پولیو سے نجات ممکن مگر سنجیدگی درکار ہے
آج سے تقریباً چھ دہائی قبل ایک روسی نژاد امریکی یہودی ڈاکٹر جوناس ساک نے سن ١٩٥٥ میں اعلان کیا کہ ان کی ایجاد کردہ ویکسین پولیو کے خلاف دائمی قوت مدافعت پیدا کرنے میں نہایت موثر ہے۔ جس کے بعد اس موزی مرض کے خلاف نوع انسانی مکمل تیاری سے برسرپیکار ہوئی اور بتدریج کامیابی حاصل کرنے لگی۔ سن ١٩٥٥ سے قبل جہاں لاکھوں افراد سالانہ پولیو کا شکار ہوکر معذوری کی پاداش میں زندگی گزارتے تھے، بین الاقوامی طور پر شروع کی گئی انسداد پولیو مہم نے آج اس مرض کو شکست کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ رواں سال کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت صرف تین ممالک ہیں جہاں یہ وائرس اب بھی موجود ہے۔ ان ممالک کی فہرست میں وطن عزیز پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔
ہماری تاریخ ان اسباق سے بھری پڑی ہے جن میں شکست کا سبب غداری اور خیانت ہے۔ ہماری پولیو سے شکست کا سبب بھی ہمیشہ یہی رہا۔ عوام میں شکست کا احساس اُس وقت شدت سے اجاگر ہوا جب بیرون ملک سفری پابندیاں عائد کی گئیں اور ہماری حکومت بھی بوجہ شرمندگی اپنی کوششیں بڑھانے میں سنجیدہ لگ رہی ہے۔ شرمندگی کی وجہ تو بہت سادہ ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت پولیو سے نجات پاچکا ہے اور ہم اب تک اس بیماری کے خلاف برسرپیکار ہیں مگر شکست دینے میں اب بھی ناکام ہیں۔ اور شکست کی وجہ کو بھی کسی دشمن کی سازش کا نام دے کر جھپایا نہیں جاسکتا بلکہ ہماری سرکاری افرادی قوت کی فطری کاہلی نے اس کو دوام بخشا ہے۔ اس مہم کی ناکامی کے اسباب میں لاپرواہی، مالی غبن، قوائد و ضوابط سے لاعلمی اور انکی عدم پابندی شامل ہیں۔ اسکے علاوہ ناخواندگی اور متنازع فتووں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
انسداد پولیو میں روٹری انٹرنیشنل کا کردار قابل ستائش ہے۔ بھارت میں پولیو ختم کرنے میں اسکا اہم کردار رہا ہے۔ ان قارئین کے لئے جو اس تنظیم سے ناواقف ہیں۔ مختصر تعارف پیش ہے کہ یہ ایک صد سالہ قدیم تنظیم ہے جو سینکڑوں ممالک کے ہزاروں اراکین پر مشتمل ہے اور دنیا بھر میں فلاحی کام کرتی ہے۔ اسی تنظیم کے ایک رکن جناب عبدالوحید خان صاحب پولیو مہم کے دوران قتل کردیے گئے۔ وہ شمالی علاقاجات میں اپنے واجب القتل ہونے کے فتوے سے آگاہ ہونے کے باوجود پولیو کے خلاف کام کرتے رہے اور اس مہم کو اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بہرکیف کبھی کبھار ایک منفی جذبہ ایک مثبت فعل کا ماخذ ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین عسکری طاقت سے لے کر کھیل کے میدان تک جو مقابلے کا جذبہ ہے اگر وہی جذبہ پولیو جیسے ناقابل علاج بیماری کے خلاف بھی شروع ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ارباب اختیار اس مملکت خداداد کو اس بیماری سے پاک کردیں۔ بھارت میں گزشتہ 3 سال سے پولیو کا ایک بھی مریض سامنے نہیں آیاہے اوریاد رہے کہ یہ وہی بھارت ہے جہاں 1980 میں یہ تعداد لاکھوں کی تعداد میں تھی اسی بھارت میں 2010 سے اب تک پولیو کا کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا۔ بھارت کی پولیو کے خلاف جنگ میں کامیابی قابل توصیف ہے اور اس توصیف کا مقصد پاکستانی قارین کی دل آزاری نہیں بلکہ انکی کامیابی میں ہمارے لئے سبق ہے۔ بھارت کی جہاں حکومتی لاپرواہی ہماری حکومت جیسی ہے وہیں پر غربت اور محرومی کے لحاظ سے ہمارے معاشرتی ڈھانچوں میں بھی مماثلت ہے۔ ایک دشواری جو بھارت کو ہم سے زیادہ پیش آتی ہے وہ ہے انکی بڑھتی ہوئی آبادی۔ بھارت میں حکومتی اور نجی تنظیموں نے جو اقدامات اٹھائے وہ درج ذیل ہیں۔ جن میں سے کئی اقدامات ہمارے یہاں بھی ہوتے ہیں.
بس، ریل اور ہوائی اڈوں پر ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنانا تاکہ سفر کی وجہ سے کوئی خاندان ویکسین سے محروم نہ رہ جائے، بچوں کو ویکسین دینے پر آمادہ کرنا،انسداد پولیو مہم میں کام کرنے والے افراد کو قوائدو ضوابط کا پابند بنانا، وہ علاقے جہاں پولیو مقامی مرض ہے وہاں نکاسی آب کے نالوں سے پانی نمونوں کا پولیو وائرس کی موجودگی کے لئے معائنہ کرنا۔ ہمارے یہاں بھی پولیو کا خاتمہ ممکن ہے۔ بس اس کے لئے ثابت قدمی، نیک نیتی اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ عدم تحفظ جو انسداد پولیو مہم پر عفریت کی طرح حملہ آور ہے اس کی روک تھام ترجیحات کی فہرست میں صف اول پر ہونی چاہئیے، مذہبی رہنماؤں کی مدد سے بے معنی فتووں پر قابو پایا جائے۔
اگر ان اقدامات کو اہل اقتدار سنجیدگی سے اُٹھانے کا فیصلہ کرلیں تو کوئی شک نہیں کہ ہم بھی باقی دنیا کی طرح اس بیماری سے نجات حاصل کرلیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