کراچی 70 کروڑ کی نایاب سوا مچھلی ماہی گیروں کے ہاتھ لگ گئی
ایک سوا مچھلی لاکھوں کی بکتی ہے، مہنگا ہونے کی وجہ اس میں موجود ائیر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں
کھلے سمندر میں شکار کے دوران جال میں پھنسنے والی گولڈن سوامچھلی نے ابراہیم حیدری کے ماہی گیروں کی چاندی کردی،راتوں رات کروڑ پتی بن گئے،سوا مچھلی کا ایئربلیڈر(پوٹا)ہیرے جواہرات کے مول بکتا ہے۔
ابراہیم حیدری کے ماہی گیرحاجی یونس بلوچ کی کراچی کے کھلے سمندر (شمالی بحیرہ عرب )میں مچھلی کے شکار پر موجود لانچ کے عملے کے ہاتھ 70 کروڑ کی سوا مچھلی آگئی،اتنی بڑی مقدار میں سوا مچھلی کے شکار سے ماہی گیروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، منوں وزنی مچھلی 70 کروڑ میں کراچی فش ہاربر پر فروخت کر دی گئی۔
ماہی گیروں کے مطابق سوا مچھلی کے پیٹ سے نکلنے والے چربی نما پوٹےسے جراحی میں استعمال ہونے والا دھاگہ بنتا ہے،جس کی وجہ سے ایک مچھلی لاکھوں روپے مالیت کی ہوتی ہے،گولڈن سوا کہلانے والی یہ مچھلی نایاب ہو چکی ہے ، سوا مچھلی کا گوشت ایک ہزار روپے فی کلو بکتا ہے،مگر چربی نما پوٹے کی وجہ سے یہ سونے کے بھاؤ فروخت ہوتا ہے۔
تیکنیکی مشیر ڈبلیو ڈبلیو ایف محمد معظم خان کے مطابق سوّا کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے،اس کو سندھی میں سوّا اور بلوچی میں کروکر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا سائنسی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے،اس کا سائز ڈیڑھ میٹر اور وزن 20 سے 40 کلو تک بھی ہوسکتا ہے۔
یہ پورے سال ہی شکار کی جاتی ہےمگر ماہ نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی اس وجہ سے بھی آسان ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بریڈنگ سیزن ہے،اس دوران یہ جھنڈ کی شکل میں پانی پر موجود ہوتی ہے،جو ماہی گیروں کے لیے آسان ہدف ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مچھلی کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ائیر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں، اس کے ذریعے یہ سطح سمندر اور زیر آب تک سفر کرتی ہے،پوٹے کی چینی روایتی کھانوں میں بڑی اہمیت ہے۔
اس کے علاوہ یہ شان و شوکت کی بھی عکاسی کرتے ہیں جس طرح لوگ گھروں میں سونا رکھتے ہیں، چینی اس سوکھے پوٹے کو اپنے گھر پر رکھتے ہیں،اور زیب و زینت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
چین کی بعض روایتی ادویات میں بھی سوّا کے پوٹے کے استعمال کا حوالہ ملتا ہے جس میں جوڑوں کے درد سمیت دیگر ادویات شامل ہیں،ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سوا مچھلی کے پوٹے سے آپریشن کا دھاگہ تیار ہونے میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
ابراہیم حیدری کے ماہی گیرحاجی یونس بلوچ کی کراچی کے کھلے سمندر (شمالی بحیرہ عرب )میں مچھلی کے شکار پر موجود لانچ کے عملے کے ہاتھ 70 کروڑ کی سوا مچھلی آگئی،اتنی بڑی مقدار میں سوا مچھلی کے شکار سے ماہی گیروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، منوں وزنی مچھلی 70 کروڑ میں کراچی فش ہاربر پر فروخت کر دی گئی۔
ماہی گیروں کے مطابق سوا مچھلی کے پیٹ سے نکلنے والے چربی نما پوٹےسے جراحی میں استعمال ہونے والا دھاگہ بنتا ہے،جس کی وجہ سے ایک مچھلی لاکھوں روپے مالیت کی ہوتی ہے،گولڈن سوا کہلانے والی یہ مچھلی نایاب ہو چکی ہے ، سوا مچھلی کا گوشت ایک ہزار روپے فی کلو بکتا ہے،مگر چربی نما پوٹے کی وجہ سے یہ سونے کے بھاؤ فروخت ہوتا ہے۔
تیکنیکی مشیر ڈبلیو ڈبلیو ایف محمد معظم خان کے مطابق سوّا کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے،اس کو سندھی میں سوّا اور بلوچی میں کروکر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا سائنسی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے،اس کا سائز ڈیڑھ میٹر اور وزن 20 سے 40 کلو تک بھی ہوسکتا ہے۔
یہ پورے سال ہی شکار کی جاتی ہےمگر ماہ نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی اس وجہ سے بھی آسان ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بریڈنگ سیزن ہے،اس دوران یہ جھنڈ کی شکل میں پانی پر موجود ہوتی ہے،جو ماہی گیروں کے لیے آسان ہدف ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مچھلی کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ائیر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں، اس کے ذریعے یہ سطح سمندر اور زیر آب تک سفر کرتی ہے،پوٹے کی چینی روایتی کھانوں میں بڑی اہمیت ہے۔
اس کے علاوہ یہ شان و شوکت کی بھی عکاسی کرتے ہیں جس طرح لوگ گھروں میں سونا رکھتے ہیں، چینی اس سوکھے پوٹے کو اپنے گھر پر رکھتے ہیں،اور زیب و زینت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
چین کی بعض روایتی ادویات میں بھی سوّا کے پوٹے کے استعمال کا حوالہ ملتا ہے جس میں جوڑوں کے درد سمیت دیگر ادویات شامل ہیں،ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سوا مچھلی کے پوٹے سے آپریشن کا دھاگہ تیار ہونے میں کوئی صداقت نہیں ہے۔