شاعری اور کالم نگاری کا عروج
یہ تراشے ان مراسلوں کے تھے جو اس نے لکھے تھے اوراخباروں میں
ہمیں آج کل ایسا لگ رہاہے کہ شاعری کی طرح کالم نگاری بھی عروج پر ہے، پچھلے زمانوں میں ایک کہاوت مشہورتھی کہ کنکر بھی اٹھاؤ تو اس کے نیچے سے ایک شاعر پھدک کر باہرآجائے لیکن پھر اس کہاوت کو بدلنا پڑا بلکہ اپ ٹو ڈیٹ کردیاگیا ، اب کہا جاتاہے کہ کوئی کنکر اٹھاؤ تو اس کے نیچے سے پورا مشاعرہ نکل آتاہے اورہرشاعر کے ہاتھوں میں اس کے چار پانچ مجموعہ ہائے کلام ہوتے ہیں ۔
مجموعہ کلام پر ایک حقیقہ یادآیا ، ڈسٹرکٹ کونسل کے زیر اہتمام ایک مشاعرہ تھا ، مشاعرے کے آخر میں ڈسٹرکٹ کونسل کے ناظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا آج میں نے یہاں بڑے اچھے اچھے ''مجموعے'' سنے ہیں ، شاعر تو نہیں لیکن شاعروں کے مجموعے اچھے لگتے ہیں اورپھر کچھ عرصے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ شاعر نہیں تھا اس کامجموعہ بھی چھپ کرآگیا۔
مرحوم راحت زاخیلی پشتو ادب کاایک معتبر نام ہے ، پشتو صحافت ادب کالم نگاری ، افسانہ نگاری اورناول نگاری کے بانیوں میں ان کاشمار ہوتاہے وہ روزنامہ شہباز کے پشتو صفحے کے ایڈیٹر تھے اورہفتے میں ایک دن غالباً سوموار کو اس صفحے پر شاعروں کاکلام باریک حروف میں چھاپ کر پچاس ساٹھ شاعروں میں بٹایاہواہوتا جب کہ صفحے کے اوپر جلی حروف میں یہ قول زرین لکھاہوتاتھا کہ ،
جب قوم گرجاتی ہے تو شاعری عروج حاصل کرلیتی ہے ۔
یایہ کہ جب شاعری عروج پر ہوتی ہے تو قوم گرنے لگتی ہے اوریہی بات آج ہم کالم نگاری کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں کہ دونوں کا قاروہ ایک ہے باتیں باتیں اورصرف باتیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ جو آدمی کسی کام میں مصروف ہوتاہے وہ باتیں کم کرتا ہے اورجو باتیں کرتاہے وہ کام نہ کرتا ہے نہ کرسکتاہے کہ باتوں میں محنت کم لگتی ہے ۔
دراصل یہ بھی نرگسیت کی ایک علامت ہے باتیں کرنے والا خود کو دانا دانشور سمجھ کر ہی باتیں کرتا ہے اس کے خیال میں باقی لوگ قطعی ناسمجھ ہوتے ہیں اورایک یہ ہی ہے جو سمجھدار ہے ۔
ایک مرتبہ کراچی میں اپنے کچھ رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ ان کے ایک پڑوسی کو ہماری خبرہوگئی ، ملاقات میں اس نے ہم پر اپنی دانش کے دریابہاتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اخباروں میں لکھتے ہیں پھر جاکر گھر سے ایک فولڈر لے آیا جس میں اخباروں کے بے پناہ تراشے لگے ہوئے تھے۔
یہ تراشے ان مراسلوں کے تھے جو اس نے لکھے تھے اوراخباروں میں۔ ایڈیٹرکے نام خطوط ، یا مراسلات کے زیر عنوان چھپے تھے اوراس نے بڑے اہتمام سے لوگوں کو دکھانے کے لیے سجائے ہوئے تھے ۔لیکن ہم باقی لوگوں سے زیادہ بدقسمت نکلے کہ صرف دکھانے پر ہماری خلاصی نہیں ہوئی بلکہ اس نے ایک ایک کرکے وہ مراسلات ہمیں سنانا بھی شروع کیے۔
ان مراسلات میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں کو اس نے زرین مشورے دیے تھے اوراس کے کہنے کے مطابق اگر وہ ان مشوروں پر عمل کرتے تو یہ دنیا دوبارہ جنت الفردوس بن سکتی تھی ، خاص طور پر امریکی صدورکو تو اس نے دل کھول کر ثواب دارین حاصل کرنے کے مشورے ارشاد کیے تھے جس میں سب سے اہم مشورہ یہ تھا کہ وہ روس اورچین کے ساتھ مل کر ہر قسم کے ہتھیار سمندر برد کردیں اوردنیا بھر میں امریکیوں کو مروانے کی بجائے جینے دیں۔ اپنے ملک کے وزیروں ، وزیراعظموں اورصدوروں کو اس نے جو مشورے دیے تھے اس سے باقاعدہ حکومت چلانے کاایک ماسٹر پلان بن سکتاتھا ۔
اس دن سردرد کی دوگولیاں اورنیند کی ایک گولی کھانے پر سردرد سے نجات ملی لیکن دوسری رات اس نے اپنے گھر پر پھانسی کابندوبست کیاہواتھا بہانہ اپنے گھر پر کھانے کی دعوت کابنایاتھا ، جی تو چاہا کہ اسی وقت اپنے سارے کام ادھورے چھوڑ کر فرارہونے میں کامیاب ہوجائیں کیوں کہ ایک پشتو کہاوت کے مطابق بروقت فراربھی آدھی بہادری ہے لیکن بدقسمتی سے ہم انھیں بتاچکے ہیں کہ پانچ دن ٹھہریں گے ، لہٰذا جو ہمارا حال ہوا وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
