دہشت گردی سے پاکستان لہولہان
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی افغان حکمرانوں نے پاکستان دشمنی عیاں کر دی تھی
پچھلا ایک ہفتہ پاکستان اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر بہت بھاری رہا ہے۔دہشت گردوں نے اس دوران ملک کے کئی مقامات پر حملے کر کے دہشت پھیلائی، املاک کو نقصان پہنچایا،پاکستان کے اثاثوں کو نشانہ بنایا اور 23کے قریب قیمتی جانیں ملک پر قربان ہو گئیں۔
ضلع گوادر کے علاقے پسنی سے اورمارہ جانے والے سیکیورٹی فورسز کے ایک قافلے پر دہشت گردوں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔حملے میں 14جوان شہید ہوئے۔یوں تو ہر پاکستانی کی جان بہت قیمتی ہے لیکن ہر تربیت یافتہ جوان بہت زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے۔وہ کسی کا لختِ جگر،کسی کا بھائی اور کسی کا سہاگ ہونے کے ساتھ ملک کا محافظ ہوتا ہے۔
ایک جوان کی تربیت پر بہت وقت،محنت اور ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے تب کہیں جا کر وہ ایک مستعد پروفیشنل جنگجو بنتا ہے۔ایسے چودہ جوانوں کی ایک ساتھ شہادت بہت بڑا سانحہ ہے۔ان کی شہادت نے جہاں چودہ خاندانوں کو اندھیروں میں دھکیل دیا وہیں ارضِ وطن اپنے چودہ جان نثاروں سے محروم ہو گئی۔
اﷲ ان کی شہادت قبول فرمائے ۔ٹانک اڈے کے قریب کھڑی پولیس موبائل کے قریب ایک دھماکے میں 5شہری شہید ہو گئے۔دو خواتین اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 21افراد زخمی بھی ہوئے۔اسی طرح ایلیٹ فورس کو لے جانے والی پولیس وین کو ریموٹ بم سے نشانہ بنایا گیا۔
اس افسوس ناک واقعے میں 3افراد شہید اور 4زخمی ہوئے۔ خیبر پختون خوا کے علاقے تیراہ میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر آپریشن کرتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔
اس آپریشن کی قیادت یونٹ کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل محمد حسن حیدر نے خود کی اور شدید فائرنگ کے نتیجے میں اپنی جان ملک پر نچھاور کر دی۔کرنل حسن کے ساتھ تین جوان بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ایک کمانڈنگ آفیسر کی شہادت حالات کی سنگینی کا پتہ دیتی ہے۔ ڈی آئی خان میں ایک چوکی پر بھی حملہ ہوا۔
4نومبر علی الصبح دہشت گردوں نے میانوالی ایئر بیس پر حملہ کیا۔یہ حملہ صبح تین بجے شروع ہوا اور ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہا۔ایئر بیس پر متعین دستوں نے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کا حملہ مکمل کامیاب نہیں ہونے دیا۔
بروقت کارروائی پر تین دہشت گرد ابتدا ہی میں ہلاک ہو گئے جب کہ باقی 6دہشت گرد بیس کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور آپریشن کے دوران مارے گئے۔ میانوالی ایئر بیس ایک تربیتی ایئر بیس ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق حملے میں پاکستان ایئر فورس کے کسی آپریشنل طیارے کو نقصان نہیں ہوا البتہ تین گراؤنڈڈ طیاروں کو جزوی نقصان ہوا۔ واقعے میں چند جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔دہشت گردی کی اس کارروائی کا جتنی سرعت سے جواب دیا گیا اور صرف چند گھنٹوں میں تمام دہشت گرد ٹھکانے لگا دئے گئے اس سے ہماری مسلح افواج کی تیاری کا پتہ چلتا ہے۔
