اسرائیل کیسے قائم ہوا
فلسطین یا دنیا کاکوئی بھی حصہ ان کا مستقل وطن نہیں تھا اورنہ ہی ان میں حب الوطنی یا وطن پرستی کاجذبہ کبھی رہاہے
اسرائیل ملک کیسے بنا ہے اور قوم کب بنی ہے، اس کا احوال مذہبی کتابوں میں بھی درج ہے جبکہ تاریخ اس حوالے سے اپنا موقف رکھتی ہے۔
بہرحال یہودیوں اوران کے حامیوں نے یہودیوں کو دنیا کی پہلی تاریخ نویس ''قوم'' مشہورکیاہواہے ،، تاریخی حقائق جو خود یہودی بتاتے ہیں، ان کے مطابق اصل تورات کم سے کم چھ بار دنیا سے غائب ہوچکی ہے اورپھر کئی سال بلکہ صدیوں بعد یادداشت یاحافظے کی مدد سے مرتب کی گئی۔
آخری بار جب بخت نصر نے یروشلم کو تباہ کردیا اوریہودیوں کو بابل میں اسیر کرلیا، سترسال بعد ہنمامشی حکمران کورش اعظم جسے سائرس اعظم کہا جاتاہے نے انھیں غلامی اور قید سے رہائی دلائی ، تورات داریوش کے بیٹے اورارد شیرکے عہد میں لکھوائی گئی۔یروشلم کی تباہی پھر سترسال کی اسیری پھردربدری تک تقریباً ڈھائی سوسال کاعرصہ بنتاہے ۔
دراصل اساطیری افسانوں میں صرف ایک بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ''بنی اسرائیل '' خداکی لاڈلی قوم ہے بلکہ خداوند کی قوم صرف بنی اسرائیل ہیں اورباقی ساری اقوام خداکی ناپسندیدہ باغی اورذلیل ہیں ۔
وجہ اس کی ایک یہ بھی ہے کہ یہودیوں کاجن جن اقوام سے واسطہ پڑا اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اسے دشمن بنایا، جواب میں ان اقوام نے یہودیوں کو سزائیں دی چنانچہ ان کی فطرت ہی دوسری اقوام سے نفرت، دشمنی، حسد، عیاری، مکاری اور دغا بازی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ یہودی ایک دھوکہ باز ،احسان فراموش ، موقع پرست اورسازشی قوم سمجھی اور قرار دی جاتی ہے ۔ان کی فطرت کا اندازہ ان کہانیوں اورلطیفوں سے ہوتا ہے جو دنیا میں مشہور ہیں ۔
مثلاً ایک یہودی نے اپنے بیٹے کو الماری کے اوپر بٹھایا اورکہا ،'' نیچے کود جاؤ ،ڈرومت ، میں نیچے کھڑا ہوں، سنبھال لوں گا۔'' بیٹا کود پڑا تو باپ ہٹ گیا اوربیٹا فرش پرگرپڑا۔ بیٹے نے شکایت کی کہ آپ نے تو کہاتھا ، میں سنبھال لوں گا۔ باپ نے کہا، یہ تمہارا پہلاسبق ہے کہ باپ پربھی بھروسہ مت کرنا۔
دنیا میں بزدل اورشریر لوگوں کی نشانی یہ سمجھی جاتی ہے کہ ایسے لوگ جب طاقتور یا مقتدر ہوتے ہیں تو ظالم ہوتے ہیں اورکمزورہوں تو پاؤں پڑتے ہیں۔آج یہ نشانی اسرائیل کے حکمرانوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جب کہ فطرت میں بہادراورشریف لوگ دوستی اوردشمنی دونوں حالتوں میں کھرے ہوتے ہیں۔
