چودھری رحمت علی کا عظیم علمی و نظریاتی سرمایہ
برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی عظیم شخصیت کے تحریرکردہ کتابچوں کا تذکرہ
ہمارے ہاں درسی کتب اور دیگر کتب میں چودھری رحمت علی کے حوالے سے فقط اتنا ہی ذکر ہے کہ انہوں کے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا، جب کہ اس مجاہد آزادی نے قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد رکھی۔
فقط 18برس کی عمر میں بزم شبلی کے اجلاس منعقدہ لاہور میں 1915میں آزاد وطن کے قیام کا نظریہ پیش کیا۔ پھر قیام پاکستان کے لیے دن رات ایک کردیے اور پاکستان کے مطالبے کے لیے 25 سے زائد کتب اور کتابچے لکھے۔
پاکستان کے علاوہ برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں آباد تھے وہاں پر مزید اسلامی ریا ستوں کے قیام اور ان کے درمیان فیڈریشن کا نظریہ پیش کیا۔ پاکستان کا جھنڈا اور نقشہ بھی بنایا تھا۔ ہماری حکومت نے فقط چوہدری رحمت علی کے ترتیب دیے ہوئے نام کو ہی قبول کیا۔
نسلِ نو کی آگاہی کے لیے اب اس گم راہی یا غلط فہمی کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ چودھری رحمت علی صرف پاکستان کے نام کے تجویز کنندہ ہیں، جب کہ انہوں نے تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان میں بہت ہی کلیدی نوعیت کا تاریخی اور منفرد کردار ادا کیا وقت آپہنچا ہے کہ ہم اپنے محسنین کی خدمات کو درست مواد کے ساتھ ہم دردانہ اسلوب میں اپنی نئی نسل کو پوری دیانت داری کے ساتھ منتقل کریں۔
1۔''Now Or Never '' (اب یا کبھی نہیں)
اس دستاویز کو قرآنی آیت سے مزین کیا گیا۔ ''ناؤ آر نیور'' چودھری صاحب کا پہلا پمفلٹ تھا۔ اس پمفلٹ میں انہوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پہلی بار ''پاکستان'' کا انقلاب آفرین نظریہ پیش کرکے ہندوستان کے شمالی مغربی علاقوں پنجاب، افغانیہ (صوبہ سرحد )، کشمیر، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک آزاد خودمختار مسلم مملکت ''پاکستان'' کا مطالبہ کیا تھا۔
ناؤآرنیور پمفلٹ 28جنوری 1933ء کو کیمبرج سے شائع ہوا اور یہی پمفلٹ قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ اس کو مطالبہ پاکستان کی اولین دستاویز کا درجہ حاصل ہے اور اس دستاویز نے دنیا کے نقشے کو تبدیل کر دیا۔
''ناؤ آر نیور کا شمار دنیا کی ایسی سیاسی دستاویزات میں ہوتا ہے، جنہوں نے اقوام کی زندگیوں کو بدل دیا۔'' اس کو مطالبہ پاکستان کی اولین دستاویز کا درجہ حاصل ہے۔
2۔''What Does The Pakistan National Movement Stand for?''
پاکستان نیشنل موومنٹ کا مطلب کیا!
اس پمفلٹ کو بھی انہوں نے کیمبرج سے 1933ء میں جاری کیا گیا تھا، جس میں ''پاکستان نیشنل موومنٹ '' کے اغراض ومقاصد کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ چودھری صاحب نے حصول پاکستان کے لیے 1933 میں کیمبرج میں ''پاکستان نیشنل موومنٹ'' کے نام سے تنظیم قائم کی، جس کا ہیڈکوارٹر16مانٹیگو روڈ کیمبرج تھا۔1937ء میں دوسرا ایڈیشن اور پھر 1942ء میں تیسرا ایڈیشن شائع ہوا۔
3.A letter, 8th July 1935
16مانٹیگو روڈ کیمبرج سے جاری کیا گیا۔
''ہم پاکستان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس مطالبے کو سنا جائے قیام عمل میں لایا جائے، ہندو کہتے ہیں کہ ہم کل آبادی کا 75% ہیں، ہندوستان تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں اس خطے میںہم 80% ہیں، ہمارا حق ہے کہ ہم پاکستان بنائیں، اس کے لیے آپ ہماری مدد کریں۔''
یہ مطالبہ آپ نے صدر پاکستان قومی تحریک کی حیثیت سے جاری کیا۔
Islamic Fatherland and Indian Federation:Fight will go on for Pakistan۔4
(اسلامی آبائی وطن اور انڈین وفاق: پاکستان کے لیے جنگ جاری رہے گی)
چودھری صاحب نے یہ پمفلٹ 8 جولائی 1935ء کو گورنمنٹ انڈیا ایکٹ 1935ء کے خلاف جاری کیا تھا۔
چودھری صاحب اس پمفلٹ میں لکھتے ہیں:
گورنمنٹ آف انڈیا بل جو انڈین فیڈرل اسکیم کی بنیاد پر بنا ہے، اس نے پاکستان کی قومی زندگی میں ایک شدید بحران پیدا کردیا ہے اور اس نے ہمارے قومی مستقبل کے لیے ایک سب سے بڑا زندگی اور موت کا مسئلہ لاکھڑا کیا ہے۔
میں سنجیدگی سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ نہایت مہربانی سے پاکستان کے غیرمتازعہ قومی مطالبے میں ہماری مکمل حمایت کریں۔ یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جو انصاف اور مساوات پر مبنی ہے کہ ہمیں ایک علیحدہ قومی وجود دیا جائے جوکہ ہندوستان سے نمایاں ہو۔
''ہمارا یقین ہے کہ ہندوستانی قومیت اور ہندوستان کے ساتھ ''پاکستان'' کے ادغام کی قبولیت ناممکن ہے، بلکہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، کیوںکہ یہ انسانیت کے عظیم مفادات کے لیے بے معنی ہے۔ ہم کیوںکہ پاکستان میں رہنے کے لیے پرعزم ہیں۔
ہم کیوں پاکستان کا دفاع چاہتے ہیں؟ ہم کیوں ہر طرح کے آئینی ذرائع کے ساتھ ہندوستانی وفاقی آئین کے مخالف ہیں؟ کیوںکہ ہندوستان کا وفاقی آئین ہمارے قومی وجود ہماری ترقی اور ہمارے ملک کے خلاف ہے۔''
''پاکستان نیشنل موومنٹ کے بانی و صدر کی حیثیت سے یہ میرا سنجیدہ فرض بنتا ہے کہ میں آپ کو خبردار کروں کی مجوزہ وفاقی آئین سے پیدا شدہ سنگین حالات سے چشم پوشی ناممکن ہے۔'' 1935,1936,1937میں دوبارہ شائع کیا گیا۔
5۔''The Millat of Islam and the Menace of Indianism ''
(ملت اسلامیہ اور ہندوستانیت کی دہشت)
اس پمفلٹ میں چودھری رحمت علی نے اپنی اس تقریر کو پمفلٹ کی شکل میں شائع کیا، جو انہوں نے 22مارچ 1940ء کو کراچی میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی سپریم کونسل کے اجلاس میں فرمائی تھی۔ اس پمفلٹ کی تقسیم 15اگست 1941ء کو بروئے کار آئی۔
خواجہ عبدالرحیم مرحوم کیمبرج میں پاکستان نیشنل موومنٹ کے رکن رہے تھے اور ا ن کے چودھری رحمت علی کے ساتھ گہرے مراسم بھی تھے۔ خواجہ عبدالرحیم آئی سی ایس گورنمنٹ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے ذاتی ملازم ملک احمد خان مرحوم جنہوں نے خواجہ صاحب کے ساتھ کافی عرصہ ملازمت کی، اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں:
چودھری رحمت علی جب کراچی تشریف لائے تو جناب خواجہ صاحب ڈائریکٹر پنچایت کے عہدہ پر فائز تھے۔ اس وقت چودھری صاحب سے ملنے کے لیے سیکڑوں لوگ کراچی گئے تھے۔،،
چودھری عبدالمجید لکھتے ہیں کہ چودھری رحمت علی نے کراچی میں سپریم کونسل کے خطاب میں فرمایا:
''یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے اور ہماری اس جدوجہد کا صلہ بھی جو ہم نے پاک پلان کے پہلے مرحلے کی کام یابی کے لیے کی۔ اس نے ہمیں کام یابی سے سرفراز کیا۔ اس سے ہماری ہمت افزائی ہوئی ہے۔ اس طرح ہم اپنی جدوجہد جاری رکھ سکیں گے اور مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ میری مراد پاک پلان کے دوسرے مرحلے سے ہے جو کہ بنگال اور آسام کے مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ آج کے بعد ہم اپنے آپ کو دوسرے مرحلے کے لیے وقف کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہماری ابتدائی ذمے داری ہے کہ ہم حالات کا بغور جائزہ لیں اور دوسرے مرحلے کا پروگرام قوم کے سامنے پیش کریں۔
اس کی اہمیت اجاگر کریں اور اس سلسلے میں دوسری مسلمان تنظیموں سے اتحاد کی اپیل کریں، تاکہ ہمیں اپنے مقاصد میں کام یابی حاصل ہو سکے۔ ہمیں قوم پر واضح کرنا ہے کہ اسے انڈین وفاق میں اقلیت بن کر رہنے یا ایک علیحدہ آزاد ملک میں زندگی گزارنے میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ ہمیں سبز ہلالی پرچم قبول ہے۔
پاکستان نیشنل موومنٹ کے بارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے چودھری صاحب نے فرمایا:
''تحریک کا اولین اصول یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں، ہندو نہیں، ہم پاکستانی ہیں، نہ کہ ہندوستانی، ہم آزاد خودمختار پاکستان، بنگال اور عثمانستان کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔''
''1933ء میں ہم نے تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے، پنجاب، افغانیہ، (صوبہ سرحد)، کشمیر، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل پاکستان کے قیام کا مطالبہ پیش کیا، اس وقت تو اس اقدام پر تنقید کی گئی لیکن آج اس کی افادیت کا احساس کیا جارہا ہے۔
پاکستان نیشنل موومنٹ کی طرف سے یہ پہلا قدم تھا۔ دوسرے مرحلے پر ہم بنگال اور عثمانستان کے قیام کا اعلان کرتے ہیں۔''
''خوش قسمتی سے پاکستان کی طرح بنگال اور آسام میں بھی ہماری اکثریت ہے جس کی بنا پر ہم خودمختاری کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ حق ہمیں ہماری اکثریت نے دیا ہے۔ بنگال میں خودمختاری اور آزادی کے لیے تحریک ہمیں بنگال دھرتی سے شروع کرنا ہوگی۔''
''بنگال کے بعد ہمیں عثمانستان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عثمانستان پر بین الاقوامی قانون کے تحت ہمارا استحقاق بنتا ہے۔ پاکستان، بنگال اور عثمانستان کے قیام کے بعد ہم ان کے درمیان اتحاد اور تعاون کو فروغ دیں گے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ فتح تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔''
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید فرماتے ہیں:
''اس کتابچے (ملت اسلامیہ اور ہندوستانیت کی دہشت) میں تجویز کیاگیا کہ براعظم میں تین اسلامی مملکتیں قائم ہونی چاہییں اول پاکستان، جس میں پنجاب، سرحد، سندھ کشمیر اور بلوچستان شامل ہیں۔ دوسرے بانگستان جس میں بنگال اور آسام کے مسلم اکثریتی علاقے شامل ہیں۔
سوم 'عثمانستان اس کا مقصد یہ تھا کہ نظام حیدر آباد دکن کو آزادخودمختار حکم راں مان لیا جائے اور آبادیوں کا ایک ایسا تبادلہ ہوکر حیدرآباد دکن کے تمام ہندو وہاں سے نکل کر آس پاس کی علاقوں میں آباد ہوجائیں اور ان علاقوں کے مسلمان حیدرآباد دکن میں بسالیے جائیں۔ اس طرح عثمانستان ایک مسلم اکثریتی مملکت بن جائے۔'' نظام حیدرآباد کو بھی نہرو نے یہ تجویز دی تھی۔
The Millat and The Mission۔6
ملت اور اس کا نصب العین)
Seven Continents of Destiny for the Seventh Country of Diania.
یہ پمفلٹ چودھری صاحب نے اکتوبر,1943,1944 1942ء میں شائع کیا۔
اس پمفلٹ میں ملت اسلامیہ کے اتحاد اور استحکام کے بارے میں سات راہ نما اصول بیان کیے گئے تھے، تاکہ پاکستان، بانگستان اور عثمانستان کے مسلمانوں کے علاوہ براعظم انڈیا کے بقیہ مسلمان بھی سیاسی آزادی حاصل کرکے ملت اسلامیہ کے اتحاد اور طاقت کا ذریعہ بنیں اور اپنی تنظیم پاک کامن ویلتھ آف نیشنز بناسکیں۔
چودھری صاحب نے اس پمفلٹ میں پاکستان، بانگستان اور عثمانستان کے علاوہ برصغیر میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مسلم ریاستیں قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان ریاستوں کے نام انہوں صدیقستان، فاروقستان، حیدرستان، معین ستان، ماپلستان، ناصرستان اور صافستان تجویز فرمائے تھے۔
1947ء کے سیاسی حالات کے مطابق ان مسلم ریاستوں کا قیام عمل میں نہ آسکا۔ اور پانچ کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہندوستان کی غلامی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔
The Millat and her Minorities :Foundation of Faruqistan for muslims of Bihar and Orissa ۔7
ملت اور اس کی اقلیتیں: بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے لیے فاروقستان کا قیام)
05 فروری 1946ء کو جاری کیا۔
8.The Millat and her Minorities:Foundation of Haideristan for the Muslim of Hindoostan
(ملت اور اس کی اقلیتیں: ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے حیدرستان کا قیام)
15مارچ 1943ء کو پہلی بار اور 05 فروری 1946ء کو دوبارہ شائع کیا گیا۔
9.The Millat and Minorities :Foundation of Maplistan for Muslim of south India "
(ملت اور اس کی اقلیتیں: جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ماپلستان کا قیام)
پہلی بار 15مارچ 1943ء دوسری بار 05فروری 1946ء کو شائع کیا گیا۔
10.The Millat and her Minorities : Foundation of Muinistan the Muslim of Rajistan:
(ملت اور اس کی اقلیتیں: راجستھان کے لیے معینستان کا قیام)
15مارچ1943ء اور05فروری 1946ء کو جاری کیا۔
11.The Millat and Minorities: Foundation of Siddiqistan
(ملت اور اس کی اقلیتیں: وسطی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے صدیقستان کا قیام)
چودھری صاحب نے اپنے اس پمفلٹ میں یہ موقف بیان کیا ہے کہ سنٹرل انڈیا کے مسلمانوں کے ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چا ہیے۔ ان کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ مالوا، بندھیل کھنڈ کے علاقوں پر مشتمل صدیقستان کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کر دی جائے۔ چودھری صاحب تاریخ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وسطی ہندوستان پر ایک لمبے عرصے تک کئی قوموں نے حکم رانی کی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتشار کا ہوئیں اور ان کا نام ونشان تک نہ رہا۔ چودھری صاحب کے مطابق: سنٹرل انڈیا کے مسلمانوں کو انتشار سے بچانے کے لیے انہیں ازسرنو منظم کرنا ہوگا اور سنٹرل انڈیا کے علاقوں کی تقسیم کے لیے پرزور مطالبہ کرنا ہوگا۔
10جون 1946ء اور12مارچ1946ء کو دوبارہ شائع ہوا۔
13.India:The Continent of Dinis Of the Country of Doom?
(انڈیا: براعظم دینیہ یا تباہی کا ملک)
دوبارہ 20 مارچ 1946ء اور 01مئی 1946ء کو کیمبرج برطانیہ سے جاری کیا گیا۔ اس پمفلٹ کا مرکزی تصور یہ تھا کہ انڈیا ایک براعظم ہے۔ اسے ہندوؤں نے بڑی چالاکی سے صرف اپنا وطن قرار دیا ہے اور دوسری مختلف قوموں کو متحد وطنیت اور مشترکہ انڈین قومیت کے جال میں پھنساکر انہیں اقلیتیں کہا اور اس طرح ان کی ثقافتی، تمدنی اور مذہبی روایات کو ختم کرکے انہیں اپنے اندر ضم کرنے کی کوششیں کیں۔
انگریزوں نے بھی اپنا حکومتی نظام چلانے کے لیے اسے ایک مرکز کے تحت کردیا اور یوں مصنوعی انڈین وحدت کو جنم دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بدنصیب ملک بن گیا۔ اب اگر یہ مظلوم اقلیتیں اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں تو غلط نہ ہوگا۔
19مئی 1946ء کو جاری کیا۔
پاکیشیا15. Pakasia
The Histric Orbit Of Pakistan
یہ کتابچہ اگست 1946ء میں جاری کیا۔
16.HAIDARISTAN: The Fatherland of the Haider Nation"
(حیدرستان: حیدر قوم کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ 05اگست1946ء کو جاری کیا۔ چودھری صاحب نے نے یوپی کے مسلمانوں کے لیے '' حیدرستان" کے نام سے ایک ملک کا مطالبہ کیا تھا۔
یوپی کے مسلمان تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ چودھری صاحب سیاسی لحاظ سے سمجھتے تھے کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس لیے انہوں نے یوپی کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ ان کا تحفظ ہوسکے۔
حیدر عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی شیر کے ہیں۔ چوتھے خلیفہ حضرت علی ؓ کا لقب حیدر تھا۔ وہ علاقہ جات جن کو یوپی کہا جاتا ہے، اس علاقے میں اسلامی ریاست کے بانی کا نام غازی الدین حیدر تھا۔ چودھری صاحب نے ان ناموں کی مناسبت سے آگرہ اور اودھ کے علاقوں کو ''حیدرستان"کا نام دیا تھا اور یہاں کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ کیا۔
چودھری صاحب کا موقف تھا کہ اس خطے میں بارہ سو سال تک مسلمانوں کو عروج حاصل رہا ہے۔ حیدرستان کی آبادی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق 90,00,000 ہے۔ اس کا رقبہ سترہ ہزار مربع میل ہے، جو یورپ کے چند پرانے ملکوں میں سے بڑا ہے، مثلاً ڈنمارک، سوئٹززلینڈ، نیدرلینڈ، بیلجیئم اور البانیہ سے حیدرستان رقبہ کے لحاظ سے بڑا ملک ہوگا۔
17.Dinia The Seventh Continent o The World
یہ کتابچہ آپ نے ستمبر 1946ء میں شائع کیا۔
ؓٓ18.BANGISTAN : The Fatherland of Bang Nation
(بانگستان: بانگ کا آبائی وطن) جاری کیا۔
چودھری صاحب نے''بانگستان'' کے قیام کے لیے جو تصور پیش کیا تھا اس میں بنگال اور آسام کے علاقے شامل تھے۔ چودھری صاحب بانگستان کا تعارف اس طرح کراتے ہیں کہ اس ملک کی آبادی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق 73,000,000 سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس ملک کی آبادی یوگوسلاویہ اور ایران سے چار گنا ہے۔ اس کا کل رقبہ 154,205مربع میل ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بانگستان ناروے اور اٹلی سے بڑا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت آسام تو درکنار بنگال بھی تقسیم ہوا۔ قیام پاکستان کے چوبیس سال بعد 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان پیش کیا اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا، جب کہ رحمت علی 1940ء اور 1946ء میں ہی جغرافیائی لحاظ سے بنگالی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک بانگستان کے قیام کا تصور اور مطالبہ پیش کرچکے تھے۔
