غزہ معصوم فلسطینی بچوں کا مقتل
نو ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں سے نصف بچے ہیں، تقریباً دو لاکھ مکانات تباہ ہوئے
میڈیا اطلاعات کے مطابق غزہ پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں میں مزید شدت آگئی ہے، غزہ میں قائم اقوام متحدہ کا اسکول بھی نشانہ بنا جہاں ہزاروں بے گھر فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی تھی، سات اکتوبر سے لے کر اب تک ساڑھے 9 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جنگی جرائم جاری ہیں۔ نو ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں سے نصف بچے ہیں، تقریباً دو لاکھ مکانات تباہ ہوئے۔ غزہ کے رہائشی علاقوں کے بڑے حصے بالخصوص اس کے شمالی حصے مٹی کے ڈھیر میں بدل چکے ہیں۔
غاصب اسرائیل معصوم لوگوں کو اپنے تباہ کن ہتھیاروں سے نشانہ بناتا ہے جن میں ایک ٹن وزنی بم سے لے کر فاسفورس بم تک شامل ہیں۔ پانی، بجلی، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون منقطع ہیں۔ اشیائے خورونوش کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔ ادویات ختم ہو رہی ہیں، اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کو تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا ہے۔
ان وحشت ناک جرائم نے بین الاقوامی سطح پر عوامی غم و غصہ کو ہوا دی ہے۔ لندن، نیویارک، پیرس اور دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں زبردست مظاہرے کیے گئے ہیں۔ مظاہروں کا دائرہ امریکی کانگریس کی عمارت اور کینیڈا میں حکومتی مراکز تک پھیل گیا ہے۔ دنیا بھر میں مشرق اور مغرب کے بہت سے سیاست دانوں نے ان جرائم کی مذمت کی ہے۔
ہسپانوی کابینہ کے وزیر اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ بولیویا نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرلیے ہیں۔ دیگر ممالک جیسے چلی اور کولمبیا نے اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے، لیکن اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والے اسلامی ممالک نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ صرف اردن اور ترکیہ نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلائے ہیں۔
صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینی علاقوں خصوصاً غزہ پر مسلسل وحشیانہ بم باری بھی فلسطینی بہادر بچوں کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مسلسل بمباری کے نتیجے میں فلسطینی شہدا کی تعداد زیادہ تر بچوں اور خواتین پر مشتمل ہے جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ پہلے سے محصور پٹی کا دنیا سے رابطہ منقطع کردیا گیا ہے۔
یہ قیامت برپا کیے جانے کے باوجود بھی غزہ کے بچے بلند حوصلے کے ساتھ اپنی سرزمین چھوڑکر جانے پر تیار نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قابض فوج کے حملوں میں ہر 7 منٹ کی شرح سے ایک فلسطینی بچہ مارا جاتا ہے، جوکہ جدید تاریخ میں بد ترین خونریزی ہے۔
جبالیہ کیمپ پر حملے کے بعد بچوں کا المیہ مزید کربناک ہوگیا ہے۔ پوری دنیا میں گزشتہ برسوں میں بچوں کی غزہ جتنی اموات کہیں بھی نہیں ہوئیں۔ بچے گہرے زخموں کے ساتھ جلے ہوئے اسپتال پہنچ رہے ہیں۔ والدین کے بغیر، رو روکر اذیت کے ساتھ والدین کو پکار رہے ہیں۔ خوبصورت، معصوم، سہمے پھول جیسے چہرے جو دھوئیں، جلنے کے زخموں اور ملبوں کی دھول سے مٹیالے ہوچکے۔
زندہ بچوں کے بازؤں پر والدین ان کے نام لکھ رہے ہیں، تاکہ لاشیں پہچاننے میں دِقت نہ ہو! ملبے تلے دبے، جھانکتا ننھا سا پاؤں، پھول سا بے بس ہاتھ ! اسٹریچر پر سسکتے، دھماکے کے بعد لرزتے خوف اور زخموں کی تکلیف سے۔ وہ خاندان جو سب ساتھ ساتھ سوتے ہیں کہ مریں تو اکٹھے اور وہ بھی جو دور دور سوتے ہیں کہ کوئی تو بمباری میں بچ جائے! یہ ہے حقیقی چہرہ۔
