بے یقینی کی انتہا
ستم ظریفی یہ ہے کہ کاروبار حکومت ایک خط کی وجہ سے اٹکا ہوا ہے
خط کا معاملہ ایک نئے اور ڈرامائی موڑ پر پہنچ گیا ہے ۔ منگل کو وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ وہ سابق اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم کے ارسال کردہ خط کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں اور اس سلسلے میں انھوں نے وزیر قانون کو ہدائت کر دی ہے۔
وزیراعظم نے عدالت سے استدعا کی اگلے انتخابات سر پر ہیں اور اگر وسیع تر قومی مفاد میں فاضل عدالت اس معاملے کو موخر کر دے تو جمہوری عمل کی پیش رفت کسی رکاوٹ کے بغیر ہو سکتی ہے، عدالت نے خط لکھنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی ہے۔
حکومت کے موقف میں یہ بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، کہا تو یہ جارہا تھا کہ جب تک زرداری صاحب صدر ہیں ، ان کو آئین کی رو سے استثنیٰ حاصل ہے، اس لیے سوئس حکام کو خط لکھنا آئین سے غداری تصور ہو گا، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے یہی موقف اختیار کیا ۔اور انھیں توہین عدالت کا مجرم ٹھہرا کر منصب سے برخواست کر دیا گیا۔
ایک لمحے کے لیے انسان سوچتا ہے کہ اگر حکومت اپنے موقف میں لچک پر تیار تھی تو یہ کام گیلانی صاحب ہی کر لیتے تاکہ وہ گھر تو نہ جاتے اور حکومت رسوائی سے بچ جاتی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کاروبار حکومت ایک خط کی وجہ سے اٹکا ہوا ہے، اور اس کی بنیاد اصل میں وہ فیصلہ ہے جو این آر او کوکالعدم کرنے کے لیے سامنے آیا۔ اس فیصلے کو منطق کی رو سے سمجھنا مشکل ہے۔
محترمہ بے نظیر اپنی طویل جلاوطنی ختم کرنے پر آمادہ ہوئیں تھیں اور اسی قانون کی وجہ سے وہ واپس آئیں مگر شہید کر دی گئیں تو پہلی بات یہ ذہن میں آتی ہے کہ عدلیہ نے این آراو کو ختم کر دیا تو اس کا مطلب یہی نکلا کہ اس قانون کا واضح مطلب یہی تھا کہ کسی طرح گھیر گھار کو محترمہ کو مقتل میں لایا جائے، اور دراصل ہوا بھی یہی، پہلی ہی شب کراچی میں ان کے قافلے کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس میں محترمہ تو محفوظ رہیں لیکن کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ان لوگوں کی جانیں ضایع ہونے کا بوجھ بھی اسی دھوکے باز قانون کے سر ہے، سمجھ نہیں آتی کہ جن ملکی اور غیر ملکی طاقتوں نے محترمہ کو یقین دہانیاں کروائیں ، وہ این آر او کے ختم کیے جانے پر خاموش کیوں رہیں۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ سب محترمہ کے قتل میں در پردہ شریک تھیں۔
اور اس سوال کا جواب کون دے گا کہ جس این آر اور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محترمہ کے پیچھے پیچھے شریف برادران بھی ملک میں واپس آ گئے، ان کو یہاں ٹکنے کیوں دیا گیا، ان سے کسی نے کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنی جلاوطنی کے دس سال پورے کرنے کے بعد ہی واپس آئیں۔
کیا یہ فرض کر لیا جائے کہ جن طاقتوں نے شریف بردران کو یقین دہانیاں کرائی تھیں اور انھیں تحفظ دیا تھا، وہ اپنے اقرار میں سچی نکلیں مگر محترمہ کی ڈیل طے کرانے والی قوتوں نے منافقت سے کام لیا اور محض ایک چال چلی کہ محترمہ واپس آجائیں اور پھر ان سے خلاصی حاصل کر لی جائے۔
