زمین پر قبضہ سپریم کورٹ نے جنرل ر فیض حمید کیخلاف درخواست نمٹا دی
درخواست گزار چاہے تو وزارت دفاع، سول یا کرمنل کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے زمین پر قبضے کے الزام میں فیض حمید کے خلاف ہیومن رائٹس کیس میں دائر درخواست نمٹا دی۔
عدالت نے درخواست نمٹاتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت دیگر ریٹائرڈ فریقین کے خلاف تین فورمز ہیں اور درخواست گزار چاہے تو وزارت دفاع، سول یا کرمنل کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے اس لیے سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ کسی ریٹائرڈ فوجی افسر کے خلاف کارروائی کے لیے اسکا اپنا ادارہ بھی موجود ہے، اگر الزامات ثابت ہو جائیں تو ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ نوکری پر بحال کرکے اسکا کورٹ مارشل بھی ہوسکتا ہے۔
عدالتی حکمنامے کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ریٹائرڈ فوجی افسر کے خلاف کارروائی کے لیے وزارت دفاع، عام فوجداری یا دیوانی عدالت بھی موجود ہے۔
سماعت کے آغاز پر، سپریم کورٹ نے درخواست گزار معیز احمد کے وکیل کو وکالت نامہ جمع کرانے کے لیے وقت دیا تھا۔
دوران سماعت، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے درخواست میں سنگین الزامات عائد کیے ہیں، کیا کیس میں خود پیش ہوں گے یا وکیل کے ذریعے۔
درخواست گزار نے بتایا کہ میرے وکیل نے وکالت نامہ جمع نہیں کرایا، ہمیں کل ہی کال آئی تھی اس لیے کیس میں التوا دیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کے کیس کو ملتوی بھی نہیں کر سکتے لہٰذا آپ وکالت نامہ جمع کرائیں، پھر کیس سنیں گے۔
جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف درخواست پر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل درخواست گزار نے موقف دیا کہ 12 مئی 2017 کو معیز خان اور انکے اہلخانہ کو اغواء کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس حوالے سے عدالت کیا کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا تھا؟
وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست تو کوئی کارروائی نہیں کی تھی، وزارت دفاع انکوائری کرنے کی مجاز ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زاہدہ نامی کسی خاتون کی درخواست بھی زیر التواء ہے۔
وکیل معیز احمد نے بتایا کہ زاہدہ کا انتقال ہوچکا ہے، درخواست کی کاپی دیں تو جائزہ لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لے لیں تاریخ نہیں دے سکتے، چائے کے وقفے کے بعد سماعت کریں گے۔
آدھے گھنٹے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو اب تک اس کیس سے ہم سمجھ پائے ہیں وہ آپ کو بتا رہے ہیں، برطانیہ کی شہری زاہدہ اسلم نے 2017 میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 تین کا کیس دائر کیا اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں نومبر 2018 میں فریقین کو بلا کر کیس چلایا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس پاکستان چیمبر میں اکیلے سنگل جج کے طور پر فریقین کو طلب کر کے کیس چلا سکتا ہے؟ کیس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود ہی ایف آئی اے، پولیس اور سی ٹی ڈی وغیرہ کو نوٹس کیا، اسی نوعیت کی درخواست زاہدہ اسلم نے چیف جسٹس گلزار کے سامنے بھی رکھی، سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں آرٹیکل 184 تین کی درخواستیں دائر کی گئیں اور جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائر کی گئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے، کیس کے حقائق میں نا جائیں اور میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ہیومن رائٹس سیل غیر قانونی ہے، ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے بدترین ناانصافیاں ہوئی ہیں، کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پر نوٹس نہیں لے سکتا، جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی؟
عدالت نے درخواست نمٹاتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت دیگر ریٹائرڈ فریقین کے خلاف تین فورمز ہیں اور درخواست گزار چاہے تو وزارت دفاع، سول یا کرمنل کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے اس لیے سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ کسی ریٹائرڈ فوجی افسر کے خلاف کارروائی کے لیے اسکا اپنا ادارہ بھی موجود ہے، اگر الزامات ثابت ہو جائیں تو ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ نوکری پر بحال کرکے اسکا کورٹ مارشل بھی ہوسکتا ہے۔
عدالتی حکمنامے کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ریٹائرڈ فوجی افسر کے خلاف کارروائی کے لیے وزارت دفاع، عام فوجداری یا دیوانی عدالت بھی موجود ہے۔
سماعت کے آغاز پر، سپریم کورٹ نے درخواست گزار معیز احمد کے وکیل کو وکالت نامہ جمع کرانے کے لیے وقت دیا تھا۔
دوران سماعت، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے درخواست میں سنگین الزامات عائد کیے ہیں، کیا کیس میں خود پیش ہوں گے یا وکیل کے ذریعے۔
درخواست گزار نے بتایا کہ میرے وکیل نے وکالت نامہ جمع نہیں کرایا، ہمیں کل ہی کال آئی تھی اس لیے کیس میں التوا دیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کے کیس کو ملتوی بھی نہیں کر سکتے لہٰذا آپ وکالت نامہ جمع کرائیں، پھر کیس سنیں گے۔
جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف درخواست پر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل درخواست گزار نے موقف دیا کہ 12 مئی 2017 کو معیز خان اور انکے اہلخانہ کو اغواء کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس حوالے سے عدالت کیا کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا تھا؟
وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست تو کوئی کارروائی نہیں کی تھی، وزارت دفاع انکوائری کرنے کی مجاز ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زاہدہ نامی کسی خاتون کی درخواست بھی زیر التواء ہے۔
وکیل معیز احمد نے بتایا کہ زاہدہ کا انتقال ہوچکا ہے، درخواست کی کاپی دیں تو جائزہ لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لے لیں تاریخ نہیں دے سکتے، چائے کے وقفے کے بعد سماعت کریں گے۔
آدھے گھنٹے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو اب تک اس کیس سے ہم سمجھ پائے ہیں وہ آپ کو بتا رہے ہیں، برطانیہ کی شہری زاہدہ اسلم نے 2017 میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 تین کا کیس دائر کیا اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں نومبر 2018 میں فریقین کو بلا کر کیس چلایا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس پاکستان چیمبر میں اکیلے سنگل جج کے طور پر فریقین کو طلب کر کے کیس چلا سکتا ہے؟ کیس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود ہی ایف آئی اے، پولیس اور سی ٹی ڈی وغیرہ کو نوٹس کیا، اسی نوعیت کی درخواست زاہدہ اسلم نے چیف جسٹس گلزار کے سامنے بھی رکھی، سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں آرٹیکل 184 تین کی درخواستیں دائر کی گئیں اور جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائر کی گئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے، کیس کے حقائق میں نا جائیں اور میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ہیومن رائٹس سیل غیر قانونی ہے، ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے بدترین ناانصافیاں ہوئی ہیں، کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پر نوٹس نہیں لے سکتا، جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی؟