مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب کےعوام کو مطمئن کر پائے گی
گورنر، وزیراعلیٰ ، کھوسہ خاندان، وزیراعظم،عمران خان سیلاب زدہ علاقوں کے دوروں پر ہیں.
QUETTA:
سیاسی کارکنوں سے لے کر سیاسی پنڈتوں تک جو بات سب کو سمجھ آگئی۔
وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے گرد واہ واہ کا راگ الاپنے والا گروہ نے اپنی قیادت کو نہ سمجھنے دی۔
یہی وجہ ہے کہ کم و بیش ملک کی ساری سیاسی قیادت جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی حامی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے ڈھکے چھپے اعلانات کے باوجود پورے علاقے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ لیگی قیادت پنجاب میں مزید صوبوں کی تشکیل کی سخت مخالف ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ بہاولپور صوبے کی تشکیل کا ایشو ہو یا نئے صوبوں کے کمیشن کا بائیکاٹ' مسلم لیگ (ن) معاملات کو کھٹائی میں ڈال کر پنجاب کے اس زیریں اور مغربی علاقے کو حق نہیں دینا چاہتی۔
بالائی پنجاب سے ہنگامی دوروں پر جنوبی پنجاب آنے والی لیگی قیادت بھی اس معاملے پر جو طرز عمل اختیار کرتی ہے اس سے مقامی سطح پر لوگوں کی تسلی ہونے کی بجائے ناراضگی بڑھتی ہے۔
اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتیں سیاست کررہی ہیں اور پیپلز پارٹی اس سیاست میں سب سے آگے ہے لیکن کیا مسلم لیگ (ن) سیاسی جماعت نہیں کہ وہ اس وکٹ پر مسلسل دفاعی طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے، کچھ خرابیاں تو موجود ہیں باقی وہ خود اپنے کھاتے میں ڈلوا رہی ہے ۔
2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اس خطے میں کامیابی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت تھی جبکہ گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں بھی مسلم لیگ (ن) کے طرز عمل نے مقامی سطح پر یہ تاثر مزید گہرا کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس خطے کے وسائل اس خطے پر خرچ نہیں کرنا چاہتی۔
معاملہ صرف معاشی ہی نہیں بلکہ انتظامی بھی ہے اور یہ انتظامی استحصال زیریں اور جنوبی علاقوں میں بدانتظامی کا بھی سبب بن رہا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی متحرک شخصیت اور تمام بھاگ دوڑ کے باوجود اس علاقے میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور اختیارات کی مرکزیت نے علاقے میں کئی سماجی مسائل پیدا کردیئے ہیں۔
انتظامی بنیاد پر صوبوں کی رٹ لگانے والی مسلم لیگ (ن) آج تک اس جنوبی خطے کے بہتر انتظام کے لئے تین ڈویژنوں کے لئے کوئی سب سیکٹریریٹ تک قائم نہیں کرسکی اور ذرا اندازہ کیجئے کہ جب ملتان کے دورے پر آئے ہوئے لیگی رہنما احسن اقبال سے پوچھا گیا کہ پنجاب حکومت نے ملتان پیکج کے لئے اپنے حصے کے آدھے وسائل کیوں فراہم نہیں کئے تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں پیسہ کرپشن کی نذر ہورہا تھا اور وہ کرپشن کے حصہ دار بننے کے لئے تیار نہیں، ایسے جواز مقامی لوگوں کو مطمئن کرنے کی بجائے انہیں مشتعل کرتے ہیں۔
ڈیرہ غازیخان، راجن پور سمیت مغربی علاقے میں آنے والے بڑے سیلاب اور جنوبی پنجاب میں بارشوں سے ہونے والے نقصانات نے صورتحال مزید خراب کردی ہے۔
سیلاب نے بڑے پیمانے پر کھڑی فصلیں ہزاروں گھر تباہ اور بے تحاشہ جانی و مالی نقصان کیا ہے ڈیرہ غازیخان اور راجن پور اضلاع کے کئی قصبے اور شہر سیلابی پانی میں ڈوب گئے اور اب امدادی کارروائیوں کے نام پر سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب' کھوسہ خاندان' گورنر پنجاب' وزیراعظم اور عمران خان سب سیلاب زدہ علاقوں کے دوروں پر ہیں ،عوام کو تسلیاں دی جارہی ہیں لیکن جن پر قیامت بیت گئی اور جو دو سال قبل کے سیلاب سے نہ سنبھل پائے تھے مزید کئی برس پیچھے دھکیل دیئے گئے۔
یہ بے بس لوگ صرف کڑھ سکتے ہیں ماتم کرسکتے ہیں انہیں پہاڑوں سے اترنے والے نالوں نے ڈبو دیا اور ان کے نام پر کئی دہائیاں سیاست کرنے والے آج تک ان رود کوہیوں یا برساتی نالوں کے پانی کو کنٹرول کرنے اور قابل استعمال بنانے کے منصوبے پر عمل نہ کرسکے۔
پیپلز پارٹی صوبے کے معاملے پر اپنے اتحادیوں سے ملکر ضرور سیاست کررہی ہوگی لیکن کیا مسلم لیگ (ن) بھی سیاست کرتے ہوئے اس معاملے کا کریڈٹ لے کر مزید صوبوں کی تشکیل میں اپنا موثر کردار ادا کرکے پیپلز پارٹی کو بیک فٹ پر نہیں دھکیل سکتی لیکن اگر وہ اس پر دو عملی سیاست کا شکار رہے گی تو اسے سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