این آر او کا قانون پاکستان میں برا تھا ، تو منڈیلا کے ملک میں یہ کیسے جائز ہو گیا تھا اور اس عظیم لیڈر نے کس طرح دل بڑا کر کے اپنے مخالفین کو معاف کر دیا تھا۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ جہاں پیپلزپارٹی کا تعلق ہوتا ہے ، وہاں کوئی رعایت نہیں کی جاتی بلکہ الٹا انتقام کا سلسلہ دراز کر دیا جاتا ہے، بھٹو کی حکومت ختم کی گئی، اسے پھانسی دے کر شہید کیا گیا۔
بھٹو کے ایک بیٹے کو فرانس میں زہر دے کر ختم کیا گیا ، دوسرے بیٹے کواس کی بہن کی حکومت کے دوران کراچی میں گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف احتساب کا سلسلہ روز دیکھنے میں آرہا ہے، احتساب ایک اچھی روایت ہے مگر اسے سب کے لیے ہونا چاہیے، صرف پیپلز پارٹی کے وزیروں کو ہی کٹہرے میں نہ کھڑا کیا جائے۔
اپوزیشن والوں نے کوئی گنگا اشنان نہیں کر رکھا کہ انھیں احتساب کے عمل سے نہیں گزارا جاتا، جو کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا ہے، اس سے تو بہتر تھا کہ کوئی فوجی حکمران یہ آرڈر جاری کر دیتا اور آئین میں لکھ دیتا کہ پیپلز پارٹی نام کی جماعت سیاست نہیں کر سکتی بلکہ یہ بھی طے کر دیا جاتا کہ بھٹو خاندان کو جینے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔
عجیب معاملہ ہے کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے اس پارٹی کے خلاف تمام قوتیں بر سر پیکار ہیں مگر اس کے لیڈر کے ہونٹو ں پر پاکستان کھپے کا نعرہ ہے اور وہ جمہوریت کو ہی بہترین ا نتقام تصور کرتا ہے، بلوچستان کے علاقائی لیڈروں کو ذرا بھر تکلیف ہوجائے تو وہ بیرون ملک بیٹھ کر آزادی کی جدو جہد شروع کر دیتے ہیں ۔
اپنے صوبے میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے اور ایک پیپلز پارٹی ہے کہ سندھ، بلوچستان، سرحد، آزاد کشمیر، اور گلگت میں حکومت میں ہے اور زخم پہ زخم سہہ رہی ہے اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔اسے ہر طعنہ دیا جاتا ہے، آئے روز نجومی طوطے اس کے خلاف فال نکالتے ہیں ، اسے اخباروں کی شہہ سرخیوں میںمطعون کیا جاتا ہے۔
ٹی وی کے ٹاک شوز میں اس کی تذلیل کی جاتی ہے ،اس کے خلاف بلیم گیم کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی،میڈیا اس کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے ، سول سوسائٹی اسے ذہنی طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ایسا کیوں ہے، اس کا راز کوئی نہیں جانتا۔اس پارٹی نے ملک کو آئین دیا، اس آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تو اسی پارٹی نے اس کی روح بحال کی اور قومی اتفاق رائے سے کی۔
یہی پارٹی ہے جس نے ایک شکستہ پاکستان کی تعمیر نو کی، ملکی افواج کو حوصلہ بخشنے کے لیے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی،اسلامی کانفرنس کا خصوصی اجلاس منعقد کر کے پاکستان کی عالمی تنہائی دور کی اور اسے مسلم امہ کے مرکزی دھارے کا حصہ بنایا۔مسئلہ کشمیر کے لیے ہزار سال تک جنگ لڑنے کا عزم ظا ہر کیا۔
