ٹریفک حادثات کی روک تھام لازمی
حکومت کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے
ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے، ٹریفک حادثات کے وقوع پذیر ہونے کا ایک اہم سبب مؤثر انفرااسٹرکچر کا نہ ہونا بھی ہے۔
گاڑی چلاتے وقت غیر سنجیدہ رویے بھی ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال، فلم یا گانوں کی وڈیوز دیکھنا اور غیر ضروری طور پہ لاؤڈ والیم میں میوزک سننا اور کم عمر بچوں اور نوجوانوں کا گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلانا شامل ہے۔ چار روز قبل لاہور کے پوش ایریا میں ایک کار حادثے میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس المناک حادثے کا سبب بننے والی کار محض پندرہ سولہ برس کا کمسن لڑکا چلا رہا تھا،جو ابھی اسکول کا طالب علم ہے، میڈیا کے مطابق یہ کمسن طالب علم کار 110 کی رفتار پر چلا رہا تھا کہ اچانک سامنے سے دوسری کار آگئی، یوں ایک انتہائی المناک حادثہ پیش آگیا۔
پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں امیر گھرانوں کے نوعمر بچے سڑکوں پر گاڑیاں اور ہیوی بائیکس دوڑاتے نظر آتے ہیں، اکثر لڑکوں کی عمر اتنی کم ہوتی ہے کہ ان کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا اور نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس بن سکتا ہے، ہفتے اور اتوار کی رات پوش ایریاز کی سڑکیں ایسے ڈرائیوروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، کئی بار یہ کم عمر ڈرائیور آپس میں ٹکرا جاتے ہیں یا تیز رفتار گاڑی بے قابو کر فٹ پاتھ پر چڑھ جاتی ہے، کبھی کسی کھمبے سے ٹکراجاتی اوراکثر اوقات پیدل چلنے والوں پر چڑھ دوڑتی ہیں یا کسی دوسری گاڑی سے ٹکرا جاتی ہیں۔
خوشحال خاندانوں کے بچوں کی بات ہی نہیں بلکہ درمیانے اور غریب طبقوں کے کم بچے بھی موٹر سائیکلز کھلے عام چلا رہے ہیں، سڑکوں پر ون ویلنگ کرتے ہیں، اکثر ہائی اسکول کے بچوں کو والدین نے موٹر سائیکلز دے رکھی ہیں، ان بچوں کے پاس شناختی کارڈ ہوتا نہ ڈرائیونگ لائسنس۔ ان بچوں کو ٹریفک قوانین کا بالکل علم نہیں ہوتا نہ انھیں لائن اور لین کے فرق کا شعور ہوتا ہے۔
ان بچوں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ موٹر سائیکل چلانے کے لیے سڑک کے بائیں طرف رہنا ہوتا یا دائیں طرف ، سڑکیں ہی نہیں گلیوں محلوں میں ایسے موٹر سائیکل سوار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بلکہ دوسروں کی جانیں تک لے چکے ہیں، اکثر کم عمر موٹر سائیکل سوار اپنی غلطی سے حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن والدین دوسروں پر الزام عائد کرکے ان پر مقدمات درج کرادیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے اکثر کم عمر بچے رکشہ چلا رہے ہوتے ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی وڈیو دیکھی گئی جس میں دس سال سے چھوٹی عمر کا بچہ ہیوی گاڑی چلا رہا تھا۔ ٹریفک قوانین میں ترامیم اور نئی قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیمی ڈگری تک ہر کلاس کے نصاب میں ٹریفک قوانین کا کم از کم 50 نمبر کا لازمی مضمون شامل کیا جائے۔
کم عمر بچوں کی گاڑی چلانے پر پابندی کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ کم عمربچوں کے گاڑی چلاتے ہوئے پکڑے جانے پر والدین پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں اور انھیں وارننگ دی جائے کہ اگر ان کا بچہ دوبارہ پکڑا گیا تو پھر والدین کو جرمانے کے ساتھ ساتھ موٹرسائیکل ضبط کرلی جائے۔کیونکہ اس میں بچوں کا قصور نہیں ہوتا بلکہ سارا قصور والدین کا ہوتا ہے ۔
رواں برس میں جو رپورٹس سامنے آئی ہیں، ان میں بھی پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹ کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق ہر سال چالیس ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بنتے ہیں، ہزاروں افراد شدید زخمی اور مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کے حوالے سے پنجاب پہلے، سندھ دوسرے، خیبر پختونخوا تیسرے، بلوچستان چوتھے اور اسلام آباد پانچویں نمبر پر ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والے ٹریفک حادثات پر نظر رکھنے والے عالمی ماہرین پاکستان میں لاپروائی، غیر معیاری سڑکوں، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف ورزی، اوورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، کم عمر اور ناتجربہ کار اور ٹریفک اصولوں اور قوانین سے ناواقف ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، بریک کا فیل ہو جانا، زائدالمیعاد ٹائروں کا استعمال، غیر معیاری اسپیڈ بریکرز، گاڑیوں کو بغیر فٹنس کے سڑکوں پر چلانے اور تیز رفتاری کو حادثات کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں، 65فیصد سے زیادہ حادثات کا سبب ہیوی گاڑیاں ہیں۔
سب سے زیادہ اموات موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں، ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح ہمارے ٹریفک سسٹم کی ابتری کا کھلا ثبوت ہے۔ دراصل ڈرائیونگ لائسنس کا مقصد کسی بھی شہری کو سڑک پر گاڑی چلانے کے لیے بااختیار بنانا ہوتا ہے، دوسرے معنوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سڑک پرگاڑی وہی چلا سکتا ہے کہ جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو، مگر پاکستان میں ڈرائیونگ اسکولز سے بنیادی تعلیم اور ٹریننگ حاصل کیے بغیر ہی گاڑیوں کو سڑکوں پر دوڑایا جارہا ہے ، جس کی بناء پر حادثات کی شرح میں دن بدن بے پناہ اصافہ ہورہا ہے۔
ڈرائیونگ اسکولز میں نہ جانے کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام الناس کی اکثریت اسکول کی فیس اورinstructor سے ٹریننگ لینا وقت اور پیسہ کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ سیٹ بیلٹ کو استعمال کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی ہے، گاڑی چلاتے ہوئے 100 میں سے مشکل سے 5 فیصد لوگوں نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوتی ہے۔ اب تو نئی گاڑیوں میں پچھلی سیٹوں پر بھی سیٹ بیلٹ کی سہولت موجود ہوتی ہے مگر سیٹ بیلٹ کو باندھے کے لیے ہمارا دل و دماغ راضی ہی نہیں ہوتے۔ موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہنتے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے دوران پاکستان کی سڑکوں پر ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر ایک شخص یا تو زندگی کی بازی ہار جاتا ہے یا پھر شدید زخمی ہوجاتا ہے۔
صوبہ پنجاب میں ٹریفک حادثات کی شرح میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، لاہور ٹریفک پولیس کے ترجمان کے مطابق رواں سال 36 ہزار حادثات 27 ہزار موٹر سائیکل سواروں کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔ صرف پنجاب میں سالانہ ٹریفک حادثات کی تعداد 5093 ہے جس میں3371 افراد لقمہ اجل بنتے ہیں، یعنی پنجاب میں ہر روز 8 لوگ ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
تقریباً 95 فی صد لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مسافرگاڑیوں کے ڈرائیور اوور لوڈنگ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ جہاں جی چاہے گاڑیاں بیچ سڑک پر کھڑی کر کے سواریوں کو اٹھاتے ہیں۔ دو وہیلر چلانے والے تو کبھی ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرتے ہی نہیں۔ ان کو اوور ٹیکنگ کے اصول کا قطعاً علم نہیں ہوتا، موٹرسائیکل سوار لوگ کبھی گاڑی کے دائیں جانب تو کبھی بائیں جانب انتہائی تیز رفتاری سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اکثر حادثات اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ کرتب بازی کا ہے، نوجوان موٹر سائیکل سوار اکثر کرتب بازی کا مظاہرہ کرکے موت کو دعوت دیتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ناجائز تجاوزات بھی ہے۔ سڑک پر پھل و سبزیاں فروش آدھی سڑک پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ دکانوں کے آگے تھڑے اور دیگر تجاوزات بھی ٹریفک مسائل کا سبب ہیں۔ کئی ایک محکمے سڑکیں کھود کر ان کو اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق کراچی جیسے میگا سٹی میں 60 فیصد لوگ گاڑی بغیر لائسنس کے چلاتے ہیں۔ مرکزی شاہراہوں کے اردگرد بڑی آبادیاں اور مارکیٹس بنی ہوئی ہیں جہاں پہ مقامی لوگوں کے سڑک عبور کرنے کے لیے پیدل کراسنگ پُل نہیں بنائے گئے، وہاں بھی جلد بازی اور تیز رفتاری کے باعث اکثر واقعات پیش آتے ہیں۔ ان پیدل کراسنگ پلوں کا نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے ۔
پاکستان کی سڑکوں پر موٹرسائیکل سواروں میں 100 میں سے بڑی مشکل سے 2 فیصد لوگ ہی ہیلمٹ پہنتے ہیں، اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسکول ٹائم پر رکشہ، پک اپ میں حد سے زیادہ بچوں کو بٹھایا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بچوں کو رکشہ اسکول وین میں ٹھونسا جاتا ہے اور بعض اوقات گاڑی اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ پاتی اور کسی حادثہ کا شکار ہو جاتی ہے۔
حادثات کی روک تھام کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی، مروجہ ٹریفک قوانین پر نیک نیتی اور سختی کے ساتھ عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قیمتی انسانی جان کی حفاظت کو ممکن بنایا جاسکے۔
گاڑی چلاتے وقت غیر سنجیدہ رویے بھی ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال، فلم یا گانوں کی وڈیوز دیکھنا اور غیر ضروری طور پہ لاؤڈ والیم میں میوزک سننا اور کم عمر بچوں اور نوجوانوں کا گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلانا شامل ہے۔ چار روز قبل لاہور کے پوش ایریا میں ایک کار حادثے میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس المناک حادثے کا سبب بننے والی کار محض پندرہ سولہ برس کا کمسن لڑکا چلا رہا تھا،جو ابھی اسکول کا طالب علم ہے، میڈیا کے مطابق یہ کمسن طالب علم کار 110 کی رفتار پر چلا رہا تھا کہ اچانک سامنے سے دوسری کار آگئی، یوں ایک انتہائی المناک حادثہ پیش آگیا۔
پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں امیر گھرانوں کے نوعمر بچے سڑکوں پر گاڑیاں اور ہیوی بائیکس دوڑاتے نظر آتے ہیں، اکثر لڑکوں کی عمر اتنی کم ہوتی ہے کہ ان کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا اور نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس بن سکتا ہے، ہفتے اور اتوار کی رات پوش ایریاز کی سڑکیں ایسے ڈرائیوروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، کئی بار یہ کم عمر ڈرائیور آپس میں ٹکرا جاتے ہیں یا تیز رفتار گاڑی بے قابو کر فٹ پاتھ پر چڑھ جاتی ہے، کبھی کسی کھمبے سے ٹکراجاتی اوراکثر اوقات پیدل چلنے والوں پر چڑھ دوڑتی ہیں یا کسی دوسری گاڑی سے ٹکرا جاتی ہیں۔
خوشحال خاندانوں کے بچوں کی بات ہی نہیں بلکہ درمیانے اور غریب طبقوں کے کم بچے بھی موٹر سائیکلز کھلے عام چلا رہے ہیں، سڑکوں پر ون ویلنگ کرتے ہیں، اکثر ہائی اسکول کے بچوں کو والدین نے موٹر سائیکلز دے رکھی ہیں، ان بچوں کے پاس شناختی کارڈ ہوتا نہ ڈرائیونگ لائسنس۔ ان بچوں کو ٹریفک قوانین کا بالکل علم نہیں ہوتا نہ انھیں لائن اور لین کے فرق کا شعور ہوتا ہے۔
