ایم کیو ایم پاکستان اور 18 ویں ترمیم
انتخابات میں ہر پارٹی کو عوام جانچتے ہیں اور پھر اپنا اطمینان کرکے ووٹ دیتے ہیں
کیا سندھ میں بلدیاتی نظام کو ناکام بنانے والی 18 ویں ترمیم ہے، اگر اس ترمیم میں کچھ ترمیم کردی جائے تو اس سے سندھ کو کیا نقصان ہوگا؟ اس ترمیم پر سندھ کی بڑی سیاسی پارٹی کو ضرور اعتراض ہوگا کیونکہ وہ 18 ویں ترمیم کو اپنی لائف لائن سمجھتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ صوبوں کو خودمختاری دلانے کے لیے اس نے بڑی مشقت سے یہ ترمیم پاس کرائی تھی۔ صوبوں کی خودمختاری کا معاملہ بڑا پرانا ایشو تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ اسے صوبائی خودمختاری حاصل نہیں تھی اور اگر یہ اختیار اسے حاصل ہوتا تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی نوبت نہ آتی اور اس طرح ملک دولخت ہونے سے محفوظ رہتا۔
اس سانحے کے بعد 1973 کے آئین میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے باقی ماندہ صوبوں کو اب صوبائی خودمختاری سے نواز دیا گیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق 18 ویں ترمیم کا صوبوں نے خیر مقدم تو کیا ہے مگر اس سے صوبوں کی حکومتوں کے اختیارات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ بعض معاملات میں خودمختار ہوگئے ہیں، وہ اپنی مرضی چلا رہے ہیں۔ خاص طور پر اس کا اثر سندھ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس ترمیم کے نتیجے میں مشرف دور میں نافذ ہونے والے بلدیاتی نظام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ صوبے کا وزیر اعلیٰ وفاق سے ملنے والے فنڈز کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے حتیٰ کہ بلدیاتی اداروں کے لیے مختص رقم بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہوتی ہے وہ اسے بلدیاتی اداروں کو فراہم کرنے میں یکسر من مانی سے کام لیتا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو بھی محدود کردیا گیا ہے۔
کراچی کا میئر محض ایک روایتی منصب دار بن کر رہ گیا ہے۔ اسے شہری نظام چلانے کا اختیار ہی حاصل نہیں۔ اس کی مثال کراچی کے سابق میئر وسیم اختر سے دی جاسکتی ہے۔ انھیں ان کے پورے دور میں بے اختیار رکھا گیا۔ انھیں کچرا اٹھوانے کا بھی اختیار حاصل نہیں تھا۔
سندھ حکومت نے اپنی طرف سے ایک غیر ملکی حکومت سے معاہدہ کرکے اسے شہر کا کچرا اٹھانے کا کام سونپ دیا تھا جس کی کارکردگی شہریوں کے لیے وبال جان سے کم نہیں بنی۔ پانی کی فراہمی اور سڑکوں کی تعمیر بھی سندھ حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی چنانچہ وسیم اختر بس نام کے میئر بن کر رہ گئے تھے۔ وہ اپنے پورے دور میں اپنی بے اختیاری کا رونا روتے رہے مگر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔
دیکھا جائے تو یہ وسیم اختر کا نوحہ نہیں تھا بلکہ کراچی کے تمام شہریوں کا نوحہ تھا۔ شہری وسیم اختر کی بے اختیاری پر افسردہ ہی نہیں بلکہ حکومت سندھ سے سخت ناراض تھے کہ اس نے میئر کو بے اختیار کرکے بلدیاتی نظام کو مذاق بنا دیا ہے اور شہریوں کے حقوق کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
ایم کیو ایم شروع سے میئر کو بااختیار بنانے کی مہم چلاتی رہی ہے۔ موجودہ بلدیاتی نظام کے تحت مصطفیٰ کمال ضرور ایک بااختیار میئر رہے انھوں نے اپنے اختیارات کو استعمال کرکے اس شہر کی کایا پلٹ دی تھی ان کے زمانے میں شہر میں جتنے ترقیاتی کام انجام پائے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ان کی بحیثیت میئر کو صرف پاکستان میں ہی نہیں سراہا گیا تھا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا تھا اور انھیں اس سلسلے میں تعریفی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
اس شہر کو حقیقتاً ایک بااختیار میئر کی ضرورت ہے مگر اس کے راستے میں کافی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں، جنھیں بہر صورت ختم ہونا چاہیے۔ گزشتہ اتوار کو ایم کیو ایم پاکستان نے لیاقت آباد میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا تھا۔ اس جلسے میں لیاقت آباد کے عوام نے کثیر تعداد میں اپنی حاضری لگا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ابھی بھی ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس جلسے میں ایم کیو ایم کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی اور عوام سے خطاب کیا۔ ان رہنماؤں میں ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالق مقبول صدیقی، ڈپٹی سینئر کنوینر مصطفیٰ کمال، ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کے علاوہ دیگر اہم رہنما بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی کے عوام 17 سو ارب روپے کا ٹیکس دیتے ہیں جب کہ کراچی کو چھوڑ کر پورا پاکستان 16 سو ارب روپے ٹیکس ادا کرتا ہے۔
