ساری عمر کا انتظار
لباس ان کا مجازی نہیں خاکی ہوا کرتا تھا مگر دل ہمارا ایسے مسیحائوں سے اچاٹ ہوگیا ۔۔۔
حامد علی خان کا گایا ''عمراں لنگیاں پباّں بھار'' تو آپ میں سے بہت سارے لوگوں نے کئی بار سنا ہوگا۔ پنجوں کے بل صدیوں سے اپنی دہلیزوں پر بیٹھے ہم کسی مسیحا کا انتظار ہی تو کرتے رہتے ہیں۔ ایسا ''مسیحا'' جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو جو ہم بھیڑوںکے غول کو سیدھی راہ پر چلاتے ہوئے خوش حالی کی منزلوں کی طرف لے جا سکے۔ اسی ''مسیحا'' کو صوفی شعراء محبوب بنا کر دکھاتے رہے۔ یہ محبوب دُنیا سے کنارہ کش ہوکر پہاڑوں میں گوشہ نشین ہوتا ہے۔ مگر عشق کی مسلسل اور دردناک کوک سے بالآخر پہاڑوں سے نیچے اُتر آتا ہے اور منتظر محبوبہ اپنی سہیلیوں سے فریاد کرتی ہے کہ پہاڑوں سے اُترے اس (مجازی) لباس والے سے بہت اخلاص سے اس کا نام دریافت کیا جائے۔
محمد علی جناح کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا نہ تھا۔ وہ زندگی سے کٹ کر پہاڑوں میں گوشہ نشین بھی نہیں ہوگئے تھے۔ کراچی کے ایک درمیانی سطح کے تاجر کے ہاں پیدا ہوئے۔ بڑی محنت سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لندن پہنچے جہاں ان کے والد کی طرف سے بھیجی جانے والی رقم ان کے روزمرہّ اخراجات کے لیے ناکافی ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے بڑی مشقت کے ذریعے اضافی رقوم اکٹھا کیں اور بیرسٹری کی تعلیم مکمل کرلی۔ پھر وہ بمبئی جیسے شہر میں آکر وکالت کرنا شروع ہوگئے۔ صرف اور صرف اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر چند ہی سالوں میں ان کا شمار اس شہر کے مہنگے ترین وکلاء میں ہونا شروع ہوگیا۔
محمد علی جناح کی زندگی بہت آسودہ تھی۔ خوش شکل، خوش لباس، مہنگی اور جدید ترین گاڑیوں کا ایک فلیٹ اور باندرہ جیسے فیشن ایبل علاقے میں ایک شاندار بنگلہ۔ خوب صورت اور مسحور کن انگریزی زبان بولتے۔ انھیں گجراتی کے سوا برصغیر کی کسی اور مقامی زبان سے کوئی زیادہ شناسائی تک نہ تھی، اس پر عبور تو بہت دور کی بات ہے۔ اپنے روزمرہّ رہن سہن میں تقریباً خوش حال انگریزوں کی طرح زندگی بسر کرنے والے اس جناح کو مگر سمجھ آگئی کہ گوروں کے چلے جانے کے بعد متحدہ بھارت میں جمہوری نظام کی جو صورت اُبھرے گی وہ مسلمانوں کے کوئی کام نہ آئے گی۔ مسلمانوں کو جمہوری نظام کے ذریعے مضبوط اور خوش حال رہنا ہے تو ان کے لیے ایک علیحدہ ملک بنانا ہوگا۔
علامہ اقبال نے مجوزہ ملک کے لیے ایک جغرافیائی شکل بھی سوچ لی تھی۔ اس شکل کے مطابق پنجاب اور بنگال کو تقسیم نہیں ہونا تھا۔ ظاہرسی بات ہے کہ بنگال اور پنجاب کی یہ تقسیم نہ ہوتی تو نوزائیدہ پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کوئی بھرپور نظام بھی بنانا پڑتا۔ ایسا مگر ہو نہ سکا۔ بٹوارہ بلکہ وحشیانہ قتل وغارت کا سبب بنا جس نے منٹو جیسے حساس لوگوں کو دیوانہ بنا دیا۔ پھر قائد اعظم بھی اس دُنیا سے رخصت ہوگئے اور ان کی رحلت کے بعد مسلسل افراتفری ہمارا مقدر بنی۔ اس افراتفری پر قابو پانے کے نام پر ہمیں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور بعدازاں پرویز مشرف کی صورت ایک نہیں چار ''مسیحا''ملے۔