ان بچوں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ موٹر سائیکل چلانے کے لیے سڑک کے بائیں طرف رہنا ہوتا یا دائیں طرف ، سڑکیں ہی نہیں گلیوں محلوں میں ایسے موٹر سائیکل سوار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بلکہ دوسروں کی جانیں تک لے چکے ہیں، اکثر کم عمر موٹر سائیکل سوار اپنی غلطی سے حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن والدین دوسروں پر الزام عائد کرکے ان پر مقدمات درج کرادیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے اکثر کم عمر بچے رکشہ چلا رہے ہوتے ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی وڈیو دیکھی گئی جس میں دس سال سے چھوٹی عمر کا بچہ ہیوی گاڑی چلا رہا تھا۔ ٹریفک قوانین میں ترامیم اور نئی قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیمی ڈگری تک ہر کلاس کے نصاب میں ٹریفک قوانین کا کم از کم 50 نمبر کا لازمی مضمون شامل کیا جائے۔
کم عمر بچوں کی گاڑی چلانے پر پابندی کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ کم عمربچوں کے گاڑی چلاتے ہوئے پکڑے جانے پر والدین پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں اور انھیں وارننگ دی جائے کہ اگر ان کا بچہ دوبارہ پکڑا گیا تو پھر والدین کو جرمانے کے ساتھ ساتھ موٹرسائیکل ضبط کرلی جائے۔کیونکہ اس میں بچوں کا قصور نہیں ہوتا بلکہ سارا قصور والدین کا ہوتا ہے ۔
رواں برس میں جو رپورٹس سامنے آئی ہیں، ان میں بھی پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹ کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق ہر سال چالیس ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بنتے ہیں، ہزاروں افراد شدید زخمی اور مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کے حوالے سے پنجاب پہلے، سندھ دوسرے، خیبر پختونخوا تیسرے، بلوچستان چوتھے اور اسلام آباد پانچویں نمبر پر ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والے ٹریفک حادثات پر نظر رکھنے والے عالمی ماہرین پاکستان میں لاپروائی، غیر معیاری سڑکوں، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف ورزی، اوورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، کم عمر اور ناتجربہ کار اور ٹریفک اصولوں اور قوانین سے ناواقف ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، بریک کا فیل ہو جانا، زائدالمیعاد ٹائروں کا استعمال، غیر معیاری اسپیڈ بریکرز، گاڑیوں کو بغیر فٹنس کے سڑکوں پر چلانے اور تیز رفتاری کو حادثات کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں، 65فیصد سے زیادہ حادثات کا سبب ہیوی گاڑیاں ہیں۔
سب سے زیادہ اموات موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں، ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح ہمارے ٹریفک سسٹم کی ابتری کا کھلا ثبوت ہے۔ دراصل ڈرائیونگ لائسنس کا مقصد کسی بھی شہری کو سڑک پر گاڑی چلانے کے لیے بااختیار بنانا ہوتا ہے، دوسرے معنوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سڑک پرگاڑی وہی چلا سکتا ہے کہ جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو، مگر پاکستان میں ڈرائیونگ اسکولز سے بنیادی تعلیم اور ٹریننگ حاصل کیے بغیر ہی گاڑیوں کو سڑکوں پر دوڑایا جارہا ہے ، جس کی بناء پر حادثات کی شرح میں دن بدن بے پناہ اصافہ ہورہا ہے۔
