من ازیں بیش نہ دانم کہ کفن دز دے چند

سورج کو مغرب سے طلوع کر دیں گے اور چاند کو مشرق میں ٹانک دیں گے ۔۔۔

barq@email.com

ادھر مودی ادھر عبداللہ عبداللہ ...بے چارے پاکستان کے سادہ لوح عوام دل تھام کے بیٹھے ہیں کہ اللہ جانے کیا ہو گا مولا جانے کیا ہو گا آگے، کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے، کیوں کہ ذرایع ابلاغ نے ان کو اتنا ڈرایا ہوا ہے کہ پتہ کھڑکنے پر بھی لرز جاتے ہیں اور یہی ''لرزہ'' ہی حکمرانوں کی نقد آور فصل ہے کیوں کہ دنیا میں احمق نہ ہوتے تو عقل مند کہاں سے ''مفت'' کی کھاتے، دراصل حکمرانی اور لیڈر شپ کا سارا چکر ہی ''بی فور'' ... اور آفٹر ... یعنی استعمال سے پہلے ... اور ''استعمال کے بعد'' کا ہوتا ہے کتنے ہی کھڑک، جوشیلے اور آگ بگولا قسم کے لیڈر ہوتے ہیں جو لگتا ہے کہ اگر اقتدار میں آگئے تو ساری دنیا کی ایسی کی تیسی کر دیں گے ہمالیہ کو اٹھا کر بحر ہند میں پھینک دیں اور بحر ہند کو کے ٹو کی چوٹی پر بہانا شروع کر دیں۔

سورج کو مغرب سے طلوع کر دیں گے اور چاند کو مشرق میں ٹانک دیں گے، لیکن جب اپنی ''منزل'' جو چار پایوں کی ایک کرسی ہوتی ہے پہنچ جاتے ہیں تو اچانک پہاڑ میں سے چوہا نکل آتا ہے اور دل سے ایک قطرہ خوں بھی نہیں نکلتا... نریندر مودی تو اب آیا ہے اور نہایت ہی ایکٹر قسم کا آدمی ہے بل کہ ''پانی'' سمجھ لیجیے ... یعنی ... پانی رے پانی تیرا رنگ کیسا؟ ... جس میں ملا دو لگے اس جیسا ... گھڑے میں ڈال دو تو گول مٹول گلاس میں ڈال دو تو لمبوترا اور صراحی میں ڈال دو تو لمبی گردن اور گول مٹول پیٹ والا، بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ نریندر مودی نے چائے خانے سے وزیر خانے تک کے سفر میں کتنی سیڑھیوں کو استعمال کیا اور پھر پلٹ کر ان کی طرف دیکھا بھی نہیں۔

ان سیڑھیوں میں واجپائی ایڈوانی اور راج ناتھ جیسی کونے والی سیڑھیاں بھی تھیں یہ کہ برتن کے مطابق ڈھلنے کا ہنر اسے خوب آتا ہے، زر اقتدار کے ایوانوں کا برتن بڑا ہی فولادی ہوتا ہے خود بدلتا نہیں لیکن بڑے بڑے کو بدل کر اپنے ناپ اور شیپ میں ڈھال لیتا ہے، ہمارے بھٹو صاحب سے زیادہ آگ بگولا لیڈر اور کون ہوگا اس نے اپنی شعلہ بیانی سے ساری دنیا کو باور کرا دیا تھا کہ آتے ہی سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں،صنعت کاروں اور نہ جانے کن کن کو راکھ کر دیں گے ایک ہاتھ میں روٹی ہو گی دوسرے میں کپڑا ہو گا اور سر کے اوپر مکان لیے ہوئے ہو گا ۔

تمام استحصالیوں کو اپنے زانوں پر بٹھایا، روٹی کپڑا مکان چھیننے والوں کو گلے لگایا اور سوشلزم کے چوہوں کو اپنی بانسری کی دُھن پر اپنے پیچھے لگا کر بحیرہ عرب میں ڈبو دیا، افغانستان میں سردار داؤد اور پاکستان میں بھٹو صاحب برسر اقتدار آئے تو لوگ ڈر گئے کہ اب تو پاکستان اور افغانستان ٹکرائے ہی ٹکرائے لیکن پھر لوگوں نے دیکھا کہ وہ لاہور میں ملے تو سارا گلہ جاتا رہا، رحمن بابا نے اورنگزیب عالم گیر کا جو ذکر کیا ہے وہ اقتدار اور مقتدر لوگوں پر ایک بے مثل تبصرہ ہے اگر یہ ذکر خوشحال خان خٹک نے کیا ہوتا تو ہم سمجھتے کہ دونوں باہمی حریف تھے اس لیے انھوں نے کچھ زیادہ ہی تعصب سے کام لیا ہے لیکن رحمن بابا تو درویش اور صوفی تھے سیاست اور دنیا کے کاروبار سے انھیں کوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن پھر بھی آنکھیں تو رکھتے تھے اس لیے کہا ہے کہ


''اورنگزیب بھی ایک فقیر تھا جو درویشوں کی ٹوپی پہنتا تھا لیکن جب وقت آیا تو اس کے اطوار ہی کچھ اور ہو گئے، دیکھو اس نے اپنے باپ کی اولاد کے ساتھ کیا کیا، خرم کے تمام گھرانوں کو باری باری تہہ تیغ کیا''

دراصل عام لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتدار ایک ''حالت'' ہے مرحلہ ہے اور گیلی مٹی ہے جس سے جو چاہے بنایا جا سکتا ہے لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے اقتدار ایک کان نمک ہے جہاں جو چیز بھی جاتی ہے نمک کی ہو جاتی ہے، اقتدار بجائے خود ایک ''مذہب'' ہے اس لیے یہاں کوئی بھی مذہب نہیں چلتا، اقتدارخود ایک دستور ایک آئین اور ایک قانون ہے اس لیے یہاں کوئی دستور کوئی آئین نہیں چلتا، پہاں پہنچ کر دنیا کے سارے اصول، قوانین، نظریات، عقائد، اخلاقیات، فلسفے اور منطق جام ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ بصارت، سماعت، ذہن اور زبان تک بدل جاتے ہیں،

مطلب یہ کہ کسی کے آنے جانے سے کچھ بھی فرق نہیں پڑنے والا، جو کچھ چل رہا ہے وہ اسی طرح چلتا رہے گا، جو بے ڈھنگی اب تک تھی سو اس کے بعد بھی رہے گی، گاؤ آمد تو خر رفت، کتنے آئے کتنے چلے گئے آج تک کوئی فرق پڑا ؟ کیا مودی کیا واجپائی کیا عبداللہ عبداللہ کیا سردار داؤد کیا کرزئی کیا برطانیہ کیا امریکا کیا روس ... کوئی کسی کا دوست نہیں کوئی کسی کا دشمن نہیں کیوں کہ ازل سے صرف ایک ہی دشمنی چلی آرہی ہے اور یہ دشمنی رعایا اور سرکار کے درمیان ہے، کمانے والوں اور کھانے والوں کے درمیان ہے باقی اگر کچھ ہے تو وہ ''آپسی تقسیم'' میں چھوٹے موٹے وقتی اختلافات ہیں

من ازیں بیش نہ دانم کہ کفن دز دے چند

بہر تقسیم قبور انجمنے ساختد اند
Load Next Story