آئینہ ماہ و سال 

اردو ادب اور مزاح پر تحقیق کرنے والے طالب علموں کے لیے یہ کتاب تحقیق کے کئی نئے زاویے کھولتی ہے

msmrao786@hotmail.com

آج آپ کی خدمت میں ملک کے ممتاز ماہر تعلیم ادیب شاعر،مصنف اور مزاح نگار ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب کی تازہ ترین کتاب'' آئینہ ماہ و سال'' کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کرنا ہے۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے' نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے. اج کل وفاقی محتسب کے ادارے میں ایک اہم عہدے پر فائز ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے اس خود نوشت میں اپنی ذاتی زندگی اور تجربات کو انتہائی دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب میں دیوان سنگھ مفتون کی کتاب ''ناقابل فراموش'' اور مہاتما گاندھی کی تصنیف ''مثل پر بھات'' کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گاندھی جی کا کہنا تھا ''پبلک لائف اختیار کرنے والے کو شادی نہیں کرنی چاہیے ورنہ وہ دونوں سے انصاف نہیں کر سکے گا '' اسی طرح دیوان سنگھ مفتون کی رائے ہے کہ عوامی اور علوم فنون سے تعلق رکھنے والے انسان کی ترقی میں بیوی بچے ایک رکاوٹ ہوتے ہیں، شادی صرف ان لوگوں کو کرنی چاہیے جو عام ادمی ہوں اور ان کا مقصد کھانا پینا بچے پیدا کرنا ملازمت کرنا اور افسروں کو خوش رکھنا ہو۔

کتاب کے صفحہ نمبر 249 پر ڈاکٹر صاحب گرامو فون کی ایجاد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایڈیسن نے جب گرامر فون ایجاد کیا تو ان کے کتے کا نام میری(Merry) تھا. انھوں نے جب گرامو فون تیار کر لیا تو اس میں merry, merry پکار کر اپنی اواز بھر دی۔ایڈیسن نے جب اپنی اواز کو پلے کیا تو merry,merry کی اواز سن کر ان کا کتابھاگتاھوا ایا۔ اسے مالک قریب نظر نہ ایا تو وہ گرامو فون کے ارد گرد گھومنے لگا ایڈیسن نے کتے کی اس کیفیت کو پکچرائز کر کےHis master's voice لکھ دیا یہی تصویر گرامو فون کی پہچان بن گئی۔


وہ مشاہیر کے اقوال نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''مجھے کائنات تو سمجھ میں اگئی لیکن خواتین سمجھ میں نہیں اتی۔''مجھے بتاؤ تمہارے دوست کون ہیں میں بتاؤں گا کہ تم کون ہو". جو شخص دوسروں کی بات نہیں سنتا وہ انتظامیہ سے تعلق رکھتا ہے اور جو دوسروں کی بات سنتا ہے وہ عدلیہ سے حالانکہ دونوں فیصلہ اپنی مرضی سے ہی کرتے ہیں"

ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میرے پاس تین طرح کی کتابیں ہیں۔کچھ وہ ہیں جنھیں میں پڑھ چکا ہوں ،کچھ وہ ہیں جنھیں میں سرسری طور پر دیکھ چکا ہوں اور کچھ وہ ہیں جنھیں میں نے بعد میں پڑھنے کے لیے الگ کر لیا ہے کیونکہ یہ کتابیں یکسوئی مانگتی ہیں۔یہ کتاب ایک تاریخ بھی ہے اور ہماری معاشرت کی نمایندہ بھی۔اس میں بادشاہوں اور دوستوں کے قصے بھی ہیں۔انھوں نے یہاں تک بھی بیان کر دیا ہے کہ میں نے زندگی میں دو بار خودکشی کی کوشش کی لیکن انھوں نے خودکشی کی وجہ بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ کسی دوسری شخصیت پر کتاب لکھنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا اپنے اوپر کچھ لکھنا ہوتا ہے۔خود نوشت یا اپ بیتی تحریر کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔ یہ کتاب طنز و مزاح اور سنجیدگی کا حیران کن امتزاج ہے اگر ایک فقرہ سنجیدہ ہے تو دوسرا مزاح سے بھرپور اور پھر دونوں میں کمال کا ربط بھی ہے یہ خاصہ بہت کم مصنفین کو حاصل ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کمال مہارت سے اس کتاب میں سنجیدہ اور ہلکے پھلکے موضوعات کے موتی بکھیر دیے ہیں

اردو ادب اور مزاح پر تحقیق کرنے والے طالب علموں کے لیے یہ کتاب تحقیق کے کئی نئے زاویے کھولتی ہے۔ ایک عام شخص اپنی محنت سے زندگی کے پیچ و خم میں کس طرح راستہ بناتا ہے۔وہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر کے عہدے سے لے کر اہم انتظامی عہدوں پر بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہے۔اپنی تحریروں اور گفتگو میں شگوفے بکھیرتا ہے۔ دانشور بنتا ہے شاعر بنتا ہیادیب بنتا ہے مزاح نگار بنتا ہے اور اپنے احباب کے وسیع تر حلقے میں مسلسل سرگرم رہتا ہے۔حقیقت میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی شخصیت جہد مسلسل سے عبارت ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی بات نہیں کہ

جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں...

صراہی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
Load Next Story