چودھری صاحب نے بنگالی مسلمانوں کے لیے الگ الگ آزاد اور خودمختار اسلامی ملک بانگستان بنانے کا باقاعدہ مطالبہ 16ستمبر 1946ء کو پیش کیا تھا۔ اس سے پہلے چودھری صاحب بنگال کی آزادی کا اظہار پاکستان نیشنل موومنٹ کی سپریم جنرل کونسل اجلاس منعقدہ کراچی میں مورخہ 22 مارچ1940ء کو اپنی تقریر میں کرچکے تھے۔
19.FARUQISTAN:The fatherland of the faruq Nation:
(فاروقستان: فاروق قوم کا آبائی وطن)
یہ ستمبر 1946ء میں شائع ہوا۔
چودھری صاحب نے اس پمفلٹ میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بہار اور اڑیسہ تاریخی لحاظ سے ایک قدیم خطہ ہے اور یہ مسلمانوں کا وطن ہے۔
اس علاقے پر ایک دور میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اس علاقے پر پہلی اسلامی ریاست کا قیام ناصرفاروق عمل میں لایا تھا۔ فاروق عربی زبان کا لفظ ہے اور خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓ تھے، لہٰذا انہیں ناموں کی مناسبت سے فاروقستان تجویزکیا گیا۔
1941ء کی مردم شماری کے مطابق اس علاقے کی پچاس لاکھ آبادی ہے اور یہ خطہ البانیہ کی ریاست سے پانچ گنا اور ناروے کی آبادی سے دگنا بڑا ہے اور فن لینڈ اور سوئٹزر لینڈ فاروقستان سے کم آبادی والے ملک ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً بارہ ہزار مربع میل ہے جو بیلجیئم اور البانیہ سے زیادہ ہے۔
فاروقستان: چودھری صاحب نے بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے فاروقستان کے نام سے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس ریاست کا نام خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کے اسم گرامی کی مناسبت سے رکھا تھا۔ انہوں نے ریاست کے حصول کے لیے دو پمفلٹ جا ری کیے۔ ان کا پہلا پمفلٹ 15مارچ 1943ء کو درج ذیل عنوان سے جاری کیا:
''فاروقستان گو ایک چھوٹا سا ملک ہو گا لیکن غلامی کے بجائے ایک آزاد وطن کا قیام ضروری ہے۔ ہمارے اس مطالبے پر مخالفت ہوگی، ہمیں اللہ اور رسول ﷺ کی مدد سے اپنی کام یابی حاصل کرنا ہوگی۔''
20.'MAPLISTAN: The Fatherland of the Map nation
(ماپلستان: موپلا قوم کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ 1946ء میں جاری کیا۔
چودھری رحمت علی نے جنوبی ہندوستان کے موپلا مسلمانوں کے لیے الگ ملک "ماپلستان '' کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے جنوبی ہندوستان کے ساحلی علاقے اور قریبی جزائر کو مسلم موپلوں کی سر زمین قرار دیا ہے۔ چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ ان علاقوں میں مسلمان عرصۂ دراز سے رہائش پذیر ہیں، جو اب ہندوؤں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ہندوؤں کی بالادستی سے نجات دلانے کے لیے "ماپلستان"کے قیام کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
21.Muinistan: The fatherland of the Muin nationـ
(معینستان: معین کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ ستمبر1946ء میں جاری کیا۔
راجستھان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے چودھری رحمت علی نے "معینستان" ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ معین عربی زبان کا لفظ ہے جس کی معنی مددگار کے ہیں۔ تاریخ اسلام اور برصغیر میں حضرت معین الدین چشتی ؒ ایک بلند مقام رکھتے ہیں ۔
ان کے اسم گرامی پر نام معینستان رکھا گیا۔ چوہدری رحمت علی کا کہنا تھا کہ راجستھان کے علاقے میں زیادہ تر راجپوت، گوجر اور جاٹ آباد ہیں ۔کسی دور میں یہ مسلمانوں کا مرکز تھا۔ آبادی کے لحاظ سے اس علاقے کے دس فی صد حصہ پر مسلمانوں کو حکم رانی کا حق ہے، جس کا رقبہ چودہ ہزار مربع میل ہے، جو البانیہ اور بیلجیئم سے زیادہ ہے۔
1941ء کی مردم شماری کے لحاظ سے اس کی آبادی پندرہ لاکھ ہے، جو البانیہ اور لیبیا کی آبادی سے زیادہ ہے اور حجاز اور فلسطین کے برابر ہے۔
ہندو اس کی مخالفت کریں گے، کیوںکہ وہ مسلمانوں کو ہندو قومیت کے زیراثر لانا چاہتے ہیں۔ انگریز تو چا ہتا ہے کہ ہندو اور مسلمان آپس میں لڑیں تاکہ ان کی حکومت قائم رہے۔ ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔
22.Nasaristan :The Fatherland of the Nasar nation"
(ناصرستان: ناصر قوم کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ 16ستمبر1946ء کو جاری کیا۔
چودھری صاحب نے مشرقی سیلون میں آباد مسلمانوں کے لیے الگ ملک "ناصرستان" کا مطالبہ کیا۔ سیلون کے مشرقی علاقے میں مسلمان، بدھ پیروکاروں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اسلامی تشخص چودھری صاحب نے جواز پیش کیا کہ مسلمان اس علاقے میں عرصۂ دراز سے آباد ہیں ان کو بدھ مت مذہب کے لوگوں سے الگ زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اس لیے ان مسلمانوں کے لیے ناصر ستان کے نام پر ریاست قائم کی جائے۔ ناصر عربی لفظ جس کے معنی مددگار کے ہیں۔
1941ء کی مردم شماری کے مطابق ناصرستان کی آبادی 3,00,000 ہے، جو کہ ٹرانس جارڈن، نیو فاؤنڈ لینڈ کے برابر بھوٹان سے زائد ہے۔ ناصرستان کا رقبہ 2,000 مربع میل ہے، جو کہ لگسمبرگ کے رقبے 1,000مربع میل سے زیادہ اور کویت سے یہ رقبہ 2,000 مربع میل کے برابر ہے۔
23.OSMANISTAN : The Fatherland of the Osman Nation
(عثمانستان: عثمان قوم کا آبائی وطن)
چودھری صاحب نے ریاست حیدرآباد کو عثمانستان کا نام دیا اور اسے ایک آزاد اسلامی ملک بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں 16ستمبر1946ء کو ایک پمفلٹ درج ذیل عنوان سے شائع کیا۔ عثمانستان کے متعلق بھی چودھری صاحب 22 مارچ 1940ء کو اپنی تقریر میں اظہار کرچکے تھے۔ چودھری صاحب عثمانستان کے نام کی تخلیق کے متعلق بتاتے ہیں کہ عثمان عربی کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے عظیم، مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ کا نام بھی عثمان ؓ تھا۔
ہندوستان میں حیدرآباد سب سے بڑی ریاست تھی۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد (1707) نظام الملک نے اسے خودمختار بنالیا تھا۔ 1946ء میں اس ریاست کا حکم راں عثمان علی تھا۔
جغرافیائی لحاظ سے عثمانستان کے لیے کوئی سمندر راستہ نہ تھا۔ اگر اس وقت چودھری صاحب کی اس اسکیم پر کوئی بروقت پیش رفت ہوتی تو ممکن تھا کہ ''عثمانستان'' کو صوبہ آندھر یا موجودہ آندھرا پردیش سے سمندری راستہ مل جاتا۔ اس طرح وہا ں مسلمانوں کی ایک خودمختار حکومت بن سکتی تھی۔ یہ ریاست آزاد وخودمختار حثییت میں 12ستمبر 1948تک قائم رہی۔ قائداعظم کی وفات کے بعد غاصب بھارت نے پولیس ایکشن کے بہانے اس ریاست پر قبضہ کرلیا۔
صافستان: چودھری صاحب نے مغربی سیلون کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک صافستان کا مطالبہ کیا۔ اس ملک کے قیام کے لیے انہوں نے 16ستمبر1946ء کو درج ذیل عنوان سے پمفلٹ جاری کیا۔
24.SAFISTAN: The fatherland of the Saf nation
(صافستان: صاف قوم کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ ستمبر1946ء میں شائع کیا۔
چودھری صاحب نے صافستان کے نام کی وجہ تسمیہ اس طرح بتائی ہے کہ حضرت آدم کا لقب صفی اللہ یعنی اللہ کا انتخاب کردہ پیغمبر ہے۔ روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تو انہوں نے سب سے پہلے سیلون میں رہنا شروع کیا تھا۔ یہاں حضرت آدم کے پاؤں مبارک کا نشان بھی ہے، جس کی زیارت کے لیے لوگ وہاں جاتے ہیں۔
حضرت آدم ؑ بنی نوع نسان کے جدامجد ہیں۔ اس متبرک نام کی نسبت سے اس سرزمین کا نام صافستان رکھا گیا ہے۔ سیلون ایک تاریخی جزیرہ ہے۔ یہاں مسلمان بدھ مت کا ماننے والوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ یہ مقام مسلمانوں کا مضبوط مرکز رہا ہے۔ صافستان سیلون کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 2100مربع میل ہے ، جس کا مقابلہ لگسمبرگ اور کویت کے رقبے سے کیا جاسکتا ہے۔ لگسمبرگ کا رقبہ 100مربع میل ہے جب کہ کویت کا 2000 مربع میل ہے۔
چودھری صاحب نے پاکستان اور وہ تمام ممالک جن کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ان تمام مسلم ممالک کی قومی زبان اردو کو قرار دیا۔ نیز ان ممالک پر مشتمل ایک پاک دولت مشترکہ کا تصور بھی پیش کیا تھا۔ چودھری صاحب نے برصغیر یعنی براعظم دینیہ میں مذکورہ بالا مسلم ممالک کے قیام کا جو تصور پیش کیا، اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مسلمان، انگریز اور ہندوؤں سے اپنے معاملات طے کرتے وقت ان پر زیادہ سے زیادہ سیاسی دباؤ ڈالیں تاکہ براعظم دینیہ میں مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ رقبہ زمین پر آزادی حاصل ہو سکے اور برصضیر میں ہندو مسلمانوں کے لیے درد سر نہ بنے رہیں۔ چودھری صاحب نے غیرمسلموں کے لیے بھی ملکوں کے نا م تجویز کیے تھے، جیسے ہندوستان اچھوتستان، سکھستان اور ہنودیہ۔
