مہنگے شہر کا واحد عوامی ریلیف
راولپنڈی میں مہنگائی بہت زیادہ ہے جب کہ کراچی سستا شہر ہے
2007تک ملک میں صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور 2008 کے انتخابات میں عوامی دور کی دعویدار پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی جس کے ادوار کو عوامی ، روزگار اور پیسے کی ریل پیل کی حکومت سمجھا جاتا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور تک ملک میں خوشحالی، روزگار اور پیسہ بھی تھا۔ جدید ٹیکنالوجی کو اہمیت ملی اور مہنگے موبائل فون عام ہوئے۔ ملک بھر میں موبائل فونز کی نئی دکانیں کھلیں، روزگار بڑھا اور موبائل فون عام ہوئے۔ اس وقت ملک میں اتنی مہنگائی نہیں تھی بلکہ لوگوں کا گزارا ہو جاتا تھا اور مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث لوگ اتنے پریشان تھے نہ میڈیا میں لوگوں کی خودکشیوں کی خبریں آتی تھیں۔
2007 تک ملک میں پرویز مشرف کی صدارت میں جمہوری حکومت قائم تھی اور میڈیا کو بھی آج سے زیادہ آزادی حاصل تھی جس کا اعتراف سینئر صحافیوں نے بھی کیا تھا۔ 2008میں ملک میں پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مل کر اتحادی حکومت بنائی جو زیادہ نہ چل سکی۔
عدلیہ بحال ہوئی جس کے چیف جسٹس نے پی پی حکومت چلنے نہ دی۔ اس کا وزیر اعظم برطرف کیا جس پر نواز شریف خوش تھے اور انھیں توقع نہیں تھی کہ ان کی تحریک اور پی پی حکومت سے نکلنے کے بعد جو عدلیہ بحال ہوگی وہ ان کے ذاتی مخالف ثاقب نثار کے چیف جسٹس بننے کے بعد ان کے ساتھ بھی وہی رویہ اختیار کریں گے جو افتخار محمد چوہدری نے یوسف رضاگیلانی کے ساتھ کیا تھا۔
جنرل مشرف کے مستعفی ہونے، پی پی حکومت سے (ن) لیگ کے نکلنے کے بعد صدر آصف زرداری نے نئے اتحادی ڈھونڈ لیے اور 2013 تک اپنی حکومت کی مدت پوری کرا لی مگر یہ کریڈٹ جنرل پرویز کو حاصل رہے گا کہ ان کی صدارت میں قومی اسمبلی نے پہلی بار اپنی مدت پوری کی تھی۔ پی پی کی عوامی حکومت 5 سالوں میں عوام کو وہ ریلیف دینے میں ناکام رہی جس کی عوام کو توقع تھی۔
2013 میں مسلم لیگ کی حکومت بنی اور میاں نواز شریف کو تیسری بار وزارت عظمیٰ ملی ۔ وہ مہنگائی بے روزگاری کے بجائے موٹر وے اور سڑکوں کے ذریعے ملکی ترقی پر یقین رکھتے تھے۔
ان کی حکومت میں لاہور کے بعد راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو بسیں چلیں، کراچی میں آغاز ہوا۔ پی ٹی آئی قیادت میٹرو سروس پر تنقید کرتی تھی مگر اس کی کے پی حکومت پشاور میں میٹرو بنانے پر مجبور ہوئی مگر راولپنڈی، اسلام آباد کے درمیان چلنے والی میٹرو سروس جتنی کامیاب ہے وہ دیگر شہروں میں نہیں۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان چلنے والی میٹرو سروس ملک کی واحد میٹرو سروس ہے جو راولپنڈی صدر سے اسلام آباد سیکریٹریٹ تک چلتی ہے جن کے درمیان 24 بس اسٹیشن ہیں مگر کرایہ اب بھی صرف تیس روپے ہے اور عوامی سہولت اور وقت بچانے کے لیے میٹرو ایکسپریس سروس بھی چلائی گئی جس کے اسٹاپ کم مگر اے سی بسوں کا