مجموعہ کلام پر ایک حقیقہ یادآیا ، ڈسٹرکٹ کونسل کے زیر اہتمام ایک مشاعرہ تھا ، مشاعرے کے آخر میں ڈسٹرکٹ کونسل کے ناظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا آج میں نے یہاں بڑے اچھے اچھے ''مجموعے'' سنے ہیں ، شاعر تو نہیں لیکن شاعروں کے مجموعے اچھے لگتے ہیں اورپھر کچھ عرصے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ شاعر نہیں تھا اس کامجموعہ بھی چھپ کرآگیا۔
مرحوم راحت زاخیلی پشتو ادب کاایک معتبر نام ہے ، پشتو صحافت ادب کالم نگاری ، افسانہ نگاری اورناول نگاری کے بانیوں میں ان کاشمار ہوتاہے وہ روزنامہ شہباز کے پشتو صفحے کے ایڈیٹر تھے اورہفتے میں ایک دن غالباً سوموار کو اس صفحے پر شاعروں کاکلام باریک حروف میں چھاپ کر پچاس ساٹھ شاعروں میں بٹایاہواہوتا جب کہ صفحے کے اوپر جلی حروف میں یہ قول زرین لکھاہوتاتھا کہ ،
جب قوم گرجاتی ہے تو شاعری عروج حاصل کرلیتی ہے ۔
یایہ کہ جب شاعری عروج پر ہوتی ہے تو قوم گرنے لگتی ہے اوریہی بات آج ہم کالم نگاری کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں کہ دونوں کا قاروہ ایک ہے باتیں باتیں اورصرف باتیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ جو آدمی کسی کام میں مصروف ہوتاہے وہ باتیں کم کرتا ہے اورجو باتیں کرتاہے وہ کام نہ کرتا ہے نہ کرسکتاہے کہ باتوں میں محنت کم لگتی ہے ۔
دراصل یہ بھی نرگسیت کی ایک علامت ہے باتیں کرنے والا خود کو دانا دانشور سمجھ کر ہی باتیں کرتا ہے اس کے خیال میں باقی لوگ قطعی ناسمجھ ہوتے ہیں اورایک یہ ہی ہے جو سمجھدار ہے ۔
ایک مرتبہ کراچی میں اپنے کچھ رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ ان کے ایک پڑوسی کو ہماری خبرہوگئی ، ملاقات میں اس نے ہم پر اپنی دانش کے دریابہاتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اخباروں میں لکھتے ہیں پھر جاکر گھر سے ایک فولڈر لے آیا جس میں اخباروں کے بے پناہ تراشے لگے ہوئے تھے۔
یہ تراشے ان مراسلوں کے تھے جو اس نے لکھے تھے اوراخباروں میں۔ ایڈیٹرکے نام خطوط ، یا مراسلات کے زیر عنوان چھپے تھے اوراس نے بڑے اہتمام سے لوگوں کو دکھانے کے لیے سجائے ہوئے تھے ۔لیکن ہم باقی لوگوں سے زیادہ بدقسمت نکلے کہ صرف دکھانے پر ہماری خلاصی نہیں ہوئی بلکہ اس نے ایک ایک کرکے وہ مراسلات ہمیں سنانا بھی شروع کیے۔
ان مراسلات میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں کو اس نے زرین مشورے دیے تھے اوراس کے کہنے کے مطابق اگر وہ ان مشوروں پر عمل کرتے تو یہ دنیا دوبارہ جنت الفردوس بن سکتی تھی ، خاص طور پر امریکی صدورکو تو اس نے دل کھول کر ثواب دارین حاصل کرنے کے مشورے ارشاد کیے تھے جس میں سب سے اہم مشورہ یہ تھا کہ وہ روس اورچین کے ساتھ مل کر ہر قسم کے ہتھیار سمندر برد کردیں اوردنیا بھر میں امریکیوں کو مروانے کی بجائے جینے دیں۔ اپنے ملک کے وزیروں ، وزیراعظموں اورصدوروں کو اس نے جو مشورے دیے تھے اس سے باقاعدہ حکومت چلانے کاایک ماسٹر پلان بن سکتاتھا ۔
اس دن سردرد کی دوگولیاں اورنیند کی ایک گولی کھانے پر سردرد سے نجات ملی لیکن دوسری رات اس نے اپنے گھر پر پھانسی کابندوبست کیاہواتھا بہانہ اپنے گھر پر کھانے کی دعوت کابنایاتھا ، جی تو چاہا کہ اسی وقت اپنے سارے کام ادھورے چھوڑ کر فرارہونے میں کامیاب ہوجائیں کیوں کہ ایک پشتو کہاوت کے مطابق بروقت فراربھی آدھی بہادری ہے لیکن بدقسمتی سے ہم انھیں بتاچکے ہیں کہ پانچ دن ٹھہریں گے ، لہٰذا جو ہمارا حال ہوا وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