نوادراتِ سخن
اہل ذوق کی نگاہوں سے اوجھل رہنے والے کچھ دل چسپ ادب پارے
(حصہ اول)
''تحقیق ایک ایسا مسلسل جاری رہنے ولا سفر ہے، جس میں حتمی منزل کا تصور ناممکن ہے، کیوںکہ اس کے ہر سفر کی طے شدہ منزل بذات خود ایک پڑاؤ کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں گذشتہ سفر کے حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں نئے سفر کے اصول و ضوابط طے کرکے اگلی منزل کا تعین کیا جاتا ہے۔''
مذکورہ بالا تعریف کی عمدہ ترین عملی مثال اردو ادب میں کی جانے والی تحقیقاتی کاوشیں ہیں جن کی بدولت آئے دن اردوادب کی شعری و نثری اصناف سے متعلق نئی سے نئی معلومات سامنے آتی ہیں۔ تحقیق تخلیق کے لیے مواد فراہم کرتی ہے اور ادبی تاریخ کے کئی گم نام گوشے اس کی بدولت روشن تر ہوکر ادب کے سفر کو آگے بڑھاتے ہیں۔
تحقیق کے اسی جاوداں اور رواں دواں عمل کا حاصل ہے کہ نہ صرف موضوعاتی تحقیق کے نئے افق روشن ہوتے ہیں بلکہ اردو کے معلوماتی ذخیرے میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ زیرنظر مضمون اردو شاعری کے چند ایسے ہی ''نوادرات'' پر مشتمل ہے جو اس سے پہلے اہالیان ادب کی قدر شناس نگاہوں کی دسترس سے دور رہے۔
امید ہے کہ یہ ''سخن پارے'' ارباب ذوق کی مطالعاتی تسکین کے ساتھ محققین کے لیے مزید نئے تحقیقی اہداف کو متعین کرنے میں ممدومعان ثابت ہوں گے۔
اردو شاعری کی چند ریاضت طلب، مشکل اور قریباً متروک اصناف سخن میں ایک صنف ''کسی نام کا سجع کرنا ''ہے۔ پنجابی شاعری کی معروف صنف ''بولی'' کی طرح یہ فقط ایک مصرعے پر مشتمل ہوتی ہے۔
عربی زبان کے اس لفظ کا لغوی معنی ''پرندوں کی چہچہاہٹ'' ہے جب کہ اصطلاحی معنوں میں سجع کرنا سے مراد ''شعری انداز میں کسی شخص کا نام با معنی طور پر اس طرح استعمال کرنا کہ مصرعے کی ظاہری معنویت بھی ٹھیک رہے اور باطریق احسن مصرعے میں متعلقہ نام کی موزونیت بھی متاثر نہ ہو۔'' اس کا شمار عموماً شاعری کے صنائع و بدائع میں کیا جاتا ہے۔
اردو کے بڑے نامی گرامی شعراء کے ہاں بھی اس کے استعمال کی مثالیں کم ہی دیکھنے میں ملتی ہیں۔ تاہم جن شعراء نے بھی اسے برتا، یہ ان کے کمالِ فن کی ناقابل فراموش یادگار بن گئی۔ عصرحاضر میں اس کا استعمال متروک ہو چکا ہے، تاہم اردو ادب کے طالب علموں کو اس منفرد صنف سے روشناس کروانے کے لیے شعراء کی کسی نام کے سجع کرنے کی چند نادر مثالیں پیش خدمت ہیں:
عبداللہ قریشی کی کتاب ''حیات اقبال کی گمشدہ کڑیاں'' میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے از خو دفارسی زبان میں اپنے نام کا سجع اس طرح کیا تھا:
؎دارد امیدِ شفاعت ز ''محمد اقبال''
بہت کم صاحبان ذوق اس امر سے واقف ہیں کہ دلی کی روایتی زبان کے امین اشرف صبوحی ایک معروف نثرنگار کے ساتھ شعر گوئی کا بھی اعلی ذوق رکھتے تھے۔
ہندوستان سے مبینہ بیگم کی مرتب شدہ کتاب ''اشرف صبوحی ایک مطالعہ'' میں ان کی شعری کاوشوں پر باقاعدہ ایک باب قائم کیا گیا ہے، جس میں تحریر ہے کہ اشرف صبوحی نے اپنے ایک عزیز ''محمد کبیر'' کے نام کا فارسی میں سجع تحریر کیا جو کچھ اس طرح تھا:
؎خدا کرد شانِ''محمدـ کبیر''
محمد کالے نامی ایک شخص کی شدید خواہش تھی کہ اس کے نام کا سجع ہوجائے مگر کوئی شاعر بھی اس کے لیے تیار نہ تھا، کیوںکہ دقت یہ تھی کہ آنحضرت ﷺکا رنگ مبارک تو روشنی سے زیادہ سفید تھا، تو پھر کیوںکر ان کے نام کے ساتھ کالے کا لفظ استعمال کیا جائے؟ مگر ایک استاد شاعر نے اس مشکل کا حل اس طرح نکالا:
؎ہر دم نام ''محمدؐ کا لے''
مرزا عصمت اللہ بیگ اپنی کتاب ''متاع ظرافت'' میں غالب کے شاگرد اور استاد شعراء میں شمار کیے جانے والے حکیم معشوق علی خان جوہر ؔ کے حوالے سے تحریر کردہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں، ایک روز ان کے ملنے والوں میں ''کوثر علی'' نام کے ایک شخص نے ان سے اپنے نام کا سجع کرنے کی فرمائش کی۔ حکیم جی نے ذرا سے فکری توقف کے بعد کہا:
؎مالکِ کوثر محمد، ساقیِ ''کوثرعلی''
قریب ہی بیٹھے مرزا محمدرفیق بیگ نے بھی عرض گزاری کہ حکیم صاحب! میرے لیے بھی!، جس پر انہوں نے چند ثانیے بعد فرمایا:
؎رفیقِ محمد، ''محمد رفیق''
معروف نقاد آل احمد سرور کی آپ بیتی ''ابھی خواب باقی ہیں'' میں تحریر ہے کہ ان کے دادا ا کا نام مولوی ذکر اللہ شاہ، والد کا نام محمد اشرف اور ان کے پیر صاحب کا نام سید آل احمد مارہروری تھا۔ ایک نامعلوم شاعر نے ان کو فارسی زبان میں ایک ایسا مصرعہ نظم کرکے دیا جس میں نہایت مہارت سے ان تینوں کے نام کا سجع ایک ساتھ کیا گیا تھا۔ مصرع یوں تھا:
؎''ذکر اللہ'' و ثنائے ''آل احمد'' 'اشرف'' است
............
شاعرمشرق علامہ اقبال ؔکے نظریاتی ناقدین کا برسوں تک ایک اعتراض یہ بھی رہا کہ مسلمانیت اور پھر انسانیت کے سب سے بڑے پرچارک، حساس اور صاحبِ دل ہونے کے باوجود علامہ اقبال نے جلیانوالہ باغ جیسے انسانیت سوز واقعے سے متعلق کچھ بھی نہیں لکھا اور اسے نظرانداز کیا، مگر معروف پنجابی دانش ور اور شاعر عاشق حسین بٹالوی اپنی آپ بیتی بعنوان ''چند یادیں، چند تاثرات'' میں لکھتے ہیں کہ جب سانحہ جلیانوالہ باغ پیش آیا تو علامہ اقبال بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اور اس سانحے کی یاد میں درج ذیل اشعار تحریر کیے جو ان کی پہلی کتاب ''بانگِ درا'' میں جگہ نہ پا سکے:
؎ہر زائرِچمن سے یہ کہتی ہے خاکِ باغ
غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے
سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم
تو آنسوؤں کا بخل نہ کر اس نہال سے
............
لکھنؤ کے شعری ذوق رکھنے والے ایک نواب کی محفل میں ایک اندھا، ایک فقیر، ایک عاشق اور ایک عالم بیٹھے تھے۔ مذکورہ چاروں اشخاص بھی فنِ شعرگوئی میں مہارت رکھتے تھے۔ دورانِ محفل نواب صاحب نے درج ذیل مصرعہ پڑھا:
؎اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور محفل میں موجود چاروں صاحبان کو اپنے حسب حال اس مصرعہ پر گرہ لگانے کی فرمائش کی، جس پر سب سے پہلے اندھے شاعر نے کہا:
؎اس میں گویائی نہیں اور مجھ میں بینائی نہیں
''اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں''
فقیر منش شاعر نے کہا:
؎مانگتے تھے زر مصور، جیب میں پائی نہیں
''اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں''
حضرتِ عاشق کی باری آئی تو یوں گویا ہوئے:
؎ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
''اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں''
جب کہ آخر میں عالم دین نے اپنی باری آنے پر یوں مصرعے کو گرہ بند کیا:
؎بت پرستی دین احمد میں کبھی آئی نہیں
''اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں''
گویا ہر ایک کا زاویہ نگاہ اس کے مطالعے، مجالست اور تربیت کی مناسبت سے نشوونما پاتا ہے۔
............
منشی پر یم چند کے معاصر، عمدہ مترجم، معروف ادیبہ قرۃالعین حیدر کے والد، رومانوی افسانہ نگار سجاد ؔحیدر یلدرم کے لازوال اور با کمال افسانوں نے انہیں اردو ادب کی تاریخ میں امر کر دیا۔ انہوں نے نثرنگاری میں تو اپنا سکہ خوب جمایا، مگر ان کے قارئین میں سے بہت کم لوگ اس امر سے واقف ہوں گے کہ وہ غزل و نظم کے پختہ طبع شاعر بھی تھے۔
ان کا کوئی شعری مجموعہ تو وجود نہ پا سکا، تاہم امرتسر سے شائع ہونے والے ماہنامہ ''پگڈنڈی'' نے ان کی حیات اور شاعری کے حوالے ایک خصوصی نمبر ترتیب دیا جس میں کافی محنت اور تحقیق کے بعد ان کا بہت سا کلام پہلی مرتبہ منظر عام پر لایا گیا، جس سے ان کی شعرگوئی کے اعلٰی معیار اور شعری استعداد کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے ان کی ایک غزل کے چند اشعار، جو انہوں نے پہلے پہل غازی پور کے مقام پر تحریر کی، پیش ہیں:
؎بے حس ہے گرچہ داغ بظاہر قمر میں ہے
غم کی کسک ہمارے ہی داغِ جگر میں ہے
کہتے ہیں حسرتوں کو مرے دل کی دیکھ کر
ساماں اٹا ہوا بہت اس ٹوٹے گھر میں ہے
اظہارِ مدعا پہ فقط ہاں ۰۰۰مگر ۰۰۰۰کہا!!
کیا جانے کیا چھپا ہوا ان کی ''مگر'' میں ہے
ایوانِ آرزو ہی میں ہے شانِ آرزو!!
جب تک ہے دل میں تب ہی تک ان کی نظر میں ہے
سجادِؔ بے قرار لیے قلبِ بے قرار!!!
ہر وقت رہ نورد ہمیشہ سفر میں ہے
............
بہت کم لوگ واقف ہیں کہ معروف عالم دین اور شاعر علامہ طالب ؔجوہری اردو شاعری کی صنعت اہمال یعنی بے معنی و لایعنی شاعری میں بھی یدِطولی رکھتے تھے اور شاعروں کو چیلینج کرتے تھے کہ کوئی ایسا مصرعہ لکھ کر لاؤ جس کا کوئی مطلب نہ ہو۔ اس صنف میں علامہ کے دو اشعار پیش خدمت ہیں:
؎کھڑکی سے بھاگتی تھی دلہن حادثات کی
گھوڑا لیے کھڑا تھا پتیلی حیات کی
............
؎جب مرغِ آگہی نے پپیتے میں سر دیا
نیولے کو میں نے مژدہ ِرنگِ سفر دیا!!
............
یوں تو اردو شاعری میں شعراء نے محبوب کی سراپا نگاری سے لے کر اس کے غمزہ و عشوہ اور نازوانداز کے ہر پہلو کو موضوع سخن بنایا ہے، تاہم محبوب کی کچھ کیفیات ایسی بھی ہیں جن پر شعراء نے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر توجہ دی۔ رئیس المتغزلین جگر مراد آبادی نے لہجے کی بیزاری کا اظہار کرنے والے ایک صوتی آہنگ یعنی لفظ ''اونہہ'' کو اس خوب صورتی سے شعر میں ڈھالا ہے کہ نہ صرف ان سے پہلے بلکہ ان کے بعد بھی کوئی اس کیفیت کو اس طرح قلم بند نہیں کر سکا۔ شعر ملاحظہ ہو:
؎عرض غم نہ کر اے دل! دیکھ! ہم نہ کہتے تھے
رہ گئے وہ ''اونہہ ''کرکے، سن لیا جواب ان کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشی غلام غوث بے خبر ؔالہ آباد میں لیفٹیننٹ گورنر کے میرمنشی تھے۔ منشی صاحب سے نوح ؔناروی کے والد عبدالمجید کے مراسم تھے، اس لیے نوح گاؔہے گاہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ نوح کی شاعری کا ابتدائی زمانہ تھا کہ منشی صاحب نے ایک روز نوح ؔسے کہا کہ ہم تمہیں ایک شعر سناتے ہیں اور برائے امتحان اس میں ایک لفظ بد ل دیتے ہیں، تم آ ج سے کل تک سوچو اور بتاؤ کہ ہم نے کون سا لفظ بدل دیا ہے؟ اور پہلے کیا لفظ تھا؟ شعر کچھ اس طرح تھا:
؎بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے ڈرتا ہے جی
اب مناسب تو یہ ہے کچھ میں بڑھوں کچھ تم بڑھو
نوح ؔیہ سن کر پریشان ہوگئے کہ نہ اصلی شعر پہلے سنا ہوا ہے اور نہ یہ پتا کہ کون سا لفظ بدل دیا گیا ہے؟ پھر بھی حواس پر قابو رکھتے ہوئے نوح ؔنے منشی صاحب سے دوبارہ شعر پڑھنے کی استدعا کی۔ منشی صاحب نے شعر دہرایا اور ٹھیک دو منٹ بعد نوح ؔبولے ''رکتا'' کی جگہ پر ''ڈرتا'' کا لفظ بدل دیا گیا ہے۔ یعنی صحیح شعر اس طرح ہوگا:
؎بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے ''رکتا''ہے جی
اب مناسب تو یہ ہے کچھ میں بڑھوں کچھ تم بڑھو
جواب درست تھا، سو منشی صاحب نے بے پناہ داد اور دعا اور انعام و اکرام سے نوازا۔
............
