کتاب

کتاب تحفے میں دینے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے '' کتاب'' کے عنوان سے تین کتابیں مرتب کی ہیں۔ میزانِ کتب، چمنستان کتب اور کتاب گھر۔''

وہ لکھتے ہیں ''زندگی جس میزان کے گرد گھوم رہی ہے، اس میں کتابوں کی اہمیت مسلم ہے۔ کتاب انسان کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ الیکٹرانک دنیا نے بھی کتابوں کو اپنے دامن میں پناہ دے رکھی ہے۔ ان گنت موضوعات پر کتابیں دستیاب ہیں، کتابوں کا رشتہ انمٹ ہے۔ کئی نایاب کتابوں کی وجہ سے بہت سے ممالک کے درمیان تعلقات قائم ہو رہے ہیں۔ دانشوروں کے خیالات کا تبادلہ جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق کا میدان زرخیز ہو رہا ہے۔ اس کی آبیاری کتابوں کی وجہ سے ہے۔

'' لفظ اپنا ذائقہ رکھتے ہیں۔ قلم کی وساطت سے یہ لفظ قرطاس پر بکھرتے ہیں تو ان کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ لفظ تحریر سے پہلے ہمارے غلام ہوتے ہیں لیکن کاغذ پر بکھرنے کے بعد ہم ان کے غلام ہو جاتے ہیں۔ لوح و قلم کا سلسلہ ہمارے لیے پیدائشی ہے۔ لفظوں کی حرمت کا احساس رکھنے والے کبھی نہیں مرتے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کتابیں زندہ رہتی ہیں اور ہمیشہ بولتی ہیں۔ قرطاس کو ہمیشہ قلم کی رفاقت کی ضرورت رہی ہے۔ قرطاس پر قلم کی خامہ فرسائی سے قرطاس کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح قلم کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قلم تلوار سے زیادہ طاقت اورکاٹ رکھتا ہے۔ قلم سے کئی شہنشاہ ڈرتے رہے ہیں۔

مورخ کا قلم ان کے سیاہ وسفید کو قرطاس کے ذریعے عوام الناس تک پہنچانے کا سبب بنتا رہا ہے۔ قرطاس و قلم کی اہمیت کا ایک زمانہ معترف ہے۔''

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں ''جس معاشرے میں کتاب کلچر فروغ پاتا ہے وہ مہذب معاشرہ کہلاتا ہے۔ کتاب اچھے انسان کی شخصیت کا پیرہن ہے۔ وہ اپنی شخصیت کا نکھار مطالعہ کتب سے حاصل کرتا ہے۔ معلومات میں اضافہ، مصنف کا اسلوب، نئے لفظوں سے شناسائی، تہذیب کے عروج و زوال، آزادی و غلامی کا تصادم، خیر و شر کا ٹکراؤ اور تحقیق و تنقید کی راہیں مطالعہ کتب سے کھلتی ہیں۔ کتاب کا مطالعہ انسان کو تنہائی سے آسمانوں پر اڑنا سکھاتا ہے۔ وہ لفظوں کے تار چھیڑکر زندگی کی رعنائی میں لطف محسوس کرتا ہے۔ لفظوں کی پٹری پر چلنے والے قاری کو منزل مقصود ضرور ملتی ہے۔''

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے اپنی پہلی کتاب '' میزان کتب'' میں 19 کتابوں پر تبصرہ کیا ہے۔ پہلی کتاب طارق عزیز کی ''داستان'' ہے۔ یہ ان کے وہ کالم ہیں جو انھوں نے اخبارات کے لیے لکھے۔ اپنے پہلے کالم میں طارق عزیز لکھتے ہیں ''میری ساری زندگی سیاست اور ثقافت کے خارزاروں میں خاک اڑاتے گزری۔ حالات و واقعات کی کتنی بہت سی ترتیبیں ہیں جن کا میں چشم دید گواہ بھی ہوں۔ جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن رہا تھا تو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جو چند لوگ مجیب الرحمن سے گفتگو کرنے گئے تھے، میں ان میں شامل تھا۔''


ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی دوستی کتاب '' چمنستان کتب'' ہے۔ اس کتاب میں جن کتابوں پر تجزیہ و تبصرہ کیا گیا ہے، ان کے بارے میں ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں کہ وہ آپ کے ذوق مطالعہ کو تسکین بہم پہنچائیں گی۔ کتابوں پر تبصرہ کرنے کے لیے کتاب کی روح تک پہنچنا پڑتا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ '' چمنستان کتب'' کی خوشبو کو آپ اپنے من میں محسوس کریں گے۔