دہشت گردی کی یہ کارروائیاں خاص کر میانوالی ایئر بیس پر حمہ بہت الارمنگ ہے۔اگست 2021 میںافغان طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے ساتھ امید ہو چلی تھی کہ پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ بن جائے گی۔افغان طالبان کو اُس وقت پاکستان کی سپورٹ حاصل رہی ہے جب ساری دنیا امریکا کی اقتدا میں انھیں ختم کرنے پر تلی ہوئی تھی۔
میں نے کوئٹہ پوسٹنگ کے دوران ان کے کمانڈروں اور زخمیوں کو وہاں آتے اور علاج کرواتے دیکھا لیکن اقتدار میں آ کر وہ پاکستان کے لیے اسی طرح دردِ سر بن گئے جس طرح اشرف غنی کی حکومت بلکہ اشرف غنی حکومت کم دردِ سر تھی۔شاید افغان کریکٹر ہی پاکستان دشمن ہے۔افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو پاکستان مخالف سرگرمیوںسے نہیں روکا۔ہمارے اوپر اب یہ کھل چکا ہے کہ مغربی سرحد کے بارے میں ہماری پالیسیاں کتنی ناقص تھیں۔
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی افغان حکمرانوں نے پاکستان دشمنی عیاں کر دی تھی۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کابل میں کوئی بھی حکمران ہو،پاکستان کی طرف مخاصمت کی افغان پالیسی جاری رہتی ہے۔حتیٰ کہ مذہب بھی دوستی کی بنیاد نہیں بنا۔افغان انڈیا کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے ہیں جس کی وجہ انڈیا پاکستان مخاصمت ہے ۔
اسی مخاصمت نے دونوں کو یکجا کیا ہوا ہے۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے چند ہزار جنگجوؤں کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی۔ساتھ ہی افغان طالبان نے افغان جیلوں میں بند ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو رہا کر دیا۔ان میں سے بیشتر پاکستان آ گئے اور ٹی ٹی پی کو نئے سرے سے ری گروپ ہونے کا موقع ملا۔
ہم پاکستانیوں نے وطن کے اوپر شخصیات کو ترجیح دے رکھی ہے۔ہم جس لیڈر کو پسند کرتے ہیں بس اسی کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔اس کی اہلیت،قابلیت،ٹیم،پالیسیوں اور کارکردگی سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔اس محبت بھری تقلید کی وجہ سے اقتدار میں آنے کے بعد ہمارے لیڈران اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ عوام کے سامنے بھی کبھی پاکستان کا مفادنہیں رہا،وہ صرف اپنے پسندیدہ لیڈر کو ایوانِ حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
عوام اور لیڈران کی اس اپروچ کی وجہ سے ہمارا پیارا پاکستان نیچے ہی نیچے گیا ہے اور اب معاشی بدحالی کی گہری دلدل میں پھنس چکا ہے۔معیشت خراب ہو تو روزگار اور ملازمت کے مواقعے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ایسے حالات میں بہت سے لوگ دہشت گردوں اور ملک دشمن قوتوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
پاکستان کی حکومتوں خاص کر جنرل ضیاء نے افغان مہاجرین کے سلسلے میں پالیسیاں ملکی مفاد میں نہیں بنائیں۔افغانستان میں روسی اور بعد میں امریکی مداخلت کی وجہ سے چالیس لاکھ سے اوپر افغان مہاجرین پاکستان آ گئے۔انھیں آنے دیا گیا۔ ہم نے آنے بھی دیا اور کیمپوں میں رہنے تک محدود بھی نہیں کیا۔
افغانوں نے اسلحے،منشیات اور بھتہ خوری سے ہمارا سماج تباہ کر دیا۔موجودہ کیئر ٹیکر حکومت نے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں انھیں ان کے اپنے ملک واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تو ملا عمر کے بیٹے اور وزیرِ دفاع نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