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ کراچی پاکستان کا معاشی انجن ہے۔ یہی شہر پاکستان کی معیشت کو چلا رہا ہے۔ دوسری جانب گوکہ اس شہر کو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے مگر آبادی کے تناسب کے لحاظ سے اسے فنڈز کے معاملے میں نظرانداز کرنے کی پالیسی برسوں سے جاری ہے۔
کراچی سے محبت کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اس تناظر میں وفاق کی توجہ مبذول کرانے کی لاکھ کوشش کر چکی ہیں مگر افسوس کہ کراچی کے ساتھ مسلسل سوتیلا پن کا رویہ جاری ہے۔ وفاق میں بننے والی ہر حکومت اگرچہ کراچی والوں کی محرومیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کرتی ہے مگر افسوس کہ وہ اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کرتی۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر چلنے کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت بھی کراچی کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں ایک بڑی رقم فراہم کرنے کا ایک بار نہیں دو بار اعلان کرکے بھی کراچی کے عوام کو کچھ بھی نہ دے سکی اور اسی وجہ سے کراچی کے ترقیاتی کام التوا کا شکار ہوگئے اور آج تک وہ ادھورے ہی پڑے ہیں۔
سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے اپنے خطاب میں کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے صوبائی خودمختاری کے نام پر منظور کرائی گئی 18 ویں ترمیم کو ایم کیو ایم مسترد کرتی ہے اس ترمیم کی بدولت سندھ حکومت اپنی من مانی کرتے ہوئے سندھ کو ملنے والے ایک ہزار چار سو باون ارب میں سے کراچی کو صرف اور صرف چند ارب فراہم کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان شروع سے ہی 18 ویں ترمیم ایک نزع کی صورت بنی ہوئی ہے۔ اس ترمیم کی آڑ میں پیپلز پارٹی وفاق سے ملنے والے فنڈز کو اپنی مرضی کے تحت استعمال کرتی ہے۔ کراچی کو اس کا جائز حصہ نہ ملنے کی وجہ سے شہر کے ترقیاتی کام رکے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ ملنے والے فنڈز کو صوبے کے ہر شہر کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرتی ہے اگر یہی صورت حال ہے تو پھر سندھ کے دیگر شہروں کے ترقیاتی کام کیوں انجام نہیں پا رہے ہیں۔
مصطفیٰ کمال نے اس جلسے میں کہا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کو بھی لاڑکانہ بنا دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لاڑکانہ کے شہری بھی اپنے شہر کے مسائل سے پریشان ہیں۔ وہاں کی سڑکوں کا جو حال ہے اس پر کچھ دن قبل سندھ ہائی کورٹ کے ایک معزز جج بھی آواز اٹھا چکے ہیں۔ یہ صورت حال خود پیپلز پارٹی کے لیے نقصان دہ ہے اسے سندھ کے تمام شہروں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے اور وہاں کے ترقیاتی کاموں کو احسن طریقے سے انجام دینے کا بندوبست کرنا چاہیے۔
اب چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں قومی کے ساتھ ہی صوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی منعقد ہونے والے ہیں۔ انتخابات میں ہر پارٹی کو عوام جانچتے ہیں اور پھر اپنا اطمینان کرکے ووٹ دیتے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس لحاظ سے پیپلز پارٹی ضرور عوامی سوالوں کی زد میں ہے۔ جہاں تک کراچی کا معاملہ ہے یہاں ہر گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم ہی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی رہی ہے۔ اس نے حسن کمال سے کراچی کی 70 لاکھ سے زیادہ کھوئی ہوئی آبادی کو بازیاب کراکے اہل کراچی پر بڑا احسان کیا ہے۔
فاروق ستار نے اس جلسے میں یہی بات کہی ہے کہ ان کی پارٹی نے کراچی کے 70 لاکھ عوام کو بازیاب کراکے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ کراچی میں پچھلے عام انتخابات میں واضح طور پر دھاندلی کی گئی اور ایک مخصوص پارٹی کو جتانے کے لیے نتائج کو بدلا گیا۔ اب اس دفعہ کراچی کی تمام کراچی سے محبت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو چوکنا رہنا ہوگا تاکہ پھر پچھلی تاریخ نہ دہرائی جاسکے۔
