اسرائیل فلسطین جنگ مغرب کہاں کھڑا ہے

مغرب وحشت اور بربریت کی کھلم کھلا حمایت میں ڈٹ کر کھڑا ہوا تو مغرب کے دوہرے معیار کو اپنے پرائے سب نے محسوس کیا

اسرائیل اور غزہ کے مابین جنگ کو 35دن ہو گئے۔ حماس حملے کے جواب میں اسرائیل نے نہتے اور معصوم پہلے سے محاصرہ زدہ فلسطینیوں کو بھون کر رکھ دیا۔

اس دوران مغرب وحشت اور بربریت کی کھلم کھلا حمایت میں ڈٹ کر کھڑا ہوا تو مغرب کے دوہرے معیار کو اپنے پرائے سب نے محسوس کیا۔ مغرب کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں عوام نے زبردست مظاہرے کیے اور اس وحشت اور بربریت پر اپنی نفرت کا اظہار کیا۔

ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ سی آئی اے کے چیف اور اسرائیلی حکام دوحہ قطر میں اسرائیل کے جنگی قیدیوں کے لیے مذاکرات کے لیے پہنچے ہیں۔

اعلان کردہ چار گھنٹے کی بظاہر انسانی ہمدردی کے لیے سیز فائر ان بیک ڈور مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی حکومت پر شدید دباؤ ہے کہ وہ مغوی اسرائیلیوں کو جلد بازیاب کرائے جو اس جنگ میں حماس کے لیے ایک اہم ہیومن شیلڈ اور مذاکرات کے لیے ترپ کا پتہ ہیں۔

اس جنگ کے آغاز ہی سے امریکا اور اس کے حواریوں کی حکومتوں اور میڈیا نے اسرائیل کی جم کر حمایت کی اور سب فلسطینیوں کو حماس کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے ان کی مخالفت کو اپنا شعار بنایا۔

اس نے مغرب کے دوہرے معیار کو ہر گزرتے دن مزید آشکار کیا۔ غیر جانبدار ماہرین اور دانشوروں نے بار بار سوال اٹھایا کہ وہ مغرب جو یوکرائن پر روسی حملے پر چیں بہ چیں تھا، اسی طرح کے ایک دوسرے واقعے پر اس نے بالکل متضاد معیار اپنایا۔

مغرب کا یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟ فار ایسٹ کے دانشور اور سابق سینٹرل بینکر اینڈریو شینگ (Andrew Sheng) عالمی امور پر ایشیاء کی نظر سے لکھتے ہیں۔ انھوں نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ میں ایک نہایت نکتہ آفرین مضمون تحریر کیا ہے۔ اس کا ترجمہ اور تلخیص ذیل میں پیش ہے کہ حالیہ دنوں میں اس سوال کا اس سے بہتر جواب ہماری نظر سے شاید ہی گزرا ہو۔

یوکرائن اور غزہ کی جنگوں نے مغرب کو رائے عامہ کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ غزہ کی تصاویر اور خبریں اس قدر خوفناک ہیں کہ اس تباہی کے بطن سے کوئی امید یا تعمیری چیز کیسے برآمد ہو سکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مغرب اور باقی اقوام کے درمیان توازن ختم ہو گیا ہے۔

مغرب کیا ہے؟ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں بنیادی طور پر امریکا کی زیر قیادت شمالی امریکا، یورپ اور آسٹریلیا بشمول جاپان شامل ہیں۔ یہ ممالک عالمی معیشت کا 63فیصد، عالمی تجارت کا تین چوتھائی اور عالمی آبادی کا 18فیصد ہیں۔


پچھلے سال یوکرائن کی جنگ نے عالمی رائے عامہ کو تیزی سے تقسیم کر دیا۔ نیٹو کی قیادت میں مغربی دنیا یوکرائن کے پیچھے متحد ہو گئی۔7اکتوبر کو شروع ہونے والی اسرائیل غزہ جنگ نے اس فرق کو مزید اجاگر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک قرارداد جس میں غزہ کے شہریوں کے تحفظ اور قانونی اور انسانی ذمے داریوں کی پاسداری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