کنعانی ، مصری، بابلی اورپارسی اساطیری کہانیوں میں ایسے لوگوں کے بارے کثرت سے مثالیں مل جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیلاب عظیم یاطوفان عظیم کا ذکرعہد قدیم کی کتب و کہانیوں میںملتا ہے۔ دجلہ وفرات کے علاقے میں یہ کہانی داستان گلگامش کا حصہ ہے ، ہندی اساطیر کے منو مہاراج کی کہانی بھی ہے اوراس کی کشتی ہمالیہ پر ٹھہری تھی، یونان کی ہے جس میں کشتی کی بجائے لکڑی کے صندوق میں پرومیتھس اور الی میتھس نامی ٹیٹانوں نے اپنے بیٹے ڈیوکلین اوربیٹی پیرہ کو بٹھایاتھا ، یہ صندوق کوہ پرناسس پر ٹھہراتھا۔ ایک کہانی پارسی جمشید کی ہے۔
مذہبی نوشتوں اورکہانیوں سے صرف نظر کرکے جب ہم مستند تاریخ میں دیکھتے ہیں تو بنی اسرائیل ایک ''جد'' کی اولاد یا ایک نسل ہرگزثابت نہیں ہوتی ۔اس سلسلے میں مشہورمورخ فلپ کے حتی نے ''تاریخ شام'' (اردو ترجمہ غلام رسول مہر) میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کی بنیاد فونیقی یافونیشن قوم ہے جسے تاریخ میں پہلی تجارتی قوم کہاجاتاہے ، فونیشا بحیرہ روم کے کنارے ایک پٹی کوکہتے ہیں جسے عرب لوگ کنعان کہتے ہیں،ان دونوں الفاظ کامفہوم سرخ یا ارغوانی رنگ ہے کیوں کہ فونیقی لوگ ایک خاص قسم کی مچھلی سے رنگ بناکر کپڑا رنگتے تھے اور پھر بحری جہازوں میں ڈال کر برطانیہ تک بیچتے تھے ۔
یہ فونیشی تجارت یابزنس میں ہی مشہورنہ تھے بلکہ کاروبار میں بے ایمانی اورفریب کے بھی موجد تھے ۔ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ یہ موقع ملنے پر کسی بھی جزیرے یا ملک سے عورتیں بھی اغوا کرکے دوسری جگہوں پر بیچ دیتے تھے ۔
اس نے لکھا ہے کہ یہ لوگ بحیرہ روم کے کنارے ایک ملک کے ساحل پر جہاز لنگر انداز کرکے شام تک وہاں کپڑا بیچتے رہتے، شام کو اس ملک کی شہزادی اپنی سہیلیوں کے ہم راہ وہاں کپڑا خریدنے آئی۔ فونیشی تاجر نے شہزادی سے التجا کرکے کہا،اگر مزید اچھا مال چاہیے تو بحری جہاز کے اندر آئیے، جب شہزادی اور اس کی کنیزیں جہاز پرچڑھ گئیں تو فونیشیوں نے لنگر اٹھایا اورسمندر میں غائب ہوگئے۔
عہد قدیم میں مصر پر ہیکسوس نامی چرواہے لوگوں نے حکومت قائم کرلی تھی، یہودی جب مصر آئے تو اس وقت یہی ہیکسوس حکمران تھے، دراصل یہاں ہی اسرائیلی نامی قوم کے اجزاء ترکیبی تیار ہوئے ، ظاہرہے کہ ان ہند یورپی ہیکسوس سے رشتے ناطے بھی ہوئے جیسے کنعان میں حتیوں ، حوریوں، موآبیوں اورکنعانیوں سے ہوئے تھے، پھرجب قبطی مصریوں نے انڈو یورپی ہیکسوس کو بھگا کر اپنی قبطی سلطنت بحال کی تو سابق حکومت کے منظورنظر ہونے کی وجہ سے یہودی بھی غلامی میں آئے۔
