کوچۂ سخن
غزل
بتا! بے فیض لمحوں کا گزارا کس طرح ہوگا
وہ جب اپنا نہیں ہے تو ہمارا کس طرح ہوگا
وہ جتنا ماند پڑتا جا رہا ہے اپنی سوچوں میں
ہمارے لاکھ کہنے پر ستارا کس طرح ہو گا
ابھی تو سادگی ڈستی ہے اُس کی کافی لوگوں کو
کہ جب وہ ٹھیک سے ہم نے سنوارا؟ کس طرح ہوگا
کسی مجذوب کی حالت سمجھنی ہے تو یوں سمجھو
دیے کو چومنے والا شرارہ کس طرح ہوگا
تمہیں معلوم بھی ہے کچھ مکمل لفظ کے معنی
چلو وہ ٹھیک ہے سارے کا سارا کس طرح ہو گا
(عظیم کامل۔ جام پور)
۔۔۔
غزل
وہ شور تھا کہ لفظ نہیں ہے زبان پر
آواز قتل ہونے لگی حرف دان پر
میں حالت ِ خمیر میں سب دیکھتا رہا
کیا کیا گزر رہا تھا مری ایک جان پر
جنگل میں اس لئے ہیں شکاری چھپے ہوئے
بیٹھا ہوا ہے کوئی درندہ مچان پر
طعنہ نہیں ہے تیرے لیے کوئی فاحشہ
شجرے کا بوجھ ہوتا ہے ہر خاندان پر
کھلنے میں تھوڑی دیر لگے گی یہ راز بھی
کھدر لپیٹ بیٹھا ہوں ریشم کے تھان پر
اک شکل آئینے کی سواری پہ لاد لی
اک شخص کو سوار کیا اپنے دھیان پر
(دانیال احمد زمان۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
اک شخص ہو اور اس سا کوئی دوسرا نہ ہو
اس پر ستم کہ اس سے کوئی رابطہ نہ ہو
وہ لب کسی کو پہلے میسر رہے نہ ہوں
وہ پھول پہلے اور کہیں کھِل چکا نہ ہو
ہم لوگ جس کو ترکِ تعلق سمجھ رہے
اس کی طرف سے کوئی نیا سلسلہ نہ ہو
وہ حسن کیا کہ جس کی نہ خیرات ہو کبھی
کھڑکی وہ کیا کہ جس سے کوئی جھانکتا نہ ہو
کیا خاک کھول پائیں گے بندِ قبا جمیل ؔ
وہ جن کا تیرے سامنے منہ کھل سکا نہ ہو
(علی جمیل ۔پہاڑ پور)
۔۔۔
غزل
تیری خاطر کیا نہیں میں نے بتا روشن کیا
تونے جس جس بھی جگہ مجھ سے کہا روشن کیا
ہاتھ میں پتوار اٹھائی ناخدا روشن کیا
کشتیاں منجدھار میں تھی حوصلہ روشن کیا
میں نے رفتہ رفتہ سب کے دل پہ قبضہ کرلیا
پتھروں کے درمیاں اک آئینہ روشن کیا
جانے والوں کیلئے کیوں مسئلہ درپیش ہو
میں نے اپنا خوں جلاکر راستہ روشن کیا
تیرگی کے بت جو میرے دل پہ قابض ہوگئے
میں نے اپنے دل میں اک سچا خدا روشن کیا
جب روایت کی ڈگر پر چل پڑے سب ایک ساتھ
میں نے جدت کی غزل میں کچھ نیا روشن کیا
(کلیم شاداب۔ آکوٹ، ضلع آکولہ مہاراشٹر ،بھارت)
۔۔۔
غزل
جس قدر ہو سکے، رشتوں کا بھرم رکھنا ہے
میں نے ہر حال میں اپنوں کا بھرم رکھنا ہے
مجھ سے کوئی بھی بغاوت کا تقاضا نہ کرے
میں نے اجداد کی رسموں کا بھرم رکھنا ہے
اپنے حصے کی یہ روٹی میں اُنہیں ڈالوں گا
بام پر آئے پرندوں کا بھرم رکھنا ہے
بیٹھ جاتا ہوں بِنا چھاؤں، بِنا مقصد کے
بیثمر بوڑھے درختوں کا بھرم رکھنا ہے
روز اِک آدھ تو نیکی میں کما لیتا ہوں
مجھ کو ایسے بھی فرشتوں کا بھرم رکھنا ہے
پہلے قسمیں جو حماقت میں اٹھا لیتے ہیں
پھر وہ کہتے ہیں کہ قسموں کا بھرم رکھنا ہے
پاک دھرتی پہ جوانوں نے بہایا ہے لہو
کچھ نہ کچھ اب تو شہیدوں کا بھرم رکھنا ہے
دل کی بستی میں خزاں رُت کا بسیرا ہی سہی
ہم نے گلشن میں بہاروں کا بھرم رکھنا ہے
میرے ماں باپ فدا، اُس کے رُخِ تاباں پر
جس نے محشر میں غلاموں کا بھرم رکھنا ہے
(رمضان نجمی ۔بھکر)
۔۔۔
غزل
بے سبب ہنسنے مسکرانے سے
رنج چھپ جائے گا زمانے سے؟
وقت کی واپسی نہیں ہوتی
گھڑی کی سوئیاں گھمانے سے
آگہی کا مرض لگا ہم کو
اک محبت کے کارخانے سے
کتنے منظر بدل گئے ہیں دوست
گھر کی دیوار کو گرانے سے
ہم پہ واجب تھا احترام اس کا
اس کو نسبت تھی اک گھرانے سے