لباس ان کا مجازی نہیں خاکی ہوا کرتا تھا مگر دل ہمارا ایسے مسیحائوں سے اچاٹ ہوگیا۔ شاید ہماری مایوسی کو دور کرنے کے لیے 2007ء آیا۔ ایک ''انکار'' ہوا اور پاکستان ''چیف تیرے جاں نثار۔ بے شمار، بے شمار'' کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ ان ہی نعروں کی طاقت سے اب مجازی کے بجائے کالے کوٹ والا ایک مسیحا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کے طورپر 2010ء میں بحال ہوگیا۔ ریاست مگر ماں کے جیسی پھر بھی نہ بن پائی۔ سوموٹو پر سوموٹو، تاریخ پہ تاریخ۔ 24/7کے لیے Breaking Newsاور ٹِکروں کا طوفان۔ مگر دن بدلے نہیں فقیروں کے۔
ہمارے کالا کوٹ پہنے ''مسیحا''نے اپنے طورپر مگر جم کر راج کیا۔ وزیر شذیر عام مجرموں کی طرح اس کے روبرو پیش ہوتے رہے۔ مگر اصل کھڑاک تو اس وقت ہوا جب قومی اسمبلی سے بالا بالا ایک وزیر اعظم کو مختصر حکم کے ذریعے یوں گھر بھیج دیا گیا جیسے چٹکی بجاکر آپ گھریلو ملازمین کو فارغ کردیا کرتے ہیں۔ ان کی جگہ وزیر اعظم بنے شخص کو اپنی نوکری بچانے کے لیے ''چٹھی'' لکھنا ہی پڑی۔ وہ چٹھی لکھے اب کئی مہینے بیت چکے ہیں۔ سوئس بینکوں میں مبینہ طورپر چھپائے کروڑوں یا شاید اربوں روپے ابھی تک پاکستان واپس پھر بھی نہیں لائے جاسکے۔
رونق البتہ ان رقوم کے حوالے سے خوب لگی رہی اور کئی مہینوں تک جاری بھی رہی۔ پھر کھیل ختم اور پیسہ ہضم والا واقعہ ہوگیا۔ کالے کوٹ والا مسیحا بھی اب ریٹائر ہوکر گھر چلاگیا ہے اور اس کی رخصت کے بعد ہم سادہ لوح لوگوں کو بتدریج دریافت ہورہا ہے کہ ''مسیحا'' کے دور میں اس کے اپنے ٹھاٹ باٹ تو خوب رہے مگر وہ جسے ''سسٹم'' کہا جاتا ہے کہیں نظر نہیں آرہا۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ کشتیاں ملاحوں کے چلے جانے کے بعد منظر سے غائب ہوجایا کرتی ہیں۔ کالے کوٹ والے مسیحا کے چلے جانے کے بعد ''عدالتی کشتی'' بھی اب اتنے زور شور سے جادہ پیما نظر نہیں آتی۔ اس کشتی کے ساتھ ہی ساتھ پتہ نہیں بے شمار، بے شمار جانثار بھی کہاں چلے گئے۔
اپنے زمانہ طالب علمی سے لاہور ہائی کورٹ بار سے جمہوری تحریکوں کا آغاز دیکھتا رہا ہوں۔ ضیاء الحق کے زمانے میں اس ہائی کورٹ کے احاطے میں موجود ایک بہت ہی پرانے برگد کے تلے ہمہ وقت جمع دیوانوں کا جوش وجنون بھی اپنے ذہن سے میں کبھی نہیں نکال سکتا۔ اسی لاہور ہائی کورٹ کے بار روم سے مگر اب منگل کو کسی زمانے میں جنرل مشرف کے کافی قریب مانے جانے والے شیخ رشید احمد صاحب نے خطاب کیا ہے۔
