پاکستانی ٹی وی ڈرامے
آج کل جو ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ان میں سے کچھ نہایت فضول ہیں، کوئی بھی انھیں برداشت نہیں کر سکتا
ایک وہ وقت تھا جب پی ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ تھا لیکن اس پر جو ڈرامے آتے تھے وہ اس قدر مقبول ہوتے تھے کہ سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔
اشفاق احمد کے ڈرامے اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے تھے۔ یہ ڈرامے پڑھے لکھوں کی پسند تھے، اعلیٰ درجے کی کہانیوں پر مبنی آج بھی اتنے ہی پسند کیے جاتے ہیں۔
بڑے نامور ہدایت کار ان ڈراموں کی ہدایت کاری دیتے تھے مثلاً محمد نثار حسین، غضنفر علی، نصرت ٹھاکر اور ساحرہ کاظمی وغیرہ۔ اس وقت صرف ایک چینل تھا لیکن جس وقت ڈرامہ آتا تھا اس وقت سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔
گھر والے مل کر ڈرامے دیکھتے۔ روحی بانو، انور سجاد، فاروق ضمیر، خالد سعید بٹ جیسے اداکار اپنی اداکاری سے لوگوں کا دل موہ لیتے تھے۔ قارئین میں سے اکثر کو یاد ہوگا جب قربتیں اور فاصلے، تنہائیاں، کانچ کا پل، طوطا کہانی، فہمیدہ کی کہانی، استانی راحت کی زبانی، من چلے کا سودا، حیرت کدہ، دھواں، ان کہی، ایسی بلندی ایسی پستی، وارث، ماہ کنعاں، پرچھائیاں، اور ڈرامے، جانگلوس، خدا کی بستی، جھوک سیال وغیرہ۔ خاص کر ڈرامہ '' قرۃ العین'' کا تاثر آج تک باقی ہے۔
اس میں ہدایت کار نے نوین تاجک کو متعارف کروایا تھا۔ نوین تاجک کے ساتھ جو نوجوان اداکار تھا، دونوں کی ایکٹنگ لاجواب تھی، آخری سین میں آنسو نکل آتے تھے۔
اسی طرح '' فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی'' بھی بہت متاثر کن تھی، بہت جاندار موضوع پر یہ ڈرامہ پی ٹی وی سے کئی بار دکھایا گیا، ایک مال دار گھرانے کی نوجوان ملازمہ دولت مندوں کی عیاشیاں اور امارت کے جلوے دیکھ کر کس طرح لمحہ لمحہ روتی ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو کر مر جاتی ہے۔ اسی طرح ''جھوک سیال'' بھی ایک مقبول ڈرامہ تھا، آج کل جھوک سرکار کے نام سے ایک ڈرامہ آ رہا ہے، جس کا موضوع مختلف ہے۔
لیکن جوں ہی پرائیویٹ ٹی وی چینل کا آغاز ہوا اور چوبیس گھنٹے کی نشریات کی یلغار ہوئی، ڈراموں کا معیار گر گیا، اب ہر چینل پہ صرف چند موضوعات ہیں، ساس بہوکی تکرار، نند بھاوج، دیورانی جیٹھانی کا جھگڑا یا پھر انتہائی فضول اور بکواس قسم کے رومانس کا، دو لڑکے ایک ہی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہیں جو ناکام ہے وہ لڑکی کو حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کر رہا ہے اور دو لڑکیاں ایک ہی لڑکے کے عشق میں گرفتار اور جو اس لڑکے کو حاصل نہیں کرسکتی وہ ہر قسم کی گھناؤنی سازشیں کرکے لڑکے کو لڑکی سے بدظن کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔
ایسی ایسی بے سروپا کہانیاں دکھائی جا رہی ہیں کہ انسان سر پیٹ لے۔ وقت گزارنے کے لیے انسان ٹی وی دیکھتا ہے لیکن ہر چینل سے یکساں موضوعات پہ ہی ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں، وجہ پروڈیوسر اور ہدایت کاروں کی تن آسانی ہے۔