چودھری صاحب کو برصغیر کی تاریخ اور جغرافیے پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ اسلامیان ہند کے زیادہ سے زیادہ رقبہ حاصل کرنے کے حامی تھے ۔ ان کا جذبہ صادق تھا اور وہ اسلام کے شیدائی اور عاشق رسول ﷺ تھے۔
چودھری صاحب نے اپنے تمام پمفلٹ اپنے رہائش پتا 16مانٹیگو روڈ کیمبرج (برطانیہ) سے جاری کیے۔ چودھری صاحب جب پمفلٹ جاری کرتے تھے تو ان کی تعداد ہزاروں میں ہوتی تھی، جن کو وہ بالخصوص برصغیر کے پڑھ لکھے نوجوان طبقہ اور سیاست دانوں کو بھیجتے تھے۔ چودھری صاحب نے اپنی زندگی میں جتنا بھی تحریری مواد شائع کیا اس پر انہوں نے اپنی جیب سے کثیر سرمایہ خرچ کیا، لیکن زندگی کے آخری ایام قلاش ہوگئے تھے۔
25.The Greatest Betrayel
عظیم غداری
09 جون 1947ء کو جاری کیا جس میں 06 جون 1947ء تقسیم برصغیر میں برٹش بنیا اتحاد کے خلاف آواز بلند کی جس میں مسلم فسادات کو نقصان پہنچایا گیا اور مملکت پاکستان کو اہم علاقوں سے محروم کیا گیا۔
Pakistan The Historic Orbit of The Culture
یہ پمفلٹ 5اگست 1946ء کو کیمبرج سے جاری کیا گیا تھا۔ اس پمفلٹ میں چوہدری رحمت علی نے پاکیشیا کے روحانی اور اخلاقی کارناموں، ذات پات کے حامل ہندوؤں کے اسلام کُش مذموم عزائم سے بچاؤ کی اہمیت اور اس وسیع خطہ میں مقیم تمام انسانوں کے حق خود ارادیت کے جواز کا تذکرہ کیا ہے۔
پاکیشیا سے ان کی مراد جنوبی ایشیا کا وہ وسیع اور مختلف النوع علاقہ مراد ہے جو گذشتہ تیرہ صدیوں سے اسلام اپنی تابانیوں کا حامل رہا ہے۔ اس پمفلٹ میں چوہدری رحمت علی نے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے مجوزہ آزاد علاقوں کے نام بھی رکھے ہیں''۔
(دینیہ: دنیا کا ساتوں بر اعظم)
یہ پمفلٹ کیمبرج سے 5ستمبر 1946ء کو جاری کیا گیا تھا۔ چودھری رحمت علی نے ا نڈیا کا نام بدل کر اسے ''دینیہ ''یعنی بہت سے ادیان کے ماننے والوں کی سر زمین قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسے دنیا کا ساتواں براعظم قرار دینے کی جغرافیائی، تاریخی اور مذہبی وجوہات کا تذکرہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روس کو نکال کر بقیہ یورپ کی طرح یہ علاقہ رقبہ کی وسعت، آبادی کی کثرت اور مختلف قوموں کے جداگانہ ثقافتی اور سیاسی تشخص کی اہمیت کا مظہر ہے۔ اس لیے یہ بھی براعظم کا درجہ رکھنے کا حق دار ہے اور اس میں رہنے والے لوگ جداگانہ اور خود مختار نئے علاقوں کے قیام کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
''برصغیر پاک و ہند کے بارے میںیہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پورا قطعہ زمین نہ کبھی ایک قوم کا وطن رہا ہے اور نہ کبھی یہاں ایک ایسی مضبوط مرکزی حکومت رہی ہے۔
جیسی انگریزوں کے زمانے میں تھی۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب چینی سیاح ہیون سانگ برصغیر کی سیاحت کے لیے آیا تھا، اس وقت بھی اس کے الفاظ میں یہ وسیع و عریض قطعہ زمین پانچ ٹکڑوں میں منقسم تھا۔ اس نے ان ٹکڑوں کو شمالی ہند، مرکزی ہند، مشرقی ہند اور جنوبی ہند کے ناموں سے یاد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہاں کئی سلطنتیں تھیں۔ یعنی اس وقت برصغیر انتظامی لحاظ سے متحد نہیں تھااور نہ ہی اس وقت یہاں صرف ایک قوم آباد تھی، بلکہ متعدد اقوام کے لوگ یہاں آبا د رہے اور مختلف سلطنتوں میں برصغیر بٹا ہوا تھا۔''
Pakistan:The Fatherland of the Pak Nation پاکستان: پاک قوم کا آبائی وطن:
یہ کتاب چودھری صاحب کی ایک نادر تخلیق ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پاکستان سے متعلق ایسی معلومات فراہم کی ہیں جن کو پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے قیام سے قبل ہی معرض وجود میں آچکا تھا یا یوں کہہ لیجیے کہ چودھری صاحب نے 14اگست 1947ء سے کئی سال بیشتر پاکستان کی مکمل تصویرکشی کرکے اسلامیان ہند کے سامنے پیش کردی تھی اور انہوں اس مادر وطن یا آبائی وطن کا نظارہ کرا دیا تھا، جس میں اسلامیان ہند کو تاقیامت زندگی گزارنا تھی۔
چودھری صاحب نے اپنی اس تصنیف پاکستان پاک قوم کا آبائی وطن میں پاکستان کا نقشہ لفظ پاکستان کی تشریح پاکستان کے قیام کا مقصد تحریک آزادی میں درپیش مشکلات پاکستان کا رقبہ، سرحدیں، پہاڑی سلسلے، صحرا، دریا، جھلیں، وادیاں، علاقے اور آب ہوا، تاریخی مقامات، آثارقدیمہ،مزارت، جنگلات، زراعت، نظام آب پاشی، معدنیات، صنعت، تجارت، مواصلات، نظام حکومت، زبان، الغرض ہر پہلو کو مفصل بیان کیا ہے۔
چودھری صاحب کی یہ کتاب 392صفحات اور تئیس ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے تین ایڈیشن یعنی پہلا 1935ئ، دوسرا 1937ء اور تیسرا 1947ء میں لندن میں شائع ہوئے، جب کہ چوتھا اور پانچواں ایڈیشن لاہور ہی سے ترجمہ شدہ ایڈیشن چند برس قبل لاہور سے شائع ہو ا ہے ۔
براعظم دینیہ میں مسلم مملکتوں کا قیام : چودھری رحمت علی نے برصغیر انڈیا کو براعظم دینیہ کا نام دیا تھا، جس کو تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے براعظم دینیہ میں اسلامیان ہند کے تحفظ اور ان کی آزادی کے لیے مرحلہ وار کام کیا اس کو یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ چودھری صاحب کے مطابق پہلے مرحلے پاکستان کا قیام دوسرے میں بانگستان اور عثمانستان کا قیام اور تیسرے میںدیگر مسلم ریا ستوں صدیقستان، فاروقستان،حیدرستان، معینستان، ماپلستان، ناصرستان اور صافستان کا قیام عمل میں لایا جانا تھا۔
چودھری رحمت علی نے اسلامیان ہند کے تحفظ کے پیش نظر مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی اپنے سیاسی منصوبے پیش کیے۔
ان منصوبوں کے مطابق وہ اسلامیان ہند کے لیے زیادہ سے زیادہ حق خوداختیاری حاصل کرنا چاہتے تھے۔ چودھری رحمت علی کا دیگر ریاستوں کے بارے میں قیام کا نظریہ قا بلِ عمل ہے۔ ہندوستان بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکیں چودھری رحمت علی کے نظریات کی سچائی کی آئینہ دار ہیں۔
فقط 18برس کی عمر میں بزم شبلی کے اجلاس منعقدہ لاہور میں 1915میں آزاد وطن کے قیام کا نظریہ پیش کیا۔ پھر قیام پاکستان کے لیے دن رات ایک کردیے اور پاکستان کے مطالبے کے لیے 25 سے زائد کتب اور کتابچے لکھے۔
پاکستان کے علاوہ برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں آباد تھے وہاں پر مزید اسلامی ریا ستوں کے قیام اور ان کے درمیان فیڈریشن کا نظریہ پیش کیا۔ پاکستان کا جھنڈا اور نقشہ بھی بنایا تھا۔ ہماری حکومت نے فقط چوہدری رحمت علی کے ترتیب دیے ہوئے نام کو ہی قبول کیا۔
نسلِ نو کی آگاہی کے لیے اب اس گم راہی یا غلط فہمی کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ چودھری رحمت علی صرف پاکستان کے نام کے تجویز کنندہ ہیں، جب کہ انہوں نے تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان میں بہت ہی کلیدی نوعیت کا تاریخی اور منفرد کردار ادا کیا وقت آپہنچا ہے کہ ہم اپنے محسنین کی خدمات کو درست مواد کے ساتھ ہم دردانہ اسلوب میں اپنی نئی نسل کو پوری دیانت داری کے ساتھ منتقل کریں۔
1۔''Now Or Never '' (اب یا کبھی نہیں)
اس دستاویز کو قرآنی آیت سے مزین کیا گیا۔ ''ناؤ آر نیور'' چودھری صاحب کا پہلا پمفلٹ تھا۔ اس پمفلٹ میں انہوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پہلی بار ''پاکستان'' کا انقلاب آفرین نظریہ پیش کرکے ہندوستان کے شمالی مغربی علاقوں پنجاب، افغانیہ (صوبہ سرحد )، کشمیر، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک آزاد خودمختار مسلم مملکت ''پاکستان'' کا مطالبہ کیا تھا۔
ناؤآرنیور پمفلٹ 28جنوری 1933ء کو کیمبرج سے شائع ہوا اور یہی پمفلٹ قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ اس کو مطالبہ پاکستان کی اولین دستاویز کا درجہ حاصل ہے اور اس دستاویز نے دنیا کے نقشے کو تبدیل کر دیا۔
''ناؤ آر نیور کا شمار دنیا کی ایسی سیاسی دستاویزات میں ہوتا ہے، جنہوں نے اقوام کی زندگیوں کو بدل دیا۔'' اس کو مطالبہ پاکستان کی اولین دستاویز کا درجہ حاصل ہے۔
2۔''What Does The Pakistan National Movement Stand for?''