کرایہ سالوں سے 30 روپے ہے جو نہیں بڑھا جب کہ دیگر شہروں میں کرائے 50 روپے تک ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو سروس ملک کے عوام کے لیے ملک کا واحد ریلیف ہے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان چلنے والی میٹرو سروس کامیاب ترین سروس ہے جس کی ہر ایک بس میں صبح سے شام تک روزانہ ہزاروں مسافر سفر کرتے ہیں، ہر بس میں سیٹوں پر بیٹھے مسافروں سے زیادہ مسافر کھڑے ہو کر سفر کرتے ہیں اور صبح سے شام تک صدر اور سیکریٹریٹ سے چلنے والی ہر بس مکمل بھر جاتی ہے البتہ رات کو تعداد کم ہو جاتی ہے مگر نشستیں خالی نہیں ملتیں۔
میٹرو سروس سے قبل راولپنڈی اور اسلام آباد آنے والوں کا سفر مہنگا اور بدترین ہوتا تھا انھیں ویگن میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھرا جاتا تھا کیونکہ مسافر زیادہ اور ویگنیں کم تھیں۔ بسیں بھی کم چلتی تھیں۔ اسلام آباد میں رکشوں کا داخلہ ممنوع تھا ٹیکسیوں میں ملک بھر کی طرح میٹر ہوتے ہی نہیں تھے اور مسافروں کو منہ مانگے کرائے دے کر سفر کرنا پڑتا تھا، جو لوگ ٹیکسی کا کرایہ نہیں دے سکتے تھے انھیں ویگنوں میں ذلت آمیز سفر کرنا پڑتا تھا۔
کئی سال سے میٹرو روٹ پر بسیں چلنے کے باعث بعض جگہ سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جہاں سے بسوں کے گزرنے پر اچھے خاصے جھٹکے لگ رہے ہیں۔ بعض جگہ رفتار کم کرنا پڑتی ہے شاید ٹرانسپورٹ اتھارٹی سڑکوں کی مزید تباہی کی منتظر ہے۔
اکثر بس اسٹیشنوں پر آنے والے راستوں پر لگے ٹائل بھی ٹوٹ گئے ہیں جنھیں تبدیل نہیں کیا جا رہا۔ ہر اسٹیشن پر پانی کے کولر نصب اور وافر مقدار میں مسافروں کے لیے بینچیں لگائی گئی ہیں مگر مسافروں کو انتظار کی زحمت چند منٹوں کی ہوتی ہے اور میٹرو بس جڑواں شہروں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں اور کرایہ بہت مناسب ہے۔
اسلام آباد ملک کا دارالحکومت ہے جہاں اپنے کاموں کے لیے ملک بھر سے لوگ آتے ہیں جہاں کے رہائشی زیادہ تر سرکاری ملازمین ہیں اور خبر کے مطابق اسلام آباد میں نوے ہزار کے قریب سرکاری گاڑیاں افسروں کو میسر ہیں۔
عام لوگ اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں رہائش اور خوراک کے اخراجات برداشت نہیں کرپاتے اور راولپنڈی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر یہ جڑواں شہر بھی انتہائی مہنگا ہے جس کی وجہ گھروں اور دکانوں کی مہنگی قیمت اور کرائے ہیں۔ فوارہ چوک کے قریب تمام ہی ہول سیل مارکیٹیں موجود ہیں جہاں رات گئے تک رش رہتا ہے مگر شہر میں دکانیں صبح جلد کھل جاتی ہیں کراچی جیسی صورت حال نہیں ہے۔
راولپنڈی میں مہنگائی بہت زیادہ ہے جب کہ کراچی سستا شہر ہے۔ کراچی میں کھانے کے ہوٹل راولپنڈی سے کہیں سستے ہیں۔ کراچی میں جو پراٹھا اور چائے 40 روپے میں مل جاتی ہے وہ راولپنڈی کے عام ہوٹلوں میں 60 روپے میں ملتاہے۔
اندرون شہر پبلک ٹرانسپورٹ بھی مہنگی ہے کراچی کی طرح رکشوں اور چنگچیوں کی بھرمار ہے جن کے کرایوں کے مقابلے میں بے روزگار نوجوان اپنی بائیکیا چلا رہے ہیں جو نسبتاً سستے پڑتے ہیں۔ انتہائی مہنگے جڑواں شہروں میں ملک کا واحد ریلیف جڑواں شہروں میں چلنے والی واحد پبلک ٹرانسپورٹ صرف میٹرو سروس ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور تک ملک میں خوشحالی، روزگار اور پیسہ بھی تھا۔ جدید ٹیکنالوجی کو اہمیت ملی اور مہنگے موبائل فون عام ہوئے۔ ملک بھر میں موبائل فونز کی نئی دکانیں کھلیں، روزگار بڑھا اور موبائل فون عام ہوئے۔ اس وقت ملک میں اتنی مہنگائی نہیں تھی بلکہ لوگوں کا گزارا ہو جاتا تھا اور مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث لوگ اتنے پریشان تھے نہ میڈیا میں لوگوں کی خودکشیوں کی خبریں آتی تھیں۔
2007 تک ملک میں پرویز مشرف کی صدارت میں جمہوری حکومت قائم تھی اور میڈیا کو بھی آج سے زیادہ آزادی حاصل تھی جس کا اعتراف سینئر صحافیوں نے بھی کیا تھا۔ 2008میں ملک میں پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مل کر اتحادی حکومت بنائی جو زیادہ نہ چل سکی۔
عدلیہ بحال ہوئی جس کے چیف جسٹس نے پی پی حکومت چلنے نہ دی۔ اس کا وزیر اعظم برطرف کیا جس پر نواز شریف خوش تھے اور انھیں توقع نہیں تھی کہ ان کی تحریک اور پی پی حکومت سے نکلنے کے بعد جو عدلیہ بحال ہوگی وہ ان کے ذاتی مخالف ثاقب نثار کے چیف جسٹس بننے کے بعد ان کے ساتھ بھی وہی رویہ اختیار کریں گے جو افتخار محمد چوہدری نے یوسف رضاگیلانی کے ساتھ کیا تھا۔
جنرل مشرف کے مستعفی ہونے، پی پی حکومت سے (ن) لیگ کے نکلنے کے بعد صدر آصف زرداری نے نئے اتحادی ڈھونڈ لیے اور 2013 تک اپنی حکومت کی مدت پوری کرا لی مگر یہ کریڈٹ جنرل پرویز کو حاصل رہے گا کہ ان کی صدارت میں قومی اسمبلی نے پہلی بار اپنی مدت پوری کی تھی۔ پی پی کی عوامی حکومت 5 سالوں میں عوام کو وہ ریلیف دینے میں ناکام رہی جس کی عوام کو توقع تھی۔
2013 میں مسلم لیگ کی حکومت بنی اور میاں نواز شریف کو تیسری بار وزارت عظمیٰ ملی ۔ وہ مہنگائی بے روزگاری کے بجائے موٹر وے اور سڑکوں کے ذریعے ملکی ترقی پر یقین رکھتے تھے۔
ان کی حکومت میں لاہور کے بعد راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو بسیں چلیں، کراچی میں آغاز ہوا۔ پی ٹی آئی قیادت میٹرو سروس پر تنقید کرتی تھی مگر اس کی کے پی حکومت پشاور میں میٹرو بنانے پر مجبور ہوئی مگر راولپنڈی، اسلام آباد کے درمیان چلنے والی میٹرو سروس جتنی کامیاب ہے وہ دیگر شہروں میں نہیں۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان چلنے والی میٹرو سروس ملک کی واحد میٹرو سروس ہے جو راولپنڈی صدر سے اسلام آباد سیکریٹریٹ تک چلتی ہے جن کے درمیان 24 بس اسٹیشن ہیں مگر کرایہ اب بھی صرف تیس روپے ہے اور عوامی سہولت اور وقت بچانے کے لیے میٹرو ایکسپریس سروس بھی چلائی گئی جس کے اسٹاپ کم مگر اے سی بسوں کا کرایہ سالوں سے 30 روپے ہے جو نہیں بڑھا جب کہ دیگر شہروں میں کرائے 50 روپے تک ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو سروس ملک کے عوام کے لیے ملک کا واحد ریلیف ہے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان چلنے والی میٹرو سروس کامیاب ترین سروس ہے جس کی ہر ایک بس میں صبح سے شام تک روزانہ ہزاروں مسافر سفر کرتے ہیں، ہر بس میں سیٹوں پر بیٹھے مسافروں سے زیادہ مسافر کھڑے ہو کر سفر کرتے ہیں اور صبح سے شام تک صدر اور سیکریٹریٹ سے چلنے والی ہر بس مکمل بھر جاتی ہے البتہ رات کو تعداد کم ہو جاتی ہے مگر نشستیں خالی نہیں ملتیں۔
میٹرو سروس سے قبل راولپنڈی اور اسلام آباد آنے والوں کا سفر مہنگا اور بدترین ہوتا تھا انھیں ویگن میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھرا جاتا تھا کیونکہ مسافر زیادہ اور ویگنیں کم تھیں۔ بسیں بھی کم چلتی تھیں۔ اسلام آباد میں رکشوں کا داخلہ ممنوع تھا ٹیکسیوں میں ملک بھر کی طرح میٹر ہوتے ہی نہیں تھے اور مسافروں کو منہ مانگے کرائے دے کر سفر کرنا پڑتا تھا، جو لوگ ٹیکسی کا کرایہ نہیں دے سکتے تھے انھیں ویگنوں میں ذلت آمیز سفر کرنا پڑتا تھا۔
کئی سال سے میٹرو روٹ پر بسیں چلنے کے باعث بعض جگہ سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جہاں سے بسوں کے گزرنے پر اچھے خاصے جھٹکے لگ رہے ہیں۔ بعض جگہ رفتار کم کرنا پڑتی ہے شاید ٹرانسپورٹ اتھارٹی سڑکوں کی مزید تباہی کی منتظر ہے۔
اکثر بس اسٹیشنوں پر آنے والے راستوں پر لگے ٹائل بھی ٹوٹ گئے ہیں جنھیں تبدیل نہیں کیا جا رہا۔ ہر اسٹیشن پر پانی کے کولر نصب اور وافر مقدار میں مسافروں کے لیے بینچیں لگائی گئی ہیں مگر مسافروں کو انتظار کی زحمت چند منٹوں کی ہوتی ہے اور میٹرو بس جڑواں شہروں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں اور کرایہ بہت مناسب ہے۔
اسلام آباد ملک کا دارالحکومت ہے جہاں اپنے کاموں کے لیے ملک بھر سے لوگ آتے ہیں جہاں کے رہائشی زیادہ تر سرکاری ملازمین ہیں اور خبر کے مطابق اسلام آباد میں نوے ہزار کے قریب سرکاری گاڑیاں افسروں کو میسر ہیں۔
عام لوگ اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں رہائش اور خوراک کے اخراجات برداشت نہیں کرپاتے اور راولپنڈی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر یہ جڑواں شہر بھی انتہائی مہنگا ہے جس کی وجہ گھروں اور دکانوں کی مہنگی قیمت اور کرائے ہیں۔ فوارہ چوک کے قریب تمام ہی ہول سیل مارکیٹیں موجود ہیں جہاں رات گئے تک رش رہتا ہے مگر شہر میں دکانیں صبح جلد کھل جاتی ہیں کراچی جیسی صورت حال نہیں ہے۔
راولپنڈی میں مہنگائی بہت زیادہ ہے جب کہ کراچی سستا شہر ہے۔ کراچی میں کھانے کے ہوٹل راولپنڈی سے کہیں سستے ہیں۔ کراچی میں جو پراٹھا اور چائے 40 روپے میں مل جاتی ہے وہ راولپنڈی کے عام ہوٹلوں میں 60 روپے میں ملتاہے۔
اندرون شہر پبلک ٹرانسپورٹ بھی مہنگی ہے کراچی کی طرح رکشوں اور چنگچیوں کی بھرمار ہے جن کے کرایوں کے مقابلے میں بے روزگار نوجوان اپنی بائیکیا چلا رہے ہیں جو نسبتاً سستے پڑتے ہیں۔ انتہائی مہنگے جڑواں شہروں میں ملک کا واحد ریلیف جڑواں شہروں میں چلنے والی واحد پبلک ٹرانسپورٹ صرف میٹرو سروس ہے۔