ایک تو یہ کہ یہ لوگ کبھی اچھے اور بڑے رائٹرزکی کہانیاں لے کر ڈرامہ بنانے کی زحمت نہیں کرتے بلکہ صرف اور صرف ڈائجسٹ کی کہانیوں کو ترجیح دیتے ہیں، یا پھر کسی ایسے رائٹر کی کہانی لینے پہ مجبور ہو جاتے ہیں جن کے پیچھے کوئی تگڑی سفارش ہو، زیادہ تر ڈراموں میں ٹین ایجرز کا رومانس ہی موضوع ہوتا ہے، لیکن کچھ ایسے ڈرامے بھی ہیں جو اپنی کہانی کی وجہ سے ناظرین کی توجہ کا مرکز ہیں، بس باقی سب کچرا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ آج کل ڈراموں سے دوپٹہ یکسر غائب کردیا گیا، ٹین ایجرز لڑکیاں جینز اور ٹی شرٹ میں نظر آتی ہیں البتہ غریب گھروں کی عورتوں کے سر پر دوپٹہ ابھی تک موجود ہے، مردوں کی نظریں عورت کے سراپے کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیتی ہیں اور لطف اندوز ہوتی ہیں، شاید اسی لیے خواتین کے دوپٹے اتروا دیے گئے ہیں۔
یونیورسٹیوں کا جو ماحول دکھایا گیا ہے اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں یونیورسٹی صرف عشق لڑانے جاتے ہیں، ان ڈراموں سے نئی نسل برباد ہو رہی ہے، ماں باپ کو خبر ہی نہیں کہ ان کی اولادیں باہر جا کر کن سرگرمیوں میں ملوث ہیں، یونیورسٹی اور کالج جاتے بھی ہیں یا نہیں۔ آپ پیزا پوائنٹ پر چلے جائیے، فاسٹ فوڈ کے تمام ریستوران نوجوان لڑکے لڑکیوں سے بھرے ملیں گے۔
ان ڈراموں سے لوگوں میں خاص کر غریب طبقے میں شدید احساس کمتری پیدا ہوتا ہے جو انسان کو غلط کاموں پر اکساتا ہے، گھروں میں کام کرنے والی ملازمائیں زیادہ شدت سے ان ڈراموں کا اثر لیتی ہیں، بڑے بڑے شاندارگھر، لگژری آئٹم سے کمرے سجے ہوئے ہیں، صرف غریب طبقہ ہی نہیں متوسط طبقہ بھی اسی طرح احساس محرومی کا شکار ہوتا ہے۔
بڑی بڑی لمبی لگژری گاڑیاں، سجے بنے ڈرائنگ روم اور بیڈ روم۔ محلوں جیسے گھر جب وہ نوجوان دیکھتے ہیں جن کے پاس ملازمت نہیں، ڈگری ہاتھوں میں لیے دفتروں کی خاک چھانتے ہیں اور ہر جگہ انھیں '' نو ویکنسی'' کا بورڈ نظر آتا ہے تو جھنجھلاہٹ اور غصہ ان کے وجود میں گھل جاتا ہے، پھر ہاتھوں میں اسلحہ بھی آ جاتا ہے اور '' جب نہ ملے تو چھین لو'' کا فلسفہ انھیں سجھائی دیتا ہے، میڈیا کس حد تک نوجوان نسل پہ اثرانداز ہوتا ہے اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب وارداتوں میں پڑھے لکھے نوجوان ملوث نکلتے ہیں۔
زیادہ تر ڈراموں کا معیار حد درجہ گر گیا ہے، خاص کر جو ڈرامے روزانہ کی بنیاد پر نشر کیے جاتے ہیں، یہ وبا انڈین چینلز کے ڈراموں سے آئی ہے۔ ان کا کوئی معیار نہیں ہے، بلاوجہ سین لمبے کیے جاتے ہیں تا کہ وقت پورا ہو سکے۔
ایک اور عجیب سی سچویشن ان ڈراموں کی یہ ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کی زندگی حد درجہ تباہ کرتی ہے، ظلم کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جس میں دوسری عورت مر مر کر جیتی ہے، ہر ظلم سہتی ہے لیکن اف تک نہیں کرتی، ایک عورت دوسری عورت کا ہر ظلم خاموشی سے برداشت کرتی چلی جاتی ہے، پھر آخری ایپی سوڈ میں سب کچھ کھل جاتا ہے، ظلم سہنے والی سرخرو ہوتی ہے اور ظلم کرنے والی ذلیل و خوار۔ بھلا ایسا عام زندگی میں کہاں ہوتا ہے کہ کوئی مسلسل کسی کے خلاف سازشیں کرتا رہے اور دوسرا برداشت کرتا رہے۔
آج کل جو ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ان میں سے کچھ نہایت فضول ہیں، کوئی بھی انھیں برداشت نہیں کر سکتا۔ ریموٹ ہاتھ میں ایک چینل سے دوسرا چینل بدلتے رہو، لیکن ایک ہی جیسے موضوعات پہ مبنی یہ ڈرامے نہ تو ذہنی تفریح مہیا کرتے ہیں نہ کوئی سبق دیتے ہیں جب کہ اچھے اور کامیاب لکھاریوں سے اگر رابطہ کیا جائے تو بہترین ڈرامے بن سکتے ہیں لیکن کامیاب اور اچھے افسانہ نگاروں سے کبھی کانٹیکٹ نہیں کیا جاتا، البتہ کسی کے پاس کوئی تگڑی سفارش ہو تو فوراً اس کا ڈرامہ آن ایئر چلا جاتا ہے۔