اس میں شک نہیں کہ صوبوں کو خودمختاری دلانے کے لیے اس نے بڑی مشقت سے یہ ترمیم پاس کرائی تھی۔ صوبوں کی خودمختاری کا معاملہ بڑا پرانا ایشو تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ اسے صوبائی خودمختاری حاصل نہیں تھی اور اگر یہ اختیار اسے حاصل ہوتا تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی نوبت نہ آتی اور اس طرح ملک دولخت ہونے سے محفوظ رہتا۔
اس سانحے کے بعد 1973 کے آئین میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے باقی ماندہ صوبوں کو اب صوبائی خودمختاری سے نواز دیا گیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق 18 ویں ترمیم کا صوبوں نے خیر مقدم تو کیا ہے مگر اس سے صوبوں کی حکومتوں کے اختیارات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ بعض معاملات میں خودمختار ہوگئے ہیں، وہ اپنی مرضی چلا رہے ہیں۔ خاص طور پر اس کا اثر سندھ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس ترمیم کے نتیجے میں مشرف دور میں نافذ ہونے والے بلدیاتی نظام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ صوبے کا وزیر اعلیٰ وفاق سے ملنے والے فنڈز کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے حتیٰ کہ بلدیاتی اداروں کے لیے مختص رقم بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہوتی ہے وہ اسے بلدیاتی اداروں کو فراہم کرنے میں یکسر من مانی سے کام لیتا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو بھی محدود کردیا گیا ہے۔
کراچی کا میئر محض ایک روایتی منصب دار بن کر رہ گیا ہے۔ اسے شہری نظام چلانے کا اختیار ہی حاصل نہیں۔ اس کی مثال کراچی کے سابق میئر وسیم اختر سے دی جاسکتی ہے۔ انھیں ان کے پورے دور میں بے اختیار رکھا گیا۔ انھیں کچرا اٹھوانے کا بھی اختیار حاصل نہیں تھا۔
سندھ حکومت نے اپنی طرف سے ایک غیر ملکی حکومت سے معاہدہ کرکے اسے شہر کا کچرا اٹھانے کا کام سونپ دیا تھا جس کی کارکردگی شہریوں کے لیے وبال جان سے کم نہیں بنی۔ پانی کی فراہمی اور سڑکوں کی تعمیر بھی سندھ حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی چنانچہ وسیم اختر بس نام کے میئر بن کر رہ گئے تھے۔ وہ اپنے پورے دور میں اپنی بے اختیاری کا رونا روتے رہے مگر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔
دیکھا جائے تو یہ وسیم اختر کا نوحہ نہیں تھا بلکہ کراچی کے تمام شہریوں کا نوحہ تھا۔ شہری وسیم اختر کی بے اختیاری پر افسردہ ہی نہیں بلکہ حکومت سندھ سے سخت ناراض تھے کہ اس نے میئر کو بے اختیار کرکے بلدیاتی نظام کو مذاق بنا دیا ہے اور شہریوں کے حقوق کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
ایم کیو ایم شروع سے میئر کو بااختیار بنانے کی مہم چلاتی رہی ہے۔ موجودہ بلدیاتی نظام کے تحت مصطفیٰ کمال ضرور ایک بااختیار میئر رہے انھوں نے اپنے اختیارات کو استعمال کرکے اس شہر کی کایا پلٹ دی تھی ان کے زمانے میں شہر میں جتنے ترقیاتی کام انجام پائے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ان کی بحیثیت میئر کو صرف پاکستان میں ہی نہیں سراہا گیا تھا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا تھا اور انھیں اس سلسلے میں تعریفی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
اس شہر کو حقیقتاً ایک بااختیار میئر کی ضرورت ہے مگر اس کے راستے میں کافی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں، جنھیں بہر صورت ختم ہونا چاہیے۔ گزشتہ اتوار کو ایم کیو ایم پاکستان نے لیاقت آباد میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا تھا۔ اس جلسے میں لیاقت آباد کے عوام نے کثیر تعداد میں اپنی حاضری لگا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ابھی بھی ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس جلسے میں ایم کیو ایم کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی اور عوام سے خطاب کیا۔ ان رہنماؤں میں ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالق مقبول صدیقی، ڈپٹی سینئر کنوینر مصطفیٰ کمال، ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کے علاوہ دیگر اہم رہنما بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی کے عوام 17 سو ارب روپے کا ٹیکس دیتے ہیں جب کہ کراچی کو چھوڑ کر پورا پاکستان 16 سو ارب روپے ٹیکس ادا کرتا ہے۔