اسی دھمکی کے بعد دہشت گردی زوروں پر ہے۔ہمارے کچھ دانش وروں کا خیال ہے کہ افغانوں کو واپس ان کے ملک بھیج کر تکالیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے۔وہ تو دہائیوں سے یہاں پر ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں ہے اور جسے پاکستان نے آنے کی دعوت بالکل نہیں دی،کیا اسے ہمیشہ یہاں رہنے اور معاشرے کو تباہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ہم خود معاشی مشکلات سے دوچار ہیں،ایسے میں لاکھوں غیر ملکیوں،جو شرپسند سرگرمیوں میں ملوث بھی ہوں، ٹیکس بھی نہ دے رہے ہوں،ان کو پاکستانی معیشت پر مزید بوجھ بننے دینا چاہیے۔
افغانوں کو خود ان کے ملک ہی تو واپس بھیجا جا رہا ہے، اس میں غلط کیا ہے۔ جب افغانستان میں ترقی اور امن کے دعوے کیے جا رہے ہیں تو پاکستان میں مقیم تمام افغانوں کو فوری افغانستان چلے جانا چاہیے تاکہ وہ زیادہ پرامن اور خوشحال ملک میں رہیں۔
کیا افغانستان کے اندر سے پاکستان کے اوپر طاری کی گئی دہشت گردی سے پاکستان کے وجود اور سلامتی کو خطرات لاحق نہیں ہو رہے۔شاید ہمارے ان دانشوروں کو افغانوںکی طرف سے بھتے کی کوئی کال یا پرچی نہیں ملی۔ متاثر ہوئے بغیر اور دور بیٹھ کر بات کرنا آسان ہے لیکن شرپسندی اور دہشت گردی کا سامنا کرنا اور بات ہے۔
دانشوروں کو ان آبادیوں میں جہاں یہ رہ رہے ہیں،جاکر وہاں کے پاکستانی باسیوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں کس خوف میںجی رہے ہیں۔امسال دہشت گردی کے26واقعات میں سے 15واقعات میں افغان ملوث تھے۔کیا ہمارے وجود کو کوئی خطرہ نہیں۔خدا خدا کر کے موجودہ حکومت نے انھیں واپس ان کے اپنے ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ہمیں پاکستان کی بقا کے لیے حکومتی فیصلے کا ساتھ دینا ہوگا۔
ضلع گوادر کے علاقے پسنی سے اورمارہ جانے والے سیکیورٹی فورسز کے ایک قافلے پر دہشت گردوں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔حملے میں 14جوان شہید ہوئے۔یوں تو ہر پاکستانی کی جان بہت قیمتی ہے لیکن ہر تربیت یافتہ جوان بہت زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے۔وہ کسی کا لختِ جگر،کسی کا بھائی اور کسی کا سہاگ ہونے کے ساتھ ملک کا محافظ ہوتا ہے۔
ایک جوان کی تربیت پر بہت وقت،محنت اور ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے تب کہیں جا کر وہ ایک مستعد پروفیشنل جنگجو بنتا ہے۔ایسے چودہ جوانوں کی ایک ساتھ شہادت بہت بڑا سانحہ ہے۔ان کی شہادت نے جہاں چودہ خاندانوں کو اندھیروں میں دھکیل دیا وہیں ارضِ وطن اپنے چودہ جان نثاروں سے محروم ہو گئی۔
اﷲ ان کی شہادت قبول فرمائے ۔ٹانک اڈے کے قریب کھڑی پولیس موبائل کے قریب ایک دھماکے میں 5شہری شہید ہو گئے۔دو خواتین اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 21افراد زخمی بھی ہوئے۔اسی طرح ایلیٹ فورس کو لے جانے والی پولیس وین کو ریموٹ بم سے نشانہ بنایا گیا۔
اس افسوس ناک واقعے میں 3افراد شہید اور 4زخمی ہوئے۔ خیبر پختون خوا کے علاقے تیراہ میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر آپریشن کرتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔
اس آپریشن کی قیادت یونٹ کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل محمد حسن حیدر نے خود کی اور شدید فائرنگ کے نتیجے میں اپنی جان ملک پر نچھاور کر دی۔کرنل حسن کے ساتھ تین جوان بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ایک کمانڈنگ آفیسر کی شہادت حالات کی سنگینی کا پتہ دیتی ہے۔ ڈی آئی خان میں ایک چوکی پر بھی حملہ ہوا۔
4نومبر علی الصبح دہشت گردوں نے میانوالی ایئر بیس پر حملہ کیا۔یہ حملہ صبح تین بجے شروع ہوا اور ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہا۔ایئر بیس پر متعین دستوں نے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کا حملہ مکمل کامیاب نہیں ہونے دیا۔
بروقت کارروائی پر تین دہشت گرد ابتدا ہی میں ہلاک ہو گئے جب کہ باقی 6دہشت گرد بیس کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور آپریشن کے دوران مارے گئے۔ میانوالی ایئر بیس ایک تربیتی ایئر بیس ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق حملے میں پاکستان ایئر فورس کے کسی آپریشنل طیارے کو نقصان نہیں ہوا البتہ تین گراؤنڈڈ طیاروں کو جزوی نقصان ہوا۔ واقعے میں چند جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔دہشت گردی کی اس کارروائی کا جتنی سرعت سے جواب دیا گیا اور صرف چند گھنٹوں میں تمام دہشت گرد ٹھکانے لگا دئے گئے اس سے ہماری مسلح افواج کی تیاری کا پتہ چلتا ہے۔
دہشت گردی کی یہ کارروائیاں خاص کر میانوالی ایئر بیس پر حمہ بہت الارمنگ ہے۔اگست 2021 میںافغان طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے ساتھ امید ہو چلی تھی کہ پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ بن جائے گی۔افغان طالبان کو اُس وقت پاکستان کی سپورٹ حاصل رہی ہے جب ساری دنیا امریکا کی اقتدا میں انھیں ختم کرنے پر تلی ہوئی تھی۔
میں نے کوئٹہ پوسٹنگ کے دوران ان کے کمانڈروں اور زخمیوں کو وہاں آتے اور علاج کرواتے دیکھا لیکن اقتدار میں آ کر وہ پاکستان کے لیے اسی طرح دردِ سر بن گئے جس طرح اشرف غنی کی حکومت بلکہ اشرف غنی حکومت کم دردِ سر تھی۔شاید افغان کریکٹر ہی پاکستان دشمن ہے۔افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو پاکستان مخالف سرگرمیوںسے نہیں روکا۔ہمارے اوپر اب یہ کھل چکا ہے کہ مغربی سرحد کے بارے میں ہماری پالیسیاں کتنی ناقص تھیں۔
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی افغان حکمرانوں نے پاکستان دشمنی عیاں کر دی تھی۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کابل میں کوئی بھی حکمران ہو،پاکستان کی طرف مخاصمت کی افغان پالیسی جاری رہتی ہے۔حتیٰ کہ مذہب بھی دوستی کی بنیاد نہیں بنا۔افغان انڈیا کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے ہیں جس کی وجہ انڈیا پاکستان مخاصمت ہے ۔
اسی مخاصمت نے دونوں کو یکجا کیا ہوا ہے۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے چند ہزار جنگجوؤں کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی۔ساتھ ہی افغان طالبان نے افغان جیلوں میں بند ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو رہا کر دیا۔ان میں سے بیشتر پاکستان آ گئے اور ٹی ٹی پی کو نئے سرے سے ری گروپ ہونے کا موقع ملا۔