حشمت سہیل اپنی کتاب ''یادوں کی کہکشاں'' میں رقم طراز ہیں کہ جوش ؔملیح آبادی جن دنوں حیدرآباد دکن میں نواب میر عثمان ذی جاہ کے دربار سے وابستہ تھے، ان دنوں انہوں نے حفیظ ؔجالندھری کے ''شاہنامہ اسلام'' کے مقابل ''شاہنامہ دکن'' لکھنے کا ارادہ کیا اور بحر بھی فردوسی ؔوالی رکھی۔ مگر ابھی یہ شاہنامہ اپنے بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا کہ نظام دکن سے اختلافات کے باعث جوش ؔکو دکن چھوڑنا پڑا اور اس طرح اردو کا شعری ادب ایک بے مثال شاہ کار سے محروم رہ گیا۔ نامکمل''شاہنامہ دکن'' کے ابتدائی اشعار درج ذیل ہیں، جن میں جوش اپنے قلم کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
؎وہ قصرِسخن کے سجا بام و در
کہ یاد آئے فردوسیٔ نام ور
شبستانِ دل دار و میدان جنگ
دکھا بزم اور رزم دونوں کے رنگ
نکال ان کو قلبِ زمیں کر کے چاک
جو گنجِ گراں مایہ ہیں زیرِخاک
لگا پھر سے ترتیب دے کر چمن
پراگندہ ہیں واقعاتِ دکن
بٹھا بزم میں پھر وہ اہلِ سخن
معطر ہوں جن سے مشامِ دکن
زمانے سے مشتاق ہیں اہلِِ بزم
دکھا سورماؤں کے میدانِ رزم
دلیروں کو کنجِ لحد سے جگا!!
لگا نعرہِ قم بااذنی لگا!!
دکھا ان کو ہستی کی پوشاک میں
کفن اوڑھے سوتے ہیں جو خاک میں
قلم! لکھ وہ اشعارِ گرم و جلی!!
کہ زندہ رہے نامِ عثماں علی
............
شورش ؔکاشمیری کو نظربند کیا گیا تو اسی دوران ان کے بھائی یورشؔ تپِ دق سے بیمار پڑگئے۔ شورش نے حکومت کو لکھا کہ نظربندی کی حدود بڑھا دی جائے تاکہ میں بھائی کا علاج کروا سکوں۔ حکومت کی طرف سے اس درخواست کا کوئی جواب نہ آیا اور ان کا بھائی انتقال کرگیا۔ جب شورش اپنے بھائی کو دفن کرکے لوٹ رہے تھے تو سی آئی ڈی کے کارندے نے ان کو نظربندی کے خاتمے کا آرڈر دیا۔ شورش ؔکے ساتھ کھڑے ساحرؔ لدھیانوی نے آرڈر کی پشت پر درج ذیل اشعار لکھ کر آرڈر واپس کر دیے:
؎ اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی
شب کی سنگین سیاہی کو مبارک کہہ دو
جاؤ بجھتی ہوئی آنکھوں کے سسکتے اشکوں
جاؤ فرعونوں کی شاہی کو مبارک کہہ دو
............
جاؤ جمہور کے روندے ہوئے بے بس جذ بو
جاؤ پگھلا ہوا تپتا ہوا لاوا بن جاؤ
جاؤ معصوم جنازے کے فسردہ پھولو
جاؤ قانون کے ایوان پہ شعلے برساؤ
............
جاؤ اے وقت کے تاریک بھیانک سایوں
میکڈانلڈ سے کہو اب کوئی زحمت نہ کرے
جاؤ اس قتل کے بلواسطہ مجرم سے کہو
اب کوئی وعدہِ تکلیفِ مروت نہ کرے
............
جاؤ پنجاب کی سرکار سے جا کر کہہ دو
سیکڑوں سینوں میں چنگاریاں رخشندہ ہیں
موت ایوانِِ وزارت پہ کھڑی ہنستی ہے
جاؤ اور خضر سے کہہ دو ابھی ہم زندہ ہیں
''تحقیق ایک ایسا مسلسل جاری رہنے ولا سفر ہے، جس میں حتمی منزل کا تصور ناممکن ہے، کیوںکہ اس کے ہر سفر کی طے شدہ منزل بذات خود ایک پڑاؤ کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں گذشتہ سفر کے حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں نئے سفر کے اصول و ضوابط طے کرکے اگلی منزل کا تعین کیا جاتا ہے۔''
مذکورہ بالا تعریف کی عمدہ ترین عملی مثال اردو ادب میں کی جانے والی تحقیقاتی کاوشیں ہیں جن کی بدولت آئے دن اردوادب کی شعری و نثری اصناف سے متعلق نئی سے نئی معلومات سامنے آتی ہیں۔ تحقیق تخلیق کے لیے مواد فراہم کرتی ہے اور ادبی تاریخ کے کئی گم نام گوشے اس کی بدولت روشن تر ہوکر ادب کے سفر کو آگے بڑھاتے ہیں۔
تحقیق کے اسی جاوداں اور رواں دواں عمل کا حاصل ہے کہ نہ صرف موضوعاتی تحقیق کے نئے افق روشن ہوتے ہیں بلکہ اردو کے معلوماتی ذخیرے میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ زیرنظر مضمون اردو شاعری کے چند ایسے ہی ''نوادرات'' پر مشتمل ہے جو اس سے پہلے اہالیان ادب کی قدر شناس نگاہوں کی دسترس سے دور رہے۔
امید ہے کہ یہ ''سخن پارے'' ارباب ذوق کی مطالعاتی تسکین کے ساتھ محققین کے لیے مزید نئے تحقیقی اہداف کو متعین کرنے میں ممدومعان ثابت ہوں گے۔
اردو شاعری کی چند ریاضت طلب، مشکل اور قریباً متروک اصناف سخن میں ایک صنف ''کسی نام کا سجع کرنا ''ہے۔ پنجابی شاعری کی معروف صنف ''بولی'' کی طرح یہ فقط ایک مصرعے پر مشتمل ہوتی ہے۔
عربی زبان کے اس لفظ کا لغوی معنی ''پرندوں کی چہچہاہٹ'' ہے جب کہ اصطلاحی معنوں میں سجع کرنا سے مراد ''شعری انداز میں کسی شخص کا نام با معنی طور پر اس طرح استعمال کرنا کہ مصرعے کی ظاہری معنویت بھی ٹھیک رہے اور باطریق احسن مصرعے میں متعلقہ نام کی موزونیت بھی متاثر نہ ہو۔'' اس کا شمار عموماً شاعری کے صنائع و بدائع میں کیا جاتا ہے۔
اردو کے بڑے نامی گرامی شعراء کے ہاں بھی اس کے استعمال کی مثالیں کم ہی دیکھنے میں ملتی ہیں۔ تاہم جن شعراء نے بھی اسے برتا، یہ ان کے کمالِ فن کی ناقابل فراموش یادگار بن گئی۔ عصرحاضر میں اس کا استعمال متروک ہو چکا ہے، تاہم اردو ادب کے طالب علموں کو اس منفرد صنف سے روشناس کروانے کے لیے شعراء کی کسی نام کے سجع کرنے کی چند نادر مثالیں پیش خدمت ہیں:
عبداللہ قریشی کی کتاب ''حیات اقبال کی گمشدہ کڑیاں'' میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے از خو دفارسی زبان میں اپنے نام کا سجع اس طرح کیا تھا:
؎دارد امیدِ شفاعت ز ''محمد اقبال''
بہت کم صاحبان ذوق اس امر سے واقف ہیں کہ دلی کی روایتی زبان کے امین اشرف صبوحی ایک معروف نثرنگار کے ساتھ شعر گوئی کا بھی اعلی ذوق رکھتے تھے۔
ہندوستان سے مبینہ بیگم کی مرتب شدہ کتاب ''اشرف صبوحی ایک مطالعہ'' میں ان کی شعری کاوشوں پر باقاعدہ ایک باب قائم کیا گیا ہے، جس میں تحریر ہے کہ اشرف صبوحی نے اپنے ایک عزیز ''محمد کبیر'' کے نام کا فارسی میں سجع تحریر کیا جو کچھ اس طرح تھا:
؎خدا کرد شانِ''محمدـ کبیر''
محمد کالے نامی ایک شخص کی شدید خواہش تھی کہ اس کے نام کا سجع ہوجائے مگر کوئی شاعر بھی اس کے لیے تیار نہ تھا، کیوںکہ دقت یہ تھی کہ آنحضرت ﷺکا رنگ مبارک تو روشنی سے زیادہ سفید تھا، تو پھر کیوںکر ان کے نام کے ساتھ کالے کا لفظ استعمال کیا جائے؟ مگر ایک استاد شاعر نے اس مشکل کا حل اس طرح نکالا:
؎ہر دم نام ''محمدؐ کا لے''
مرزا عصمت اللہ بیگ اپنی کتاب ''متاع ظرافت'' میں غالب کے شاگرد اور استاد شعراء میں شمار کیے جانے والے حکیم معشوق علی خان جوہر ؔ کے حوالے سے تحریر کردہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں، ایک روز ان کے ملنے والوں میں ''کوثر علی'' نام کے ایک شخص نے ان سے اپنے نام کا سجع کرنے کی فرمائش کی۔ حکیم جی نے ذرا سے فکری توقف کے بعد کہا:
؎مالکِ کوثر محمد، ساقیِ ''کوثرعلی''
قریب ہی بیٹھے مرزا محمدرفیق بیگ نے بھی عرض گزاری کہ حکیم صاحب! میرے لیے بھی!، جس پر انہوں نے چند ثانیے بعد فرمایا:
؎رفیقِ محمد، ''محمد رفیق''
معروف نقاد آل احمد سرور کی آپ بیتی ''ابھی خواب باقی ہیں'' میں تحریر ہے کہ ان کے دادا ا کا نام مولوی ذکر اللہ شاہ، والد کا نام محمد اشرف اور ان کے پیر صاحب کا نام سید آل احمد مارہروری تھا۔ ایک نامعلوم شاعر نے ان کو فارسی زبان میں ایک ایسا مصرعہ نظم کرکے دیا جس میں نہایت مہارت سے ان تینوں کے نام کا سجع ایک ساتھ کیا گیا تھا۔ مصرع یوں تھا:
؎''ذکر اللہ'' و ثنائے ''آل احمد'' 'اشرف'' است
............
شاعرمشرق علامہ اقبال ؔکے نظریاتی ناقدین کا برسوں تک ایک اعتراض یہ بھی رہا کہ مسلمانیت اور پھر انسانیت کے سب سے بڑے پرچارک، حساس اور صاحبِ دل ہونے کے باوجود علامہ اقبال نے جلیانوالہ باغ جیسے انسانیت سوز واقعے سے متعلق کچھ بھی نہیں لکھا اور اسے نظرانداز کیا، مگر معروف پنجابی دانش ور اور شاعر عاشق حسین بٹالوی اپنی آپ بیتی بعنوان ''چند یادیں، چند تاثرات'' میں لکھتے ہیں کہ جب سانحہ جلیانوالہ باغ پیش آیا تو علامہ اقبال بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اور اس سانحے کی یاد میں درج ذیل اشعار تحریر کیے جو ان کی پہلی کتاب ''بانگِ درا'' میں جگہ نہ پا سکے:
؎ہر زائرِچمن سے یہ کہتی ہے خاکِ باغ
غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے
سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم
تو آنسوؤں کا بخل نہ کر اس نہال سے
............
لکھنؤ کے شعری ذوق رکھنے والے ایک نواب کی محفل میں ایک اندھا، ایک فقیر، ایک عاشق اور ایک عالم بیٹھے تھے۔ مذکورہ چاروں اشخاص بھی فنِ شعرگوئی میں مہارت رکھتے تھے۔ دورانِ محفل نواب صاحب نے درج ذیل مصرعہ پڑھا:
؎اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور محفل میں موجود چاروں صاحبان کو اپنے حسب حال اس مصرعہ پر گرہ لگانے کی فرمائش کی، جس پر سب سے پہلے اندھے شاعر نے کہا:
؎اس میں گویائی نہیں اور مجھ میں بینائی نہیں
''اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں''
فقیر منش شاعر نے کہا:
؎مانگتے تھے زر مصور، جیب میں پائی نہیں
''اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں''
حضرتِ عاشق کی باری آئی تو یوں گویا ہوئے:
؎ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
''اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں''
جب کہ آخر میں عالم دین نے اپنی باری آنے پر یوں مصرعے کو گرہ بند کیا:
؎بت پرستی دین احمد میں کبھی آئی نہیں
''اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں''
گویا ہر ایک کا زاویہ نگاہ اس کے مطالعے، مجالست اور تربیت کی مناسبت سے نشوونما پاتا ہے۔
............
منشی پر یم چند کے معاصر، عمدہ مترجم، معروف ادیبہ قرۃالعین حیدر کے والد، رومانوی افسانہ نگار سجاد ؔحیدر یلدرم کے لازوال اور با کمال افسانوں نے انہیں اردو ادب کی تاریخ میں امر کر دیا۔ انہوں نے نثرنگاری میں تو اپنا سکہ خوب جمایا، مگر ان کے قارئین میں سے بہت کم لوگ اس امر سے واقف ہوں گے کہ وہ غزل و نظم کے پختہ طبع شاعر بھی تھے۔
ان کا کوئی شعری مجموعہ تو وجود نہ پا سکا، تاہم امرتسر سے شائع ہونے والے ماہنامہ ''پگڈنڈی'' نے ان کی حیات اور شاعری کے حوالے ایک خصوصی نمبر ترتیب دیا جس میں کافی محنت اور تحقیق کے بعد ان کا بہت سا کلام پہلی مرتبہ منظر عام پر لایا گیا، جس سے ان کی شعرگوئی کے اعلٰی معیار اور شعری استعداد کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے ان کی ایک غزل کے چند اشعار، جو انہوں نے پہلے پہل غازی پور کے مقام پر تحریر کی، پیش ہیں:
؎بے حس ہے گرچہ داغ بظاہر قمر میں ہے
غم کی کسک ہمارے ہی داغِ جگر میں ہے
کہتے ہیں حسرتوں کو مرے دل کی دیکھ کر
ساماں اٹا ہوا بہت اس ٹوٹے گھر میں ہے
اظہارِ مدعا پہ فقط ہاں ۰۰۰مگر ۰۰۰۰کہا!!
کیا جانے کیا چھپا ہوا ان کی ''مگر'' میں ہے
ایوانِ آرزو ہی میں ہے شانِ آرزو!!
جب تک ہے دل میں تب ہی تک ان کی نظر میں ہے
سجادِؔ بے قرار لیے قلبِ بے قرار!!!
ہر وقت رہ نورد ہمیشہ سفر میں ہے
............
بہت کم لوگ واقف ہیں کہ معروف عالم دین اور شاعر علامہ طالب ؔجوہری اردو شاعری کی صنعت اہمال یعنی بے معنی و لایعنی شاعری میں بھی یدِطولی رکھتے تھے اور شاعروں کو چیلینج کرتے تھے کہ کوئی ایسا مصرعہ لکھ کر لاؤ جس کا کوئی مطلب نہ ہو۔ اس صنف میں علامہ کے دو اشعار پیش خدمت ہیں:
؎کھڑکی سے بھاگتی تھی دلہن حادثات کی
گھوڑا لیے کھڑا تھا پتیلی حیات کی
............
؎جب مرغِ آگہی نے پپیتے میں سر دیا
نیولے کو میں نے مژدہ ِرنگِ سفر دیا!!
............
یوں تو اردو شاعری میں شعراء نے محبوب کی سراپا نگاری سے لے کر اس کے غمزہ و عشوہ اور نازوانداز کے ہر پہلو کو موضوع سخن بنایا ہے، تاہم محبوب کی کچھ کیفیات ایسی بھی ہیں جن پر شعراء نے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر توجہ دی۔ رئیس المتغزلین جگر مراد آبادی نے لہجے کی بیزاری کا اظہار کرنے والے ایک صوتی آہنگ یعنی لفظ ''اونہہ'' کو اس خوب صورتی سے شعر میں ڈھالا ہے کہ نہ صرف ان سے پہلے بلکہ ان کے بعد بھی کوئی اس کیفیت کو اس طرح قلم بند نہیں کر سکا۔ شعر ملاحظہ ہو:
؎عرض غم نہ کر اے دل! دیکھ! ہم نہ کہتے تھے
رہ گئے وہ ''اونہہ ''کرکے، سن لیا جواب ان کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشی غلام غوث بے خبر ؔالہ آباد میں لیفٹیننٹ گورنر کے میرمنشی تھے۔ منشی صاحب سے نوح ؔناروی کے والد عبدالمجید کے مراسم تھے، اس لیے نوح گاؔہے گاہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ نوح کی شاعری کا ابتدائی زمانہ تھا کہ منشی صاحب نے ایک روز نوح ؔسے کہا کہ ہم تمہیں ایک شعر سناتے ہیں اور برائے امتحان اس میں ایک لفظ بد ل دیتے ہیں، تم آ ج سے کل تک سوچو اور بتاؤ کہ ہم نے کون سا لفظ بدل دیا ہے؟ اور پہلے کیا لفظ تھا؟ شعر کچھ اس طرح تھا:
؎بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے ڈرتا ہے جی
اب مناسب تو یہ ہے کچھ میں بڑھوں کچھ تم بڑھو
نوح ؔیہ سن کر پریشان ہوگئے کہ نہ اصلی شعر پہلے سنا ہوا ہے اور نہ یہ پتا کہ کون سا لفظ بدل دیا گیا ہے؟ پھر بھی حواس پر قابو رکھتے ہوئے نوح ؔنے منشی صاحب سے دوبارہ شعر پڑھنے کی استدعا کی۔ منشی صاحب نے شعر دہرایا اور ٹھیک دو منٹ بعد نوح ؔبولے ''رکتا'' کی جگہ پر ''ڈرتا'' کا لفظ بدل دیا گیا ہے۔ یعنی صحیح شعر اس طرح ہوگا:
؎بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے ''رکتا''ہے جی
اب مناسب تو یہ ہے کچھ میں بڑھوں کچھ تم بڑھو
جواب درست تھا، سو منشی صاحب نے بے پناہ داد اور دعا اور انعام و اکرام سے نوازا۔
............
