کنگ میکر کون
وہ یہ کہتے بھی سنائی دے رہے ہیں کہ شہباز شریف کو ہم نے وزیراعظم بنایاتھا،یعنی اس ملک کے اصل کنگ میکر یہی ہیں
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ انسان کی عزت و ذلت، ترقی وتنزلی، امارت و غربت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
اس کی مرضی ومنشاء کے بناء کوئی پتا بھی ہل نہیں سکتا لیکن کبھی کبھار انسان اپنی طاقت کے نشہ اورغرور میں خدائی دعوے بھی کرنے سے باز نہیں رہتا، حالانکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ خواہ کچھ بھی کرلے لیکن اگر خدا نہ چاہے تو اس کی ساری تدبیریں اورکاوشیں ناکام و نامراد ہوکر زمین بوس ہوجاتی ہیں ، مگر کیاکریںانسان پھر بھی ایسے دعوے کرنے سے باز نہیں آتا۔
2017میں میاں نواز شریف کو اقتدار سے محروم اورمعزول کرنے کے لیے جو جال بچھایا گیا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔
اس وقت ایک ایسے شخص کوصنم کی شکل میں تراشہ گیاجو 1996 سے لے کر 2011 تک تقریباً پندرہ سالوں تک سیاسی میدان میں اپنے گھوڑے دوڑاتا رہا لیکن کامیابی اس کا مقدر نہیں بنی، اُن کا خیال تھاکہ 2013 کے الیکشن میں وہ ہر صورت کامیاب ہوجائے گا، لیکن جب خدا نہ چاہے تو کوئی بھی انسانی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ہے اور پھر ایسا ہی ہوا، الیکشن میںمسلم لیگ نون کامیاب ہوکراقتدار میں آگئی۔
سازشیں کرنے والے پھر بھی چین سے نہیں بیٹھے اور2014 میں کینیڈاسے ایک پاکستان نژاد غیر ملکی شخص کو بلاکرلانگ مارچ اور اسلام آباد میںدھرنے کا پروگرام بنایاگیا۔126 دنوں تک یہ دھرنا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے مذموم مقاصد حاصل نہ کر پایاتو 2016 میں پاناما اسکینڈل کوہتھیار بناکرمیاں نوازشریف کے خلاف نیب عدالتوں کی کارروائیاں شروع کردی گئیں۔
480 نامزد ملزمان میں سے صرف ایک شخص کے خلاف تحقیقات کا عمل شروع کیاگیا جس شخص کانام بھی اس اسکینڈل کے اوراق میں کہیں شامل نہیں تھا۔نیب عدالتوں کواس کے خلاف کیسوں میں دو ماہ کامختصر ٹائم دے کراوراعلیٰ عدالت کے ججوں کی نگرانی میں فیصلے کروائے گئے اور بالآخر اس شخص کو عین الیکشن سے قبل جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا رونے والوں کو اس وقت یہ سب کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھا،وہ خاموش تماشائی بن کر مزے لوٹتے رہے۔
2018 کے الیکشن ہوتے ہیں اورنتائج پھر بھی توقع کے مطابق حاصل نہیں ہوتے ہیں تو جنوبی پنجاب سے گھیر گھیر کر لوگ لائے جاتے ہیں اوراسلام آباد میں حکمرانی کے لیے مطلوبہ نفری پوری کردی جاتی ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں جو مسلم لیگ نو ن کااصل گڑھ تھاوہاں بھی اس کی حکومت قائم نہ ہوسکے۔
ہمارے ایک سیاسی رہنماجوسیاسی شعور اورشاطرانہ حکمت عملی میں بہت مشہور ہیں حالات کا رخ دیکھ کر یہ دعویٰ کرجاتے ہیں کہ ہم مسلم لیگ نون کو اس بار پنجاب میں بھی حکومت کرنے نہیں دینگے۔یہ صاحب افہام وتفہیم اوردوستی اورمفاہمت کی سیاست میں بھی بڑے ماہرتصور کیے جاتے ہیں اپنے آپ کوکنگ میکر کے طور پرپیش کرتے رہے ہیں۔
2018 میں حالات جس نہج پرچل رہے تھے اس میں مسلم لیگ نون کے لیے کسی بھی صوبے میں حکومت کرنا تقریباً ناممکن ہوچکاتھا۔ اس صورت حال میں مسلم لیگ نون خود ہی اس مقصد سے کنارہ کشی اختیارکرچکی تھی،وہ اگر کوشش بھی کرتی تو اسے کامیاب ہونے دیا ہی نہیں جاتا۔ مگر دعویٰ کرنے والوں نے اس وقت بھی یہ دعویٰ کرکے اپنی اہمیت اور حیثیت جتانا میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔
رفتہ رفتہ حالات بدلتے گئے اوراداروں کے تراشے گئے بت نے اپنے خالقوں کو ہی آنکھیں دکھانا شروع کر دیںاورآج معاملہ بالکل الٹا ہوچکاہے ۔ تراشہ گیا بت اس مقام پر ہے جہاں کبھی میاں نوازشریف ہواکرتے تھے اوراڈیالہ جیل کا سابقہ مقیم ایک بار پھر حکمرانی کاتاج پہننے کی جانب بڑھ رہاہے۔ ایسے میں پیپلزپارٹی کی پرانی سیاسی مخاصمت پھرسے جاگ اُٹھی اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم تمہیں وزیراعظم بننے نہیں دیں گے۔
وہ یہ کہتے بھی سنائی دے رہے ہیں کہ شہبازشریف کو ہم نے وزیراعظم بنایاتھا،یعنی اس ملک کے اصل کنگ میکر یہی ہیں۔سیاسی حالات وواقعات پرگہری نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ خان صاحب کے خلاف ہوچکی تھی، ورنہ اس ملک میں اس سے پہلے کوئی بھی عدم اعتماد کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہی نہیں۔
پیپلزپارٹی نے اس وقت خود کو 16ماہ کی عارضی حکومت سے شاید اس لیے بچانا چاہاکہ اس وقت ملک کے معاشی حالات اس قدر دگرگوں تھے کہ ایسے میں جو بھی حکومت سنبھالے گا اس کاملبہ اسی پر گرے گا۔یہ سوچ کرہی زرداری نے شہبازشریف کو یہ کہہ کر راضی کرلیاکہ چونکہ پارلیمنٹ میں آپ کی اکثریت ہے لہٰذاآپ ہی وزیراعظم بنیں۔
ہم سب جانتے ہیں اس وقت میاں نوازشریف ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے مگر وہ مجبوراً اس پرراضی ہوگئے۔ 16 ماہ میں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کی خاطر مسلم لیگ نون نے اپنی ساری سیاست داؤ پرلگادی اوراپنا اچھا خاصہ ووٹ بینک ضایع کردیا،پیپلز پارٹی چاہتی بھی یہی تھی ۔اُن دنوں شیخ رشید بھی یہ کہاکرتے تھے کہ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ نون کے ساتھ بڑا ہاتھ کردیا ہے۔
آج مسلم لیگ نون کو سیاسی میدان میں اپنامقام پیدا کرنے میں جومشکلات درپیش ہیں اس میں اس کی یہی 16 ماہ کی حکومت اصل وجہ ہے، وہ اگراس وقت یہ ذمے داری نہیں سنبھالتی توشاید اسے آج یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔
زرداری صاحب نے اپنے فرزند ارجمند کووزیرخارجہ بناکرساری دنیا میں متعارف بھی کروادیا، تاکہ وہ جب وزیراعظم بنے تودنیا اسے پہلے سے جانتی اورپہچانتی بھی ہو۔دوسری جانب اس دور میں مہنگائی اورعوامی مشکلات کاساراملبہ مسلم لیگ نون اورشہباز شریف پرڈال کر اسے اگلے انتخابات میں شکست سے دوچار بھی کردیاجائے۔
زرداری صاحب یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ آیندہ الیکشن کی تاریخ ہم دیں گے مگر کیا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا۔ 8فروری 2024 کی تاریخ کس نے دی۔میاں صاحب جب واپس تشریف لائے تو یہ تاریخ بھی دی گئی ۔
اسی سے اندازہ کرلیاجائے کہ طاقت اوراختیارات کا منبع کس کے پاس ہے ۔ جب تک میاں نوازشریف واپس تشریف نہیں لائے تھے اس وقت تک یہ گمان ضرورکیاجارہا تھا کہ زرداری صاحب اپنی سیاسی مفاہمتی پالیسی کی مدد سے ہوسکتاہے اگلی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ فی الحال کسی کو بھی پتا نہیںکہ اسلام آباد میں کس کی حکمرانی ہوگی۔