کسی زمانے میں ''چیف کے جاں نثاروں'' کی ایک بہت بڑی تعداد نے بڑے احترام سے ان کا ''حقیقی جمہوریت'' کے خدوخال کو اُجاگر کرنے والا خطاب سنا اور عین اسی روز ڈاکٹر بابر اعوان کا وکالتی لائسنس بھی بحال ہوگیا۔ انگریز کا Times Change Values Changeوالا محاورہ یاد آگیا۔ مگر اس امید کے ساتھ کہ شاید اب میری سادہ لوح قوم کسی طرح یہ حقیقت جان ہی لے گی کہ شیشوں کا مسیحا کوئی بھی نہیں بن سکتا۔ پنجوں کے بل گھروں کی دہلیزوں پر بیٹھے ساری عمر انتظار کیوں کرتے رہیں۔ کیوں نہ خلقِ خدا ''جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو'' کے حقیقی راج کے لیے اپنے تئیں مل جل کر تھوڑی بہت کوششیں کرنا شروع ہوجائیں۔
محمد علی جناح کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا نہ تھا۔ وہ زندگی سے کٹ کر پہاڑوں میں گوشہ نشین بھی نہیں ہوگئے تھے۔ کراچی کے ایک درمیانی سطح کے تاجر کے ہاں پیدا ہوئے۔ بڑی محنت سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لندن پہنچے جہاں ان کے والد کی طرف سے بھیجی جانے والی رقم ان کے روزمرہّ اخراجات کے لیے ناکافی ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے بڑی مشقت کے ذریعے اضافی رقوم اکٹھا کیں اور بیرسٹری کی تعلیم مکمل کرلی۔ پھر وہ بمبئی جیسے شہر میں آکر وکالت کرنا شروع ہوگئے۔ صرف اور صرف اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر چند ہی سالوں میں ان کا شمار اس شہر کے مہنگے ترین وکلاء میں ہونا شروع ہوگیا۔
محمد علی جناح کی زندگی بہت آسودہ تھی۔ خوش شکل، خوش لباس، مہنگی اور جدید ترین گاڑیوں کا ایک فلیٹ اور باندرہ جیسے فیشن ایبل علاقے میں ایک شاندار بنگلہ۔ خوب صورت اور مسحور کن انگریزی زبان بولتے۔ انھیں گجراتی کے سوا برصغیر کی کسی اور مقامی زبان سے کوئی زیادہ شناسائی تک نہ تھی، اس پر عبور تو بہت دور کی بات ہے۔ اپنے روزمرہّ رہن سہن میں تقریباً خوش حال انگریزوں کی طرح زندگی بسر کرنے والے اس جناح کو مگر سمجھ آگئی کہ گوروں کے چلے جانے کے بعد متحدہ بھارت میں جمہوری نظام کی جو صورت اُبھرے گی وہ مسلمانوں کے کوئی کام نہ آئے گی۔ مسلمانوں کو جمہوری نظام کے ذریعے مضبوط اور خوش حال رہنا ہے تو ان کے لیے ایک علیحدہ ملک بنانا ہوگا۔
علامہ اقبال نے مجوزہ ملک کے لیے ایک جغرافیائی شکل بھی سوچ لی تھی۔ اس شکل کے مطابق پنجاب اور بنگال کو تقسیم نہیں ہونا تھا۔ ظاہرسی بات ہے کہ بنگال اور پنجاب کی یہ تقسیم نہ ہوتی تو نوزائیدہ پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کوئی بھرپور نظام بھی بنانا پڑتا۔ ایسا مگر ہو نہ سکا۔ بٹوارہ بلکہ وحشیانہ قتل وغارت کا سبب بنا جس نے منٹو جیسے حساس لوگوں کو دیوانہ بنا دیا۔ پھر قائد اعظم بھی اس دُنیا سے رخصت ہوگئے اور ان کی رحلت کے بعد مسلسل افراتفری ہمارا مقدر بنی۔ اس افراتفری پر قابو پانے کے نام پر ہمیں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور بعدازاں پرویز مشرف کی صورت ایک نہیں چار ''مسیحا''ملے۔