حشمت سہیل اپنی کتاب ''یادوں کی کہکشاں'' میں رقم طراز ہیں کہ جوش ؔملیح آبادی جن دنوں حیدرآباد دکن میں نواب میر عثمان ذی جاہ کے دربار سے وابستہ تھے، ان دنوں انہوں نے حفیظ ؔجالندھری کے ''شاہنامہ اسلام'' کے مقابل ''شاہنامہ دکن'' لکھنے کا ارادہ کیا اور بحر بھی فردوسی ؔوالی رکھی۔ مگر ابھی یہ شاہنامہ اپنے بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا کہ نظام دکن سے اختلافات کے باعث جوش ؔکو دکن چھوڑنا پڑا اور اس طرح اردو کا شعری ادب ایک بے مثال شاہ کار سے محروم رہ گیا۔ نامکمل''شاہنامہ دکن'' کے ابتدائی اشعار درج ذیل ہیں، جن میں جوش اپنے قلم کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
؎وہ قصرِسخن کے سجا بام و در
کہ یاد آئے فردوسیٔ نام ور
شبستانِ دل دار و میدان جنگ
دکھا بزم اور رزم دونوں کے رنگ
نکال ان کو قلبِ زمیں کر کے چاک
جو گنجِ گراں مایہ ہیں زیرِخاک
لگا پھر سے ترتیب دے کر چمن
پراگندہ ہیں واقعاتِ دکن
بٹھا بزم میں پھر وہ اہلِ سخن
معطر ہوں جن سے مشامِ دکن
زمانے سے مشتاق ہیں اہلِِ بزم
دکھا سورماؤں کے میدانِ رزم
دلیروں کو کنجِ لحد سے جگا!!
لگا نعرہِ قم بااذنی لگا!!
دکھا ان کو ہستی کی پوشاک میں
کفن اوڑھے سوتے ہیں جو خاک میں
قلم! لکھ وہ اشعارِ گرم و جلی!!
کہ زندہ رہے نامِ عثماں علی
............
شورش ؔکاشمیری کو نظربند کیا گیا تو اسی دوران ان کے بھائی یورشؔ تپِ دق سے بیمار پڑگئے۔ شورش نے حکومت کو لکھا کہ نظربندی کی حدود بڑھا دی جائے تاکہ میں بھائی کا علاج کروا سکوں۔ حکومت کی طرف سے اس درخواست کا کوئی جواب نہ آیا اور ان کا بھائی انتقال کرگیا۔ جب شورش اپنے بھائی کو دفن کرکے لوٹ رہے تھے تو سی آئی ڈی کے کارندے نے ان کو نظربندی کے خاتمے کا آرڈر دیا۔ شورش ؔکے ساتھ کھڑے ساحرؔ لدھیانوی نے آرڈر کی پشت پر درج ذیل اشعار لکھ کر آرڈر واپس کر دیے:
؎ اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی
شب کی سنگین سیاہی کو مبارک کہہ دو
جاؤ بجھتی ہوئی آنکھوں کے سسکتے اشکوں
جاؤ فرعونوں کی شاہی کو مبارک کہہ دو
............
جاؤ جمہور کے روندے ہوئے بے بس جذ بو
جاؤ پگھلا ہوا تپتا ہوا لاوا بن جاؤ
جاؤ معصوم جنازے کے فسردہ پھولو
جاؤ قانون کے ایوان پہ شعلے برساؤ
............
جاؤ اے وقت کے تاریک بھیانک سایوں
میکڈانلڈ سے کہو اب کوئی زحمت نہ کرے
جاؤ اس قتل کے بلواسطہ مجرم سے کہو
اب کوئی وعدہِ تکلیفِ مروت نہ کرے
............
جاؤ پنجاب کی سرکار سے جا کر کہہ دو
سیکڑوں سینوں میں چنگاریاں رخشندہ ہیں
موت ایوانِِ وزارت پہ کھڑی ہنستی ہے
جاؤ اور خضر سے کہہ دو ابھی ہم زندہ ہیں