اس کی مرضی ومنشاء کے بناء کوئی پتا بھی ہل نہیں سکتا لیکن کبھی کبھار انسان اپنی طاقت کے نشہ اورغرور میں خدائی دعوے بھی کرنے سے باز نہیں رہتا، حالانکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ خواہ کچھ بھی کرلے لیکن اگر خدا نہ چاہے تو اس کی ساری تدبیریں اورکاوشیں ناکام و نامراد ہوکر زمین بوس ہوجاتی ہیں ، مگر کیاکریںانسان پھر بھی ایسے دعوے کرنے سے باز نہیں آتا۔
2017میں میاں نواز شریف کو اقتدار سے محروم اورمعزول کرنے کے لیے جو جال بچھایا گیا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔
اس وقت ایک ایسے شخص کوصنم کی شکل میں تراشہ گیاجو 1996 سے لے کر 2011 تک تقریباً پندرہ سالوں تک سیاسی میدان میں اپنے گھوڑے دوڑاتا رہا لیکن کامیابی اس کا مقدر نہیں بنی، اُن کا خیال تھاکہ 2013 کے الیکشن میں وہ ہر صورت کامیاب ہوجائے گا، لیکن جب خدا نہ چاہے تو کوئی بھی انسانی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ہے اور پھر ایسا ہی ہوا، الیکشن میںمسلم لیگ نون کامیاب ہوکراقتدار میں آگئی۔
سازشیں کرنے والے پھر بھی چین سے نہیں بیٹھے اور2014 میں کینیڈاسے ایک پاکستان نژاد غیر ملکی شخص کو بلاکرلانگ مارچ اور اسلام آباد میںدھرنے کا پروگرام بنایاگیا۔126 دنوں تک یہ دھرنا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے مذموم مقاصد حاصل نہ کر پایاتو 2016 میں پاناما اسکینڈل کوہتھیار بناکرمیاں نوازشریف کے خلاف نیب عدالتوں کی کارروائیاں شروع کردی گئیں۔
480 نامزد ملزمان میں سے صرف ایک شخص کے خلاف تحقیقات کا عمل شروع کیاگیا جس شخص کانام بھی اس اسکینڈل کے اوراق میں کہیں شامل نہیں تھا۔نیب عدالتوں کواس کے خلاف کیسوں میں دو ماہ کامختصر ٹائم دے کراوراعلیٰ عدالت کے ججوں کی نگرانی میں فیصلے کروائے گئے اور بالآخر اس شخص کو عین الیکشن سے قبل جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا رونے والوں کو اس وقت یہ سب کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھا،وہ خاموش تماشائی بن کر مزے لوٹتے رہے۔
2018 کے الیکشن ہوتے ہیں اورنتائج پھر بھی توقع کے مطابق حاصل نہیں ہوتے ہیں تو جنوبی پنجاب سے گھیر گھیر کر لوگ لائے جاتے ہیں اوراسلام آباد میں حکمرانی کے لیے مطلوبہ نفری پوری کردی جاتی ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں جو مسلم لیگ نو ن کااصل گڑھ تھاوہاں بھی اس کی حکومت قائم نہ ہوسکے۔
ہمارے ایک سیاسی رہنماجوسیاسی شعور اورشاطرانہ حکمت عملی میں بہت مشہور ہیں حالات کا رخ دیکھ کر یہ دعویٰ کرجاتے ہیں کہ ہم مسلم لیگ نون کو اس بار پنجاب میں بھی حکومت کرنے نہیں دینگے۔یہ صاحب افہام وتفہیم اوردوستی اورمفاہمت کی سیاست میں بھی بڑے ماہرتصور کیے جاتے ہیں اپنے آپ کوکنگ میکر کے طور پرپیش کرتے رہے ہیں۔
2018 میں حالات جس نہج پرچل رہے تھے اس میں مسلم لیگ نون کے لیے کسی بھی صوبے میں حکومت کرنا تقریباً ناممکن ہوچکاتھا۔ اس صورت حال میں مسلم لیگ نون خود ہی اس مقصد سے کنارہ کشی اختیارکرچکی تھی،وہ اگر کوشش بھی کرتی تو اسے کامیاب ہونے دیا ہی نہیں جاتا۔ مگر دعویٰ کرنے والوں نے اس وقت بھی یہ دعویٰ کرکے اپنی اہمیت اور حیثیت جتانا میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔
رفتہ رفتہ حالات بدلتے گئے اوراداروں کے تراشے گئے بت نے اپنے خالقوں کو ہی آنکھیں دکھانا شروع کر دیںاورآج معاملہ بالکل الٹا ہوچکاہے ۔ تراشہ گیا بت اس مقام پر ہے جہاں کبھی میاں نوازشریف ہواکرتے تھے اوراڈیالہ جیل کا سابقہ مقیم ایک بار پھر حکمرانی کاتاج پہننے کی جانب بڑھ رہاہے۔ ایسے میں پیپلزپارٹی کی پرانی سیاسی مخاصمت پھرسے جاگ اُٹھی اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم تمہیں وزیراعظم بننے نہیں دیں گے۔
وہ یہ کہتے بھی سنائی دے رہے ہیں کہ شہبازشریف کو ہم نے وزیراعظم بنایاتھا،یعنی اس ملک کے اصل کنگ میکر یہی ہیں۔سیاسی حالات وواقعات پرگہری نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ خان صاحب کے خلاف ہوچکی تھی، ورنہ اس ملک میں اس سے پہلے کوئی بھی عدم اعتماد کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہی نہیں۔
پیپلزپارٹی نے اس وقت خود کو 16ماہ کی عارضی حکومت سے شاید اس لیے بچانا چاہاکہ اس وقت ملک کے معاشی حالات اس قدر دگرگوں تھے کہ ایسے میں جو بھی حکومت سنبھالے گا اس کاملبہ اسی پر گرے گا۔یہ سوچ کرہی زرداری نے شہبازشریف کو یہ کہہ کر راضی کرلیاکہ چونکہ پارلیمنٹ میں آپ کی اکثریت ہے لہٰذاآپ ہی وزیراعظم بنیں۔
ہم سب جانتے ہیں اس وقت میاں نوازشریف ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے مگر وہ مجبوراً اس پرراضی ہوگئے۔ 16 ماہ میں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کی خاطر مسلم لیگ نون نے اپنی ساری سیاست داؤ پرلگادی اوراپنا اچھا خاصہ ووٹ بینک ضایع کردیا،پیپلز پارٹی چاہتی بھی یہی تھی ۔اُن دنوں شیخ رشید بھی یہ کہاکرتے تھے کہ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ نون کے ساتھ بڑا ہاتھ کردیا ہے۔
آج مسلم لیگ نون کو سیاسی میدان میں اپنامقام پیدا کرنے میں جومشکلات درپیش ہیں اس میں اس کی یہی 16 ماہ کی حکومت اصل وجہ ہے، وہ اگراس وقت یہ ذمے داری نہیں سنبھالتی توشاید اسے آج یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔
زرداری صاحب نے اپنے فرزند ارجمند کووزیرخارجہ بناکرساری دنیا میں متعارف بھی کروادیا، تاکہ وہ جب وزیراعظم بنے تودنیا اسے پہلے سے جانتی اورپہچانتی بھی ہو۔دوسری جانب اس دور میں مہنگائی اورعوامی مشکلات کاساراملبہ مسلم لیگ نون اورشہباز شریف پرڈال کر اسے اگلے انتخابات میں شکست سے دوچار بھی کردیاجائے۔
زرداری صاحب یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ آیندہ الیکشن کی تاریخ ہم دیں گے مگر کیا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا۔ 8فروری 2024 کی تاریخ کس نے دی۔میاں صاحب جب واپس تشریف لائے تو یہ تاریخ بھی دی گئی ۔
اسی سے اندازہ کرلیاجائے کہ طاقت اوراختیارات کا منبع کس کے پاس ہے ۔ جب تک میاں نوازشریف واپس تشریف نہیں لائے تھے اس وقت تک یہ گمان ضرورکیاجارہا تھا کہ زرداری صاحب اپنی سیاسی مفاہمتی پالیسی کی مدد سے ہوسکتاہے اگلی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ فی الحال کسی کو بھی پتا نہیںکہ اسلام آباد میں کس کی حکمرانی ہوگی۔