اس میں پہلا تبصرہ پروفیسر محمد اقبال جاوید کی کتاب '' مصطفی جان رحمتﷺ '' پر ہے۔ پروفیسر صاحب نے احمد رضا خان کے نعتیہ کلام پر تحقیقی کام کیا ہے۔ اس سے احمد رضا خان کے نعتیہ کلام کی تفہیم آسان ہوئی ہے۔ جن دوسری کتابوں پر تبصرہ کیا گیا ہے، ان میں ڈاکٹر طالب حسین سیال کی کتاب '' ریاست مدینہ کی روشنی میں جدید اسلامی فلاحی ریاست'' ہے۔ اس کتاب کا مرکزی خیال اسلامی فلاحی ریاست کا روشن چہرہ ہے۔ تاریخ اسلام، تصوف، سیرت طیبہؐ، اقبالیات اور پاکستانیات ڈاکٹر طالب حسین سیال کے اہم موضوعات فکر ہیں۔

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں '' انقلاب ہمیشہ دانشوروں کے اذہان میں جنم لیتے ہیں۔ ڈاکٹر طالب حسین سیال ایک عظیم دانشور اور صاحب اسلوب تخلیق کار ہیں۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جس جدید اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا ہے وہ حکومت پاکستان کے لیے ایک آئینہ ہے۔''

عقیل عباس جعفری کے شعری مجموعہ '' تعلق'' پر تبصرہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں '' بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عقیل عباس جعفری تحقیق و تنقید کے علاوہ شعر و سخن میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں استعاراتی نظام بہت مضبوط ہے۔ وہ سفر اور گھر کے استعاروں سے کئی مفہوم کشید کرتے ہوئے اپنی شاعری کی عمارت تعمیر کرتے ہیں۔''

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اپنے تجزیوں اور تبصروں کی تیسری کتاب '' کتاب گھر'' کے تعارف میں لکھتے ہیں '' یوں تو چھوٹی سے چھوٹی چیز بہ طور محبت عطیہ کرنا سکون قلب کا باعث ہے لیکن کتابیں عطیہ کرنا ادب دوستی، علم پروری، کتب شناسی اور اقبال شناسی کا ثبوت ہے۔'' یہ بات باعث افسوس ہے کہ ہم سالگرہ کے موقع پر بچوں کو اکثر موبائل، ایل سی ڈی، کمپیوٹر، پستول اور گن دینے کے بجائے کتابیں کیوں نہیں دیتے۔ ایک زمانہ تھا کہ بچوں کو ان کی ذہنی استطاعت کے مطابق کتابیں یا پھر بچوں کے میگزین دیے جاتے تھے۔

کتاب تحفے میں دینے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ ادب کی وجہ سے ہی بچوں میں ادب و آداب کے سلیقے پروان چڑھتے ہیں۔ نسل نو کو ادبی رویوں کی آگاہی دینے کے لیے روز مرہ ادب کے سلیقے سکھانا ضروری ہے، جو لوگ اپنی تہذیب و تمدن سے دور ہو جاتے ہیں، وہ وہ ہوتے ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ جس معاشرے میں کتاب کلچر فروغ پاتا ہے وہ معاشرہ مہذب کہلاتا ہے۔ قیام پاکستان کا خواب اعلیٰ قیادت اور جذبہ حریت سے لبریز کتابوں کا مرہون منت ہے۔ پاکستان عطیہ خداوندی ہے۔ ہماری عظمت رفتہ ہماری کتابوں میں مقید ہے۔ مطالعہ کتب سے ہم اپنے ماضی کو آواز دے سکتے ہیں۔ عصر حاضر میں ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ان کا حل اچھی کتابوں کے مطالعے میں مضمر ہے۔

'' کتاب گھر'' میں 23 کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں ڈاکٹر وسیم انجم کی کتاب '' اپنا گھر'' ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی سات کتابیں، امجد حمید محسن کی دو کتابیں، ریاض ندیم نیازی کی تین کتابیں اور اکرم کنجاہی، ڈاکٹر عارف خان، ڈاکٹر فائزہ احسان صدیقی، محمد یعقوب فردوسی، ممتاز راشدی لاہوری، زاہد رشید، عابد حسین قریشی، نوشاد عثمان اور نسیم سحرکی کتابیں شامل ہیں۔
Load Next Story