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ کراچی پاکستان کا معاشی انجن ہے۔ یہی شہر پاکستان کی معیشت کو چلا رہا ہے۔ دوسری جانب گوکہ اس شہر کو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے مگر آبادی کے تناسب کے لحاظ سے اسے فنڈز کے معاملے میں نظرانداز کرنے کی پالیسی برسوں سے جاری ہے۔
کراچی سے محبت کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اس تناظر میں وفاق کی توجہ مبذول کرانے کی لاکھ کوشش کر چکی ہیں مگر افسوس کہ کراچی کے ساتھ مسلسل سوتیلا پن کا رویہ جاری ہے۔ وفاق میں بننے والی ہر حکومت اگرچہ کراچی والوں کی محرومیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کرتی ہے مگر افسوس کہ وہ اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کرتی۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر چلنے کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت بھی کراچی کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں ایک بڑی رقم فراہم کرنے کا ایک بار نہیں دو بار اعلان کرکے بھی کراچی کے عوام کو کچھ بھی نہ دے سکی اور اسی وجہ سے کراچی کے ترقیاتی کام التوا کا شکار ہوگئے اور آج تک وہ ادھورے ہی پڑے ہیں۔
سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے اپنے خطاب میں کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے صوبائی خودمختاری کے نام پر منظور کرائی گئی 18 ویں ترمیم کو ایم کیو ایم مسترد کرتی ہے اس ترمیم کی بدولت سندھ حکومت اپنی من مانی کرتے ہوئے سندھ کو ملنے والے ایک ہزار چار سو باون ارب میں سے کراچی کو صرف اور صرف چند ارب فراہم کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان شروع سے ہی 18 ویں ترمیم ایک نزع کی صورت بنی ہوئی ہے۔ اس ترمیم کی آڑ میں پیپلز پارٹی وفاق سے ملنے والے فنڈز کو اپنی مرضی کے تحت استعمال کرتی ہے۔ کراچی کو اس کا جائز حصہ نہ ملنے کی وجہ سے شہر کے ترقیاتی کام رکے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ ملنے والے فنڈز کو صوبے کے ہر شہر کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرتی ہے اگر یہی صورت حال ہے تو پھر سندھ کے دیگر شہروں کے ترقیاتی کام کیوں انجام نہیں پا رہے ہیں۔
مصطفیٰ کمال نے اس جلسے میں کہا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کو بھی لاڑکانہ بنا دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لاڑکانہ کے شہری بھی اپنے شہر کے مسائل سے پریشان ہیں۔ وہاں کی سڑکوں کا جو حال ہے اس پر کچھ دن قبل سندھ ہائی کورٹ کے ایک معزز جج بھی آواز اٹھا چکے ہیں۔ یہ صورت حال خود پیپلز پارٹی کے لیے نقصان دہ ہے اسے سندھ کے تمام شہروں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے اور وہاں کے ترقیاتی کاموں کو احسن طریقے سے انجام دینے کا بندوبست کرنا چاہیے۔
اب چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں قومی کے ساتھ ہی صوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی منعقد ہونے والے ہیں۔ انتخابات میں ہر پارٹی کو عوام جانچتے ہیں اور پھر اپنا اطمینان کرکے ووٹ دیتے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس لحاظ سے پیپلز پارٹی ضرور عوامی سوالوں کی زد میں ہے۔ جہاں تک کراچی کا معاملہ ہے یہاں ہر گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم ہی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی رہی ہے۔ اس نے حسن کمال سے کراچی کی 70 لاکھ سے زیادہ کھوئی ہوئی آبادی کو بازیاب کراکے اہل کراچی پر بڑا احسان کیا ہے۔
فاروق ستار نے اس جلسے میں یہی بات کہی ہے کہ ان کی پارٹی نے کراچی کے 70 لاکھ عوام کو بازیاب کراکے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ کراچی میں پچھلے عام انتخابات میں واضح طور پر دھاندلی کی گئی اور ایک مخصوص پارٹی کو جتانے کے لیے نتائج کو بدلا گیا۔ اب اس دفعہ کراچی کی تمام کراچی سے محبت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو چوکنا رہنا ہوگا تاکہ پھر پچھلی تاریخ نہ دہرائی جاسکے۔