محترمہ نے دیوار برلن کے انہدام کے بعد آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے میں کئی جلسے کیے اور اپنا دوپٹہ نیلی فضائوں میں لہراتے ہوئے آزادی ! آزادی !کے نعرے لگائے۔ اس ریکارڈ کی حامل ایک قومی جماعت کو ہمیشہ ٹارگٹ کیوں کیا جاتا ہے۔اسے سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کا دماغ چاہیے جو اس وقت میسر نہیں ہے۔انسان سوچتا ہے کہ جو لوگ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کونشانہ بنا رہے ہیں ۔
وہ نہ پارٹی کا کوئی نقصان کر پائے ہیں ، نہ اس کی قیادت کا۔نقصان صرف قوم اور ملک کا ہو رہا ہے، کاروبار ٹھپ ہے، بد امنی نے قوم کو ہراساں کر رکھا ہے، دہشتگردی کا عفریت پھنکار رہا ہے،لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے عذاب بن گئے ہیں،مہنگائی کے عفریت نے غریب کی روح قبض کر لی ہے، کوئی بیمار ہو جائے تو اسے علاج میسر نہیں آتا۔تعلیم کارپوریٹ کاروبار میں تبدیل ہو گئی ہے۔
منشیات اور اسلحے کا دھندہ زوروں پر ہے۔ جس حکومت نے ان مسائل کا حل ڈھونڈنا تھا ،اسے چار برس سے بلیم گیم میں الجھا دیا گیاے تاکہ وہ کوئی فلاحی اور ترقیاتی کام نہ کر سکے، اوپر سے شور مچایا جاتا ہے کہ حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔
جس حکومت کے ہاتھ پائوں باندھ دیے جائیں ، اس سے کسی کارکردگی کی توقع ہی عبث ہے۔ امریکا اور بھارت تو پاکستان کو آنکھیں دکھاتے ہی تھے ، اب افغانستان نے بھی گھرکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔اور ایک طرف خط کا معاملہ ہے جو عمر عیار کی زنبیل کی طرح پھیلا ہوا ہے، ایک وزیر اعظم اس کی بھینٹ چڑھا ، اب دوسرا اپنی گردن بچانے کی فکر میں مبتلا ہے۔
اس سے بے یقینی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے، کاش! ہم میں سے کوئی تو ہوش کے ناخن لے اور ملک اور اس کے عوام کی تقدیر سے نہ کھیلا جائے، ہمیں استحکام کی ضرورت ہے، ذرا سکون ملے تو یقین کیجیے، پاکستانی عوام معجزے دکھا سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے عدالت سے استدعا کی اگلے انتخابات سر پر ہیں اور اگر وسیع تر قومی مفاد میں فاضل عدالت اس معاملے کو موخر کر دے تو جمہوری عمل کی پیش رفت کسی رکاوٹ کے بغیر ہو سکتی ہے، عدالت نے خط لکھنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی ہے۔
حکومت کے موقف میں یہ بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، کہا تو یہ جارہا تھا کہ جب تک زرداری صاحب صدر ہیں ، ان کو آئین کی رو سے استثنیٰ حاصل ہے، اس لیے سوئس حکام کو خط لکھنا آئین سے غداری تصور ہو گا، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے یہی موقف اختیار کیا ۔اور انھیں توہین عدالت کا مجرم ٹھہرا کر منصب سے برخواست کر دیا گیا۔
ایک لمحے کے لیے انسان سوچتا ہے کہ اگر حکومت اپنے موقف میں لچک پر تیار تھی تو یہ کام گیلانی صاحب ہی کر لیتے تاکہ وہ گھر تو نہ جاتے اور حکومت رسوائی سے بچ جاتی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کاروبار حکومت ایک خط کی وجہ سے اٹکا ہوا ہے، اور اس کی بنیاد اصل میں وہ فیصلہ ہے جو این آر او کوکالعدم کرنے کے لیے سامنے آیا۔ اس فیصلے کو منطق کی رو سے سمجھنا مشکل ہے۔
