسے بھیک دے رہا ہو۔ اس کے لیے ریاستوں کو اپنی آزادی و خودمختاری تک کا سودا کرنا پڑتا ہے۔ معاشی لحاظ سے کمزور ممالک ایک بار اس کے چنگل میں پھنس جائیں پھر ان کے لیے نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔


آئی ایم ایف کی پالیسیاں بھی ایسی ہیں جن کے ذریعے وہ قرض لینے والے ممالک کو جکڑ لیتا ہے۔ آئی ایم ایف ان ممالک کو اتنا ہی قرض فراہم کرتا ہے جس سے وہ بمشکل بیرونی قرضوں پر لگنے والا سود ہی ادا کرپاتے ہیں۔ اس طرح انھیں اپنے دیگر اخراجات کے لیے پھر قرض لینا پڑتا ہے۔ یوں غریب ممالک آئی ایم ایف اور اس کے پس پردہ ممالک کے زیر اثر رہتے ہیں اور ان کی ہر شرط ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی غلطی کی، وہ معاشی طورپر تباہ ہوگئے۔ دراصل آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر تنقید کرتے ہوئے ہم ایک بنیادی بات بھول جاتے ہیں۔ یہ ادارہ امداد نہیں بلکہ قرض دیتا ہے۔

قرض دینے والے کو اس کی ادائیگی کی فکر بھی دامن گیر ہوتی ہے۔ مقروض مقررہ مدت میں اس کی ادائیگی کیونکر کر پائے گا۔ ان کی نظر مقروض ملک کی کارکردگی اور وسائل پر ہوتی ہے۔ ان کا زور ٹیکس کے دائرے کو وسیع کرنے اور ''سبسڈیز'' واپس لینے پر ہوتا ہے۔ یہ بڑے زیرک اور کائیاں لوگ ہیں۔

ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان کے حکمرانوں کی نفسیات سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ انھیں اس بات کا ادراک ہے کہ ہمارے حکمران لمحہ موجود پر یقین رکھتے ہیں۔

''ڈنگ ٹپاؤ'' قسم کی معاشی پالیسیاں بناتے ہیں۔ ان کا مقصد ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو استحکام اور طوالت دینا ہوتا ہے۔ جب جانا ٹھہر جاتا ہے تو پھر آنے والے کے لیے معاشی گڑھے کھود جاتے ہیں۔ آنے والا کچھ کر نہیں پاتا۔ اپنے پیشروؤں کی ''ناجوازیوں'' کا رونا روتے روتے وقت پورا کر جاتا ہے۔

بالفرض آئی ایم ایف قرض دینے سے قبل بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں بڑھانے کا نہ کہتی تو کیا ہوتا؟ پھر بھی یہی ہونا تھا۔ بصورت دیگر ڈالر تین سو کا ہندسہ عبور کر چکا ہوتا۔ خزانے میں تنخواہیں دینے کے لیے بھی رقم نہ ہوتی۔ سو روپے کا تیل خرید کر پچاس میں تو نہیں بیچا جا سکتا! پچاس روپے فی یونٹ بجلی بنا کر پچیس روپے میں تو نہیں دی جاسکتی۔

یہی حال دیگر اجناس کا ہے۔ گندم باہر سے آٹھ ہزار روپے فی من خریدی جا رہی ہے۔ خوردنی تیل، دالیں، دوائیں، درآمدی بل کی ایک طویل فہرست ہے۔ دوسری جانب گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی کرنٹ اکاؤنٹ کی توقع سے بہتر کارکردگی کا اعتراف کرتے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے توقع ظاہر کی ہے کہ ملکی معیشت موجودہ اور آیندہ مالی سال کے دوران میکرو اکنامک چیلنجز کے باوجود دیگر کثیر الجہتی ایجنسیوں کے اندازوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔

اکتوبر کے لیے جاری ہونے والے آئی ایم ایف کے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک میں رواں سال ملکی معیشت میں 2.5 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس کی شرح آیندہ مالی سال میں دوگنی ہو کر 5 فیصد ہو جائے گی، یہ گزشتہ مالی سال کی 0.5 شرح کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔

اس تازہ ترین پیش گوئی کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو جلد معاشی بحالی کی توقع ہے جب کہ اس سے قبل عالمی ادارے نے مالی سال 27-2026 میں 5 فیصد جی ڈی پی شرح نمو کی پیش گوئی کی تھی۔ملکی شرح نمو سے متعلق آئی ایم ایف کی تازہ ترین پیش گوئی رواں مالی سال کے لیے حکومت کی جانب سے طے کردہ 3.5 فیصد جی ڈی پی شرح نمو کے ہدف سے کم ہے، لیکن واشنگٹن میں موجود ورلڈ بینک اور منیلا میں قائم ایشین ڈیولپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کی حالیہ پیش گوئیوں سے کافی زیادہ ہے۔

رواں مالی سال کے لیے پاکستان کی شرح نمو 1.7 فیصد اور آیندہ مالی برس میں 2.4 فیصد رہنے کی پیش گوئی کرنے والے عالمی بینک جس نے ایک حالیہ میڈیا تقریب میں دعویٰ کیا کہ اس کی پیش گوئی اگست ستمبر کے اعداد و شمار پر مبنی تھا۔

دوسری جانب، آئی ایم ایف نے تخمینہ لگایا کہ مالی سال 2023 میں بے روزگاری کی شرح 8.5 فیصد تک بڑھ گئی، جو 2022 میں 6.2 فیصد تھی جب کہ بے روز گاری کی یہ شرح اس کی 7 فیصد کی سابقہ پیش گوئی سے کافی زیادہ ہے، رواں مالی سال کے لیے بے روزگاری کی شرح 8 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ کو 22 فیصد پر برقرار رکھتے ہوئے اپنا سخت مانیٹری موقف برقرار رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ معاشی اشاریوں میں متوقع بہتری اور افراط زر میں متوقع کمی کو دیکھتے ہوئے مالیاتی نرمی ممکنہ طور پر اگلے سال کے اوائل میں شروع ہو سکتی ہے۔ حکومت پاکستان جس معاشی صورتِ حال سے دوچار ہے، اسے فارسی زبان کے محاورے کے مطابق ''نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن'' ہی کہا جا سکتا ہے۔

اس معاشی بدحالی کا ذمے دار کون ہے؟ موجودہ حکومت، سابقہ حکمران یا مجبوری حالات؟ یہ درست ہے کہ ''پینڈیمک'' کی وجہ سے ساری دُنیا کی معیشت کو دھچکا لگا ہے۔ دو سال تک کاروباری سرگرمیاں عملاً معطل رہی ہیں۔

رہی سہی کسر روس یوکرین جنگ نے نکال دی ہے۔ امریکا اور مغربی طاقتیں جلتی پر تیل ڈال رہی ہیں۔ ان معروضی حالات میں ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے ایک امید پیدا ہوئی ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی کیفیت ختم ہوجائے گی اور آنیوالی حکومت ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز کا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکے گی۔
Load Next Story