دنیا کی60فیصد سے زائد آبادی نے اس قرارداد کی حمایت کی جس میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا اور تسلیم کیا کہ ''اسرائیل فلسطین تنازعہ کا منصفانہ اور دیرپا حل پرامن طریقوں سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔''

صنعتی انقلاب کے بعد سے مغرب میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کو ان کے عروج کی وجہ جانا گیا۔ یہ اس لیے بھی ممکن ہوا کیوں کہ کشادہ ذہنی اور مساوات جیسے نظریات بالکل ''متوازن'' تھے۔ سابق اکانومسٹ ایڈیٹر بل ایموٹ نے اپنی کتاب دی فیٹ آف دی ویسٹ میں نظریہ پیش کیا ہے، ''ہم اپنی موجودہ مصیبت میں اس لیے ہیں کیونکہ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ توازن کھو چکے ہیں۔''

یوکرائن اور غزہ کے بارے میں بحثیں اچھے اور برائی کے انتہائی جذباتی الفاظ میں پیش کی جاتی ہیں۔ سیاق و سباق اور واقعات کا بہت کم جائزہ لیا جاتا ہے۔ خود راستی پر مبنی مذہبی سلسلہ راست بازی ایسا احساس پیدا کرتا ہے جہاں متبادل تشریح کو بھلائی کا دشمن اور شیطان کا حامی قرار دیا جاتا ہے۔

اس ہفتے کے شروع میں، سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود بارک نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ انھیں توقع ہے کہ اسرائیل چند ہفتوں میں''آزاد دنیا میں بہت سی حکومتوں کی حمایت کھو دے گا۔'' اصل جغرافیائی سیاسی سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اسرائیل کے لیے اپنی کٹر حمایت کے لیے وہی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے؟

کیا مغرب اپنا راستہ بھول گیا ہے؟ یہودی ثقافت کے ایک مورخ پروفیسر مائیکل برینر کا استدلال ہے کہ مغرب ایک بڑے ہسٹیریا سے گزر رہا ہے، جہاں غیر مومنین کو ساتھ شامل کیا جانا ہے یا دوسری صورت میں ان کو ختم کرنا ہے۔ غیر مغربی خیالات رکھنے والوں کو مسترد سمجھا جائے گا، چونکہ وہ برے یا غلط ہیں، اس لیے اب انھیں برابر نہیں دیکھا جاتا۔

لیکن، جیسا کہ ایموٹ نے دیکھا،''کھلے پن کے بغیر، مغرب ترقی نہیں کر سکتا، لیکن مساوات کے بغیر، مغرب قائم نہیں رہ سکتا۔''

آسٹریا کے فلسفی کارل پولانی نے دلیل دی کہ مارکیٹ کی لبرل ازم بالآخر ہمیں سماجی تحفظ اور انصاف کی ضرورت کی طرف لے جائے گی۔ اس نے لکھا، ''مغرب کو اس صنعتی، سائنسی اور اقتصادی راستے کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے جس پر اس وقت دنیا استوار ہے۔

ہم کٹہرے میں ہیں۔''غزہ اور یوکرائن کے واقعات نے مغرب کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔''باقی'' اب اپنے لیے سوچ رہے ہیں کیونکہ مغرب سب کے لیے مختلف سوچ رہا ہے۔ کسی مضبوط اخلاقی حیثیت کے بغیر مغرب کسی دوسرے وحشی سے بہتر نہیں ہے۔ ہاں البتہ صرف استعماریت اور ذہنی برتری کے اپنے سنہری ماضی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا... مغرب اب ایک نئی دنیا کی رائے عامہ کے کٹہرے میں ہے!
Load Next Story