محترمہ بے نظیر اپنی طویل جلاوطنی ختم کرنے پر آمادہ ہوئیں تھیں اور اسی قانون کی وجہ سے وہ واپس آئیں مگر شہید کر دی گئیں تو پہلی بات یہ ذہن میں آتی ہے کہ عدلیہ نے این آراو کو ختم کر دیا تو اس کا مطلب یہی نکلا کہ اس قانون کا واضح مطلب یہی تھا کہ کسی طرح گھیر گھار کو محترمہ کو مقتل میں لایا جائے، اور دراصل ہوا بھی یہی، پہلی ہی شب کراچی میں ان کے قافلے کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس میں محترمہ تو محفوظ رہیں لیکن کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ان لوگوں کی جانیں ضایع ہونے کا بوجھ بھی اسی دھوکے باز قانون کے سر ہے، سمجھ نہیں آتی کہ جن ملکی اور غیر ملکی طاقتوں نے محترمہ کو یقین دہانیاں کروائیں ، وہ این آر او کے ختم کیے جانے پر خاموش کیوں رہیں۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ سب محترمہ کے قتل میں در پردہ شریک تھیں۔
اور اس سوال کا جواب کون دے گا کہ جس این آر اور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محترمہ کے پیچھے پیچھے شریف برادران بھی ملک میں واپس آ گئے، ان کو یہاں ٹکنے کیوں دیا گیا، ان سے کسی نے کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنی جلاوطنی کے دس سال پورے کرنے کے بعد ہی واپس آئیں۔
کیا یہ فرض کر لیا جائے کہ جن طاقتوں نے شریف بردران کو یقین دہانیاں کرائی تھیں اور انھیں تحفظ دیا تھا، وہ اپنے اقرار میں سچی نکلیں مگر محترمہ کی ڈیل طے کرانے والی قوتوں نے منافقت سے کام لیا اور محض ایک چال چلی کہ محترمہ واپس آجائیں اور پھر ان سے خلاصی حاصل کر لی جائے۔
این آر او کا قانون پاکستان میں برا تھا ، تو منڈیلا کے ملک میں یہ کیسے جائز ہو گیا تھا اور اس عظیم لیڈر نے کس طرح دل بڑا کر کے اپنے مخالفین کو معاف کر دیا تھا۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ جہاں پیپلزپارٹی کا تعلق ہوتا ہے ، وہاں کوئی رعایت نہیں کی جاتی بلکہ الٹا انتقام کا سلسلہ دراز کر دیا جاتا ہے، بھٹو کی حکومت ختم کی گئی، اسے پھانسی دے کر شہید کیا گیا۔
بھٹو کے ایک بیٹے کو فرانس میں زہر دے کر ختم کیا گیا ، دوسرے بیٹے کواس کی بہن کی حکومت کے دوران کراچی میں گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف احتساب کا سلسلہ روز دیکھنے میں آرہا ہے، احتساب ایک اچھی روایت ہے مگر اسے سب کے لیے ہونا چاہیے، صرف پیپلز پارٹی کے وزیروں کو ہی کٹہرے میں نہ کھڑا کیا جائے۔
اپوزیشن والوں نے کوئی گنگا اشنان نہیں کر رکھا کہ انھیں احتساب کے عمل سے نہیں گزارا جاتا، جو کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا ہے، اس سے تو بہتر تھا کہ کوئی فوجی حکمران یہ آرڈر جاری کر دیتا اور آئین میں لکھ دیتا کہ پیپلز پارٹی نام کی جماعت سیاست نہیں کر سکتی بلکہ یہ بھی طے کر دیا جاتا کہ بھٹو خاندان کو جینے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔
عجیب معاملہ ہے کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے اس پارٹی کے خلاف تمام قوتیں بر سر پیکار ہیں مگر اس کے لیڈر کے ہونٹو ں پر پاکستان کھپے کا نعرہ ہے اور وہ جمہوریت کو ہی بہترین ا نتقام تصور کرتا ہے، بلوچستان کے علاقائی لیڈروں کو ذرا بھر تکلیف ہوجائے تو وہ بیرون ملک بیٹھ کر آزادی کی جدو جہد شروع کر دیتے ہیں ۔