حضرت موسیٰ نے ان کو قبطی مصریوں کی غلامی سے آزاد کرایا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یہ لوگ مختلف اقوام سے گڈمڈ ہوتے رہے ، ایک ہزار سال تک یہاں وہاں بھٹکتے بھٹکتے انھوں نے اسی فلسطین میں حکومت بنائی ، تاریخ میں ان فلسطینیوں کاذکر پلستیوں اورفلستیوں کے ناموں سے کیاگیا ہے۔پھر اسرائیلیہ یا سامریہ کے نام سے الگ الگ سلطنت بنی، اسرائیلیہ کو اشوریوں نے تباہ کیا جبکہ بخت نصر نے یہودیہ کو بھی مٹا ڈالا اوریہ لوگ ایک مرتبہ پھر دجلہ وفرات پارس، مصر اورعرب میں بکھرگئے ۔
ساری دنیا میں منتشر اور آوارہ تھے لیکن جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور امریکا کی مہربانی سے یورپ میں بسنے والے یہودی فلسطینیوں کے سینے میں خنجر کی طرح گھونپے گئے حالانکہ یہ خطہ یا کوئی اور خطہ ان کا کبھی کوئی وطن رہا ہے نہ ملک۔ انھیں کبھی'' دھرتی کے بیٹے'' کے نام سے نہیں پکارا گیا۔سرزمین فلسطین میں تو ان کی حکومت ایسی ہی تھی جیسی ہندوستان پر انگریزی حکومت رہی ہے یا سکندر کے وقت یونانیوں کی ، داریوش کے عہد میں ہندوستان پر ایرانیوں کی۔
فلسطین یا دنیا کاکوئی بھی حصہ ان کا مستقل وطن نہیں تھا اورنہ ہی ان میں حب الوطنی یا وطن پرستی کاجذبہ کبھی رہاہے، یہ تو امریکا نے عربوں کے لیے اپنا مورچہ بنایاہواہے جبکہ یورپ نے اپنے ہاں سے انھیں باہر نکال کر فلسطین میں بسا دیا ۔کہتے ہیں کسی نے ایک یہودی سے پوچھا تم جنت جانا پسند کروگے یا دوزخ ؟ تو اس نے کہا ، جہاں دوپیسے منافع ہوا، وہاں چلا جاؤں گا ۔
بہرحال یہودیوں اوران کے حامیوں نے یہودیوں کو دنیا کی پہلی تاریخ نویس ''قوم'' مشہورکیاہواہے ،، تاریخی حقائق جو خود یہودی بتاتے ہیں، ان کے مطابق اصل تورات کم سے کم چھ بار دنیا سے غائب ہوچکی ہے اورپھر کئی سال بلکہ صدیوں بعد یادداشت یاحافظے کی مدد سے مرتب کی گئی۔
آخری بار جب بخت نصر نے یروشلم کو تباہ کردیا اوریہودیوں کو بابل میں اسیر کرلیا، سترسال بعد ہنمامشی حکمران کورش اعظم جسے سائرس اعظم کہا جاتاہے نے انھیں غلامی اور قید سے رہائی دلائی ، تورات داریوش کے بیٹے اورارد شیرکے عہد میں لکھوائی گئی۔یروشلم کی تباہی پھر سترسال کی اسیری پھردربدری تک تقریباً ڈھائی سوسال کاعرصہ بنتاہے ۔
دراصل اساطیری افسانوں میں صرف ایک بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ''بنی اسرائیل '' خداکی لاڈلی قوم ہے بلکہ خداوند کی قوم صرف بنی اسرائیل ہیں اورباقی ساری اقوام خداکی ناپسندیدہ باغی اورذلیل ہیں ۔