(قاسم رضا مصطفائی۔ گجرات)
۔۔۔
غزل
تیرے ہاتھوں سے جو تُرپائی کا احساس ہوا
زخم کو زخم کی گہرائی کا احساس ہوا
تُو نے جب آنکھ اٹھاتے ہی مجھے دیکھا تھا
میرے جیسوں کو بھی اونچائی کا احساس ہوا
تم تو کچھ روز مجھے اوڑھ کے پھرتے بھی رہے
سچ بتاؤ! تمہیں تنہائی کا احساس ہوا؟
جب وہ موجود نہ ہو کر بھی مجھے دِکھنے لَگا
تب کہیں جا کے تو بینائی کا احساس ہوا
ُاُس نے بانہوں میں سمیٹا تھا مرا بوسہ لیا
مجھ سے بکھرے کو بھی یکجائی کا احساس ہوا
(مصور عباس۔ بلوٹ شریف، ڈیرہ اسماعیل خان)
۔۔۔
غزل
پھر تری یاد نے لی انگڑائی
دل نے پھر آرزو اک سلگائی
دیکھ تجھ کو گمان ہوتا ہے
تجھ میں زُہرہ وجود لے آئی
اک ہنسی سے چرا لیا یہ دل
تو یہ کیسا سحر چرا لائی
ہوش والے بھی ہوش میں نہ رہے
ہائے صورت حسیں نے دکھلائی
تو نے زندہ کیا ہے مصرعِ میر
پنکھڑی لب ترے سے شرمائی
اور گہرا ہوا ہے زخم دل
دیکھ لی یار کی مسیحائی
دوش پر اب ہوا کے دل رکھا
بنے کے قاصد چلی ہے پروائی
(عامرمعانؔ ۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
کیا تجھ کو دوستی کا مطلب نہیں پتا ہے
مطلب کہ زندگی کا مطلب نہیں پتا ہے
آنسو چمکتے دیکھے ہیں کیا کبھی ہمارے؟
یعنی تجھے خوشی کا مطلب نہیں پتا ہے
کب تک پڑا رہوں گا در پر ترے میں یارا
مجھ کو تو بندگی کا مطلب نہیں پتا ہے
پب جی ہی کھیلتے ہیں سب یار دوست میرے
ان کو تو شاعری کا مطلب نہیں پتا ہے
اک شور میں رہا ہوں تنہا میں زندگی بھر
سو مجھ کو خامشی کا مطلب نہیں پتا ہے
(علی اسد ۔منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
گلِ خیال کی بو سے گریز کرتے رہے
ہم آپ دل کی نمو سے گریز کرتے رہے
عجب ہی کیا ہے اگر لو میں آ گئی لرزش
چراغ میرے لہو سے گریز کرتے رہے
جھجک جھجک ہی سہی تشنگی تو تھی، پھر بھی
جو تشنہ لب تھے سبو سے گریز کرتے رہے
اسی لیے تو نہیں منکشف کسی پر بھی
ہم ایک آئنہ رُو سے گریز کرتے رہے
اُسے جو دامنِ صد چاک سے معاملہ تھا
اسی لیے تو رفو سے گریز کرتے رہے
وہ خوش مزاج زمانے سے ہنس کے ملتا رہا
ہم اس کی ضد میں سبھو سے گریز کرتے رہے
(علی احسن منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
گردش وقت کا یہ کہنا ہے
جو بھی ہونا ہے ہو کے رہنا ہے
کس سے منت کریں رہائی کی
طوق مرضی سے ہم نے پہنا ہے
درد جب دل سنبھال نہ پایا
درد پھر انکھ سے تو بہنا ہے
ہجر آسیب بس گیا دل میں
وصل نے اب کہاں پہ رہنا ہے
چاک دامانی و گریبانی
تیرے عشاق کا یہ کہنا ہے
تیرے بن زندگی نہیں گرچہ
سانس کا درد پھر بھی سہنا ہے
(انصر رشید انصر۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
بس ذرا سا میں پریشان ہوں حیراں تو نہیں
میرا دل ٹوٹ بھی سکتا ہے میں بھگواں تو نہیں
جا ئو کچھ خبر لو! اس شخص کی تنہا ئی میں
شہر کے ٹھنڈے رویے سے پریشاں تو نہیں
اک تسلی ہی سہی تم اسے دیتے جانا
جس کو تنہا کیا ہے شہر میں حیراں تو نہیں
بھول جاتے ہو ستم ڈھاتے ہوئے مجھ پہ یار
آدمی ہی ہو نہ اچھا کوئی انساں تو نہیں
وہ ہرائیں گے مجھے جو کبھی جیتے ہی نہیں
ہار بھی سکتا ہوں میں، میں کوئی لقماں تو نہیں
جب مقام آیا تو نفرت کو ہی چھوڑوں گا میں
ہوش والوں کے لئے کام یہ آساں تو نہیں
ایک مدت سے کوئی یاد چلا آتا ہے
دیکھئے سیف یہ دل کا کوئی مہماں تو نہیں
(سیف علی عدیل ۔اسلام آباد)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی