ہمارا اخلاق ہماری پہچان
عورت یقینا کسی بھی معاشرے کا مفید شہری ہے
ایک مقولہ ہے کہ'' مرد پڑھا، فرد پڑھا۔ عورت پڑھی پورا خاندان پڑھا۔''
یہ بالکل درست ہے کہ ایک عورت کے پڑھنے کا مطلب دراصل پورے خاندان کا پڑھنا ہوتا ہے۔ عورت جو ایک ماں بھی ہے گھر کو سنبھالنے، بچوں کی تربیت اور نگہداشت کا حصہ اسی عورت کی جھولی میں قدرت نے ڈالا ہے اور اس گھرکو چلانے کی ذمے داری مرد کی ہے جو معاشی طور پر کسی بھی گھرانے کے لیے بہت اہم ہے۔
ہم نے بڑے بڑے لوگوں کی کہانیاں پڑھیں اور سنیں جن میں ان کی ماؤں نے بہت اہم کردار ادا کیا، ایسی ہی ماؤں میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ کا نام سرفہرست ہے۔
علامہ اقبال کی والدہ اور حال ہی میں مشہور قانون دان ایس ایم ظفر مرحوم کی والدہ کے مطابق پڑھا۔ ان تمام مشہور لوگوں کے علاوہ ہر ایک مشہور انسان کی زندگی کی کہانی اٹھا کر پڑھیے، ایک عورت کا نام جگمگا رہا ہے۔ جنھوں نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی ساری زندگی کی خواہشات کہیں پیچھے دھکیل دیں اور صرف اپنی اولاد کے لیے ہی سوچا۔
عورت یقینا کسی بھی معاشرے کا مفید شہری ہے لیکن اس صورت میں جب وہ اپنے اخلاقی اور معاشرتی محور سے نکل کر آسمان پر اڑتے بادل پکڑنے کی خواہش کرے اور کوشش بھی کرے تو اس صورت میں وہ اسی تیزی سے پاتال کی گہرائیوں میں جا گرتی ہے۔
سائمن دی بیویئر نے 1949 میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا '' دی سیکنڈ سیکس'' اس کتاب میں اس نے عورت کی ذات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ سائمن کے مطابق بچپن سے ہی والدین اسے اطاعت کا سبق سکھاتے ہیں اور معاشرہ ساری زندگی اطاعت کو اس کا حقیقی کام بتا کر اسے ضمیر فروش بنائے رکھتا ہے اور مرد اس کی اطاعت کو ماننے کے بجائے یہ اعلان کرتے ہیں کہ عورت خود اس قسمت کی خواہش مند ہے جو انھوں نے اس پر لاگو کی ہے۔ عورت تمام عمر اسی طرح بسر کردیتی ہے لیکن اس کا صلہ کبھی نہیں ملتا۔
اس کے مطابق عورتوں کو بھی وہی حقوق ملنے چاہئیں جو مردوں کو حاصل ہیں اور وہی سرگرمیاں جو مرد اختیار کرتا ہے عورت کو بھی ملنی چاہئیں۔ یہ سوچ کا ایک معروضی انداز تھا لیکن حقیقت کی آنکھ سے آج کے دور میں مغرب کی عورت کا مقام اور مسائل اس کی آزادی کے گلے میں طوق کی صورت میں نظر آتی ہے۔
1949 میں عورت مغرب کے پردے پر جس انداز میں ابھر رہی تھی، اس وقت سائمن کا یہ نظریہ عورت کی آزادی اور حقوق کے اعتبار سے معتبر ضرور سمجھا گیا تھا لیکن کیا مغرب اور مشرق کی خواتین ایک ہی جیسے معیارکے مطابق زندگی گزار سکتی ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟
مغرب اور مشرق کی روایات بہت مختلف ہیں، ان کی سوچ، فکر اور زندگی کا برتاؤ بہت الگ ہے لیکن پھر بھی ہم مغربی نقادوں کی باتوں اور ان کے کہے مقولوں کو سچ سمجھ کر ایک دوسرے کو رعب میں لانے کے لیے جھاڑتے رہتے ہیں۔ اب آتے ہیں اپنی مشرقی اطوارکی جانب۔
حال ہی میں ایک گاؤں کی یوٹیوبر خوب صورت لڑکی نے اپنی نازیبا وڈیو لیک ہونے پر سوشل میڈیا پر ہمدردی حاصل کرنے کے لیے خودکشی کی خبر چلوائی۔ ایک خوب صورت لڑکی جو اپنے اردگرد کے ماحول کو بڑی دل فریبی سے اپنے کیمرے میں قید کرتی تھی اس کے فالورز کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی، اس کی آمدنی کا یہ ایک آسان لیکن درحقیقت دشوار طریقہ تھا جو یقینا اسے بہت سہل دکھائی دیتا تھا لیکن یہ اس کے اپنے کام کی مہارت کے ساتھ فیس ویلیو کی بھی کہانی تھی اور ایسا وہی نہیں، ہمارے ملک کی بہت سی لڑکیاں، بچیاں اور خواتین کر رہی ہیں۔ کما رہی ہیں، انجوائے کر رہی ہیں اور ان کے گھر والے بھی اپنے گھر کی خواتین کے عمل سے مطمئن ہیں کیوں کہ اسے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، وہ گھر بیٹھے بھی اپنے گھر والوں کے لیے، اپنے لیے کما رہی ہیں۔
ایک جانب یہ بہ ظاہر اطمینان بخش تصویر ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ ہمارے مشرقی اور اسلامی اقدار کے منافی نظر آ رہا ہے اور یہاں سائمن صاحب کا نظریہ اور خیالات دھڑام سے زمیں بوس ہوتے نظر آتے ہیں۔ انسانی دماغ میں شیطان کی چکریاں بھی چلتی رہتی ہیں جو کسی بھی انسان کا بھلا نہیں چاہتیں۔
یہ چکریاں انسان کو آسمان کی بلندیوں سے بدنامیوں کی دلدل میں چند ہی لمحوں میں گرا دیتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس خوش شکل، پُراعتماد اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ کر کماتی ہوئی نوجوان لڑکی کے ساتھ ہوا۔ صنف مخالف ہمیشہ کشش رکھتی ہے اس کے خلاف ایک حد تک جایا جاسکتا ہے لیکن جب محبت اور عشق کی ڈوروں میں مضبوطی اور اعتماد کا جادو شامل ہو جائے تو اپنے خون کے رشتے بھی جھوٹے اور غیر اپنے لگتے ہیں اور ایسا ہی اس لڑکی کے ساتھ ہوا۔
یہ ایک درد ناک پہلو تھا جس کی تفصیل میں جائے بنا صرف والدین کو اپنی اولاد پر اس حد تک کنٹرول ضرور رکھنا چاہیے کہ وہ ان کے لیے بددعاؤں کا باعث نہ بنے۔ اس طرح کے بے شمار یوٹیوبرز، وی لاگرز اور نہ جانے کیا کیا کچھ سوشل میڈیا سے بھرا پڑا ہے، جہاں بے لگام گھوڑے ڈالرز کی کشش خواہشات کو تھامے ایک ریس میں شامل ہیں۔ نوجوانوں کے لیے یہ سب ایک تفریح اور دل چسپی کا ایک ذریعہ ہے لیکن وہیں اعتماد اور عزت نفس کی دھجیاں بکھرتی ہیں تو اس کی بدنامی سے اڑنے والی چھینٹیں دور دور کے ماحول کو سوگوار کر دیتی ہیں۔
ہر حال میں ہمیں اپنے بچوں کو ترقی کی اس دوڑ میں شامل کرتے ہوئے اپنے مذہبی اور اخلاقی اقدار کو اپنی تربیت کا حصہ بناتے ہوئے ذہن نشین کراتے رہنا ہے کہ ہمارا دائرہ اخلاق ہی ہمیں بدنامیوں اور بے حیائیوں کے پاتال میں گرنے سے بچا سکتا ہے یہ صرف کسی ایک لڑکی کا دکھ نہیں بلکہ پورے معاشرے کا چہرہ ہے۔ خدارا اسے بچانے کی کوشش کریں۔