وجہ اس کی ایک یہ بھی ہے کہ یہودیوں کاجن جن اقوام سے واسطہ پڑا اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اسے دشمن بنایا، جواب میں ان اقوام نے یہودیوں کو سزائیں دی چنانچہ ان کی فطرت ہی دوسری اقوام سے نفرت، دشمنی، حسد، عیاری، مکاری اور دغا بازی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ یہودی ایک دھوکہ باز ،احسان فراموش ، موقع پرست اورسازشی قوم سمجھی اور قرار دی جاتی ہے ۔ان کی فطرت کا اندازہ ان کہانیوں اورلطیفوں سے ہوتا ہے جو دنیا میں مشہور ہیں ۔
مثلاً ایک یہودی نے اپنے بیٹے کو الماری کے اوپر بٹھایا اورکہا ،'' نیچے کود جاؤ ،ڈرومت ، میں نیچے کھڑا ہوں، سنبھال لوں گا۔'' بیٹا کود پڑا تو باپ ہٹ گیا اوربیٹا فرش پرگرپڑا۔ بیٹے نے شکایت کی کہ آپ نے تو کہاتھا ، میں سنبھال لوں گا۔ باپ نے کہا، یہ تمہارا پہلاسبق ہے کہ باپ پربھی بھروسہ مت کرنا۔
دنیا میں بزدل اورشریر لوگوں کی نشانی یہ سمجھی جاتی ہے کہ ایسے لوگ جب طاقتور یا مقتدر ہوتے ہیں تو ظالم ہوتے ہیں اورکمزورہوں تو پاؤں پڑتے ہیں۔آج یہ نشانی اسرائیل کے حکمرانوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جب کہ فطرت میں بہادراورشریف لوگ دوستی اوردشمنی دونوں حالتوں میں کھرے ہوتے ہیں۔
کنعانی ، مصری، بابلی اورپارسی اساطیری کہانیوں میں ایسے لوگوں کے بارے کثرت سے مثالیں مل جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیلاب عظیم یاطوفان عظیم کا ذکرعہد قدیم کی کتب و کہانیوں میںملتا ہے۔ دجلہ وفرات کے علاقے میں یہ کہانی داستان گلگامش کا حصہ ہے ، ہندی اساطیر کے منو مہاراج کی کہانی بھی ہے اوراس کی کشتی ہمالیہ پر ٹھہری تھی، یونان کی ہے جس میں کشتی کی بجائے لکڑی کے صندوق میں پرومیتھس اور الی میتھس نامی ٹیٹانوں نے اپنے بیٹے ڈیوکلین اوربیٹی پیرہ کو بٹھایاتھا ، یہ صندوق کوہ پرناسس پر ٹھہراتھا۔ ایک کہانی پارسی جمشید کی ہے۔
مذہبی نوشتوں اورکہانیوں سے صرف نظر کرکے جب ہم مستند تاریخ میں دیکھتے ہیں تو بنی اسرائیل ایک ''جد'' کی اولاد یا ایک نسل ہرگزثابت نہیں ہوتی ۔اس سلسلے میں مشہورمورخ فلپ کے حتی نے ''تاریخ شام'' (اردو ترجمہ غلام رسول مہر) میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کی بنیاد فونیقی یافونیشن قوم ہے جسے تاریخ میں پہلی تجارتی قوم کہاجاتاہے ، فونیشا بحیرہ روم کے کنارے ایک پٹی کوکہتے ہیں جسے عرب لوگ کنعان کہتے ہیں،ان دونوں الفاظ کامفہوم سرخ یا ارغوانی رنگ ہے کیوں کہ فونیقی لوگ ایک خاص قسم کی مچھلی سے رنگ بناکر کپڑا رنگتے تھے اور پھر بحری جہازوں میں ڈال کر برطانیہ تک بیچتے تھے ۔
یہ فونیشی تجارت یابزنس میں ہی مشہورنہ تھے بلکہ کاروبار میں بے ایمانی اورفریب کے بھی موجد تھے ۔ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ یہ موقع ملنے پر کسی بھی جزیرے یا ملک سے عورتیں بھی اغوا کرکے دوسری جگہوں پر بیچ دیتے تھے ۔
