ذیا بیطس خاموش قاتل طرز زندگی بہتر بنا کر اس موذی مرض سے بچا جاسکتا ہے
ایکسپریس میڈیا گروپ کے تعاون سے ذیابیطس کے عالمی دن کے حوالے سے لاہور میں منعقد سیمینار کا آنکھوں دیکھا احوال
ایکسپریس میڈیا گروپ ہمیشہ سے اپنے ناظرین اور قارئین کو مستند خبروںاورتجزیوں پر مبنی پروگرامزدکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی آگاہی کیلئے بھی خصوصی پروگرامز منعقد کرتا ہے۔ یہ سیمینار اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ہم ہر سال ذیابیطس کے عالمی دن کی مناسبت سے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ میں پروفیسر ڈاکٹر ایم زمان شیخ،سر سید کالج آف میڈیکل سائنس کراچی اور پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کا شکر گزار ہوں جن کے تعاون سے یہ پروگرام منعقد ہوا۔
تقریب کے مہمان خصوصی نگران وزیر صحت پنجاب و صدر پی ایس آئی ایم پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کا مشکور ہوں کہ وہ خصوصی طور پر تشریف لائے ہیں اور اس مشن میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ پی ایس آئی ایم کی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صومیہ اقتدار، مہمانان گرامی، شرکاء اور فارما سیوٹیکل کمپنیز کا بھی شکریہ جن کی وجہ سے اس سیمینار کا انعقاد ممکن ہوسکا۔
پروفیسر ڈاکٹر ایم زمان شیخ
ڈائریکٹر سرسید انسٹی ٹیوٹ آف ڈائبٹیز اینڈ اینڈوکرونولوجی، چیئرپرسن فار نیشنل ڈائبٹیز
چیپٹر ہیڈ پی ایس آئی ایم
محترم صوبائی وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹرجاوید اکرم،ڈاکٹر صومیہ اقتدار جنرل سیکرٹری، پروفیسر آفتاب محسن، پروفیسر طارق وسیم، ڈاکٹر امتیاز حسن، ڈاکٹر شہلا اکرم، ڈاکٹر نبیل اکبر چودھری اور خواتین و حضرات، السلام و علیکم!ہماری روایت ہے کہ ہم ہر سال 'پی ایس آئی ایم' اشتراک سے لاہور میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے تعاون سے ذیابیطس کا عالمی دن مناتے ہیں۔ یہ سیمینار اجمل ستار ملک، تبسم عباس اور شہاب الدین کی وجہ سے منعقد ہوا ہے۔ میں فارما سیوٹیکلز کمپنیزہائی کیو، سنوفی، فیروز سنز، مارٹن ڈاؤ، سکاٹ مین، بیرٹ ہاجسن، میکٹر اور سرویئر کے تعاون پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
پاکستان میں ذیابیطس پہلے نمبر پر بھی ہے اور تیسرے پر بھی جو عجیب بات ہے مگر یہ درست بھی ہے۔شوگر کے مریضوں کے تناسب کے لحاظ سے پہلے نمبر پر چین ، دوسرے پر بھارت جبکہ تیسرے نمبر پر پاکستان ہے۔اگر ذیابیطس کے پھیلاؤ کی بات کریں تو پاکستان پہلے نمبر پر ہے اور یہاں شرح 33فیصدہے۔ہمارے ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد کو شوگر کا مرض ہے۔اگر اسے کنٹرول نہ کیا جائے تو اس کا شمار کینسر، ایچ آئی وی و دیگر چار، پانچ بڑی خطرناک بیماریوں میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بہت ساری پیچیدگیاں جڑی ہیں۔ یہ خاموش قاتل ہے۔
لوگ کان کے درد پر زیادہ پریشان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں درد ہوتا ہے جبکہ شوگر میں درد نہیں ہے۔ زیادہ پیاس لگنا، پیشاب زیادہ آنا وغیرہ ٹائپ ون کی نشانیاں ہیں ۔ ٹائپ ٹو میں عموماََ یہ نشانیاں نہیں ہوتی۔ یہ علامات آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہیں ۔ تین، چار برس تک شوگر جسم میں چھپی رہتی ہے اور مریض کو علم بھی نہیں ہوتا لہٰذا ہمیں صرف علامات پر نہیں رہنا چاہیے۔ اگر خاندان میں شوگر کی ہسٹری موجود ہے، اس شخص کا وزن زیادہ ہے، وہ فاسٹ فوڈ کھاتا ہے، ٹینشن بھی لیتا ہے، بیٹھنے کا کام زیادہ ہے، ورزش کی عادت نہیں ہے تو اسے ہر تین ماہ بعد اپنی شوگر چیک کرانی چاہیے۔
پروفیسرڈاکٹر جاوید اکرم
نگران وزیر صحت پنجاب و صدر پی ایس آئی ایم
پروفیسر ایم زمان شیخ ہر سال نومبر میں انتہائی اہم پروگرام کا انعقاد کرتے ہیں جس کا مقصد ذیابیطس کو شکست دینا ہے۔ اجمل ستارملک ، ان کی ٹیم، ایکسپریس میڈیا گروپ اور فارماسیوٹیکل کمپنیز ان کا ساتھ دیتی ہیں تاکہ لوگوں کو ذیابیطس کے بارے میں آگاہی دی جاسکے۔ ملک کی تقریباََ 33فیصد آبادی شوگر میں مبتلا ہے جو بہت بڑی تعداد ہے۔ ہمارا ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ معاشی حالات کی وجہ سے ہم دیگر شعبوں کی طرح صحت کے شعبے پر بھی کم خرچ کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں سوچنا یہ ہے کہ شوگر کو کس طرح سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہمارے شعبہ صحت پر بہت بڑا بوجھ ڈالتی ہے۔ میرے نزدیک ہمیں شوگر کو بدترین موزی بیماریوں میں شامل کرنا چاہیے ۔ پاکستان شوگر کے مرض میں دنیا کا دارالخلافہ بن گیا ہے جو ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے۔ ہمیں اس کی بھاری قیمت، لوگوں کی زندگی کے معیار اور مقدار، دونوں کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔ کتنے ہی مریض جوانی میں اللہ کو پیارے ہوجائیں گے۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ یہ جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اسی کو لوٹ کر جانا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے جسم مبارک کی بہت حفاظت کی۔ اس کی حفاظت کرنا، میرا، آپ کا، تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس جسم کی پروگرامنگ میں توانائی کی ضرورت اور اخراج کا پروگرام رکھا۔ بدقسمتی سے ہم نے قدرت کی بنائی ہوئی پروگرامنگ کو نظر انداز کر دیا۔ ہم نے اپنی روایتی خوراک جس میں سبزی، گوشت وغیرہ شامل ہیں،کو چھوڑ دیا۔ ہمارے آباؤ اجداد سادہ غذا کھاتے تھے، ان میں موٹاپا نہیں تھا۔ ہم نے نام نہاد جدیدیت کے نام پر خود کو تباہ کر لیا، اسے اپنا کر اپنا لباس اور ذہنیت تبدیل کر لی۔ ہم نے یہ سوچ اپنا لی کہ پیدل چلنا، محنت، مشقت کرنا صرف غرباء کا کام ہے، امراء کا نہیں۔ماڈرن ازم کے نام پر ہمارے کلچر میں جو تبدیلی آئی اس نے ہماری آنے والی نسلوں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔اب سکولوں میں گراؤنڈ کی جگہ ڈیجیٹل لیبز ہیں۔
فاسٹ فوڈ ، سافٹ ڈرنکس، توانائی سے بھرپور کھانا ہر طرف موجود ہے۔ ہمارے 55فیصد بچے ، چاہے ان کا تعلق اپر کلاس سے ہے یا مڈل، موٹاپا کا شکار ہیں۔ ایسے ملک میں جہاں صرف 30 فیصد حاملہ خواتین کو 'اینٹی نیٹل کیئر' میسر ہے وہاں شوگر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اگر بچے کو دوران حمل کیئر نہ ملے، اس کی نشو نما ٹھیک نہ ہو تو 20 سے30 برس بعد شوگر، بلڈ پریشر کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں کم وزن بچوں کے پیدائش کی شرح افریقہ سے بھی زیادہ ہے، 4.5 کلو گرام وزن کے بچوں کی شرح 20 فیصد ہے۔
شوگر کے حوالے سے جینیاتی معاملات، دوران حمل نشونما اور پھر لائف سٹائل، خوراک، ورزش وغیرہ انتہائی اہم ہیں۔ ذیابیطس کا لاوا پھٹ نہیں رہا بلکہ پھٹ چکا ہے۔ اگر اس بیماری کو نہیں روکا گیا تو پھر پاکستان کا سارا بجٹ بھی ذیابیطس کنٹرول کرنے پر لگا دیا جائے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس بیماری کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں، ہمیں تندہی کے ساتھ اس پر کام کرنا ہوگا۔ ہم نے پنجاب کے سب سے بڑے اور اہم گھر، گورنر ہاؤس کو آج ذیابیطس کے عالمی دن کے موقع پر عوام کیلئے کھول دیا ہے۔
آج ہم وہاں 20 ہزار افراد کی سکریننگ کریں گے اور شوگر کے مرض کے حوالے سے بچاؤ سے علاج تک، لوگوں کی رہنمائی بھی کی جائے گی۔ شوگر کے خلاف لڑائی جہاد ہے اور ہمیں اسے ہر حال میں جیتنا ہے۔ شوگر کا جدید علاج مہنگا ہے۔ 25 ہزار کا ٹیکہ کتنے افراد خرید سکتے ہیں۔ جنہیں شوگر ہوچکی ہے، وہ اسے کنٹرول میں رکھیں وگرنہ کبھی یہ بینائی چھین لے گی، کبھی کڈنی فیل ہوگی تو کبھی پاؤں سُن ہونگے اور پھر بعد میں کٹوانا پڑیں گے۔اگر والدین کو شوگر ہے تو آپ اپنا لائف سٹائل بہتر رکھ کر اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
65 فیصد امکانات ہیں کہ آپ شوگر سے بچ جائیں۔ اگر شوگر ہوگئی ہے تو اسے کنٹرول کرکے پوری عمر بتائی جاسکتی ہے، آپ زندگی کا لطف حاصل کر سکتے ہیں۔ اس مرض کو کنٹرول کرنے میں سب سے بڑی ذمہ داری ہماری بنتی ہے، حکومت کی ذمہ داری بعد میںا ٓتی ہے۔ سب سے پہلے تو مجھے خود اپنا خیال رکھنا ہے اور بروقت معالج سے رجوع کرنا ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچاؤ اور علاج معالجے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ ہم نے نگران حکومت ہونے کے باوجود صحت کے شعبے میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔
57 ارب روپے کی لاگت سے 100 ہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ 19 ذیابیطس سینٹرز کو بہتر کیا جا رہا ہے۔پی آئی سی کے چیئرمین فرقت عالمگیر یہاں موجود ہیں جو گواہ ہیں ہم دل کے امراض کیلئے کتنا خرچ کر رہے ہیں۔ہم نے پرائمری انجیو پلاسٹی شروع کی جس میں زیادہ تعداد ذیابیطس کے مریضوں کی ہے ۔ اس کا خیال ماضی میں کسی حکومت کو نہیں آیا۔ ہم نے سٹروک انٹروینشن بھی شروع کی ہے،ڈائیلاسز کو مفت کر دیا ہے۔ ہم صحت کے شعبے میں بچاؤ اور علاج، دونوں پر خرچ کر رہے ہیں، یقین ہے آنے والی حکومتیں مزید بہتر کام کریں گی۔
ڈاکٹر صومیہ اقتدار
جنرل سیکرٹری پی ایس آئی ایم
ایسوسی ایٹ پروفیسر آف میڈیسن
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی
پاکستان میں ذیابیطس کے حوالے سے خطرناک اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان ام المراض ذیابیطس کی شرح کے حوالے سے ٹاپ پر چلا گیا ہے۔ جو جگہ ہم نے 25 برسوں میں حاصل کرنی تھی، وہ 2 سے 3 برسوں میں حاصل کرلی۔ یہاں 33فیصد افراد میں شوگر پائی جاتی ہے جو باعث تشویش ہے لہٰذا میرے نزدیک یہ دن منانے کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا موقع ہے کہ ہم سر جوڑ کر بیٹھیں کہ آنے والی نسلوں کو کیسے محفوظ بناناہے۔
ذیابیطس کے حوالے سے سب سے اہم بچاؤ ہے۔ جو افراد ذیابیطس کا شکار ہوگئے ہیں، انہوں نے علاج ہی کروانا ہے لیکن ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو ذیابیطس کے دروازے پر کھڑی ہے،یہ ہائی رسک پر ہیں، انہیں آئندہ چند ماہ یا برسوں میں ذیابیطس لاحق ہوسکتا ہے لہٰذا ہمیں انہیں بچانا ہے۔ اگر وہ اپنا طرز زندگی بہتر کر لیں ،احتیاطی تدابیر اپنا لیں تو وہ نہ صرف یہ خدشہ کم کر سکتے ہیں بلکہ صحت مند زندگی کی طرف واپس آسکتے ہیں۔ ہر تیسرے شخص کو ذیابیطس ہے جبکہ ہر چھٹے شخص کو پری ڈائبٹیز ہے۔
جنہیں ذیابیطس ہے انہیں تو شاید اس کا علم بھی ہو اور وہ احتیاط بھی کر رہے ہوں لیکن جنہیں پری ڈائبٹیز ہے ان میں سے 99 فیصدکو معلوم ہی نہیں ، انہوں نے کبھی اپنا ٹیسٹ ہی نہیں کروایا، اگر کروایا تو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شوگر سے متاثر ہے۔ 35 برس سے زائد عمر کے افراد جنہیں کوئی بھی رسک فیکٹر ہے، وہ اپنی سکریننگ لازمی کروائیں۔ انہیں ہر 3 سال بعد HbA1c کا ٹیسٹ بھی کروانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ذیابیطس سے متعلق رہنمائی مغربی دنیا سے ملتی ہے، ان کے اعداد و شمار بھی اپنے حوالے سے ہوتے ہیں۔
ایشیاء میں بھارت، چین اور پاکستان، یہ تین بڑے ممالک ہیں جہاں اس بیماری کا بوجھ زیادہ ہے لہٰذا یہاں تحقیق ہونا اور اس کی روشنی میں گائیڈلائنز بنانا انتہائی اہم ہے۔ نارمل شوگر رینج5.7 سے کم ہے۔ 5.7 سے 6.4 پری ڈائبیٹک رینج ہے۔ 6.5 اور اس سے زیادہ ڈائبیٹک رینج ہے۔ فاسٹنگ لیول 99 یا اس سے کم ہو تو نارمل ہے۔ 100 سے 125 کے درمیان پری ڈائبیٹک جبکہ 126 اور اس سے زیادہ ڈائبیٹک ریینج ہے۔ اسی طرح دو گھنٹے بعد کھانے کی شوگر کا لیول 140 سے کم نارمل ہے۔ 140 سے 199 تک پری ڈائبیٹک جبکہ 200 سے زیادہ یقینی طور پر ڈائبیٹک ہے۔
مریض کی شوگر 250 ہو تو اسے لگتا ہے کہ نارمل ہے کیونکہ اسے آگاہی ہی نہیں۔ اگر کسی کو پری ڈائبٹیز ہے تو ہمیں طوفان سے بچنے کی تیاری کرنی ہے۔ اگر وزن میں پانچ سے سات کلو کمی کر لی جائے تو اس سے بچا جا سکتا ہے۔ پروفیسر صمد شیرا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہا علم میں تین لفظ ہوتے ہیں اور ان سے ہی عمل بھی بنتا ہے لہٰذا علم بغیر علم اور عمل بغیر علم کے نامکمل ہے۔ ہم نے یہاں جو علم حاصل کیا ہے، اس پر عمل کرنا ہے، اسے پھیلانا ہے اور لوگوں کو آگاہی دینی ہے۔
پری ڈائبٹیز، ذیابیطس کی طرح سٹروک، آنکھوں کے امراض، گردوں و دل کے امراض کیلئے رسک پیدا کرتی ہے لہٰذا ہمیں متحرک اور بہتر طرز زندگی اپنانا ہے۔ 46 فیصد پاکستانی موٹاپا کا شکار ہیں۔ تیس منٹ کی برسک واک، ہفتے میں پانچ مرتبہ ضروری ہے۔ کیلوریز کو کم کریں، زیادہ گلوکوز اور چکنائی والے کھانے کم کریں۔ آج یہ سوچ کر جائیں کہ کہیں ہمیں پری ڈائبٹیز تو نہیں، ہمیں اپنا وزن، اپنی ویسٹ، اپنا بلڈ پریشر چیک کروانا ہے اور اگر رسک زیادہ ہے تو HbA1c کروائیں اور معالج سے رجوع کریں۔
ڈاکٹر شہلا اکرم
سی ای او، کنسلٹنٹ نیوٹریشن، اکرم میڈیکل کمپلیکس
میں ایکسپریس میڈیا گروپ اور پروفیسر ایم زمان شیخ کی مشکور ہوں جنہوں نے مجھے یہاں مدعو کیا۔ایک زمانہ تھا کہ شوگر کو کم کرنے کیلئے کہا جاتا تھا کہ روٹی کم کر دو، شوگر نہ لو اور گوشت کھاؤ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے میٹابولک سنڈروم میں جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس میں گردے، جگر، دل وغیرہ بھی متاثر ہوسکتے ہیں لہٰذا ان کی خوراک میں سوائے چینی چھوڑنے کے، میانہ روی اختیارکرنی چاہیے۔ اس میں سب سے اہم کھانے کی مقدار اور اوقات کار ہیں۔ ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کیلئے ڈسپلن بہت ضروری ہے۔
یہ عادت بنا لینا کہ جب کھانا کھائیں گے تب انسولین لگائیں گے، موثر نہیں ہے، اس سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ہر ذیابیطس کا مریض موٹاپا کا شکار نہیں ہوتا۔ اگر وزن کم ہوگا تب بھی پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں لہٰذا وزن کو نارمل رینج میں رکھنا ضروری ہے۔ کبھی وزن بڑھا لیا، کبھی کم کر لیا، کبھی کھا لیا، کبھی بھوکا رہ لیا نقصاندہ ہے خاص کر شوگر کے مریضوں کیلئے۔ آپ کی شوگر روزانہ کی بنیاد پر کنٹرول ہونا اہم ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم HbA1c ہے۔ یہ 4 ماہ کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ ڈائٹ کے ساتھ لائف سٹائل مینجمنٹ بہت ضروری ہے۔ ڈائٹ میں کوئی زیادہ احتیاط نہیں ہے۔ جو کھا رہے ہیں اسے نارمل مقدار میں لے آئیں۔
بطور نیوٹریشنسٹ میرے لیے مریض کا کھانے کو انجوائے کرنا ضروری ہے، اسے بلا وجہ کی پرہیزی غذائیں کھلا کر متنفر کرنا نہیں۔ میرے نزدیک مریض بھی کہنا درست نہیں۔ ذیابیطس نے تو عمر بھر رہنا ہے لہٰذا اب ایک پیٹرن ہے جسے اپنانا ہے ۔ خوراک میں گھی و دیگر چیزوں کی مقدار کم کریں، کھانا وقت پر کھائیں اور جسمانی کام کی عادت ڈالیں۔ اس کیلئے جم یا پارک جانا ضروری نہیں۔ایسی موبائل ایپ موجود ہیں جن میں آپ کے قدم بھی گنے جاتے ہیں، یہ ڈاؤن لوڈ کریں اور زیادہ چلنے کی عادت بناتے جائیں۔
7 سے 8 ہزار قد م روزانہ چلیں، گھر میں سیڑھیاں چڑھنے کی عادت بنائیں، گھر کے اندر بھی چلتے رہیں، اس سے خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ نیند کا پورا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ کا سونے اور جاگنے کا وقت ٹھیک ہے تو اس سے بھی آپ کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔ خود کو ٹینشن اور بے چینی سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔ ہماری خواتین خود کو ترجیح نہیں دیتی، بیمار بھی ہوں تو خاندان ان کی اولین ترجیح ہوتا ہے، یہ جذبہ اچھا ہے لیکن خواتین کو چاہیے کہ وہ خود پر توجہ لازمی دیں۔
پروفیسر طارق وسیم
کنسلٹنٹ فزیشن سلیم میموریل ہسپتال
سینئر نائب صدر پی ایس آئی ایم
دل کے امراض کی ایک بڑی وجہ شوگر ہے۔ ذیابیطس کا دل اور اس سے جڑی شریانوں سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر شوگر ہے تو دل کی بیماری کے امکانات 3 سے 4 گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اگر شوگر ہو تو دل کے امراض کی وجہ سے ہونے والی اموات کا تناسب بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ شوگر کے مریضوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ دل سے جڑی بیماریاں ہیں۔ انجائنا، ہارٹ اٹیک، دل کا فیل ہونا، سٹروک، فالج، بڑی شریانوں کے بند ہونے سے ٹانگ کا کٹ جانا جیسے مسائل شوگر سے منسلک ہیں۔
دل کے امراض جو شوگر کی وجہ سے ہوتے ہیں، در حقیقت وہ شوگر کے ظاہر ہونے سے بہت پہلے ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس لیے پری ڈائبٹیز سٹیج سے ہی شوگر کو کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 95 فیصد مریض شوگر ٹائپ ٹو کے ہوتے ہیں، اب تو نوجوان بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ اس کا تعلق انسولین کی کمی نہیں بلکہ زیادتی سے ہے۔ اس سے شریانیں متاثر ہوتی ہیں، بلڈ پریشر جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شوگر ، دل یا شریانوں کے مرض میں بعض عوامل مشترک ہیں جن میں انسولین کی زیادتی، خون کے جمنے کے نظام کا خراب ہونا ویگر شامل ہیں۔
دل کے مرض کی علامات انجائنا ، سینے پر بوجھ، درد سے ہارٹ اٹیک، سانس چڑھنا وغیرہ ہیں۔ شوگر کے مریضوں میں یہ علامات ظاہر ہونا لازمی نہیں ہے۔ بغیر درد کے خاموشی سے شوگر دل کو متاثر کر سکتی ہے ۔ اچانک سے ہارٹ اٹیک کی صورت میں علم ہوتا ہے لہٰذا اس کا انتظار نہ کریں اور چیک اپ کروا لیں۔ جنہیں شوگر نہ ہو اور ہارٹ اٹیک ہوجائے تو دوبارہ ہارٹ اٹیک ہونے کے امکانات دس برسوں میں 20 فیصد ہوتے ہیں جبکہ شوگر کے مریضوں کو اگر ہارٹ اٹیک نہیں ہوا تب بھی اگلے دس برسوں میں اس کا امکان 20 فیصد ہے۔ اس سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ ایک اٹیک خاموشی سے ہوچکا ہے اور صورتحال پیچیدہ ہے۔
شوگر کو کنٹرول کرنا اہم ہے لیکن لائف سٹائل، خوراک اور ادویات میں جو بھی تبدیلی کی جائے وہ صرف شوگر کا لیول ہی کم نہ کرے بلکہ اس سے منسلک رسک کو بھی مینج کرے۔ اس لیے 'کارڈیو ڈائبٹیز' کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیں ابتداء سے ہی اس کے تدارک کیلئے کام کرنا ہے۔ شوگر کے مریض میں دل کے پٹھے کمزور ہوسکتے ہیں اور مریض کو سانس چڑھنے لگتا ہے۔اسی طرح دل کی دھڑکن کی بے قاعدگی کا امکان بھی زیادہ ہوتاہے۔ شوگر خون کی چھوٹی اور بڑی شریانوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔آن لائن ایپ کے ذریعے رسک کو مانیٹر کیا جاسکتا ہے، خود پر توجہ دیں۔
پروفیسر آفتاب محسن
ماہر امراض جگر، سینئر نائب صدر پی ایس آئی ایم
اجمل ستار ملک، تبسم عباس، پروفیسرایم زمان شیخ، پروفیسر اکبر چودھری، فارماسیوٹیکل کمپنیز اور حاضرین کا شکریہ!
ہمیں اگر ذیابیطس سے بچنا ہے تواس کی اے، بی، سی کا خیال رکھنا ہے۔ گزشتہ برس تک ہم اے ، HbA1c ، شوگر کو کہتے تھے کہ اگر شوگر کم ہوگی تو اس کی پیچیدگیوں سے بچ جائیں گے۔ شوگر کی بڑی پیچیدگیاں فالج اور ہارٹ اٹیک ہیں۔ A کا مطلب adiposity یعنی موٹاپا ہے۔ جہاں بھی جسم میں فیٹ ہوگا وہاں نقصان ہوگا۔ آج کل شوگر کی مینجمنٹ تبدیل ہوگئی ہے۔ مریض انسولین کا استعمال کم سے کم کر رہے ہیں جو انسولین پر تھے وہ چھوڑتے جا رہے ہیں اور ایسی ادویات لے رہے ہیں جن سے وزن کم ہوتا ہے۔
سب سے پہلا کام موٹاپا کم اور وزن کنٹرول کرنا ہے۔ اس کے ساتھ شوگر بھی کم کی جائے۔ جب تک بلڈ پریشر کی دوا نہ لیں شوگر کے مریض ہارٹ اٹیک، فالج، گردہ فیل ہونے سے نہیں بچ سکتے لہٰذا B بلڈ پریشر ہے، اسے کنٹرول کریں۔ C سے مراد کولیسٹرول ہے۔ شوگر کے مریض کا کولیسٹرول کم ہونا چاہیے۔ بُرا کولیسٹرول 120 تک ٹھیک ہے، شوگر کے مریض میں یہ 70 ہونا چاہیے۔ D سے ڈائٹ ہے، اس میں سوائے شوگر کے کوئی بھی چیز مکمل منع نہیں ہے۔
قرآن پاک میں ہے کہ اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو۔ یہ شوگر سمیت تمام بیماریوں کیلئے اہم ہے۔ E سے ایکسرسائز ہے، اس پر بھی یہاں بہت گفتگو ہوئی ہے۔ F کا مطلب فیتھ یعنی ایمان ہے۔ فالو اپ اورفارگیٹ سموکنگ بھی ہے۔ میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ 60 برس کی عمر میں بوڑھا ہونا چھوڑ و، ینگ ہونا شروع کرو، اپنا لائف سٹائل تبدیل کریں۔
ڈاکٹر محمد امتیاز حسن
اینڈوکرونالوجسٹ، میڈیکل ڈائریکٹر
ڈائبٹیز انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان
شوگر کے علاج کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ شوگر اکیلی نہیں، اس سے دل، گردہ و دیگر امراض جڑے ہیں، ہمیں ان کا بھی علاج کرنا ہے لہٰذا ایسی ادویات کا انتخاب کرنا چاہیے جو شوگر بھی کنٹرول کریں اور اس سے جڑی پیچیدگیوں کو بھی کم کریں۔ ذیابیطس کے علاج میں دو چیزیں اہم ہیں۔ ایسی دوا کا انتخاب کریں جو وزن میں اضافہ نہ کرے اور شوگر کو کم کرے۔ ہمارے ہاں مشہوردوا glimepiride ہے۔
جنرل فزیشنز ابتداء میں ہی مریض کو یہ گولی لکھ دیتے ہیں ۔ یہ دوا شوگر کو تو فوری کنٹرول کر دیتی ہے لیکن اس سے لانگ ٹرم میں وزن میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور شوگر کم ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ذیابیطس کی صورت میں مستند معالج سے رجوع کریں۔ اگر شوگر کے ساتھ ساتھ موٹاپا ہے تو دوا مختلف ہوگی، اگر گردوں کا مسئلہ ہے یا ہارٹ اٹیک ہے تو دوا الگ ہوگی۔ ایسی دوا بھی موجود ہے جو پیشاب کے ذریعے گلوکوز نکال دیتی ہیں،اس طرح بلڈ پریشر، دل و دیگر امراض سے حفاظت ہوتی ہے۔
جو استطاعت رکھتے ہیں وہ ٹیکے استعمال کر سکتے ہیں، انہیں اس سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ ذیابیطس کا علاج سادہ اور سستی ادویات سے شروع کریں۔ Metformin وہ دوا ہے جسے دیگر دوا کے ساتھ ملا کر دیا جاسکتا ہے۔ مختلف دواؤں کا مجموعہ بنانا ڈاکٹر کا فرض ہے، مریض خود سے دوا نہ لیں۔ شوگر کے مریض خود سے کبھی دوا نہ لیں اور نہ ہیں خود سے چھوڑ دیں،اپنے معالج سے لازمی رجوع کریں ۔
ڈاکٹر نبیل اکبر چودھری
ڈائریکٹر کیتھ لیب
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور
ہمارے پاس ایسے افراد آتے ہیں جنہیں ایک سے زیادہ سٹنٹ ڈل چکے ہوتے ہیں ۔ جب ان سے شوگر کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ نارمل ہے لیکن کبھی چیک نہیں کی کیونکہ تنگی محسوس نہیں ہوئی۔یہ رویہ افسوسناک ہے۔ شوگر باقاعدگی سے چیک کرنی چاہیے۔ چھوٹی اور بڑی شریانوں کے مسائل کی وجہ سے بیماریوں پر یہاں بات ہوئی ہے۔ اب ایک نئی چیز شامل ہوگئی ہے جسے مائیکرو ویسکلر ہارٹ ڈیزیز کہتے ہیں۔ اس میں دل کی بڑی نالیاں تو ٹھیک ہوتی ہیں لیکن چھوٹی نالیوں میں، زیادہ شوگر کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
جب ہم انجیوگرافی کرتے ہیں تو بڑی نالیوں میں خرابی نہیں ہوتی لیکن مریض کو سانس بھی چڑھتا ہے اور درد بھی ہوتا ہے۔ یہ مائیکرو یسکولر انجائنا ہے جس میں سانس کاپھولنا، ہر وقت تھکان محسوس کرنا اور سینے میں درد ہونا شامل ہے۔ یہ تمام علامات اس وقت آتی ہیں جب شوگر کنٹرول نہیں رہتی۔ شوگر سے ہارٹ اٹیک کا رسک فیکٹر دس برسوں میں 20 فیصد ہے۔ اگر آپ سگریٹ پیتے ہیں تو یہ رسک 9 فیصد، بلڈ پریشر ہے تو 12 فیصد۔ شوگر کے معاملے میں ایک اور ایک گیارہ نہیں بلکہ گیارہ سو ہوتا ہے۔
جتنے رسک فیکٹرز شامل ہوتے جائیں گے، مسائل بڑھتے جائیں گے۔ جسے دل کی تکلیف ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ شوگر کنٹرول کرے۔ خالی پیٹ شوگر 80 سے 130 ، کھانے کے بعد 140 سے 180 رکھیں۔ HbA1c اگر 7 سے زیادہ ہوتو پیچیدگیاں ہوجاتی ہیں۔ اس سے کم ہونی چاہیے تاکہ سٹنٹ، بائی پاس وغیرہ سے بچ سکیں۔
بلڈ شوگر کنٹرول رکھیں، سگریٹ نوشی نہ کریں اور سٹریس مینجمنٹ کریں۔ اسی طرح جسمانی طور پر خود کو متحرک کریں۔ پیدل چلنے اور سیڑھیاں چڑھنے کی عادت اپنائیں۔ 30 منٹ روزانہ، ہفتے میں کم از کم 5 دن ورزش کریں۔ جتنی شوگر ہوگی نالیوں میں بیماریوںکا خدشہ ہوسکتا ہے، سٹنٹ و بائی پاس دوبارہ بند ہوسکتے ہیں۔ احتیاط کریں اور اپنی صحت کا خیال کریں۔
پروفیسر ایم زمان شیخ
ڈائریکٹر سرسید انسٹی ٹیوٹ آف ڈائبٹیز اینڈ اینڈوکرونولوجی، چیئرپرسن فار نیشنل ڈائبٹیز
چیپٹر ہیڈ پی ایس آئی ایم
جب بھی انجیکشن کا نام لیا جاتا ہے تو ہمارے ذہن میں انسولین آتا ہے۔ آج کل انسولین کے علاوہ بھی انجیکشن آچکے ہیں جو کافی موثر ہیں۔ موٹاپا اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ٹائپ ٹو کے 80فیصد سے زیادہ مریض موٹے ہوتے ہیں۔ اگر موٹاپا ختم کرلیا جائے تو بغیر انسولین اور گولیوں کے، ذیابیطس ختم ہوجاتا ہے۔ اگر انجیکشن لگائے جائیں تو 15 گلوگرام تک وزن کم ہوسکتا ہے۔ اس کی فکس ڈوز ہے اور لگانا آسان ہے۔ اس کافائدہ یہ ہے کہ یہ صرف موٹاپا کے مریض کو بھی دی جاسکتی ہے، اس کی شوگر کم نہیں ہوگی اور اگر شوگر ہائی ہوگی تو نارمل ہوجائے گی، GLP-1 کی یہ بہت بڑی خوبصورتی ہے۔
یہ انجیکشن مہنگا ہے جو استطاعت رکھتا ہے، اسے دینا چاہیے۔ انسولین کا دوسرا نام آب حیات ہے۔ 14 نومبر اس کے موجد سر فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش ہے، انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اسی روز ذیابیطس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1921ء سے پہلے ٹائپ ون ڈائبٹیز کا مطلب موت کا پروانہ ہوتا تھا کیونکہ اس وقت انسولین نہیں تھی۔ آج بھی انسولین کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مارکیٹ میں مختلف اقسام کی انسولین ہیں، کچھ کھانے سے پہلے کچھ کھانے کے بعد، بعض ایسی ہیں جو کھانے کے دوران بھی دی جاتی ہیں۔ ہر انسولین دوسرے سے مختلف ہے لہٰذا جو انسولین ڈاکٹر تجویز کرے وہی لیں، خود سے تبدیل نہ کریں۔
پہلے مریضوں کو انسولین کا ڈر ہوتا تھا۔ آج کل ایسی باریک سوئی ہے کہ نظر بھی نہیں آتی، مچھر کے کاٹنے کا درد اس سے زیادہ ہوتا ہے۔انسولین کے حوالے سے ایک اور بات قابل ذکر ہے ڈر کی وجہ سے ڈاکٹر انسولین دیر سے لگاتے ہیں۔ یہ آسان نہیں ہے، اس کی سٹوریج، ڈوز ، کھانا کھانے وغیرہ کے معاملات بھی دیکھنا ہوتے ہیں۔
اگر کسی قابل ڈاکٹر کے پاس جائیں تو صحیح رہنمائی ملے گی۔ ٹائپ ٹو میں بھی کچھ ایسی صورتحال ہوتی ہے جس میں انسولین دی جاتی ہے۔ عموماََ دس برس کے بعد ٹائپ ٹو ذیابیطس کے50 فیصد مریضوں کو انسولین کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے مریض جن کے گردے، جگر ناکارہ ہوچکے ہوں، انہیں بھی انسولین دی جاتی ہے، اس سے شوگر کنٹرول ہوجاتی ہے۔
ہم ہر سال ذیابیطس کے عالمی دن کی مناسبت سے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ میں پروفیسر ڈاکٹر ایم زمان شیخ،سر سید کالج آف میڈیکل سائنس کراچی اور پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کا شکر گزار ہوں جن کے تعاون سے یہ پروگرام منعقد ہوا۔
تقریب کے مہمان خصوصی نگران وزیر صحت پنجاب و صدر پی ایس آئی ایم پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کا مشکور ہوں کہ وہ خصوصی طور پر تشریف لائے ہیں اور اس مشن میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ پی ایس آئی ایم کی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صومیہ اقتدار، مہمانان گرامی، شرکاء اور فارما سیوٹیکل کمپنیز کا بھی شکریہ جن کی وجہ سے اس سیمینار کا انعقاد ممکن ہوسکا۔
پروفیسر ڈاکٹر ایم زمان شیخ
ڈائریکٹر سرسید انسٹی ٹیوٹ آف ڈائبٹیز اینڈ اینڈوکرونولوجی، چیئرپرسن فار نیشنل ڈائبٹیز
چیپٹر ہیڈ پی ایس آئی ایم
محترم صوبائی وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹرجاوید اکرم،ڈاکٹر صومیہ اقتدار جنرل سیکرٹری، پروفیسر آفتاب محسن، پروفیسر طارق وسیم، ڈاکٹر امتیاز حسن، ڈاکٹر شہلا اکرم، ڈاکٹر نبیل اکبر چودھری اور خواتین و حضرات، السلام و علیکم!ہماری روایت ہے کہ ہم ہر سال 'پی ایس آئی ایم' اشتراک سے لاہور میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے تعاون سے ذیابیطس کا عالمی دن مناتے ہیں۔ یہ سیمینار اجمل ستار ملک، تبسم عباس اور شہاب الدین کی وجہ سے منعقد ہوا ہے۔ میں فارما سیوٹیکلز کمپنیزہائی کیو، سنوفی، فیروز سنز، مارٹن ڈاؤ، سکاٹ مین، بیرٹ ہاجسن، میکٹر اور سرویئر کے تعاون پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
پاکستان میں ذیابیطس پہلے نمبر پر بھی ہے اور تیسرے پر بھی جو عجیب بات ہے مگر یہ درست بھی ہے۔شوگر کے مریضوں کے تناسب کے لحاظ سے پہلے نمبر پر چین ، دوسرے پر بھارت جبکہ تیسرے نمبر پر پاکستان ہے۔اگر ذیابیطس کے پھیلاؤ کی بات کریں تو پاکستان پہلے نمبر پر ہے اور یہاں شرح 33فیصدہے۔ہمارے ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد کو شوگر کا مرض ہے۔اگر اسے کنٹرول نہ کیا جائے تو اس کا شمار کینسر، ایچ آئی وی و دیگر چار، پانچ بڑی خطرناک بیماریوں میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بہت ساری پیچیدگیاں جڑی ہیں۔ یہ خاموش قاتل ہے۔
لوگ کان کے درد پر زیادہ پریشان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں درد ہوتا ہے جبکہ شوگر میں درد نہیں ہے۔ زیادہ پیاس لگنا، پیشاب زیادہ آنا وغیرہ ٹائپ ون کی نشانیاں ہیں ۔ ٹائپ ٹو میں عموماََ یہ نشانیاں نہیں ہوتی۔ یہ علامات آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہیں ۔ تین، چار برس تک شوگر جسم میں چھپی رہتی ہے اور مریض کو علم بھی نہیں ہوتا لہٰذا ہمیں صرف علامات پر نہیں رہنا چاہیے۔ اگر خاندان میں شوگر کی ہسٹری موجود ہے، اس شخص کا وزن زیادہ ہے، وہ فاسٹ فوڈ کھاتا ہے، ٹینشن بھی لیتا ہے، بیٹھنے کا کام زیادہ ہے، ورزش کی عادت نہیں ہے تو اسے ہر تین ماہ بعد اپنی شوگر چیک کرانی چاہیے۔
پروفیسرڈاکٹر جاوید اکرم
نگران وزیر صحت پنجاب و صدر پی ایس آئی ایم
پروفیسر ایم زمان شیخ ہر سال نومبر میں انتہائی اہم پروگرام کا انعقاد کرتے ہیں جس کا مقصد ذیابیطس کو شکست دینا ہے۔ اجمل ستارملک ، ان کی ٹیم، ایکسپریس میڈیا گروپ اور فارماسیوٹیکل کمپنیز ان کا ساتھ دیتی ہیں تاکہ لوگوں کو ذیابیطس کے بارے میں آگاہی دی جاسکے۔ ملک کی تقریباََ 33فیصد آبادی شوگر میں مبتلا ہے جو بہت بڑی تعداد ہے۔ ہمارا ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ معاشی حالات کی وجہ سے ہم دیگر شعبوں کی طرح صحت کے شعبے پر بھی کم خرچ کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں سوچنا یہ ہے کہ شوگر کو کس طرح سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہمارے شعبہ صحت پر بہت بڑا بوجھ ڈالتی ہے۔ میرے نزدیک ہمیں شوگر کو بدترین موزی بیماریوں میں شامل کرنا چاہیے ۔ پاکستان شوگر کے مرض میں دنیا کا دارالخلافہ بن گیا ہے جو ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے۔ ہمیں اس کی بھاری قیمت، لوگوں کی زندگی کے معیار اور مقدار، دونوں کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔ کتنے ہی مریض جوانی میں اللہ کو پیارے ہوجائیں گے۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ یہ جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اسی کو لوٹ کر جانا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے جسم مبارک کی بہت حفاظت کی۔ اس کی حفاظت کرنا، میرا، آپ کا، تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس جسم کی پروگرامنگ میں توانائی کی ضرورت اور اخراج کا پروگرام رکھا۔ بدقسمتی سے ہم نے قدرت کی بنائی ہوئی پروگرامنگ کو نظر انداز کر دیا۔ ہم نے اپنی روایتی خوراک جس میں سبزی، گوشت وغیرہ شامل ہیں،کو چھوڑ دیا۔ ہمارے آباؤ اجداد سادہ غذا کھاتے تھے، ان میں موٹاپا نہیں تھا۔ ہم نے نام نہاد جدیدیت کے نام پر خود کو تباہ کر لیا، اسے اپنا کر اپنا لباس اور ذہنیت تبدیل کر لی۔ ہم نے یہ سوچ اپنا لی کہ پیدل چلنا، محنت، مشقت کرنا صرف غرباء کا کام ہے، امراء کا نہیں۔ماڈرن ازم کے نام پر ہمارے کلچر میں جو تبدیلی آئی اس نے ہماری آنے والی نسلوں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔اب سکولوں میں گراؤنڈ کی جگہ ڈیجیٹل لیبز ہیں۔
فاسٹ فوڈ ، سافٹ ڈرنکس، توانائی سے بھرپور کھانا ہر طرف موجود ہے۔ ہمارے 55فیصد بچے ، چاہے ان کا تعلق اپر کلاس سے ہے یا مڈل، موٹاپا کا شکار ہیں۔ ایسے ملک میں جہاں صرف 30 فیصد حاملہ خواتین کو 'اینٹی نیٹل کیئر' میسر ہے وہاں شوگر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اگر بچے کو دوران حمل کیئر نہ ملے، اس کی نشو نما ٹھیک نہ ہو تو 20 سے30 برس بعد شوگر، بلڈ پریشر کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں کم وزن بچوں کے پیدائش کی شرح افریقہ سے بھی زیادہ ہے، 4.5 کلو گرام وزن کے بچوں کی شرح 20 فیصد ہے۔
شوگر کے حوالے سے جینیاتی معاملات، دوران حمل نشونما اور پھر لائف سٹائل، خوراک، ورزش وغیرہ انتہائی اہم ہیں۔ ذیابیطس کا لاوا پھٹ نہیں رہا بلکہ پھٹ چکا ہے۔ اگر اس بیماری کو نہیں روکا گیا تو پھر پاکستان کا سارا بجٹ بھی ذیابیطس کنٹرول کرنے پر لگا دیا جائے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس بیماری کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں، ہمیں تندہی کے ساتھ اس پر کام کرنا ہوگا۔ ہم نے پنجاب کے سب سے بڑے اور اہم گھر، گورنر ہاؤس کو آج ذیابیطس کے عالمی دن کے موقع پر عوام کیلئے کھول دیا ہے۔
آج ہم وہاں 20 ہزار افراد کی سکریننگ کریں گے اور شوگر کے مرض کے حوالے سے بچاؤ سے علاج تک، لوگوں کی رہنمائی بھی کی جائے گی۔ شوگر کے خلاف لڑائی جہاد ہے اور ہمیں اسے ہر حال میں جیتنا ہے۔ شوگر کا جدید علاج مہنگا ہے۔ 25 ہزار کا ٹیکہ کتنے افراد خرید سکتے ہیں۔ جنہیں شوگر ہوچکی ہے، وہ اسے کنٹرول میں رکھیں وگرنہ کبھی یہ بینائی چھین لے گی، کبھی کڈنی فیل ہوگی تو کبھی پاؤں سُن ہونگے اور پھر بعد میں کٹوانا پڑیں گے۔اگر والدین کو شوگر ہے تو آپ اپنا لائف سٹائل بہتر رکھ کر اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
65 فیصد امکانات ہیں کہ آپ شوگر سے بچ جائیں۔ اگر شوگر ہوگئی ہے تو اسے کنٹرول کرکے پوری عمر بتائی جاسکتی ہے، آپ زندگی کا لطف حاصل کر سکتے ہیں۔ اس مرض کو کنٹرول کرنے میں سب سے بڑی ذمہ داری ہماری بنتی ہے، حکومت کی ذمہ داری بعد میںا ٓتی ہے۔ سب سے پہلے تو مجھے خود اپنا خیال رکھنا ہے اور بروقت معالج سے رجوع کرنا ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچاؤ اور علاج معالجے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ ہم نے نگران حکومت ہونے کے باوجود صحت کے شعبے میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔
57 ارب روپے کی لاگت سے 100 ہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ 19 ذیابیطس سینٹرز کو بہتر کیا جا رہا ہے۔پی آئی سی کے چیئرمین فرقت عالمگیر یہاں موجود ہیں جو گواہ ہیں ہم دل کے امراض کیلئے کتنا خرچ کر رہے ہیں۔ہم نے پرائمری انجیو پلاسٹی شروع کی جس میں زیادہ تعداد ذیابیطس کے مریضوں کی ہے ۔ اس کا خیال ماضی میں کسی حکومت کو نہیں آیا۔ ہم نے سٹروک انٹروینشن بھی شروع کی ہے،ڈائیلاسز کو مفت کر دیا ہے۔ ہم صحت کے شعبے میں بچاؤ اور علاج، دونوں پر خرچ کر رہے ہیں، یقین ہے آنے والی حکومتیں مزید بہتر کام کریں گی۔
ڈاکٹر صومیہ اقتدار
جنرل سیکرٹری پی ایس آئی ایم
ایسوسی ایٹ پروفیسر آف میڈیسن
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی
پاکستان میں ذیابیطس کے حوالے سے خطرناک اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان ام المراض ذیابیطس کی شرح کے حوالے سے ٹاپ پر چلا گیا ہے۔ جو جگہ ہم نے 25 برسوں میں حاصل کرنی تھی، وہ 2 سے 3 برسوں میں حاصل کرلی۔ یہاں 33فیصد افراد میں شوگر پائی جاتی ہے جو باعث تشویش ہے لہٰذا میرے نزدیک یہ دن منانے کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا موقع ہے کہ ہم سر جوڑ کر بیٹھیں کہ آنے والی نسلوں کو کیسے محفوظ بناناہے۔
ذیابیطس کے حوالے سے سب سے اہم بچاؤ ہے۔ جو افراد ذیابیطس کا شکار ہوگئے ہیں، انہوں نے علاج ہی کروانا ہے لیکن ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو ذیابیطس کے دروازے پر کھڑی ہے،یہ ہائی رسک پر ہیں، انہیں آئندہ چند ماہ یا برسوں میں ذیابیطس لاحق ہوسکتا ہے لہٰذا ہمیں انہیں بچانا ہے۔ اگر وہ اپنا طرز زندگی بہتر کر لیں ،احتیاطی تدابیر اپنا لیں تو وہ نہ صرف یہ خدشہ کم کر سکتے ہیں بلکہ صحت مند زندگی کی طرف واپس آسکتے ہیں۔ ہر تیسرے شخص کو ذیابیطس ہے جبکہ ہر چھٹے شخص کو پری ڈائبٹیز ہے۔
جنہیں ذیابیطس ہے انہیں تو شاید اس کا علم بھی ہو اور وہ احتیاط بھی کر رہے ہوں لیکن جنہیں پری ڈائبٹیز ہے ان میں سے 99 فیصدکو معلوم ہی نہیں ، انہوں نے کبھی اپنا ٹیسٹ ہی نہیں کروایا، اگر کروایا تو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شوگر سے متاثر ہے۔ 35 برس سے زائد عمر کے افراد جنہیں کوئی بھی رسک فیکٹر ہے، وہ اپنی سکریننگ لازمی کروائیں۔ انہیں ہر 3 سال بعد HbA1c کا ٹیسٹ بھی کروانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ذیابیطس سے متعلق رہنمائی مغربی دنیا سے ملتی ہے، ان کے اعداد و شمار بھی اپنے حوالے سے ہوتے ہیں۔
ایشیاء میں بھارت، چین اور پاکستان، یہ تین بڑے ممالک ہیں جہاں اس بیماری کا بوجھ زیادہ ہے لہٰذا یہاں تحقیق ہونا اور اس کی روشنی میں گائیڈلائنز بنانا انتہائی اہم ہے۔ نارمل شوگر رینج5.7 سے کم ہے۔ 5.7 سے 6.4 پری ڈائبیٹک رینج ہے۔ 6.5 اور اس سے زیادہ ڈائبیٹک رینج ہے۔ فاسٹنگ لیول 99 یا اس سے کم ہو تو نارمل ہے۔ 100 سے 125 کے درمیان پری ڈائبیٹک جبکہ 126 اور اس سے زیادہ ڈائبیٹک ریینج ہے۔ اسی طرح دو گھنٹے بعد کھانے کی شوگر کا لیول 140 سے کم نارمل ہے۔ 140 سے 199 تک پری ڈائبیٹک جبکہ 200 سے زیادہ یقینی طور پر ڈائبیٹک ہے۔
مریض کی شوگر 250 ہو تو اسے لگتا ہے کہ نارمل ہے کیونکہ اسے آگاہی ہی نہیں۔ اگر کسی کو پری ڈائبٹیز ہے تو ہمیں طوفان سے بچنے کی تیاری کرنی ہے۔ اگر وزن میں پانچ سے سات کلو کمی کر لی جائے تو اس سے بچا جا سکتا ہے۔ پروفیسر صمد شیرا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہا علم میں تین لفظ ہوتے ہیں اور ان سے ہی عمل بھی بنتا ہے لہٰذا علم بغیر علم اور عمل بغیر علم کے نامکمل ہے۔ ہم نے یہاں جو علم حاصل کیا ہے، اس پر عمل کرنا ہے، اسے پھیلانا ہے اور لوگوں کو آگاہی دینی ہے۔
پری ڈائبٹیز، ذیابیطس کی طرح سٹروک، آنکھوں کے امراض، گردوں و دل کے امراض کیلئے رسک پیدا کرتی ہے لہٰذا ہمیں متحرک اور بہتر طرز زندگی اپنانا ہے۔ 46 فیصد پاکستانی موٹاپا کا شکار ہیں۔ تیس منٹ کی برسک واک، ہفتے میں پانچ مرتبہ ضروری ہے۔ کیلوریز کو کم کریں، زیادہ گلوکوز اور چکنائی والے کھانے کم کریں۔ آج یہ سوچ کر جائیں کہ کہیں ہمیں پری ڈائبٹیز تو نہیں، ہمیں اپنا وزن، اپنی ویسٹ، اپنا بلڈ پریشر چیک کروانا ہے اور اگر رسک زیادہ ہے تو HbA1c کروائیں اور معالج سے رجوع کریں۔
ڈاکٹر شہلا اکرم
سی ای او، کنسلٹنٹ نیوٹریشن، اکرم میڈیکل کمپلیکس
میں ایکسپریس میڈیا گروپ اور پروفیسر ایم زمان شیخ کی مشکور ہوں جنہوں نے مجھے یہاں مدعو کیا۔ایک زمانہ تھا کہ شوگر کو کم کرنے کیلئے کہا جاتا تھا کہ روٹی کم کر دو، شوگر نہ لو اور گوشت کھاؤ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے میٹابولک سنڈروم میں جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس میں گردے، جگر، دل وغیرہ بھی متاثر ہوسکتے ہیں لہٰذا ان کی خوراک میں سوائے چینی چھوڑنے کے، میانہ روی اختیارکرنی چاہیے۔ اس میں سب سے اہم کھانے کی مقدار اور اوقات کار ہیں۔ ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کیلئے ڈسپلن بہت ضروری ہے۔
یہ عادت بنا لینا کہ جب کھانا کھائیں گے تب انسولین لگائیں گے، موثر نہیں ہے، اس سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ہر ذیابیطس کا مریض موٹاپا کا شکار نہیں ہوتا۔ اگر وزن کم ہوگا تب بھی پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں لہٰذا وزن کو نارمل رینج میں رکھنا ضروری ہے۔ کبھی وزن بڑھا لیا، کبھی کم کر لیا، کبھی کھا لیا، کبھی بھوکا رہ لیا نقصاندہ ہے خاص کر شوگر کے مریضوں کیلئے۔ آپ کی شوگر روزانہ کی بنیاد پر کنٹرول ہونا اہم ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم HbA1c ہے۔ یہ 4 ماہ کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ ڈائٹ کے ساتھ لائف سٹائل مینجمنٹ بہت ضروری ہے۔ ڈائٹ میں کوئی زیادہ احتیاط نہیں ہے۔ جو کھا رہے ہیں اسے نارمل مقدار میں لے آئیں۔
بطور نیوٹریشنسٹ میرے لیے مریض کا کھانے کو انجوائے کرنا ضروری ہے، اسے بلا وجہ کی پرہیزی غذائیں کھلا کر متنفر کرنا نہیں۔ میرے نزدیک مریض بھی کہنا درست نہیں۔ ذیابیطس نے تو عمر بھر رہنا ہے لہٰذا اب ایک پیٹرن ہے جسے اپنانا ہے ۔ خوراک میں گھی و دیگر چیزوں کی مقدار کم کریں، کھانا وقت پر کھائیں اور جسمانی کام کی عادت ڈالیں۔ اس کیلئے جم یا پارک جانا ضروری نہیں۔ایسی موبائل ایپ موجود ہیں جن میں آپ کے قدم بھی گنے جاتے ہیں، یہ ڈاؤن لوڈ کریں اور زیادہ چلنے کی عادت بناتے جائیں۔
7 سے 8 ہزار قد م روزانہ چلیں، گھر میں سیڑھیاں چڑھنے کی عادت بنائیں، گھر کے اندر بھی چلتے رہیں، اس سے خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ نیند کا پورا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ کا سونے اور جاگنے کا وقت ٹھیک ہے تو اس سے بھی آپ کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔ خود کو ٹینشن اور بے چینی سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔ ہماری خواتین خود کو ترجیح نہیں دیتی، بیمار بھی ہوں تو خاندان ان کی اولین ترجیح ہوتا ہے، یہ جذبہ اچھا ہے لیکن خواتین کو چاہیے کہ وہ خود پر توجہ لازمی دیں۔
پروفیسر طارق وسیم
کنسلٹنٹ فزیشن سلیم میموریل ہسپتال
سینئر نائب صدر پی ایس آئی ایم
دل کے امراض کی ایک بڑی وجہ شوگر ہے۔ ذیابیطس کا دل اور اس سے جڑی شریانوں سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر شوگر ہے تو دل کی بیماری کے امکانات 3 سے 4 گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اگر شوگر ہو تو دل کے امراض کی وجہ سے ہونے والی اموات کا تناسب بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ شوگر کے مریضوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ دل سے جڑی بیماریاں ہیں۔ انجائنا، ہارٹ اٹیک، دل کا فیل ہونا، سٹروک، فالج، بڑی شریانوں کے بند ہونے سے ٹانگ کا کٹ جانا جیسے مسائل شوگر سے منسلک ہیں۔
دل کے امراض جو شوگر کی وجہ سے ہوتے ہیں، در حقیقت وہ شوگر کے ظاہر ہونے سے بہت پہلے ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس لیے پری ڈائبٹیز سٹیج سے ہی شوگر کو کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 95 فیصد مریض شوگر ٹائپ ٹو کے ہوتے ہیں، اب تو نوجوان بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ اس کا تعلق انسولین کی کمی نہیں بلکہ زیادتی سے ہے۔ اس سے شریانیں متاثر ہوتی ہیں، بلڈ پریشر جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شوگر ، دل یا شریانوں کے مرض میں بعض عوامل مشترک ہیں جن میں انسولین کی زیادتی، خون کے جمنے کے نظام کا خراب ہونا ویگر شامل ہیں۔
دل کے مرض کی علامات انجائنا ، سینے پر بوجھ، درد سے ہارٹ اٹیک، سانس چڑھنا وغیرہ ہیں۔ شوگر کے مریضوں میں یہ علامات ظاہر ہونا لازمی نہیں ہے۔ بغیر درد کے خاموشی سے شوگر دل کو متاثر کر سکتی ہے ۔ اچانک سے ہارٹ اٹیک کی صورت میں علم ہوتا ہے لہٰذا اس کا انتظار نہ کریں اور چیک اپ کروا لیں۔ جنہیں شوگر نہ ہو اور ہارٹ اٹیک ہوجائے تو دوبارہ ہارٹ اٹیک ہونے کے امکانات دس برسوں میں 20 فیصد ہوتے ہیں جبکہ شوگر کے مریضوں کو اگر ہارٹ اٹیک نہیں ہوا تب بھی اگلے دس برسوں میں اس کا امکان 20 فیصد ہے۔ اس سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ ایک اٹیک خاموشی سے ہوچکا ہے اور صورتحال پیچیدہ ہے۔
شوگر کو کنٹرول کرنا اہم ہے لیکن لائف سٹائل، خوراک اور ادویات میں جو بھی تبدیلی کی جائے وہ صرف شوگر کا لیول ہی کم نہ کرے بلکہ اس سے منسلک رسک کو بھی مینج کرے۔ اس لیے 'کارڈیو ڈائبٹیز' کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیں ابتداء سے ہی اس کے تدارک کیلئے کام کرنا ہے۔ شوگر کے مریض میں دل کے پٹھے کمزور ہوسکتے ہیں اور مریض کو سانس چڑھنے لگتا ہے۔اسی طرح دل کی دھڑکن کی بے قاعدگی کا امکان بھی زیادہ ہوتاہے۔ شوگر خون کی چھوٹی اور بڑی شریانوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔آن لائن ایپ کے ذریعے رسک کو مانیٹر کیا جاسکتا ہے، خود پر توجہ دیں۔
پروفیسر آفتاب محسن
ماہر امراض جگر، سینئر نائب صدر پی ایس آئی ایم
اجمل ستار ملک، تبسم عباس، پروفیسرایم زمان شیخ، پروفیسر اکبر چودھری، فارماسیوٹیکل کمپنیز اور حاضرین کا شکریہ!
ہمیں اگر ذیابیطس سے بچنا ہے تواس کی اے، بی، سی کا خیال رکھنا ہے۔ گزشتہ برس تک ہم اے ، HbA1c ، شوگر کو کہتے تھے کہ اگر شوگر کم ہوگی تو اس کی پیچیدگیوں سے بچ جائیں گے۔ شوگر کی بڑی پیچیدگیاں فالج اور ہارٹ اٹیک ہیں۔ A کا مطلب adiposity یعنی موٹاپا ہے۔ جہاں بھی جسم میں فیٹ ہوگا وہاں نقصان ہوگا۔ آج کل شوگر کی مینجمنٹ تبدیل ہوگئی ہے۔ مریض انسولین کا استعمال کم سے کم کر رہے ہیں جو انسولین پر تھے وہ چھوڑتے جا رہے ہیں اور ایسی ادویات لے رہے ہیں جن سے وزن کم ہوتا ہے۔
سب سے پہلا کام موٹاپا کم اور وزن کنٹرول کرنا ہے۔ اس کے ساتھ شوگر بھی کم کی جائے۔ جب تک بلڈ پریشر کی دوا نہ لیں شوگر کے مریض ہارٹ اٹیک، فالج، گردہ فیل ہونے سے نہیں بچ سکتے لہٰذا B بلڈ پریشر ہے، اسے کنٹرول کریں۔ C سے مراد کولیسٹرول ہے۔ شوگر کے مریض کا کولیسٹرول کم ہونا چاہیے۔ بُرا کولیسٹرول 120 تک ٹھیک ہے، شوگر کے مریض میں یہ 70 ہونا چاہیے۔ D سے ڈائٹ ہے، اس میں سوائے شوگر کے کوئی بھی چیز مکمل منع نہیں ہے۔
قرآن پاک میں ہے کہ اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو۔ یہ شوگر سمیت تمام بیماریوں کیلئے اہم ہے۔ E سے ایکسرسائز ہے، اس پر بھی یہاں بہت گفتگو ہوئی ہے۔ F کا مطلب فیتھ یعنی ایمان ہے۔ فالو اپ اورفارگیٹ سموکنگ بھی ہے۔ میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ 60 برس کی عمر میں بوڑھا ہونا چھوڑ و، ینگ ہونا شروع کرو، اپنا لائف سٹائل تبدیل کریں۔
ڈاکٹر محمد امتیاز حسن
اینڈوکرونالوجسٹ، میڈیکل ڈائریکٹر
ڈائبٹیز انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان
شوگر کے علاج کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ شوگر اکیلی نہیں، اس سے دل، گردہ و دیگر امراض جڑے ہیں، ہمیں ان کا بھی علاج کرنا ہے لہٰذا ایسی ادویات کا انتخاب کرنا چاہیے جو شوگر بھی کنٹرول کریں اور اس سے جڑی پیچیدگیوں کو بھی کم کریں۔ ذیابیطس کے علاج میں دو چیزیں اہم ہیں۔ ایسی دوا کا انتخاب کریں جو وزن میں اضافہ نہ کرے اور شوگر کو کم کرے۔ ہمارے ہاں مشہوردوا glimepiride ہے۔
جنرل فزیشنز ابتداء میں ہی مریض کو یہ گولی لکھ دیتے ہیں ۔ یہ دوا شوگر کو تو فوری کنٹرول کر دیتی ہے لیکن اس سے لانگ ٹرم میں وزن میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور شوگر کم ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ذیابیطس کی صورت میں مستند معالج سے رجوع کریں۔ اگر شوگر کے ساتھ ساتھ موٹاپا ہے تو دوا مختلف ہوگی، اگر گردوں کا مسئلہ ہے یا ہارٹ اٹیک ہے تو دوا الگ ہوگی۔ ایسی دوا بھی موجود ہے جو پیشاب کے ذریعے گلوکوز نکال دیتی ہیں،اس طرح بلڈ پریشر، دل و دیگر امراض سے حفاظت ہوتی ہے۔
جو استطاعت رکھتے ہیں وہ ٹیکے استعمال کر سکتے ہیں، انہیں اس سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ ذیابیطس کا علاج سادہ اور سستی ادویات سے شروع کریں۔ Metformin وہ دوا ہے جسے دیگر دوا کے ساتھ ملا کر دیا جاسکتا ہے۔ مختلف دواؤں کا مجموعہ بنانا ڈاکٹر کا فرض ہے، مریض خود سے دوا نہ لیں۔ شوگر کے مریض خود سے کبھی دوا نہ لیں اور نہ ہیں خود سے چھوڑ دیں،اپنے معالج سے لازمی رجوع کریں ۔
ڈاکٹر نبیل اکبر چودھری
ڈائریکٹر کیتھ لیب
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور
ہمارے پاس ایسے افراد آتے ہیں جنہیں ایک سے زیادہ سٹنٹ ڈل چکے ہوتے ہیں ۔ جب ان سے شوگر کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ نارمل ہے لیکن کبھی چیک نہیں کی کیونکہ تنگی محسوس نہیں ہوئی۔یہ رویہ افسوسناک ہے۔ شوگر باقاعدگی سے چیک کرنی چاہیے۔ چھوٹی اور بڑی شریانوں کے مسائل کی وجہ سے بیماریوں پر یہاں بات ہوئی ہے۔ اب ایک نئی چیز شامل ہوگئی ہے جسے مائیکرو ویسکلر ہارٹ ڈیزیز کہتے ہیں۔ اس میں دل کی بڑی نالیاں تو ٹھیک ہوتی ہیں لیکن چھوٹی نالیوں میں، زیادہ شوگر کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
جب ہم انجیوگرافی کرتے ہیں تو بڑی نالیوں میں خرابی نہیں ہوتی لیکن مریض کو سانس بھی چڑھتا ہے اور درد بھی ہوتا ہے۔ یہ مائیکرو یسکولر انجائنا ہے جس میں سانس کاپھولنا، ہر وقت تھکان محسوس کرنا اور سینے میں درد ہونا شامل ہے۔ یہ تمام علامات اس وقت آتی ہیں جب شوگر کنٹرول نہیں رہتی۔ شوگر سے ہارٹ اٹیک کا رسک فیکٹر دس برسوں میں 20 فیصد ہے۔ اگر آپ سگریٹ پیتے ہیں تو یہ رسک 9 فیصد، بلڈ پریشر ہے تو 12 فیصد۔ شوگر کے معاملے میں ایک اور ایک گیارہ نہیں بلکہ گیارہ سو ہوتا ہے۔
جتنے رسک فیکٹرز شامل ہوتے جائیں گے، مسائل بڑھتے جائیں گے۔ جسے دل کی تکلیف ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ شوگر کنٹرول کرے۔ خالی پیٹ شوگر 80 سے 130 ، کھانے کے بعد 140 سے 180 رکھیں۔ HbA1c اگر 7 سے زیادہ ہوتو پیچیدگیاں ہوجاتی ہیں۔ اس سے کم ہونی چاہیے تاکہ سٹنٹ، بائی پاس وغیرہ سے بچ سکیں۔
بلڈ شوگر کنٹرول رکھیں، سگریٹ نوشی نہ کریں اور سٹریس مینجمنٹ کریں۔ اسی طرح جسمانی طور پر خود کو متحرک کریں۔ پیدل چلنے اور سیڑھیاں چڑھنے کی عادت اپنائیں۔ 30 منٹ روزانہ، ہفتے میں کم از کم 5 دن ورزش کریں۔ جتنی شوگر ہوگی نالیوں میں بیماریوںکا خدشہ ہوسکتا ہے، سٹنٹ و بائی پاس دوبارہ بند ہوسکتے ہیں۔ احتیاط کریں اور اپنی صحت کا خیال کریں۔
پروفیسر ایم زمان شیخ
ڈائریکٹر سرسید انسٹی ٹیوٹ آف ڈائبٹیز اینڈ اینڈوکرونولوجی، چیئرپرسن فار نیشنل ڈائبٹیز
چیپٹر ہیڈ پی ایس آئی ایم
جب بھی انجیکشن کا نام لیا جاتا ہے تو ہمارے ذہن میں انسولین آتا ہے۔ آج کل انسولین کے علاوہ بھی انجیکشن آچکے ہیں جو کافی موثر ہیں۔ موٹاپا اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ٹائپ ٹو کے 80فیصد سے زیادہ مریض موٹے ہوتے ہیں۔ اگر موٹاپا ختم کرلیا جائے تو بغیر انسولین اور گولیوں کے، ذیابیطس ختم ہوجاتا ہے۔ اگر انجیکشن لگائے جائیں تو 15 گلوگرام تک وزن کم ہوسکتا ہے۔ اس کی فکس ڈوز ہے اور لگانا آسان ہے۔ اس کافائدہ یہ ہے کہ یہ صرف موٹاپا کے مریض کو بھی دی جاسکتی ہے، اس کی شوگر کم نہیں ہوگی اور اگر شوگر ہائی ہوگی تو نارمل ہوجائے گی، GLP-1 کی یہ بہت بڑی خوبصورتی ہے۔
یہ انجیکشن مہنگا ہے جو استطاعت رکھتا ہے، اسے دینا چاہیے۔ انسولین کا دوسرا نام آب حیات ہے۔ 14 نومبر اس کے موجد سر فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش ہے، انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اسی روز ذیابیطس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1921ء سے پہلے ٹائپ ون ڈائبٹیز کا مطلب موت کا پروانہ ہوتا تھا کیونکہ اس وقت انسولین نہیں تھی۔ آج بھی انسولین کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مارکیٹ میں مختلف اقسام کی انسولین ہیں، کچھ کھانے سے پہلے کچھ کھانے کے بعد، بعض ایسی ہیں جو کھانے کے دوران بھی دی جاتی ہیں۔ ہر انسولین دوسرے سے مختلف ہے لہٰذا جو انسولین ڈاکٹر تجویز کرے وہی لیں، خود سے تبدیل نہ کریں۔
پہلے مریضوں کو انسولین کا ڈر ہوتا تھا۔ آج کل ایسی باریک سوئی ہے کہ نظر بھی نہیں آتی، مچھر کے کاٹنے کا درد اس سے زیادہ ہوتا ہے۔انسولین کے حوالے سے ایک اور بات قابل ذکر ہے ڈر کی وجہ سے ڈاکٹر انسولین دیر سے لگاتے ہیں۔ یہ آسان نہیں ہے، اس کی سٹوریج، ڈوز ، کھانا کھانے وغیرہ کے معاملات بھی دیکھنا ہوتے ہیں۔
اگر کسی قابل ڈاکٹر کے پاس جائیں تو صحیح رہنمائی ملے گی۔ ٹائپ ٹو میں بھی کچھ ایسی صورتحال ہوتی ہے جس میں انسولین دی جاتی ہے۔ عموماََ دس برس کے بعد ٹائپ ٹو ذیابیطس کے50 فیصد مریضوں کو انسولین کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے مریض جن کے گردے، جگر ناکارہ ہوچکے ہوں، انہیں بھی انسولین دی جاتی ہے، اس سے شوگر کنٹرول ہوجاتی ہے۔