پاکستان نیشنل موومنٹ کا مطلب کیا!
اس پمفلٹ کو بھی انہوں نے کیمبرج سے 1933ء میں جاری کیا گیا تھا، جس میں ''پاکستان نیشنل موومنٹ '' کے اغراض ومقاصد کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ چودھری صاحب نے حصول پاکستان کے لیے 1933 میں کیمبرج میں ''پاکستان نیشنل موومنٹ'' کے نام سے تنظیم قائم کی، جس کا ہیڈکوارٹر16مانٹیگو روڈ کیمبرج تھا۔1937ء میں دوسرا ایڈیشن اور پھر 1942ء میں تیسرا ایڈیشن شائع ہوا۔
3.A letter, 8th July 1935
16مانٹیگو روڈ کیمبرج سے جاری کیا گیا۔
''ہم پاکستان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس مطالبے کو سنا جائے قیام عمل میں لایا جائے، ہندو کہتے ہیں کہ ہم کل آبادی کا 75% ہیں، ہندوستان تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں اس خطے میںہم 80% ہیں، ہمارا حق ہے کہ ہم پاکستان بنائیں، اس کے لیے آپ ہماری مدد کریں۔''
یہ مطالبہ آپ نے صدر پاکستان قومی تحریک کی حیثیت سے جاری کیا۔
Islamic Fatherland and Indian Federation:Fight will go on for Pakistan۔4
(اسلامی آبائی وطن اور انڈین وفاق: پاکستان کے لیے جنگ جاری رہے گی)
چودھری صاحب نے یہ پمفلٹ 8 جولائی 1935ء کو گورنمنٹ انڈیا ایکٹ 1935ء کے خلاف جاری کیا تھا۔
چودھری صاحب اس پمفلٹ میں لکھتے ہیں:
گورنمنٹ آف انڈیا بل جو انڈین فیڈرل اسکیم کی بنیاد پر بنا ہے، اس نے پاکستان کی قومی زندگی میں ایک شدید بحران پیدا کردیا ہے اور اس نے ہمارے قومی مستقبل کے لیے ایک سب سے بڑا زندگی اور موت کا مسئلہ لاکھڑا کیا ہے۔
میں سنجیدگی سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ نہایت مہربانی سے پاکستان کے غیرمتازعہ قومی مطالبے میں ہماری مکمل حمایت کریں۔ یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جو انصاف اور مساوات پر مبنی ہے کہ ہمیں ایک علیحدہ قومی وجود دیا جائے جوکہ ہندوستان سے نمایاں ہو۔
''ہمارا یقین ہے کہ ہندوستانی قومیت اور ہندوستان کے ساتھ ''پاکستان'' کے ادغام کی قبولیت ناممکن ہے، بلکہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، کیوںکہ یہ انسانیت کے عظیم مفادات کے لیے بے معنی ہے۔ ہم کیوںکہ پاکستان میں رہنے کے لیے پرعزم ہیں۔
ہم کیوں پاکستان کا دفاع چاہتے ہیں؟ ہم کیوں ہر طرح کے آئینی ذرائع کے ساتھ ہندوستانی وفاقی آئین کے مخالف ہیں؟ کیوںکہ ہندوستان کا وفاقی آئین ہمارے قومی وجود ہماری ترقی اور ہمارے ملک کے خلاف ہے۔''
''پاکستان نیشنل موومنٹ کے بانی و صدر کی حیثیت سے یہ میرا سنجیدہ فرض بنتا ہے کہ میں آپ کو خبردار کروں کی مجوزہ وفاقی آئین سے پیدا شدہ سنگین حالات سے چشم پوشی ناممکن ہے۔'' 1935,1936,1937میں دوبارہ شائع کیا گیا۔
5۔''The Millat of Islam and the Menace of Indianism ''
(ملت اسلامیہ اور ہندوستانیت کی دہشت)
اس پمفلٹ میں چودھری رحمت علی نے اپنی اس تقریر کو پمفلٹ کی شکل میں شائع کیا، جو انہوں نے 22مارچ 1940ء کو کراچی میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی سپریم کونسل کے اجلاس میں فرمائی تھی۔ اس پمفلٹ کی تقسیم 15اگست 1941ء کو بروئے کار آئی۔
خواجہ عبدالرحیم مرحوم کیمبرج میں پاکستان نیشنل موومنٹ کے رکن رہے تھے اور ا ن کے چودھری رحمت علی کے ساتھ گہرے مراسم بھی تھے۔ خواجہ عبدالرحیم آئی سی ایس گورنمنٹ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے ذاتی ملازم ملک احمد خان مرحوم جنہوں نے خواجہ صاحب کے ساتھ کافی عرصہ ملازمت کی، اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں:
چودھری رحمت علی جب کراچی تشریف لائے تو جناب خواجہ صاحب ڈائریکٹر پنچایت کے عہدہ پر فائز تھے۔ اس وقت چودھری صاحب سے ملنے کے لیے سیکڑوں لوگ کراچی گئے تھے۔،،
چودھری عبدالمجید لکھتے ہیں کہ چودھری رحمت علی نے کراچی میں سپریم کونسل کے خطاب میں فرمایا:
''یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے اور ہماری اس جدوجہد کا صلہ بھی جو ہم نے پاک پلان کے پہلے مرحلے کی کام یابی کے لیے کی۔ اس نے ہمیں کام یابی سے سرفراز کیا۔ اس سے ہماری ہمت افزائی ہوئی ہے۔ اس طرح ہم اپنی جدوجہد جاری رکھ سکیں گے اور مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ میری مراد پاک پلان کے دوسرے مرحلے سے ہے جو کہ بنگال اور آسام کے مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ آج کے بعد ہم اپنے آپ کو دوسرے مرحلے کے لیے وقف کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہماری ابتدائی ذمے داری ہے کہ ہم حالات کا بغور جائزہ لیں اور دوسرے مرحلے کا پروگرام قوم کے سامنے پیش کریں۔
اس کی اہمیت اجاگر کریں اور اس سلسلے میں دوسری مسلمان تنظیموں سے اتحاد کی اپیل کریں، تاکہ ہمیں اپنے مقاصد میں کام یابی حاصل ہو سکے۔ ہمیں قوم پر واضح کرنا ہے کہ اسے انڈین وفاق میں اقلیت بن کر رہنے یا ایک علیحدہ آزاد ملک میں زندگی گزارنے میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ ہمیں سبز ہلالی پرچم قبول ہے۔
پاکستان نیشنل موومنٹ کے بارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے چودھری صاحب نے فرمایا:
''تحریک کا اولین اصول یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں، ہندو نہیں، ہم پاکستانی ہیں، نہ کہ ہندوستانی، ہم آزاد خودمختار پاکستان، بنگال اور عثمانستان کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔''
''1933ء میں ہم نے تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے، پنجاب، افغانیہ، (صوبہ سرحد)، کشمیر، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل پاکستان کے قیام کا مطالبہ پیش کیا، اس وقت تو اس اقدام پر تنقید کی گئی لیکن آج اس کی افادیت کا احساس کیا جارہا ہے۔
پاکستان نیشنل موومنٹ کی طرف سے یہ پہلا قدم تھا۔ دوسرے مرحلے پر ہم بنگال اور عثمانستان کے قیام کا اعلان کرتے ہیں۔''
''خوش قسمتی سے پاکستان کی طرح بنگال اور آسام میں بھی ہماری اکثریت ہے جس کی بنا پر ہم خودمختاری کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ حق ہمیں ہماری اکثریت نے دیا ہے۔ بنگال میں خودمختاری اور آزادی کے لیے تحریک ہمیں بنگال دھرتی سے شروع کرنا ہوگی۔''
''بنگال کے بعد ہمیں عثمانستان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عثمانستان پر بین الاقوامی قانون کے تحت ہمارا استحقاق بنتا ہے۔ پاکستان، بنگال اور عثمانستان کے قیام کے بعد ہم ان کے درمیان اتحاد اور تعاون کو فروغ دیں گے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ فتح تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔''
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید فرماتے ہیں:
''اس کتابچے (ملت اسلامیہ اور ہندوستانیت کی دہشت) میں تجویز کیاگیا کہ براعظم میں تین اسلامی مملکتیں قائم ہونی چاہییں اول پاکستان، جس میں پنجاب، سرحد، سندھ کشمیر اور بلوچستان شامل ہیں۔ دوسرے بانگستان جس میں بنگال اور آسام کے مسلم اکثریتی علاقے شامل ہیں۔
سوم 'عثمانستان اس کا مقصد یہ تھا کہ نظام حیدر آباد دکن کو آزادخودمختار حکم راں مان لیا جائے اور آبادیوں کا ایک ایسا تبادلہ ہوکر حیدرآباد دکن کے تمام ہندو وہاں سے نکل کر آس پاس کی علاقوں میں آباد ہوجائیں اور ان علاقوں کے مسلمان حیدرآباد دکن میں بسالیے جائیں۔ اس طرح عثمانستان ایک مسلم اکثریتی مملکت بن جائے۔'' نظام حیدرآباد کو بھی نہرو نے یہ تجویز دی تھی۔
The Millat and The Mission۔6
ملت اور اس کا نصب العین)
Seven Continents of Destiny for the Seventh Country of Diania.