ہم پاکستانیوں نے وطن کے اوپر شخصیات کو ترجیح دے رکھی ہے۔ہم جس لیڈر کو پسند کرتے ہیں بس اسی کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔اس کی اہلیت،قابلیت،ٹیم،پالیسیوں اور کارکردگی سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔اس محبت بھری تقلید کی وجہ سے اقتدار میں آنے کے بعد ہمارے لیڈران اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ عوام کے سامنے بھی کبھی پاکستان کا مفادنہیں رہا،وہ صرف اپنے پسندیدہ لیڈر کو ایوانِ حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
عوام اور لیڈران کی اس اپروچ کی وجہ سے ہمارا پیارا پاکستان نیچے ہی نیچے گیا ہے اور اب معاشی بدحالی کی گہری دلدل میں پھنس چکا ہے۔معیشت خراب ہو تو روزگار اور ملازمت کے مواقعے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ایسے حالات میں بہت سے لوگ دہشت گردوں اور ملک دشمن قوتوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
پاکستان کی حکومتوں خاص کر جنرل ضیاء نے افغان مہاجرین کے سلسلے میں پالیسیاں ملکی مفاد میں نہیں بنائیں۔افغانستان میں روسی اور بعد میں امریکی مداخلت کی وجہ سے چالیس لاکھ سے اوپر افغان مہاجرین پاکستان آ گئے۔انھیں آنے دیا گیا۔ ہم نے آنے بھی دیا اور کیمپوں میں رہنے تک محدود بھی نہیں کیا۔
افغانوں نے اسلحے،منشیات اور بھتہ خوری سے ہمارا سماج تباہ کر دیا۔موجودہ کیئر ٹیکر حکومت نے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں انھیں ان کے اپنے ملک واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تو ملا عمر کے بیٹے اور وزیرِ دفاع نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
اسی دھمکی کے بعد دہشت گردی زوروں پر ہے۔ہمارے کچھ دانش وروں کا خیال ہے کہ افغانوں کو واپس ان کے ملک بھیج کر تکالیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے۔وہ تو دہائیوں سے یہاں پر ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں ہے اور جسے پاکستان نے آنے کی دعوت بالکل نہیں دی،کیا اسے ہمیشہ یہاں رہنے اور معاشرے کو تباہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ہم خود معاشی مشکلات سے دوچار ہیں،ایسے میں لاکھوں غیر ملکیوں،جو شرپسند سرگرمیوں میں ملوث بھی ہوں، ٹیکس بھی نہ دے رہے ہوں،ان کو پاکستانی معیشت پر مزید بوجھ بننے دینا چاہیے۔
افغانوں کو خود ان کے ملک ہی تو واپس بھیجا جا رہا ہے، اس میں غلط کیا ہے۔ جب افغانستان میں ترقی اور امن کے دعوے کیے جا رہے ہیں تو پاکستان میں مقیم تمام افغانوں کو فوری افغانستان چلے جانا چاہیے تاکہ وہ زیادہ پرامن اور خوشحال ملک میں رہیں۔
کیا افغانستان کے اندر سے پاکستان کے اوپر طاری کی گئی دہشت گردی سے پاکستان کے وجود اور سلامتی کو خطرات لاحق نہیں ہو رہے۔شاید ہمارے ان دانشوروں کو افغانوںکی طرف سے بھتے کی کوئی کال یا پرچی نہیں ملی۔ متاثر ہوئے بغیر اور دور بیٹھ کر بات کرنا آسان ہے لیکن شرپسندی اور دہشت گردی کا سامنا کرنا اور بات ہے۔
دانشوروں کو ان آبادیوں میں جہاں یہ رہ رہے ہیں،جاکر وہاں کے پاکستانی باسیوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں کس خوف میںجی رہے ہیں۔امسال دہشت گردی کے26واقعات میں سے 15واقعات میں افغان ملوث تھے۔کیا ہمارے وجود کو کوئی خطرہ نہیں۔خدا خدا کر کے موجودہ حکومت نے انھیں واپس ان کے اپنے ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ہمیں پاکستان کی بقا کے لیے حکومتی فیصلے کا ساتھ دینا ہوگا۔