غزہ کی پٹی پر صیہونی جارحیت کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی جنگی مشین نے مختلف قسم کے ہتھیاروں اور تباہ کن پروجیکٹائلوں کا استعمال بند نہیں کیا ہے جو شہریوں اور ان کی رہائشی برادریوں کے خلاف خطرناک اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دی جاتی ہے۔
تین فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ انھیں قابض افواج کی جانب سے کئی محلوں میں رہائشی کمیونٹیز کے خلاف سفید فاسفورس کے استعمال کے بارے میں بارہا شہادتیں موصول ہوئی ہیں۔ سفید فاسفورس ایک آتش گیرکیمیائی مادہ ہے جو جلد کو چھونے کے ساتھ ہی دوسرے اور تیسرے درجے کے کیمیائی جلنے کا سبب بنتا ہے۔
اس سے شہریوں کی زندگیوں کو بھی شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے،کیونکہ یہ جلد کے ساتھ رابطے میں آنے یا سانس لینے یا نگلنے یا سنگین چوٹوں اور ممکنہ طور پر موت کا باعث بنتا ہے۔ انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے ہلاکتیں بہت شدید جلنے اور زخموں کے باعث ہوئیں، اورکچھ طبی ٹیموں نے خدشہ ظاہرکیا کہ قابض افواج سفید فاسفورس پروجیکٹائل کا استعمال کریں گی۔
اس کے علاوہ نئے پروجیکٹائل جو پہلے کبھی استعمال نہیں کیے گئے تھے وہ بھی استعمال کیے جا رہے ہیں جو زیادہ نقصان دہ ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ آبادی والے اور گنجان شہری علاقوں میں سفید فاسفورس کے استعمال کے بہت خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا اس کا استعمال امتیازی اصولوں سے متعلق بین الاقوامی روایتی قواعد کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل پوری ڈھٹائی سے امریکا یورپ کے بل بوتے پر انسانیت کے خلاف بد ترین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ 1948میں اپنے گھر بار سے اکھاڑ پھینکے گئے فلسطینیوں کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ جبالیہ بدترین بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہر آنے والے دن پر دنیا چلا اٹھتی ہے اور اس سے اگلا دن مزید ہولناکیاں ہمراہ لیے طلوع ہوتا ہے۔ یو این ریلیف کے چیف نے کہا '' میں نے غزہ جیسے مناظر دنیا کے مختلف تنازعات میں بھی کبھی کہیں نہیں دیکھے۔'' یوں بھی یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سوشل میڈیا اور دنیا میں مواصلاتی رابطوں کے تمام تر ذرایع اسرائیل اور امریکا کا بدنما چہرہ لمحہ لمحہ دکھا کر، دنیا کے سامنے انھیں عیاں کیے دے رہے ہیں۔ ورنہ یہ عین اسرائیل کے 75سالہ ریکارڈ کے مطابق ہے۔
نیا کچھ بھی نہیں! دیر یاسین کا قتلِ عام جس میں فلسطین کی سرزمین پر 9 اپریل 1948میں پورے پورے خاندانوں کو قتل کر کے زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔ مسلم عورتوں، لڑکیوں کے برہنہ جلوس نکال کر باقی فلسطینیوں کو خوفزدہ کیا کہ تمہارا بھی یہی حشر ہوگا نکل جاؤ! قاتل جتھوں کے سرغنہ مناہم بیگن اور شمیر تھے۔
بعدازاں دونوں اسرائیلی وزیراعظم بنے۔ دوسرا قاتل جتھا بن گوریان کا تھا جو اسرائیل کا پہلا وزیراعظم بنا۔ ایریل شیرون، صابرہ شتیلا فلسطینی مہاجر کیمپوں پر قتلِ عام برسانے والا قصاب بھی وزیراعظم بنا۔ سو یہ پانچواں خون آشام درندہ ہے جو، بائیڈن اور بلنکن کی شہ پر دندنا رہا ہے۔ دنیا احتجاج کے آوازے ضرور بلند کررہی ہے، مگر یہ بلائیں اندھی، بہری ہیں، پوری تاریخ کے بدترین مناظر یکجا کرنے والی۔ پوری دنیا مل کر بھی اسرائیل کی جنگ بندی کو لگام نہ دے سکی۔
نیتن یاہو امریکا کی معروفMIT سے ایم بی اے ہے۔ ایریل شیرون قانون کا ڈگری یافتہ، روسی مہاجر تھا۔ بن گوریان پہلا وزیراعظم، پولینڈ کا یہودی خاندان جو دیر یاسین برپا کر کے وزارت عظمیٰ کا اہل ٹھہرا۔ بریٹینکا کے مطابق آکسفورڈ یونین کا صدر بھی رہا۔
