شطرنج کی بساط

عوام کے لیے یہ خوش خبری ضرور ہے کہ ان کے ملک میں تاخیر سے ہی سہی لیکن الیکشن ہونے جارہے ہیں

atharqhasan@gmail.com

الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی سیاسی شطرنج کی بساط بچھ چکی ہے، کھلاڑی گیم شروع ہونے سے پہلے اس بات کا یقین کرنا چاہتے ہیں کہ جیت کے لیے کیا چال چلنی ہے۔

لیکن شطرنج کی گیم سجانے والے بھی کچھ کم چالاک نہیں ہیں، انھوں نے یہ بساط اس طرح بچھائی ہے کہ ہر ایک پیادے اور سوار کو یہی محسوس ہو کہ گیم کے اختتام پر وہ جیت جائے گا لیکن جیت کس کی ہوگی، یہ صرف شطرنج بچھانے والے جانتے ہیں کہ اس بساط پر اپنے گھوڑے کیسے دوڑانے ہیں ، کون سا گھوڑا آگے دوڑے گا اور کون سا گھوڑا عقب سے آکر سب سے آگے نکل جائے گا۔

یہ شطرنج کوئی آج نہیں بچھائی گئی بلکہ سات دہائیوں سے ہی بچھی ہوئی ہے، صرف مہرے بدلتے رہتے ہیں، گھوڑے فتح حاصل کرنے کے لیے دوڑتے رہتے ہیں، جن کی نظر اس گیم پلان کو سمجھ کر دور تک دیکھ رہی ہوتی ہے۔

ان کے لیے فتح قدرے آسان ہو جاتی ہے اور ان میں سے جیت کرکوئی بادشاہ بن جاتا ہے تو کوئی وزیر بن جاتا ہے لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہو پاتا ہے کہ جب مہرے بساط بچھانے والوں کے اشاروں پر حرکت کریں۔

کوئی مہرہ اگر اپنی مرضی سے چال چلنے کی کوشش کرے تو وہ گھوڑوں کے سموں تلے کچلا جاتا ہے اور یوں گیم ختم ہو جاتی ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اگر سارے مہرے مر بھی جائیں اور بادشاہ سلامت رہے تو گیم چلتی رہتی ہے لیکن بادشاہ کے پاس زیادہ ادھر اُدھر ہونے کی گنجائش نہیں ہوتی، وہ صرف ایک قدم آگے یا پیچھے، دائیں یا بائیں ہی چل سکتا ہے، اس سے زیادہ آزادی اس کی بھی قسمت نہیں ہوتی ۔

شطرنج کی بساط سے مجھے اپنے بزرگ میاں سلطان یاد آگئے جو میرے والد صاحب کے چچا تھے اور ضلع خوشاب کے ایک قدیم قصبے مٹھا ٹوانہ میں رہائش پذیر تھے جہاں پر ان کے والد میاں نظام دین ہمارے بزرگ حضرت میاں اطہرصاحب کے مزار کے گدی نشین تھے۔ میاں نظام دین شطرنج کے مشہور کھلاڑی تھے اور اپنی بیٹھک میں دوستوں کے ہمراہ بازی جماتے تھے۔


ان کے چھوٹے بیٹے میاں سلطان اپنے والد کو یہ کھیل کھیلتے دیکھتے اور اسی دیکھا دیکھی میں انھوں نے بھی اس کھیل میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ شطرنج کی دنیا کے بڑے بڑے شہ سواروں کو مات دے دی جن میں کیوبا کے کیپا بلانکااور روس کے گیری کیسپروف بھی شامل تھے اور یوں انھوں نے دو بار شطرنج کا عالمی اعزاز اپنے نام کیا ۔

اتنی مہارت کے باوجود احترام اس قدر تھا کہ کبھی اپنے والد سے جیتنے کی کوشش نہ کی۔ ان کے والد کہتے تھے کہ میاں سلطان غلط چالیں چل کر مجھ سے جان بوجھ کر ہار جاتا ہے ۔بات سیاسی شطرنج سے شروع کی تھی لیکن شطرنج کاذکر آتے ہی میرے اپنے بزرگوں کی جانب نکل گئی جس کے لیے علیحدہ کالم درکار ہیں۔

بہر حال عرض کر رہا تھا کہ شطرنج کی بازی قسمت والا جیتتا ہے، یہ ایک صبر آزما بازی ہے اور اس میں جس قدر تحمل مزاجی اور پھونک پھونک کر اردگرد کے تمام خطرات کو مد نظر دیکھ کر چالیں چلی جائیں، اس میں نقصان اتنا ہی کم ہوتا ہے لیکن اگر آپ نے بغیر سوچے سمجھے جذبات کی رو میں بہہ کر یاحد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو کر کوئی غلط چال چل دی تو پھر نہ تو کوئی وزیر آپ کو چھوڑے گا اور نہ ہی کوئی پیادہ آپ کے گھوڑوں کا احترام کرے گا۔

شطرنج کی اس بازی کا ہم گزشتہ ستر برس سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہوئے گزرتے جارہے ہیں لیکن یہ صبر آزما بازی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی کیونکہ اس بازی کے کھلاڑی اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ وہ ہار ماننے کو تیار نہیں ، اگرکبھی یہ بازی کی ہار یا جیت پرختم ہو گئی تو بہت کچھ ختم ہو جائے گا ۔

بہر حال عوام کے لیے یہ خوش خبری ضرور ہے کہ ان کے ملک میں تاخیر سے ہی سہی لیکن الیکشن ہونے جارہے ہیں اور اب الیکشن میں تاخیر کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی ۔ لیکن کیا یہ الیکشن عوام کی نمایندگی کا حق ادا کر سکیں گے، ہو سکتا ہے الیکشن کے بعد سوالیہ نشان بن جائے اور سیاسی شطرنج کے کھلاڑی پریشانی میں مبتلا ہوجائیں۔ مومن خان مومن کا ایک لازوال شعر اس بساط کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔

میں بساط شوق بچھاؤں کیا، غم دل کی شرط لگاؤں کیا

جو پیادے چلنے میں طاق تھے وہ تمام مہرے بکھر گئے
Load Next Story