’’ہم بھول گئے رے ہر بات‘‘ اے حمید کی برسی خاموشی سے گزر گئی
1934 میں پیدا ہوئے، 1957 میں بطور موسیقار فلم ’’انجام‘‘ سے فنی سفر کا آغاز کیا
نامور موسیقار اے حمید کی 23 ویں برسی خاموشی سے گزر گئی۔
انھوں نے 1934ء میں ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی، فلمی کیرئیر کا آغاز بمبئی میں پیانونواز کی حیثیت سے کیا۔ بطور موسیقار 1957ء کو پہلی فلم ''انجام'' کی ، 1960ء میں ان کی فلم ''سہیلی '' نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ ان کے کریڈٹ پر ''ہم بھول گئے رے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے'' سمیت یادگار گیت ہیں۔
اے حمید 1988ء میں لاہور سے فلمی دنیا چھوڑ کر راولپنڈی چلے آئے اور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے پلیٹ فارم سے فن کاروں کو موسیقی کی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا۔ اے حمید بیس مئی 1991ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ان کی بنائی ہوئی دھنیں، غزلوں، گیتوں اور نغموں کے روپ میں آج بھی زندہ ہیں۔
انھوں نے 1934ء میں ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی، فلمی کیرئیر کا آغاز بمبئی میں پیانونواز کی حیثیت سے کیا۔ بطور موسیقار 1957ء کو پہلی فلم ''انجام'' کی ، 1960ء میں ان کی فلم ''سہیلی '' نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ ان کے کریڈٹ پر ''ہم بھول گئے رے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے'' سمیت یادگار گیت ہیں۔
اے حمید 1988ء میں لاہور سے فلمی دنیا چھوڑ کر راولپنڈی چلے آئے اور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے پلیٹ فارم سے فن کاروں کو موسیقی کی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا۔ اے حمید بیس مئی 1991ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ان کی بنائی ہوئی دھنیں، غزلوں، گیتوں اور نغموں کے روپ میں آج بھی زندہ ہیں۔