فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کیلیے کمیشن تشکیل
وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ آئی جی اختر علی شاہ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا ہے
وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیشن تشکیل دے دیا جس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔
وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ آئی جی اختر علی شاہ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا ہے۔ تین رکنی کمشین میں سابق آئی جی طاہر عالم اور ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ خوشحال خان بطور ممبر ہوں گے۔
وفاقی حکومت نے کمیشن کے 10 ٹی او آرز طے کر دیے جس کے مطابق فیض آباد دھرنا کے دوران ٹی ایل پی کو کس نے غیر قانونی فنڈنگ یا دیگر سہولیات فراہم کی۔
ٹی او آر کے مطابق کمیشن اپنا کام دو ماہ میں مکمل کرکے رپورٹ وفاقی حکومت کو فراہم کرے گا اور کمیشن تعین کرے گا کہ پبلک آفس ہولڈرز میں سے کسی نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ کمیشن اس وقت خفیہ اداروں سمیت سرکاری اداروں کے افسران کی ذمہ داریوں کو تعین بھی کرے گا۔
کمیشن اس بات کا بھی تعین کرے گا کہ انٹیلی جنس اداروں اور سرکاری افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی مطلوب ہے تو کیا کارروائی ہونی چاہیے، کمیشن دھرنے اور ریلیوں کے حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیز اور پولیس کے کردار کا بھی تعین کرے گا۔
کمیشن تجویز دے گا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں موثر نگرانی کریں کہ نفرت انگیز، انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ مواد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔
وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتیں کمیشن کی معاونت کی پابند ہوں گیں، کمیشن کا سیکریٹریٹ اسلام آباد میں ہوگا اور اپنا سیکریٹری ہوگا۔ کمیشن کے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی۔
کمیشن دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے وفاقی حکومت کو رپورٹ بھجوائے گی اور اگر کمیشن کو دو ماہ سے زائد وقت چاہیے تو پھر حکومت سے توسیع کی اجازت لے گا۔ پیمرا کے کوڈ آف کنڈکث کے خلاف ورزی جو اس وقت کی گئی اس کا بھی تعین کرے گا، کمیشن سوشل میڈیا پر پھلایا گیا نفرت انگیز اور پرتشدد مواد کا جائزہ لے کر سد باب کے لیے تجویز دے گا۔
وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ آئی جی اختر علی شاہ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا ہے۔ تین رکنی کمشین میں سابق آئی جی طاہر عالم اور ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ خوشحال خان بطور ممبر ہوں گے۔
وفاقی حکومت نے کمیشن کے 10 ٹی او آرز طے کر دیے جس کے مطابق فیض آباد دھرنا کے دوران ٹی ایل پی کو کس نے غیر قانونی فنڈنگ یا دیگر سہولیات فراہم کی۔
ٹی او آر کے مطابق کمیشن اپنا کام دو ماہ میں مکمل کرکے رپورٹ وفاقی حکومت کو فراہم کرے گا اور کمیشن تعین کرے گا کہ پبلک آفس ہولڈرز میں سے کسی نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ کمیشن اس وقت خفیہ اداروں سمیت سرکاری اداروں کے افسران کی ذمہ داریوں کو تعین بھی کرے گا۔
کمیشن اس بات کا بھی تعین کرے گا کہ انٹیلی جنس اداروں اور سرکاری افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی مطلوب ہے تو کیا کارروائی ہونی چاہیے، کمیشن دھرنے اور ریلیوں کے حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیز اور پولیس کے کردار کا بھی تعین کرے گا۔
کمیشن تجویز دے گا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں موثر نگرانی کریں کہ نفرت انگیز، انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ مواد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔
وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتیں کمیشن کی معاونت کی پابند ہوں گیں، کمیشن کا سیکریٹریٹ اسلام آباد میں ہوگا اور اپنا سیکریٹری ہوگا۔ کمیشن کے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی۔
کمیشن دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے وفاقی حکومت کو رپورٹ بھجوائے گی اور اگر کمیشن کو دو ماہ سے زائد وقت چاہیے تو پھر حکومت سے توسیع کی اجازت لے گا۔ پیمرا کے کوڈ آف کنڈکث کے خلاف ورزی جو اس وقت کی گئی اس کا بھی تعین کرے گا، کمیشن سوشل میڈیا پر پھلایا گیا نفرت انگیز اور پرتشدد مواد کا جائزہ لے کر سد باب کے لیے تجویز دے گا۔