ارشاداتِ عشق

لاہور کی مٹی نے ارشاد امین کے خلوص اور وفا کو دیکھتے ہوئے اسے اپنی گود میں لے لیا

Warza10@hotmail.com

تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھتی کبھو

اب دیدہ ترکو جو تم دیکھو، تو ہے گرداب سا

میر کے اس مصرعے کے نزول کی کیفیت میر ہی جانیں، مگر ہم عشق کے خوگر اپنے ہی حالات و واقعات کے عشق کے ایسے پجاری بن بیٹھے ہیں کہ اپنے عشق کی دنیاوی کیفیت کو نہ خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ہی دائمی عشق کی کیفیت سے باہر آنا چاہتے ہیں۔

مجھے نہیں علم کہ شفقت اللہ، نذیر لغاری، شاہد جتوئی، نواز طاہر، پریم چند گاندھی، خالد منصور، فیکا پر ہم سب کے معشوق '' ارشاد امین '' کے اچانک چلے جانے سے کیا کچھ بیت رہا ہوگا، البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ارشاد امین کی موت کی خبر سنتے ہی نذیر لغاری غم و اندوہ کی تصویر بنے ارشاد امین کے کراچی دوستوں اور سجنوں کو رندھی ہوئی آواز میں اطلاع دے کر ملتان سے کوسوں دور بیٹھا ارشاد امین کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اس کے ذکر پر صرف ہائے ہائے کیے جا رہا تھا اور دل میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا مگر اپنے دکھ کا اظہار کرنے سے قاصر تھا۔

یہی کچھ کیفیت شاہد جتوئی کی تھی جو اس وقت راجن پور میں تھا اور اپنی رندھی ہوئی آواز سے بمشکل اپنے جذبات پر قابو کیے ہوئے تھا اور ملتان جانے کے لیے بیقرار و بے چین تھا، جب کہ میں اس کیفیت میں بھونچکا سا نذیر لغاری، شاہد جتوئی کا فون رسیو بھی کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میرا کمرہ گویا یتیم ہوگیا ہے، جہاں اکثر ارشاد امین بے تکلف اور آزادی کے ساتھ محافل سجانے اور اپنے علمی دلیلوں سے محفل کو گرماتا رہتا تھا، مجھے کیسے یقین آتا کہ دو روز قبل ارشاد امین سے ہونے والی گفتگو اور پھر اچانک اس کے اجل کی پرواز کی خبر... میں اور میرا کنبہ ایک ملنسار اور زندہ دل ارشاد امین سے محروم ہوچکا تھا۔

اسی اثنا بھارت کے دوست پریم چند کی کال آئی اور پریم چند نے ارشاد امین کی موت کی تصدیق چاہی، میں نے دکھی جذبوں کے ساتھ بھارت کے دوستوں کو خبر دی تو ارشاد امین کے بھارت میں چاہنے والوں میں تشویش دوڑگئی اور دوسرے روز راجستھان کے اخبارات اپنے راجپوت سپوت کی موت کی خبر سے بھرے پڑے تھے۔


لاہور کے سرائیکی اخبار '' سجاگ'' اور '' ہم شہری'' سے عشق کرنے والا آخر تک سجاگ کا متبادل سہ ماہی سرائیکی ''پرت'' اور ہفتہ وار'' ہم شہری'' نکالتا رہا اور اپنی صحافتی و ادبی کوششوں سے وسیب کے دکھ درد بانٹتا رہا، میں اس لمحے ہم شہری پروجیکٹ کے شفقت اللہ کی اس کیفیت کا صرف اندازہ ہی کر سکتا ہوں جو شفقت کو تنہا اور غم اندوہ کرگئی ہوگی۔ شفقت اللہ اور طاہر نواز تو ہم سے زیادہ خوش نصیب ٹہرے کہ جنھوں نے اپنے عشق '' ارشاد امین'' کو اپنے لرزتے ہاتھوں سے مٹی ماں کے حوالے کیا اور صبر کے مینار پر استقامت سے کھڑے رہے۔

رات بھر میں اور شاہد بس گھنٹوں اپنے عشق'' ارشاد امین'' کی ادائوں اور اس کے افکار تازہ کی گفتگوکرتے رہے، خود پر قابوکیے رہے اور وسیب کے لیے ارشاد امین کی خواہش کہ اس کی جنم بھومی ''چاچڑ'' میں اس کا آشرم بن جائے کو یاد کرتے رہے اور نواز طاہرکے احساس وجذبات کی قلم بندی کو بار بار پڑھتے رہے۔ نواز ظاہر لاہور کے متحرک اور دوستوں کی جان کے طور پر ارشاد امین کا سایہ بنے رہے، طاہر نوازکے ارشاد امین سے عشق کے احساسات کو دیکھیے اور سر دھنیے کہ طاہر اپنے معشوق کے چلے جانے پرکس کیفیت سے دوچار ہے۔