اس نے لکھا ہے کہ یہ لوگ بحیرہ روم کے کنارے ایک ملک کے ساحل پر جہاز لنگر انداز کرکے شام تک وہاں کپڑا بیچتے رہتے، شام کو اس ملک کی شہزادی اپنی سہیلیوں کے ہم راہ وہاں کپڑا خریدنے آئی۔ فونیشی تاجر نے شہزادی سے التجا کرکے کہا،اگر مزید اچھا مال چاہیے تو بحری جہاز کے اندر آئیے، جب شہزادی اور اس کی کنیزیں جہاز پرچڑھ گئیں تو فونیشیوں نے لنگر اٹھایا اورسمندر میں غائب ہوگئے۔
عہد قدیم میں مصر پر ہیکسوس نامی چرواہے لوگوں نے حکومت قائم کرلی تھی، یہودی جب مصر آئے تو اس وقت یہی ہیکسوس حکمران تھے، دراصل یہاں ہی اسرائیلی نامی قوم کے اجزاء ترکیبی تیار ہوئے ، ظاہرہے کہ ان ہند یورپی ہیکسوس سے رشتے ناطے بھی ہوئے جیسے کنعان میں حتیوں ، حوریوں، موآبیوں اورکنعانیوں سے ہوئے تھے، پھرجب قبطی مصریوں نے انڈو یورپی ہیکسوس کو بھگا کر اپنی قبطی سلطنت بحال کی تو سابق حکومت کے منظورنظر ہونے کی وجہ سے یہودی بھی غلامی میں آئے۔
حضرت موسیٰ نے ان کو قبطی مصریوں کی غلامی سے آزاد کرایا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یہ لوگ مختلف اقوام سے گڈمڈ ہوتے رہے ، ایک ہزار سال تک یہاں وہاں بھٹکتے بھٹکتے انھوں نے اسی فلسطین میں حکومت بنائی ، تاریخ میں ان فلسطینیوں کاذکر پلستیوں اورفلستیوں کے ناموں سے کیاگیا ہے۔پھر اسرائیلیہ یا سامریہ کے نام سے الگ الگ سلطنت بنی، اسرائیلیہ کو اشوریوں نے تباہ کیا جبکہ بخت نصر نے یہودیہ کو بھی مٹا ڈالا اوریہ لوگ ایک مرتبہ پھر دجلہ وفرات پارس، مصر اورعرب میں بکھرگئے ۔
ساری دنیا میں منتشر اور آوارہ تھے لیکن جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور امریکا کی مہربانی سے یورپ میں بسنے والے یہودی فلسطینیوں کے سینے میں خنجر کی طرح گھونپے گئے حالانکہ یہ خطہ یا کوئی اور خطہ ان کا کبھی کوئی وطن رہا ہے نہ ملک۔ انھیں کبھی'' دھرتی کے بیٹے'' کے نام سے نہیں پکارا گیا۔سرزمین فلسطین میں تو ان کی حکومت ایسی ہی تھی جیسی ہندوستان پر انگریزی حکومت رہی ہے یا سکندر کے وقت یونانیوں کی ، داریوش کے عہد میں ہندوستان پر ایرانیوں کی۔
فلسطین یا دنیا کاکوئی بھی حصہ ان کا مستقل وطن نہیں تھا اورنہ ہی ان میں حب الوطنی یا وطن پرستی کاجذبہ کبھی رہاہے، یہ تو امریکا نے عربوں کے لیے اپنا مورچہ بنایاہواہے جبکہ یورپ نے اپنے ہاں سے انھیں باہر نکال کر فلسطین میں بسا دیا ۔کہتے ہیں کسی نے ایک یہودی سے پوچھا تم جنت جانا پسند کروگے یا دوزخ ؟ تو اس نے کہا ، جہاں دوپیسے منافع ہوا، وہاں چلا جاؤں گا ۔