سیاسی کارکنوں سے لے کر سیاسی پنڈتوں تک جو بات سب کو سمجھ آگئی۔
وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے گرد واہ واہ کا راگ الاپنے والا گروہ نے اپنی قیادت کو نہ سمجھنے دی۔
یہی وجہ ہے کہ کم و بیش ملک کی ساری سیاسی قیادت جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی حامی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے ڈھکے چھپے اعلانات کے باوجود پورے علاقے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ لیگی قیادت پنجاب میں مزید صوبوں کی تشکیل کی سخت مخالف ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ بہاولپور صوبے کی تشکیل کا ایشو ہو یا نئے صوبوں کے کمیشن کا بائیکاٹ' مسلم لیگ (ن) معاملات کو کھٹائی میں ڈال کر پنجاب کے اس زیریں اور مغربی علاقے کو حق نہیں دینا چاہتی۔
بالائی پنجاب سے ہنگامی دوروں پر جنوبی پنجاب آنے والی لیگی قیادت بھی اس معاملے پر جو طرز عمل اختیار کرتی ہے اس سے مقامی سطح پر لوگوں کی تسلی ہونے کی بجائے ناراضگی بڑھتی ہے۔
اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتیں سیاست کررہی ہیں اور پیپلز پارٹی اس سیاست میں سب سے آگے ہے لیکن کیا مسلم لیگ (ن) سیاسی جماعت نہیں کہ وہ اس وکٹ پر مسلسل دفاعی طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے، کچھ خرابیاں تو موجود ہیں باقی وہ خود اپنے کھاتے میں ڈلوا رہی ہے ۔
2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اس خطے میں کامیابی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت تھی جبکہ گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں بھی مسلم لیگ (ن) کے طرز عمل نے مقامی سطح پر یہ تاثر مزید گہرا کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس خطے کے وسائل اس خطے پر خرچ نہیں کرنا چاہتی۔
معاملہ صرف معاشی ہی نہیں بلکہ انتظامی بھی ہے اور یہ انتظامی استحصال زیریں اور جنوبی علاقوں میں بدانتظامی کا بھی سبب بن رہا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی متحرک شخصیت اور تمام بھاگ دوڑ کے باوجود اس علاقے میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور اختیارات کی مرکزیت نے علاقے میں کئی سماجی مسائل پیدا کردیئے ہیں۔
انتظامی بنیاد پر صوبوں کی رٹ لگانے والی مسلم لیگ (ن) آج تک اس جنوبی خطے کے بہتر انتظام کے لئے تین ڈویژنوں کے لئے کوئی سب سیکٹریریٹ تک قائم نہیں کرسکی اور ذرا اندازہ کیجئے کہ جب ملتان کے دورے پر آئے ہوئے لیگی رہنما احسن اقبال سے پوچھا گیا کہ پنجاب حکومت نے ملتان پیکج کے لئے اپنے حصے کے آدھے وسائل کیوں فراہم نہیں کئے تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں پیسہ کرپشن کی نذر ہورہا تھا اور وہ کرپشن کے حصہ دار بننے کے لئے تیار نہیں، ایسے جواز مقامی لوگوں کو مطمئن کرنے کی بجائے انہیں مشتعل کرتے ہیں۔
ڈیرہ غازیخان، راجن پور سمیت مغربی علاقے میں آنے والے بڑے سیلاب اور جنوبی پنجاب میں بارشوں سے ہونے والے نقصانات نے صورتحال مزید خراب کردی ہے۔
سیلاب نے بڑے پیمانے پر کھڑی فصلیں ہزاروں گھر تباہ اور بے تحاشہ جانی و مالی نقصان کیا ہے ڈیرہ غازیخان اور راجن پور اضلاع کے کئی قصبے اور شہر سیلابی پانی میں ڈوب گئے اور اب امدادی کارروائیوں کے نام پر سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب' کھوسہ خاندان' گورنر پنجاب' وزیراعظم اور عمران خان سب سیلاب زدہ علاقوں کے دوروں پر ہیں ،عوام کو تسلیاں دی جارہی ہیں لیکن جن پر قیامت بیت گئی اور جو دو سال قبل کے سیلاب سے نہ سنبھل پائے تھے مزید کئی برس پیچھے دھکیل دیئے گئے۔
یہ بے بس لوگ صرف کڑھ سکتے ہیں ماتم کرسکتے ہیں انہیں پہاڑوں سے اترنے والے نالوں نے ڈبو دیا اور ان کے نام پر کئی دہائیاں سیاست کرنے والے آج تک ان رود کوہیوں یا برساتی نالوں کے پانی کو کنٹرول کرنے اور قابل استعمال بنانے کے منصوبے پر عمل نہ کرسکے۔
پیپلز پارٹی صوبے کے معاملے پر اپنے اتحادیوں سے ملکر ضرور سیاست کررہی ہوگی لیکن کیا مسلم لیگ (ن) بھی سیاست کرتے ہوئے اس معاملے کا کریڈٹ لے کر مزید صوبوں کی تشکیل میں اپنا موثر کردار ادا کرکے پیپلز پارٹی کو بیک فٹ پر نہیں دھکیل سکتی لیکن اگر وہ اس پر دو عملی سیاست کا شکار رہے گی تو اسے سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