یہ پمفلٹ چودھری صاحب نے اکتوبر,1943,1944 1942ء میں شائع کیا۔
اس پمفلٹ میں ملت اسلامیہ کے اتحاد اور استحکام کے بارے میں سات راہ نما اصول بیان کیے گئے تھے، تاکہ پاکستان، بانگستان اور عثمانستان کے مسلمانوں کے علاوہ براعظم انڈیا کے بقیہ مسلمان بھی سیاسی آزادی حاصل کرکے ملت اسلامیہ کے اتحاد اور طاقت کا ذریعہ بنیں اور اپنی تنظیم پاک کامن ویلتھ آف نیشنز بناسکیں۔
چودھری صاحب نے اس پمفلٹ میں پاکستان، بانگستان اور عثمانستان کے علاوہ برصغیر میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مسلم ریاستیں قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان ریاستوں کے نام انہوں صدیقستان، فاروقستان، حیدرستان، معین ستان، ماپلستان، ناصرستان اور صافستان تجویز فرمائے تھے۔
1947ء کے سیاسی حالات کے مطابق ان مسلم ریاستوں کا قیام عمل میں نہ آسکا۔ اور پانچ کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہندوستان کی غلامی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔
The Millat and her Minorities :Foundation of Faruqistan for muslims of Bihar and Orissa ۔7
ملت اور اس کی اقلیتیں: بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے لیے فاروقستان کا قیام)
05 فروری 1946ء کو جاری کیا۔
8.The Millat and her Minorities:Foundation of Haideristan for the Muslim of Hindoostan
(ملت اور اس کی اقلیتیں: ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے حیدرستان کا قیام)
15مارچ 1943ء کو پہلی بار اور 05 فروری 1946ء کو دوبارہ شائع کیا گیا۔
9.The Millat and Minorities :Foundation of Maplistan for Muslim of south India "
(ملت اور اس کی اقلیتیں: جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ماپلستان کا قیام)
پہلی بار 15مارچ 1943ء دوسری بار 05فروری 1946ء کو شائع کیا گیا۔
10.The Millat and her Minorities : Foundation of Muinistan the Muslim of Rajistan:
(ملت اور اس کی اقلیتیں: راجستھان کے لیے معینستان کا قیام)
15مارچ1943ء اور05فروری 1946ء کو جاری کیا۔
11.The Millat and Minorities: Foundation of Siddiqistan
(ملت اور اس کی اقلیتیں: وسطی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے صدیقستان کا قیام)
چودھری صاحب نے اپنے اس پمفلٹ میں یہ موقف بیان کیا ہے کہ سنٹرل انڈیا کے مسلمانوں کے ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چا ہیے۔ ان کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ مالوا، بندھیل کھنڈ کے علاقوں پر مشتمل صدیقستان کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کر دی جائے۔ چودھری صاحب تاریخ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وسطی ہندوستان پر ایک لمبے عرصے تک کئی قوموں نے حکم رانی کی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتشار کا ہوئیں اور ان کا نام ونشان تک نہ رہا۔ چودھری صاحب کے مطابق: سنٹرل انڈیا کے مسلمانوں کو انتشار سے بچانے کے لیے انہیں ازسرنو منظم کرنا ہوگا اور سنٹرل انڈیا کے علاقوں کی تقسیم کے لیے پرزور مطالبہ کرنا ہوگا۔
- The Millat and her Ten Nation, Foundation of The All Dinia Milli Movement
10جون 1946ء اور12مارچ1946ء کو دوبارہ شائع ہوا۔
13.India:The Continent of Dinis Of the Country of Doom?
(انڈیا: براعظم دینیہ یا تباہی کا ملک)
دوبارہ 20 مارچ 1946ء اور 01مئی 1946ء کو کیمبرج برطانیہ سے جاری کیا گیا۔ اس پمفلٹ کا مرکزی تصور یہ تھا کہ انڈیا ایک براعظم ہے۔ اسے ہندوؤں نے بڑی چالاکی سے صرف اپنا وطن قرار دیا ہے اور دوسری مختلف قوموں کو متحد وطنیت اور مشترکہ انڈین قومیت کے جال میں پھنساکر انہیں اقلیتیں کہا اور اس طرح ان کی ثقافتی، تمدنی اور مذہبی روایات کو ختم کرکے انہیں اپنے اندر ضم کرنے کی کوششیں کیں۔
انگریزوں نے بھی اپنا حکومتی نظام چلانے کے لیے اسے ایک مرکز کے تحت کردیا اور یوں مصنوعی انڈین وحدت کو جنم دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بدنصیب ملک بن گیا۔ اب اگر یہ مظلوم اقلیتیں اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں تو غلط نہ ہوگا۔
- The Pakistan National Movement and the British Verdict on India
19مئی 1946ء کو جاری کیا۔
پاکیشیا15. Pakasia
The Histric Orbit Of Pakistan
یہ کتابچہ اگست 1946ء میں جاری کیا۔
16.HAIDARISTAN: The Fatherland of the Haider Nation"
(حیدرستان: حیدر قوم کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ 05اگست1946ء کو جاری کیا۔ چودھری صاحب نے نے یوپی کے مسلمانوں کے لیے '' حیدرستان" کے نام سے ایک ملک کا مطالبہ کیا تھا۔
یوپی کے مسلمان تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ چودھری صاحب سیاسی لحاظ سے سمجھتے تھے کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس لیے انہوں نے یوپی کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ ان کا تحفظ ہوسکے۔
حیدر عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی شیر کے ہیں۔ چوتھے خلیفہ حضرت علی ؓ کا لقب حیدر تھا۔ وہ علاقہ جات جن کو یوپی کہا جاتا ہے، اس علاقے میں اسلامی ریاست کے بانی کا نام غازی الدین حیدر تھا۔ چودھری صاحب نے ان ناموں کی مناسبت سے آگرہ اور اودھ کے علاقوں کو ''حیدرستان"کا نام دیا تھا اور یہاں کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ کیا۔
چودھری صاحب کا موقف تھا کہ اس خطے میں بارہ سو سال تک مسلمانوں کو عروج حاصل رہا ہے۔ حیدرستان کی آبادی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق 90,00,000 ہے۔ اس کا رقبہ سترہ ہزار مربع میل ہے، جو یورپ کے چند پرانے ملکوں میں سے بڑا ہے، مثلاً ڈنمارک، سوئٹززلینڈ، نیدرلینڈ، بیلجیئم اور البانیہ سے حیدرستان رقبہ کے لحاظ سے بڑا ملک ہوگا۔
17.Dinia The Seventh Continent o The World
یہ کتابچہ آپ نے ستمبر 1946ء میں شائع کیا۔
ؓٓ18.BANGISTAN : The Fatherland of Bang Nation
(بانگستان: بانگ کا آبائی وطن) جاری کیا۔
چودھری صاحب نے''بانگستان'' کے قیام کے لیے جو تصور پیش کیا تھا اس میں بنگال اور آسام کے علاقے شامل تھے۔ چودھری صاحب بانگستان کا تعارف اس طرح کراتے ہیں کہ اس ملک کی آبادی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق 73,000,000 سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس ملک کی آبادی یوگوسلاویہ اور ایران سے چار گنا ہے۔ اس کا کل رقبہ 154,205مربع میل ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بانگستان ناروے اور اٹلی سے بڑا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت آسام تو درکنار بنگال بھی تقسیم ہوا۔ قیام پاکستان کے چوبیس سال بعد 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان پیش کیا اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا، جب کہ رحمت علی 1940ء اور 1946ء میں ہی جغرافیائی لحاظ سے بنگالی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک بانگستان کے قیام کا تصور اور مطالبہ پیش کرچکے تھے۔