سو یہ اعلیٰ تہذیب، مغربی تعلیم کے شاندار شاہکار بائیڈن، بلنکن، یاہو، فرانس، جرمنی، اٹلی، کینیڈا، برطانیہ کے ہوں، کیسے وحشی بن چکے ہیں۔ اس وقت دنیا سیزفائر کے لیے چلا رہی ہے، یہ ایسا ہر منہ بند کرنا چاہتے ہیں جو جنگ بندی کی بات کرے۔ دوسری طرف امریکا میں یہ بھیانک کردار اپنے نوجوانوں کے ہاتھوں ذلت اٹھا رہے ہیں۔ پورے امریکا میں جابجا احتجاج جاری ہیں۔
ادھر بولیویا نے ان مظالم پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ غزہ کو امداد دینے کا اعلان اور حملے بند کردینے کا سختی سے مطالبہ کیا۔ کولمبیا اور چلی نے بھی اپنے سفیر واپس بلا لیے۔ میکسیکو اور برازیل نے بھی جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
امریکی صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ غزہ میں اموات کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے اصلاً اس سے کم ہے! مگر ہمارا شک یہ ہے کہ یہ تعداد لاشوں کے ڈھیروں کی گنتی ہے۔ بے شمار رہائشی عمارات کے ملبوں میں پیوندِ خاک ہونے والے خاک نشینوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ گنجان ترین علاقے میں مہینہ بھر بم برسا ئے کیسے مانیں کہ دس ہزار شہداء کی تعداد ہے؟
ایسے وقت میں جب صیہونی حکومت کے جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں ، تو کیا اسلامی ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیں اور اس ملک سے اپنے تعلقات منقطع کر لیں یا کم از کم دھمکی دیں کہ اگر اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملے اور عام شہریوں اور فلسطینی بچوں کا قتل عام جاری رہا تو وہ اس حکومت سے اپنے تعلقات منقطع کر لیں گے۔
اسرائیل کے لیے علاقائی ممالک کی اہمیت کے پیش نظر یہ خطرہ اسرائیل پر شدید دباؤ ڈال سکتا ہے اور غزہ کے معصوم لوگوں کی حقیقی مدد کر سکتا ہے۔ ان اقدامات سے غزہ کے بہت سے مسلمانوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں اور بچوں اور عورتوں کے بے دریغ قتل کو روکا جا سکتا ہے۔ اس لیے تمام مسلم اقوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی حکومتوں کو مخاطب کریں اور ان سے کہیں کہ وہ تماشائی بننا چھوڑ دیں اور مظلوم فلسطینیوں کی جان بچانے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جنگی جرائم جاری ہیں۔ نو ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں سے نصف بچے ہیں، تقریباً دو لاکھ مکانات تباہ ہوئے۔ غزہ کے رہائشی علاقوں کے بڑے حصے بالخصوص اس کے شمالی حصے مٹی کے ڈھیر میں بدل چکے ہیں۔
غاصب اسرائیل معصوم لوگوں کو اپنے تباہ کن ہتھیاروں سے نشانہ بناتا ہے جن میں ایک ٹن وزنی بم سے لے کر فاسفورس بم تک شامل ہیں۔ پانی، بجلی، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون منقطع ہیں۔ اشیائے خورونوش کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔ ادویات ختم ہو رہی ہیں، اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کو تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا ہے۔
ان وحشت ناک جرائم نے بین الاقوامی سطح پر عوامی غم و غصہ کو ہوا دی ہے۔ لندن، نیویارک، پیرس اور دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں زبردست مظاہرے کیے گئے ہیں۔ مظاہروں کا دائرہ امریکی کانگریس کی عمارت اور کینیڈا میں حکومتی مراکز تک پھیل گیا ہے۔ دنیا بھر میں مشرق اور مغرب کے بہت سے سیاست دانوں نے ان جرائم کی مذمت کی ہے۔
ہسپانوی کابینہ کے وزیر اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ بولیویا نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرلیے ہیں۔ دیگر ممالک جیسے چلی اور کولمبیا نے اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے، لیکن اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والے اسلامی ممالک نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ صرف اردن اور ترکیہ نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلائے ہیں۔
صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینی علاقوں خصوصاً غزہ پر مسلسل وحشیانہ بم باری بھی فلسطینی بہادر بچوں کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مسلسل بمباری کے نتیجے میں فلسطینی شہدا کی تعداد زیادہ تر بچوں اور خواتین پر مشتمل ہے جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ پہلے سے محصور پٹی کا دنیا سے رابطہ منقطع کردیا گیا ہے۔
یہ قیامت برپا کیے جانے کے باوجود بھی غزہ کے بچے بلند حوصلے کے ساتھ اپنی سرزمین چھوڑکر جانے پر تیار نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قابض فوج کے حملوں میں ہر 7 منٹ کی شرح سے ایک فلسطینی بچہ مارا جاتا ہے، جوکہ جدید تاریخ میں بد ترین خونریزی ہے۔
جبالیہ کیمپ پر حملے کے بعد بچوں کا المیہ مزید کربناک ہوگیا ہے۔ پوری دنیا میں گزشتہ برسوں میں بچوں کی غزہ جتنی اموات کہیں بھی نہیں ہوئیں۔ بچے گہرے زخموں کے ساتھ جلے ہوئے اسپتال پہنچ رہے ہیں۔ والدین کے بغیر، رو روکر اذیت کے ساتھ والدین کو پکار رہے ہیں۔ خوبصورت، معصوم، سہمے پھول جیسے چہرے جو دھوئیں، جلنے کے زخموں اور ملبوں کی دھول سے مٹیالے ہوچکے۔
زندہ بچوں کے بازؤں پر والدین ان کے نام لکھ رہے ہیں، تاکہ لاشیں پہچاننے میں دِقت نہ ہو! ملبے تلے دبے، جھانکتا ننھا سا پاؤں، پھول سا بے بس ہاتھ ! اسٹریچر پر سسکتے، دھماکے کے بعد لرزتے خوف اور زخموں کی تکلیف سے۔ وہ خاندان جو سب ساتھ ساتھ سوتے ہیں کہ مریں تو اکٹھے اور وہ بھی جو دور دور سوتے ہیں کہ کوئی تو بمباری میں بچ جائے! یہ ہے حقیقی چہرہ۔
غزہ کی پٹی پر صیہونی جارحیت کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی جنگی مشین نے مختلف قسم کے ہتھیاروں اور تباہ کن پروجیکٹائلوں کا استعمال بند نہیں کیا ہے جو شہریوں اور ان کی رہائشی برادریوں کے خلاف خطرناک اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دی جاتی ہے۔
تین فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ انھیں قابض افواج کی جانب سے کئی محلوں میں رہائشی کمیونٹیز کے خلاف سفید فاسفورس کے استعمال کے بارے میں بارہا شہادتیں موصول ہوئی ہیں۔ سفید فاسفورس ایک آتش گیرکیمیائی مادہ ہے جو جلد کو چھونے کے ساتھ ہی دوسرے اور تیسرے درجے کے کیمیائی جلنے کا سبب بنتا ہے۔
اس سے شہریوں کی زندگیوں کو بھی شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے،کیونکہ یہ جلد کے ساتھ رابطے میں آنے یا سانس لینے یا نگلنے یا سنگین چوٹوں اور ممکنہ طور پر موت کا باعث بنتا ہے۔ انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے ہلاکتیں بہت شدید جلنے اور زخموں کے باعث ہوئیں، اورکچھ طبی ٹیموں نے خدشہ ظاہرکیا کہ قابض افواج سفید فاسفورس پروجیکٹائل کا استعمال کریں گی۔
اس کے علاوہ نئے پروجیکٹائل جو پہلے کبھی استعمال نہیں کیے گئے تھے وہ بھی استعمال کیے جا رہے ہیں جو زیادہ نقصان دہ ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ آبادی والے اور گنجان شہری علاقوں میں سفید فاسفورس کے استعمال کے بہت خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا اس کا استعمال امتیازی اصولوں سے متعلق بین الاقوامی روایتی قواعد کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل پوری ڈھٹائی سے امریکا یورپ کے بل بوتے پر انسانیت کے خلاف بد ترین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ 1948میں اپنے گھر بار سے اکھاڑ پھینکے گئے فلسطینیوں کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ جبالیہ بدترین بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہر آنے والے دن پر دنیا چلا اٹھتی ہے اور اس سے اگلا دن مزید ہولناکیاں ہمراہ لیے طلوع ہوتا ہے۔ یو این ریلیف کے چیف نے کہا '' میں نے غزہ جیسے مناظر دنیا کے مختلف تنازعات میں بھی کبھی کہیں نہیں دیکھے۔'' یوں بھی یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سوشل میڈیا اور دنیا میں مواصلاتی رابطوں کے تمام تر ذرایع اسرائیل اور امریکا کا بدنما چہرہ لمحہ لمحہ دکھا کر، دنیا کے سامنے انھیں عیاں کیے دے رہے ہیں۔ ورنہ یہ عین اسرائیل کے 75سالہ ریکارڈ کے مطابق ہے۔
نیا کچھ بھی نہیں! دیر یاسین کا قتلِ عام جس میں فلسطین کی سرزمین پر 9 اپریل 1948میں پورے پورے خاندانوں کو قتل کر کے زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔ مسلم عورتوں، لڑکیوں کے برہنہ جلوس نکال کر باقی فلسطینیوں کو خوفزدہ کیا کہ تمہارا بھی یہی حشر ہوگا نکل جاؤ! قاتل جتھوں کے سرغنہ مناہم بیگن اور شمیر تھے۔
بعدازاں دونوں اسرائیلی وزیراعظم بنے۔ دوسرا قاتل جتھا بن گوریان کا تھا جو اسرائیل کا پہلا وزیراعظم بنا۔ ایریل شیرون، صابرہ شتیلا فلسطینی مہاجر کیمپوں پر قتلِ عام برسانے والا قصاب بھی وزیراعظم بنا۔ سو یہ پانچواں خون آشام درندہ ہے جو، بائیڈن اور بلنکن کی شہ پر دندنا رہا ہے۔ دنیا احتجاج کے آوازے ضرور بلند کررہی ہے، مگر یہ بلائیں اندھی، بہری ہیں، پوری تاریخ کے بدترین مناظر یکجا کرنے والی۔ پوری دنیا مل کر بھی اسرائیل کی جنگ بندی کو لگام نہ دے سکی۔
نیتن یاہو امریکا کی معروفMIT سے ایم بی اے ہے۔ ایریل شیرون قانون کا ڈگری یافتہ، روسی مہاجر تھا۔ بن گوریان پہلا وزیراعظم، پولینڈ کا یہودی خاندان جو دیر یاسین برپا کر کے وزارت عظمیٰ کا اہل ٹھہرا۔ بریٹینکا کے مطابق آکسفورڈ یونین کا صدر بھی رہا۔
سو یہ اعلیٰ تہذیب، مغربی تعلیم کے شاندار شاہکار بائیڈن، بلنکن، یاہو، فرانس، جرمنی، اٹلی، کینیڈا، برطانیہ کے ہوں، کیسے وحشی بن چکے ہیں۔ اس وقت دنیا سیزفائر کے لیے چلا رہی ہے، یہ ایسا ہر منہ بند کرنا چاہتے ہیں جو جنگ بندی کی بات کرے۔ دوسری طرف امریکا میں یہ بھیانک کردار اپنے نوجوانوں کے ہاتھوں ذلت اٹھا رہے ہیں۔ پورے امریکا میں جابجا احتجاج جاری ہیں۔
ادھر بولیویا نے ان مظالم پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ غزہ کو امداد دینے کا اعلان اور حملے بند کردینے کا سختی سے مطالبہ کیا۔ کولمبیا اور چلی نے بھی اپنے سفیر واپس بلا لیے۔ میکسیکو اور برازیل نے بھی جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
امریکی صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ غزہ میں اموات کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے اصلاً اس سے کم ہے! مگر ہمارا شک یہ ہے کہ یہ تعداد لاشوں کے ڈھیروں کی گنتی ہے۔ بے شمار رہائشی عمارات کے ملبوں میں پیوندِ خاک ہونے والے خاک نشینوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ گنجان ترین علاقے میں مہینہ بھر بم برسا ئے کیسے مانیں کہ دس ہزار شہداء کی تعداد ہے؟
ایسے وقت میں جب صیہونی حکومت کے جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں ، تو کیا اسلامی ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیں اور اس ملک سے اپنے تعلقات منقطع کر لیں یا کم از کم دھمکی دیں کہ اگر اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملے اور عام شہریوں اور فلسطینی بچوں کا قتل عام جاری رہا تو وہ اس حکومت سے اپنے تعلقات منقطع کر لیں گے۔
اسرائیل کے لیے علاقائی ممالک کی اہمیت کے پیش نظر یہ خطرہ اسرائیل پر شدید دباؤ ڈال سکتا ہے اور غزہ کے معصوم لوگوں کی حقیقی مدد کر سکتا ہے۔ ان اقدامات سے غزہ کے بہت سے مسلمانوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں اور بچوں اور عورتوں کے بے دریغ قتل کو روکا جا سکتا ہے۔ اس لیے تمام مسلم اقوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی حکومتوں کو مخاطب کریں اور ان سے کہیں کہ وہ تماشائی بننا چھوڑ دیں اور مظلوم فلسطینیوں کی جان بچانے کے لیے موثر اقدامات کریں۔