ڈیل سے ڈھیل تک

میاں صاحب ایک ڈیل کے ذریعے جیل سے سیدھے لندن چلے گئے اور اب ڈیل کرکے وطن لوٹ آئے ہیں

mjgoher@yahoo.com

حضرت عمر بن عبدالعزیز بنو امیہ کے خلیفہ گزرے ہیں، یہ عبدالعزیز کے بیٹے اور مروان کے پوتے تھے۔ ان کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے، ایک دن ان کے دربار میں کسی عقل مند درباری نے کہا کہ ''جس مظلوم کو بادشاہ سے انصاف نہ ملے اسے خدا انصاف دلاتا ہے۔''

حقیقت یوں ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں ایک بار قحط سالی کا دور آیا تو لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ ایک خرد مند درباری نے نصیحت کی کہ قحط سالی کے دوران بادشاہ کو چاہیے کہ اپنے مال و دولت کے تمام دروازے عوام الناس پر کھول دے تاکہ عوام بھوک سے نہ مریں۔ بادشاہ کی انگوٹھی میں ایک نہایت قیمتی ہیرا جڑا تھا۔

قحط کے باعث لوگ بھوک سے مرنے لگے تو حضرت عمر بن عبدالعزیز سے اپنی رعایا کی حالت زار دیکھی نہ گئی، ان کا دل بھر آیا انھوں نے اپنی انگوٹھی کا قیمتی ہیرا فروخت کردیا اور ساری رقم غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں میں تقسیم کردی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ ''اگر بادشاہ شہریوں کے دل زخمی کرکے کوئی پوشاک خریدتا ہے تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، جو ذاتی آرام پر دوسروں کے آرام و سکون کو ترجیح دیتا ہے وہی مبارک باد کا مستحق ہے۔ مخلوق خدا کے دل غمگین ہونے کے بجائے مجھے بے نگینہ انگوٹھی بہت بہتر ہے۔''

حضرت شیخ سعدیؒ کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں حاکم وقت پر اپنی رعایا کی خبر گیری، داد رسی اور انھیں ضروریات زندگی کی فراہمی کے حوالے سے بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کا مشہور قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی مرے گا تو مجھے بحیثیت حاکم اس کا جواب دینا پڑے گا۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ارباب اختیار، اہل اقتدار اور اہل سیاست کو مذکورہ زمینی حقیقت کا علم ہے؟ کیا انھیں اپنے غریب، پسماندہ اور مفلوک الحال طبقے کی مشکلات و مسائل کا کماحقہ ادراک ہے؟ کیا ایوان صدر سے لے کر ایوان تجارت تک ہر جگہ تشریف فرما صاحبانِ بصیرت نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ملک کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کوئی ٹھوس، جامع، قابل عمل منصوبہ بندی کی؟

افسوس کہ ایسے تمام سوالوں کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔ ایسا کیوں؟ اس لیے کہ ہماری قوم ایک ایسے ماضی کی وارث ہے جس کے اکابرین نے اسے وراثت میں صرف رومانوی نعرے اور پرجوش تقریریں دی ہیں۔ یہ وہ بدنصیب قوم ہے جو اپنے نااہل حکمرانوں اور عاقبت نااندیش سیاستدانوں کے غیر سنجیدہ، غیر جمہوری، کلی خام اور جزوقتی فیصلوں، بودے اقدامات، ناقص منصوبہ بندی اور غیر سطحی پالیسیوں کے نتیجے میں سات دہائیوں سے برباد ہوتی جا رہی ہے۔


ترقی و خوشحالی کا سفر رک چکا ہے، یہ حرماں نصیب قوم جذباتی خوش فہمیوں کی غذا کھاتے کھاتے حقیقت پسندی کا مزاج ہی کھو بیٹھی ہے۔ یہ وہ حرماں نصیب قوم ہے جو اپنے نام نہاد آقاؤں، دو نمبر رہبروں اور جعلی رہنماؤں کی آپسی چپقلش، ریشہ دوانیوں اور منتقمانہ طرز عمل کی وجہ سے عوام کی حقیقی خدمت، جمہوری اقدار کی پاسداری، اداروں کے استحکام، پارلیمنٹ کی بالادستی، آئین کی پاسداری، قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کی فراہمی سمیت قومی زندگی کے جملہ شعبوں میں دنیا کی دیگر اقوام سے بہت پیچھے رہ گئی ہے، جو مطالباتی مہم جوئی اور انتخابی سیاسی کرتب بازیوں میں یہ زمینی حقیقت بھول گئی ہے کہ مانگنے سے پہلے خود کو منوانے کی طاقت پیدا کرنا پڑتی ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ صرف چمکیلے الفاظ کی گھن گرج سے عمل کی فصل نہیں کاٹی جاسکتی۔ غور کیجیے کہ جب قدرت کو ایک درخت لگانا ہوتا ہے تو وہ بیج سے اپنا عمل شروع کرتی ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے انسان کے لیے خاموش پیغام ہے کہ بیج سے چل کر کوئی بھی شخص درخت تک پہنچ سکتا ہے، مگر کوئی فرد اگر درخت سے چل کر درخت تک پہنچنا چاہے تو اسے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ایسا ناقابل یقین واقعہ اس روئے زمین پر کبھی نہیں ہو سکتا۔ ایسی غیر حقیقت پسندانہ سوچ کی حامل قوم کی اگلی نسلیں کبھی بھی کامیابی کا سفر شروع نہیں کرسکتیں۔

اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے لوگ حکمران رہے جو بیج سے درخت بننے تک کے سفر کا ہنر نہیں جانتے ہیں۔ وہ درخت سے درخت پر چھلانگیں لگانے میں مشاق ہیں۔ انھوں نے عوامی خدمت سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ذاتی، جماعتی، خاندانی اور اپنے انفرادی مفادات کی سیاست کی ہے۔ آپ گزشتہ تین دہائیوں کی سیاست کو دیکھ لیجیے ملک پر دو خاندان حکمران رہے ہیں بھٹو خاندان سے شریف خاندان تک کے ادوار میں ملک آج اس حالت کو پہنچ گیا کہ اس کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔

قرضوں کا بار گراں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے، معیشت پاتال میں جا رہی ہے، آئی ایم ایف کا شکنجہ ہر گزرنیوالے دن کے ساتھ تنگ ہوتا جا رہا ہے، تیس فی صد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں روز بہ روز بڑھ رہی ہیں۔ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہے اور بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

ایسے دگرگوں حالات میں ایک حکمران کا تجربہ ناکام کرانے کے بعد دوبارہ عنان حکومت شریف خاندان کے ہاتھوں میں تھمانے کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں۔ کہا گیا کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا لیکن اس ملک کا المیہ اور اس قوم کی بدنصیبی کہ اسے ایک سوراخ سے اب چوتھی بار ڈسنے کی تیاریاں بڑے اہتمام کے ساتھ ہو رہی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب ایک ڈیل کے ذریعے جیل سے سیدھے لندن چلے گئے اور اب ڈیل کرکے وطن لوٹ آئے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہوا میں تحلیل ہو گیا، چار گریبانوں کو پکڑنے کی گھن گرج ایک گھٹنا پکڑ کر بیٹھ گئی۔ پیپلز پارٹی سے لے کر پی ٹی آئی تک سب الیکشن میں مساوی مواقعوں کی فراہمی کا رونا رو رہے ہیں لیکن جو کچھ منظرنامہ بن رہا ہے اور راہیں ہموار کی جا رہی ہیں وہ سب ڈھیل کا نتیجہ ہیں۔
Load Next Story