چودھری صاحب نے بنگالی مسلمانوں کے لیے الگ الگ آزاد اور خودمختار اسلامی ملک بانگستان بنانے کا باقاعدہ مطالبہ 16ستمبر 1946ء کو پیش کیا تھا۔ اس سے پہلے چودھری صاحب بنگال کی آزادی کا اظہار پاکستان نیشنل موومنٹ کی سپریم جنرل کونسل اجلاس منعقدہ کراچی میں مورخہ 22 مارچ1940ء کو اپنی تقریر میں کرچکے تھے۔
19.FARUQISTAN:The fatherland of the faruq Nation:
(فاروقستان: فاروق قوم کا آبائی وطن)
یہ ستمبر 1946ء میں شائع ہوا۔
چودھری صاحب نے اس پمفلٹ میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بہار اور اڑیسہ تاریخی لحاظ سے ایک قدیم خطہ ہے اور یہ مسلمانوں کا وطن ہے۔
اس علاقے پر ایک دور میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اس علاقے پر پہلی اسلامی ریاست کا قیام ناصرفاروق عمل میں لایا تھا۔ فاروق عربی زبان کا لفظ ہے اور خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓ تھے، لہٰذا انہیں ناموں کی مناسبت سے فاروقستان تجویزکیا گیا۔
1941ء کی مردم شماری کے مطابق اس علاقے کی پچاس لاکھ آبادی ہے اور یہ خطہ البانیہ کی ریاست سے پانچ گنا اور ناروے کی آبادی سے دگنا بڑا ہے اور فن لینڈ اور سوئٹزر لینڈ فاروقستان سے کم آبادی والے ملک ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً بارہ ہزار مربع میل ہے جو بیلجیئم اور البانیہ سے زیادہ ہے۔
فاروقستان: چودھری صاحب نے بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے فاروقستان کے نام سے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس ریاست کا نام خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کے اسم گرامی کی مناسبت سے رکھا تھا۔ انہوں نے ریاست کے حصول کے لیے دو پمفلٹ جا ری کیے۔ ان کا پہلا پمفلٹ 15مارچ 1943ء کو درج ذیل عنوان سے جاری کیا:
''فاروقستان گو ایک چھوٹا سا ملک ہو گا لیکن غلامی کے بجائے ایک آزاد وطن کا قیام ضروری ہے۔ ہمارے اس مطالبے پر مخالفت ہوگی، ہمیں اللہ اور رسول ﷺ کی مدد سے اپنی کام یابی حاصل کرنا ہوگی۔''
20.'MAPLISTAN: The Fatherland of the Map nation
(ماپلستان: موپلا قوم کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ 1946ء میں جاری کیا۔
چودھری رحمت علی نے جنوبی ہندوستان کے موپلا مسلمانوں کے لیے الگ ملک "ماپلستان '' کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے جنوبی ہندوستان کے ساحلی علاقے اور قریبی جزائر کو مسلم موپلوں کی سر زمین قرار دیا ہے۔ چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ ان علاقوں میں مسلمان عرصۂ دراز سے رہائش پذیر ہیں، جو اب ہندوؤں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ہندوؤں کی بالادستی سے نجات دلانے کے لیے "ماپلستان"کے قیام کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
21.Muinistan: The fatherland of the Muin nationـ
(معینستان: معین کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ ستمبر1946ء میں جاری کیا۔
راجستھان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے چودھری رحمت علی نے "معینستان" ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ معین عربی زبان کا لفظ ہے جس کی معنی مددگار کے ہیں۔ تاریخ اسلام اور برصغیر میں حضرت معین الدین چشتی ؒ ایک بلند مقام رکھتے ہیں ۔
ان کے اسم گرامی پر نام معینستان رکھا گیا۔ چوہدری رحمت علی کا کہنا تھا کہ راجستھان کے علاقے میں زیادہ تر راجپوت، گوجر اور جاٹ آباد ہیں ۔کسی دور میں یہ مسلمانوں کا مرکز تھا۔ آبادی کے لحاظ سے اس علاقے کے دس فی صد حصہ پر مسلمانوں کو حکم رانی کا حق ہے، جس کا رقبہ چودہ ہزار مربع میل ہے، جو البانیہ اور بیلجیئم سے زیادہ ہے۔
1941ء کی مردم شماری کے لحاظ سے اس کی آبادی پندرہ لاکھ ہے، جو البانیہ اور لیبیا کی آبادی سے زیادہ ہے اور حجاز اور فلسطین کے برابر ہے۔
ہندو اس کی مخالفت کریں گے، کیوںکہ وہ مسلمانوں کو ہندو قومیت کے زیراثر لانا چاہتے ہیں۔ انگریز تو چا ہتا ہے کہ ہندو اور مسلمان آپس میں لڑیں تاکہ ان کی حکومت قائم رہے۔ ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔
22.Nasaristan :The Fatherland of the Nasar nation"
(ناصرستان: ناصر قوم کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ 16ستمبر1946ء کو جاری کیا۔
چودھری صاحب نے مشرقی سیلون میں آباد مسلمانوں کے لیے الگ ملک "ناصرستان" کا مطالبہ کیا۔ سیلون کے مشرقی علاقے میں مسلمان، بدھ پیروکاروں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اسلامی تشخص چودھری صاحب نے جواز پیش کیا کہ مسلمان اس علاقے میں عرصۂ دراز سے آباد ہیں ان کو بدھ مت مذہب کے لوگوں سے الگ زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اس لیے ان مسلمانوں کے لیے ناصر ستان کے نام پر ریاست قائم کی جائے۔ ناصر عربی لفظ جس کے معنی مددگار کے ہیں۔
1941ء کی مردم شماری کے مطابق ناصرستان کی آبادی 3,00,000 ہے، جو کہ ٹرانس جارڈن، نیو فاؤنڈ لینڈ کے برابر بھوٹان سے زائد ہے۔ ناصرستان کا رقبہ 2,000 مربع میل ہے، جو کہ لگسمبرگ کے رقبے 1,000مربع میل سے زیادہ اور کویت سے یہ رقبہ 2,000 مربع میل کے برابر ہے۔
23.OSMANISTAN : The Fatherland of the Osman Nation
(عثمانستان: عثمان قوم کا آبائی وطن)
چودھری صاحب نے ریاست حیدرآباد کو عثمانستان کا نام دیا اور اسے ایک آزاد اسلامی ملک بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں 16ستمبر1946ء کو ایک پمفلٹ درج ذیل عنوان سے شائع کیا۔ عثمانستان کے متعلق بھی چودھری صاحب 22 مارچ 1940ء کو اپنی تقریر میں اظہار کرچکے تھے۔ چودھری صاحب عثمانستان کے نام کی تخلیق کے متعلق بتاتے ہیں کہ عثمان عربی کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے عظیم، مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ کا نام بھی عثمان ؓ تھا۔
ہندوستان میں حیدرآباد سب سے بڑی ریاست تھی۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد (1707) نظام الملک نے اسے خودمختار بنالیا تھا۔ 1946ء میں اس ریاست کا حکم راں عثمان علی تھا۔
جغرافیائی لحاظ سے عثمانستان کے لیے کوئی سمندر راستہ نہ تھا۔ اگر اس وقت چودھری صاحب کی اس اسکیم پر کوئی بروقت پیش رفت ہوتی تو ممکن تھا کہ ''عثمانستان'' کو صوبہ آندھر یا موجودہ آندھرا پردیش سے سمندری راستہ مل جاتا۔ اس طرح وہا ں مسلمانوں کی ایک خودمختار حکومت بن سکتی تھی۔ یہ ریاست آزاد وخودمختار حثییت میں 12ستمبر 1948تک قائم رہی۔ قائداعظم کی وفات کے بعد غاصب بھارت نے پولیس ایکشن کے بہانے اس ریاست پر قبضہ کرلیا۔
صافستان: چودھری صاحب نے مغربی سیلون کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک صافستان کا مطالبہ کیا۔ اس ملک کے قیام کے لیے انہوں نے 16ستمبر1946ء کو درج ذیل عنوان سے پمفلٹ جاری کیا۔
24.SAFISTAN: The fatherland of the Saf nation
(صافستان: صاف قوم کا آبائی وطن)
یہ کتابچہ ستمبر1946ء میں شائع کیا۔
چودھری صاحب نے صافستان کے نام کی وجہ تسمیہ اس طرح بتائی ہے کہ حضرت آدم کا لقب صفی اللہ یعنی اللہ کا انتخاب کردہ پیغمبر ہے۔ روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تو انہوں نے سب سے پہلے سیلون میں رہنا شروع کیا تھا۔ یہاں حضرت آدم کے پاؤں مبارک کا نشان بھی ہے، جس کی زیارت کے لیے لوگ وہاں جاتے ہیں۔
حضرت آدم ؑ بنی نوع نسان کے جدامجد ہیں۔ اس متبرک نام کی نسبت سے اس سرزمین کا نام صافستان رکھا گیا ہے۔ سیلون ایک تاریخی جزیرہ ہے۔ یہاں مسلمان بدھ مت کا ماننے والوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ یہ مقام مسلمانوں کا مضبوط مرکز رہا ہے۔ صافستان سیلون کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 2100مربع میل ہے ، جس کا مقابلہ لگسمبرگ اور کویت کے رقبے سے کیا جاسکتا ہے۔ لگسمبرگ کا رقبہ 100مربع میل ہے جب کہ کویت کا 2000 مربع میل ہے۔
چودھری صاحب نے پاکستان اور وہ تمام ممالک جن کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ان تمام مسلم ممالک کی قومی زبان اردو کو قرار دیا۔ نیز ان ممالک پر مشتمل ایک پاک دولت مشترکہ کا تصور بھی پیش کیا تھا۔ چودھری صاحب نے برصغیر یعنی براعظم دینیہ میں مذکورہ بالا مسلم ممالک کے قیام کا جو تصور پیش کیا، اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مسلمان، انگریز اور ہندوؤں سے اپنے معاملات طے کرتے وقت ان پر زیادہ سے زیادہ سیاسی دباؤ ڈالیں تاکہ براعظم دینیہ میں مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ رقبہ زمین پر آزادی حاصل ہو سکے اور برصضیر میں ہندو مسلمانوں کے لیے درد سر نہ بنے رہیں۔ چودھری صاحب نے غیرمسلموں کے لیے بھی ملکوں کے نا م تجویز کیے تھے، جیسے ہندوستان اچھوتستان، سکھستان اور ہنودیہ۔
چودھری صاحب کو برصغیر کی تاریخ اور جغرافیے پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ اسلامیان ہند کے زیادہ سے زیادہ رقبہ حاصل کرنے کے حامی تھے ۔ ان کا جذبہ صادق تھا اور وہ اسلام کے شیدائی اور عاشق رسول ﷺ تھے۔
چودھری صاحب نے اپنے تمام پمفلٹ اپنے رہائش پتا 16مانٹیگو روڈ کیمبرج (برطانیہ) سے جاری کیے۔ چودھری صاحب جب پمفلٹ جاری کرتے تھے تو ان کی تعداد ہزاروں میں ہوتی تھی، جن کو وہ بالخصوص برصغیر کے پڑھ لکھے نوجوان طبقہ اور سیاست دانوں کو بھیجتے تھے۔ چودھری صاحب نے اپنی زندگی میں جتنا بھی تحریری مواد شائع کیا اس پر انہوں نے اپنی جیب سے کثیر سرمایہ خرچ کیا، لیکن زندگی کے آخری ایام قلاش ہوگئے تھے۔
25.The Greatest Betrayel
عظیم غداری
09 جون 1947ء کو جاری کیا جس میں 06 جون 1947ء تقسیم برصغیر میں برٹش بنیا اتحاد کے خلاف آواز بلند کی جس میں مسلم فسادات کو نقصان پہنچایا گیا اور مملکت پاکستان کو اہم علاقوں سے محروم کیا گیا۔
Pakistan The Historic Orbit of The Culture
یہ پمفلٹ 5اگست 1946ء کو کیمبرج سے جاری کیا گیا تھا۔ اس پمفلٹ میں چوہدری رحمت علی نے پاکیشیا کے روحانی اور اخلاقی کارناموں، ذات پات کے حامل ہندوؤں کے اسلام کُش مذموم عزائم سے بچاؤ کی اہمیت اور اس وسیع خطہ میں مقیم تمام انسانوں کے حق خود ارادیت کے جواز کا تذکرہ کیا ہے۔
پاکیشیا سے ان کی مراد جنوبی ایشیا کا وہ وسیع اور مختلف النوع علاقہ مراد ہے جو گذشتہ تیرہ صدیوں سے اسلام اپنی تابانیوں کا حامل رہا ہے۔ اس پمفلٹ میں چوہدری رحمت علی نے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے مجوزہ آزاد علاقوں کے نام بھی رکھے ہیں''۔
(دینیہ: دنیا کا ساتوں بر اعظم)
یہ پمفلٹ کیمبرج سے 5ستمبر 1946ء کو جاری کیا گیا تھا۔ چودھری رحمت علی نے ا نڈیا کا نام بدل کر اسے ''دینیہ ''یعنی بہت سے ادیان کے ماننے والوں کی سر زمین قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسے دنیا کا ساتواں براعظم قرار دینے کی جغرافیائی، تاریخی اور مذہبی وجوہات کا تذکرہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روس کو نکال کر بقیہ یورپ کی طرح یہ علاقہ رقبہ کی وسعت، آبادی کی کثرت اور مختلف قوموں کے جداگانہ ثقافتی اور سیاسی تشخص کی اہمیت کا مظہر ہے۔ اس لیے یہ بھی براعظم کا درجہ رکھنے کا حق دار ہے اور اس میں رہنے والے لوگ جداگانہ اور خود مختار نئے علاقوں کے قیام کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
''برصغیر پاک و ہند کے بارے میںیہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پورا قطعہ زمین نہ کبھی ایک قوم کا وطن رہا ہے اور نہ کبھی یہاں ایک ایسی مضبوط مرکزی حکومت رہی ہے۔
جیسی انگریزوں کے زمانے میں تھی۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب چینی سیاح ہیون سانگ برصغیر کی سیاحت کے لیے آیا تھا، اس وقت بھی اس کے الفاظ میں یہ وسیع و عریض قطعہ زمین پانچ ٹکڑوں میں منقسم تھا۔ اس نے ان ٹکڑوں کو شمالی ہند، مرکزی ہند، مشرقی ہند اور جنوبی ہند کے ناموں سے یاد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہاں کئی سلطنتیں تھیں۔ یعنی اس وقت برصغیر انتظامی لحاظ سے متحد نہیں تھااور نہ ہی اس وقت یہاں صرف ایک قوم آباد تھی، بلکہ متعدد اقوام کے لوگ یہاں آبا د رہے اور مختلف سلطنتوں میں برصغیر بٹا ہوا تھا۔''
Pakistan:The Fatherland of the Pak Nation پاکستان: پاک قوم کا آبائی وطن:
یہ کتاب چودھری صاحب کی ایک نادر تخلیق ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پاکستان سے متعلق ایسی معلومات فراہم کی ہیں جن کو پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے قیام سے قبل ہی معرض وجود میں آچکا تھا یا یوں کہہ لیجیے کہ چودھری صاحب نے 14اگست 1947ء سے کئی سال بیشتر پاکستان کی مکمل تصویرکشی کرکے اسلامیان ہند کے سامنے پیش کردی تھی اور انہوں اس مادر وطن یا آبائی وطن کا نظارہ کرا دیا تھا، جس میں اسلامیان ہند کو تاقیامت زندگی گزارنا تھی۔
چودھری صاحب نے اپنی اس تصنیف پاکستان پاک قوم کا آبائی وطن میں پاکستان کا نقشہ لفظ پاکستان کی تشریح پاکستان کے قیام کا مقصد تحریک آزادی میں درپیش مشکلات پاکستان کا رقبہ، سرحدیں، پہاڑی سلسلے، صحرا، دریا، جھلیں، وادیاں، علاقے اور آب ہوا، تاریخی مقامات، آثارقدیمہ،مزارت، جنگلات، زراعت، نظام آب پاشی، معدنیات، صنعت، تجارت، مواصلات، نظام حکومت، زبان، الغرض ہر پہلو کو مفصل بیان کیا ہے۔
چودھری صاحب کی یہ کتاب 392صفحات اور تئیس ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے تین ایڈیشن یعنی پہلا 1935ئ، دوسرا 1937ء اور تیسرا 1947ء میں لندن میں شائع ہوئے، جب کہ چوتھا اور پانچواں ایڈیشن لاہور ہی سے ترجمہ شدہ ایڈیشن چند برس قبل لاہور سے شائع ہو ا ہے ۔
براعظم دینیہ میں مسلم مملکتوں کا قیام : چودھری رحمت علی نے برصغیر انڈیا کو براعظم دینیہ کا نام دیا تھا، جس کو تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے براعظم دینیہ میں اسلامیان ہند کے تحفظ اور ان کی آزادی کے لیے مرحلہ وار کام کیا اس کو یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ چودھری صاحب کے مطابق پہلے مرحلے پاکستان کا قیام دوسرے میں بانگستان اور عثمانستان کا قیام اور تیسرے میںدیگر مسلم ریا ستوں صدیقستان، فاروقستان،حیدرستان، معینستان، ماپلستان، ناصرستان اور صافستان کا قیام عمل میں لایا جانا تھا۔
چودھری رحمت علی نے اسلامیان ہند کے تحفظ کے پیش نظر مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی اپنے سیاسی منصوبے پیش کیے۔
ان منصوبوں کے مطابق وہ اسلامیان ہند کے لیے زیادہ سے زیادہ حق خوداختیاری حاصل کرنا چاہتے تھے۔ چودھری رحمت علی کا دیگر ریاستوں کے بارے میں قیام کا نظریہ قا بلِ عمل ہے۔ ہندوستان بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکیں چودھری رحمت علی کے نظریات کی سچائی کی آئینہ دار ہیں۔