یہ بالکل درست ہے کہ ایک عورت کے پڑھنے کا مطلب دراصل پورے خاندان کا پڑھنا ہوتا ہے۔ عورت جو ایک ماں بھی ہے گھر کو سنبھالنے، بچوں کی تربیت اور نگہداشت کا حصہ اسی عورت کی جھولی میں قدرت نے ڈالا ہے اور اس گھرکو چلانے کی ذمے داری مرد کی ہے جو معاشی طور پر کسی بھی گھرانے کے لیے بہت اہم ہے۔
ہم نے بڑے بڑے لوگوں کی کہانیاں پڑھیں اور سنیں جن میں ان کی ماؤں نے بہت اہم کردار ادا کیا، ایسی ہی ماؤں میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ کا نام سرفہرست ہے۔
علامہ اقبال کی والدہ اور حال ہی میں مشہور قانون دان ایس ایم ظفر مرحوم کی والدہ کے مطابق پڑھا۔ ان تمام مشہور لوگوں کے علاوہ ہر ایک مشہور انسان کی زندگی کی کہانی اٹھا کر پڑھیے، ایک عورت کا نام جگمگا رہا ہے۔ جنھوں نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی ساری زندگی کی خواہشات کہیں پیچھے دھکیل دیں اور صرف اپنی اولاد کے لیے ہی سوچا۔
عورت یقینا کسی بھی معاشرے کا مفید شہری ہے لیکن اس صورت میں جب وہ اپنے اخلاقی اور معاشرتی محور سے نکل کر آسمان پر اڑتے بادل پکڑنے کی خواہش کرے اور کوشش بھی کرے تو اس صورت میں وہ اسی تیزی سے پاتال کی گہرائیوں میں جا گرتی ہے۔
سائمن دی بیویئر نے 1949 میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا '' دی سیکنڈ سیکس'' اس کتاب میں اس نے عورت کی ذات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ سائمن کے مطابق بچپن سے ہی والدین اسے اطاعت کا سبق سکھاتے ہیں اور معاشرہ ساری زندگی اطاعت کو اس کا حقیقی کام بتا کر اسے ضمیر فروش بنائے رکھتا ہے اور مرد اس کی اطاعت کو ماننے کے بجائے یہ اعلان کرتے ہیں کہ عورت خود اس قسمت کی خواہش مند ہے جو انھوں نے اس پر لاگو کی ہے۔ عورت تمام عمر اسی طرح بسر کردیتی ہے لیکن اس کا صلہ کبھی نہیں ملتا۔
اس کے مطابق عورتوں کو بھی وہی حقوق ملنے چاہئیں جو مردوں کو حاصل ہیں اور وہی سرگرمیاں جو مرد اختیار کرتا ہے عورت کو بھی ملنی چاہئیں۔ یہ سوچ کا ایک معروضی انداز تھا لیکن حقیقت کی آنکھ سے آج کے دور میں مغرب کی عورت کا مقام اور مسائل اس کی آزادی کے گلے میں طوق کی صورت میں نظر آتی ہے۔
1949 میں عورت مغرب کے پردے پر جس انداز میں ابھر رہی تھی، اس وقت سائمن کا یہ نظریہ عورت کی آزادی اور حقوق کے اعتبار سے معتبر ضرور سمجھا گیا تھا لیکن کیا مغرب اور مشرق کی خواتین ایک ہی جیسے معیارکے مطابق زندگی گزار سکتی ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟
مغرب اور مشرق کی روایات بہت مختلف ہیں، ان کی سوچ، فکر اور زندگی کا برتاؤ بہت الگ ہے لیکن پھر بھی ہم مغربی نقادوں کی باتوں اور ان کے کہے مقولوں کو سچ سمجھ کر ایک دوسرے کو رعب میں لانے کے لیے جھاڑتے رہتے ہیں۔ اب آتے ہیں اپنی مشرقی اطوارکی جانب۔