ڈرائیونگ اسکولز میں نہ جانے کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام الناس کی اکثریت اسکول کی فیس اورinstructor سے ٹریننگ لینا وقت اور پیسہ کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ سیٹ بیلٹ کو استعمال کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی ہے، گاڑی چلاتے ہوئے 100 میں سے مشکل سے 5 فیصد لوگوں نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوتی ہے۔ اب تو نئی گاڑیوں میں پچھلی سیٹوں پر بھی سیٹ بیلٹ کی سہولت موجود ہوتی ہے مگر سیٹ بیلٹ کو باندھے کے لیے ہمارا دل و دماغ راضی ہی نہیں ہوتے۔ موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہنتے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے دوران پاکستان کی سڑکوں پر ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر ایک شخص یا تو زندگی کی بازی ہار جاتا ہے یا پھر شدید زخمی ہوجاتا ہے۔
صوبہ پنجاب میں ٹریفک حادثات کی شرح میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، لاہور ٹریفک پولیس کے ترجمان کے مطابق رواں سال 36 ہزار حادثات 27 ہزار موٹر سائیکل سواروں کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔ صرف پنجاب میں سالانہ ٹریفک حادثات کی تعداد 5093 ہے جس میں3371 افراد لقمہ اجل بنتے ہیں، یعنی پنجاب میں ہر روز 8 لوگ ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
تقریباً 95 فی صد لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مسافرگاڑیوں کے ڈرائیور اوور لوڈنگ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ جہاں جی چاہے گاڑیاں بیچ سڑک پر کھڑی کر کے سواریوں کو اٹھاتے ہیں۔ دو وہیلر چلانے والے تو کبھی ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرتے ہی نہیں۔ ان کو اوور ٹیکنگ کے اصول کا قطعاً علم نہیں ہوتا، موٹرسائیکل سوار لوگ کبھی گاڑی کے دائیں جانب تو کبھی بائیں جانب انتہائی تیز رفتاری سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اکثر حادثات اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ کرتب بازی کا ہے، نوجوان موٹر سائیکل سوار اکثر کرتب بازی کا مظاہرہ کرکے موت کو دعوت دیتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ناجائز تجاوزات بھی ہے۔ سڑک پر پھل و سبزیاں فروش آدھی سڑک پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ دکانوں کے آگے تھڑے اور دیگر تجاوزات بھی ٹریفک مسائل کا سبب ہیں۔ کئی ایک محکمے سڑکیں کھود کر ان کو اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق کراچی جیسے میگا سٹی میں 60 فیصد لوگ گاڑی بغیر لائسنس کے چلاتے ہیں۔ مرکزی شاہراہوں کے اردگرد بڑی آبادیاں اور مارکیٹس بنی ہوئی ہیں جہاں پہ مقامی لوگوں کے سڑک عبور کرنے کے لیے پیدل کراسنگ پُل نہیں بنائے گئے، وہاں بھی جلد بازی اور تیز رفتاری کے باعث اکثر واقعات پیش آتے ہیں۔ ان پیدل کراسنگ پلوں کا نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے ۔
پاکستان کی سڑکوں پر موٹرسائیکل سواروں میں 100 میں سے بڑی مشکل سے 2 فیصد لوگ ہی ہیلمٹ پہنتے ہیں، اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسکول ٹائم پر رکشہ، پک اپ میں حد سے زیادہ بچوں کو بٹھایا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بچوں کو رکشہ اسکول وین میں ٹھونسا جاتا ہے اور بعض اوقات گاڑی اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ پاتی اور کسی حادثہ کا شکار ہو جاتی ہے۔
حادثات کی روک تھام کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی، مروجہ ٹریفک قوانین پر نیک نیتی اور سختی کے ساتھ عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قیمتی انسانی جان کی حفاظت کو ممکن بنایا جاسکے۔