خواجہ غلام فرید کی گوانڈہ بستی '' پہوڑاں'' میں پیدا ہونے والا ایک پہوڑ راجپوت، سرائیکی مٹی سے مکمل گندھا ہوا، خواجہ غلام فرید کا سچا عاشق، مداح، شیدائی اور سچی کافیوں کی آواز، الفاظ اور روح، جس کو سرائیکی بولی کے ساتھ دوسری ماں بولیوں سے بھی کسی قدر عشق کم نہ تھا، اس کے اندر صرف خواجہ فرید ہی نہیں، بابا فرید بھی بستا تھا، شاہ حسین بھی بستا تھا، سچل، بھٹائی، خٹک، باہو، وہ سب کا وارث تھا، میں پوچھنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس لمحے چاچڑاں شریف کی مٹی کو ہم داتا کی نگری کی مٹی کے حوالے کر کے واپس پلٹنے لگے تولالہ ارشاد امین اونچی اونچی آواز سے چتاونی دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ '' گور میں کوئی اور ہے ، تم کسی اور بت کو داب کر چلے جا رہے ہو، میں تو تمہارے درمیان موجود ہوں۔

نجانے کیوں ارشاد امین کو ملتان سے بہت پیار تھا، وہیں سے تو اس نے سماجی سیاسی اور فلاحی قلم کی تحریک کو مربوط کیا تھا، وہاں ''الشمس'' اور یہاں لاہور میں '' سجاگ'' ذریعے روشنی پھیلائی تھی، نئی صحافتی ٹیکنالوجی سے وسیب کو روشناس کروایا تھا، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سجاگ اخبار سرائیکی کا پہلا کمپیوٹرائزڈ اخبار تھا، آج کی صحافت میں بڑے قد والے گنتی ہی کے نام ہیں، جن میں ارشاد امین پیش پیش ہے۔

ارشاد امین نے صحافت اور سرائیکی ادب میں جو بوٹا لگایا وہ آج اگر آنکھیں موندے ہیں تو یہ ان کا ظرف ہے، ان میں کچھ کردار پیرا سائیٹ کی طرح کے ہوچکے ہیں جب کہ کچھ ایسے کردار بھی ہیں جنھوں نے ارشاد امین کی پل پل خبر گیری رکھی۔ ملتان میں منصور کریم اور تاج لنگاہ کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے، ملتان کی مٹی سے عشق و وفا کا کمال ہی تو ہے کہ ارشاد امین نے اپنی آخری سانس بھی ملتان میں دی، لاہور کو اپنایا تو سنگت اور سجنوں کی محفل سجانے کے ہنر سے ایسی کنڈلی بنائی کہ لاہورکی محافل کی جان بن گیا۔

لاہور کی مٹی نے ارشاد امین کے خلوص اور وفا کو دیکھتے ہوئے اسے اپنی گود میں لے لیا اور فیصل ٹائون کے ''کوٹھا پنڈ'' کے اجاڑ قبرستان نے اسے اپنے اندر سمو لیا، اے لالہ تو نے اچھا نہیں کیا، مجھے تو چھوڑ، انور سن رائے نے تیرے جانے کی خبرکوکیسے برداشت کیا ہوگا، خورشید کو بھی کراچی میں تو نے کوئی اطلاع نہیں دی۔ اب سعید خاورکس سے اپنے وسیب کے درد بتائے گا، نذیر لغاری کو بھی تو گنگ کرگیا ہے، اب نذیر لغاری کو علامہ کہہ کرکون پکارے گا؟

شاہد جتوئی وسیب کے تذکرے کس سے کرے گا، کیونکہ اس کا حضرت انسان تو مٹی میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ شفقت اللہ کس کے ساتھ فارسی ادب، میوزک اور شاعری پرگفتگو کرے گا، اس کے سارے احساسات کو تو تم ساتھ لے کیے ہو؟ تیرے اٹھنے بیٹھنے کے ٹھکانے لاہور پریس کلب کا چاچا رفیق میر تجھے ڈھونڈتا پھرے گا، ارشاد تمہیں پتہ ہے کہ آج لاہور پریس کلب کا کھجورکا درخت کچھ ایسے اکڑا ہوا تھا جیسے تمہارے سوگ کا اعلان کر رہا ہو۔ لالہ تم نے اپنی سی کر لی نا، اب دیکھو ہم تمہیں روز اپنے ساتھ بٹھا کر تم سے باتیں کرکے ، تم سے گلے شکوے کریں گے، قہقہے لگائیں گے اور سب تمہارے ساتھ رہیں گے۔
Load Next Story