حال ہی میں ایک گاؤں کی یوٹیوبر خوب صورت لڑکی نے اپنی نازیبا وڈیو لیک ہونے پر سوشل میڈیا پر ہمدردی حاصل کرنے کے لیے خودکشی کی خبر چلوائی۔ ایک خوب صورت لڑکی جو اپنے اردگرد کے ماحول کو بڑی دل فریبی سے اپنے کیمرے میں قید کرتی تھی اس کے فالورز کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی، اس کی آمدنی کا یہ ایک آسان لیکن درحقیقت دشوار طریقہ تھا جو یقینا اسے بہت سہل دکھائی دیتا تھا لیکن یہ اس کے اپنے کام کی مہارت کے ساتھ فیس ویلیو کی بھی کہانی تھی اور ایسا وہی نہیں، ہمارے ملک کی بہت سی لڑکیاں، بچیاں اور خواتین کر رہی ہیں۔ کما رہی ہیں، انجوائے کر رہی ہیں اور ان کے گھر والے بھی اپنے گھر کی خواتین کے عمل سے مطمئن ہیں کیوں کہ اسے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، وہ گھر بیٹھے بھی اپنے گھر والوں کے لیے، اپنے لیے کما رہی ہیں۔
ایک جانب یہ بہ ظاہر اطمینان بخش تصویر ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ ہمارے مشرقی اور اسلامی اقدار کے منافی نظر آ رہا ہے اور یہاں سائمن صاحب کا نظریہ اور خیالات دھڑام سے زمیں بوس ہوتے نظر آتے ہیں۔ انسانی دماغ میں شیطان کی چکریاں بھی چلتی رہتی ہیں جو کسی بھی انسان کا بھلا نہیں چاہتیں۔
یہ چکریاں انسان کو آسمان کی بلندیوں سے بدنامیوں کی دلدل میں چند ہی لمحوں میں گرا دیتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس خوش شکل، پُراعتماد اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ کر کماتی ہوئی نوجوان لڑکی کے ساتھ ہوا۔ صنف مخالف ہمیشہ کشش رکھتی ہے اس کے خلاف ایک حد تک جایا جاسکتا ہے لیکن جب محبت اور عشق کی ڈوروں میں مضبوطی اور اعتماد کا جادو شامل ہو جائے تو اپنے خون کے رشتے بھی جھوٹے اور غیر اپنے لگتے ہیں اور ایسا ہی اس لڑکی کے ساتھ ہوا۔
یہ ایک درد ناک پہلو تھا جس کی تفصیل میں جائے بنا صرف والدین کو اپنی اولاد پر اس حد تک کنٹرول ضرور رکھنا چاہیے کہ وہ ان کے لیے بددعاؤں کا باعث نہ بنے۔ اس طرح کے بے شمار یوٹیوبرز، وی لاگرز اور نہ جانے کیا کیا کچھ سوشل میڈیا سے بھرا پڑا ہے، جہاں بے لگام گھوڑے ڈالرز کی کشش خواہشات کو تھامے ایک ریس میں شامل ہیں۔ نوجوانوں کے لیے یہ سب ایک تفریح اور دل چسپی کا ایک ذریعہ ہے لیکن وہیں اعتماد اور عزت نفس کی دھجیاں بکھرتی ہیں تو اس کی بدنامی سے اڑنے والی چھینٹیں دور دور کے ماحول کو سوگوار کر دیتی ہیں۔
ہر حال میں ہمیں اپنے بچوں کو ترقی کی اس دوڑ میں شامل کرتے ہوئے اپنے مذہبی اور اخلاقی اقدار کو اپنی تربیت کا حصہ بناتے ہوئے ذہن نشین کراتے رہنا ہے کہ ہمارا دائرہ اخلاق ہی ہمیں بدنامیوں اور بے حیائیوں کے پاتال میں گرنے سے بچا سکتا ہے یہ صرف کسی ایک لڑکی کا دکھ نہیں بلکہ پورے معاشرے کا چہرہ ہے۔ خدارا اسے بچانے کی کوشش کریں۔