لباس ان کا مجازی نہیں خاکی ہوا کرتا تھا مگر دل ہمارا ایسے مسیحائوں سے اچاٹ ہوگیا۔ شاید ہماری مایوسی کو دور کرنے کے لیے 2007ء آیا۔ ایک ''انکار'' ہوا اور پاکستان ''چیف تیرے جاں نثار۔ بے شمار، بے شمار'' کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ ان ہی نعروں کی طاقت سے اب مجازی کے بجائے کالے کوٹ والا ایک مسیحا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کے طورپر 2010ء میں بحال ہوگیا۔ ریاست مگر ماں کے جیسی پھر بھی نہ بن پائی۔ سوموٹو پر سوموٹو، تاریخ پہ تاریخ۔ 24/7کے لیے Breaking Newsاور ٹِکروں کا طوفان۔ مگر دن بدلے نہیں فقیروں کے۔
ہمارے کالا کوٹ پہنے ''مسیحا''نے اپنے طورپر مگر جم کر راج کیا۔ وزیر شذیر عام مجرموں کی طرح اس کے روبرو پیش ہوتے رہے۔ مگر اصل کھڑاک تو اس وقت ہوا جب قومی اسمبلی سے بالا بالا ایک وزیر اعظم کو مختصر حکم کے ذریعے یوں گھر بھیج دیا گیا جیسے چٹکی بجاکر آپ گھریلو ملازمین کو فارغ کردیا کرتے ہیں۔ ان کی جگہ وزیر اعظم بنے شخص کو اپنی نوکری بچانے کے لیے ''چٹھی'' لکھنا ہی پڑی۔ وہ چٹھی لکھے اب کئی مہینے بیت چکے ہیں۔ سوئس بینکوں میں مبینہ طورپر چھپائے کروڑوں یا شاید اربوں روپے ابھی تک پاکستان واپس پھر بھی نہیں لائے جاسکے۔
رونق البتہ ان رقوم کے حوالے سے خوب لگی رہی اور کئی مہینوں تک جاری بھی رہی۔ پھر کھیل ختم اور پیسہ ہضم والا واقعہ ہوگیا۔ کالے کوٹ والا مسیحا بھی اب ریٹائر ہوکر گھر چلاگیا ہے اور اس کی رخصت کے بعد ہم سادہ لوح لوگوں کو بتدریج دریافت ہورہا ہے کہ ''مسیحا'' کے دور میں اس کے اپنے ٹھاٹ باٹ تو خوب رہے مگر وہ جسے ''سسٹم'' کہا جاتا ہے کہیں نظر نہیں آرہا۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ کشتیاں ملاحوں کے چلے جانے کے بعد منظر سے غائب ہوجایا کرتی ہیں۔ کالے کوٹ والے مسیحا کے چلے جانے کے بعد ''عدالتی کشتی'' بھی اب اتنے زور شور سے جادہ پیما نظر نہیں آتی۔ اس کشتی کے ساتھ ہی ساتھ پتہ نہیں بے شمار، بے شمار جانثار بھی کہاں چلے گئے۔
اپنے زمانہ طالب علمی سے لاہور ہائی کورٹ بار سے جمہوری تحریکوں کا آغاز دیکھتا رہا ہوں۔ ضیاء الحق کے زمانے میں اس ہائی کورٹ کے احاطے میں موجود ایک بہت ہی پرانے برگد کے تلے ہمہ وقت جمع دیوانوں کا جوش وجنون بھی اپنے ذہن سے میں کبھی نہیں نکال سکتا۔ اسی لاہور ہائی کورٹ کے بار روم سے مگر اب منگل کو کسی زمانے میں جنرل مشرف کے کافی قریب مانے جانے والے شیخ رشید احمد صاحب نے خطاب کیا ہے۔
کسی زمانے میں ''چیف کے جاں نثاروں'' کی ایک بہت بڑی تعداد نے بڑے احترام سے ان کا ''حقیقی جمہوریت'' کے خدوخال کو اُجاگر کرنے والا خطاب سنا اور عین اسی روز ڈاکٹر بابر اعوان کا وکالتی لائسنس بھی بحال ہوگیا۔ انگریز کا Times Change Values Changeوالا محاورہ یاد آگیا۔ مگر اس امید کے ساتھ کہ شاید اب میری سادہ لوح قوم کسی طرح یہ حقیقت جان ہی لے گی کہ شیشوں کا مسیحا کوئی بھی نہیں بن سکتا۔ پنجوں کے بل گھروں کی دہلیزوں پر بیٹھے ساری عمر انتظار کیوں کرتے رہیں۔ کیوں نہ خلقِ خدا ''جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو'' کے حقیقی راج کے لیے اپنے تئیں مل جل کر تھوڑی بہت کوششیں کرنا شروع ہوجائیں۔