اپنے صوبے میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے اور ایک پیپلز پارٹی ہے کہ سندھ، بلوچستان، سرحد، آزاد کشمیر، اور گلگت میں حکومت میں ہے اور زخم پہ زخم سہہ رہی ہے اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔اسے ہر طعنہ دیا جاتا ہے، آئے روز نجومی طوطے اس کے خلاف فال نکالتے ہیں ، اسے اخباروں کی شہہ سرخیوں میںمطعون کیا جاتا ہے۔
ٹی وی کے ٹاک شوز میں اس کی تذلیل کی جاتی ہے ،اس کے خلاف بلیم گیم کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی،میڈیا اس کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے ، سول سوسائٹی اسے ذہنی طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ایسا کیوں ہے، اس کا راز کوئی نہیں جانتا۔اس پارٹی نے ملک کو آئین دیا، اس آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تو اسی پارٹی نے اس کی روح بحال کی اور قومی اتفاق رائے سے کی۔
یہی پارٹی ہے جس نے ایک شکستہ پاکستان کی تعمیر نو کی، ملکی افواج کو حوصلہ بخشنے کے لیے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی،اسلامی کانفرنس کا خصوصی اجلاس منعقد کر کے پاکستان کی عالمی تنہائی دور کی اور اسے مسلم امہ کے مرکزی دھارے کا حصہ بنایا۔مسئلہ کشمیر کے لیے ہزار سال تک جنگ لڑنے کا عزم ظا ہر کیا۔
محترمہ نے دیوار برلن کے انہدام کے بعد آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے میں کئی جلسے کیے اور اپنا دوپٹہ نیلی فضائوں میں لہراتے ہوئے آزادی ! آزادی !کے نعرے لگائے۔ اس ریکارڈ کی حامل ایک قومی جماعت کو ہمیشہ ٹارگٹ کیوں کیا جاتا ہے۔اسے سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کا دماغ چاہیے جو اس وقت میسر نہیں ہے۔انسان سوچتا ہے کہ جو لوگ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کونشانہ بنا رہے ہیں ۔
وہ نہ پارٹی کا کوئی نقصان کر پائے ہیں ، نہ اس کی قیادت کا۔نقصان صرف قوم اور ملک کا ہو رہا ہے، کاروبار ٹھپ ہے، بد امنی نے قوم کو ہراساں کر رکھا ہے، دہشتگردی کا عفریت پھنکار رہا ہے،لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے عذاب بن گئے ہیں،مہنگائی کے عفریت نے غریب کی روح قبض کر لی ہے، کوئی بیمار ہو جائے تو اسے علاج میسر نہیں آتا۔تعلیم کارپوریٹ کاروبار میں تبدیل ہو گئی ہے۔
منشیات اور اسلحے کا دھندہ زوروں پر ہے۔ جس حکومت نے ان مسائل کا حل ڈھونڈنا تھا ،اسے چار برس سے بلیم گیم میں الجھا دیا گیاے تاکہ وہ کوئی فلاحی اور ترقیاتی کام نہ کر سکے، اوپر سے شور مچایا جاتا ہے کہ حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔
جس حکومت کے ہاتھ پائوں باندھ دیے جائیں ، اس سے کسی کارکردگی کی توقع ہی عبث ہے۔ امریکا اور بھارت تو پاکستان کو آنکھیں دکھاتے ہی تھے ، اب افغانستان نے بھی گھرکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔اور ایک طرف خط کا معاملہ ہے جو عمر عیار کی زنبیل کی طرح پھیلا ہوا ہے، ایک وزیر اعظم اس کی بھینٹ چڑھا ، اب دوسرا اپنی گردن بچانے کی فکر میں مبتلا ہے۔
اس سے بے یقینی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے، کاش! ہم میں سے کوئی تو ہوش کے ناخن لے اور ملک اور اس کے عوام کی تقدیر سے نہ کھیلا جائے، ہمیں استحکام کی ضرورت ہے، ذرا سکون ملے تو یقین کیجیے، پاکستانی عوام معجزے دکھا سکتے ہیں۔