دلیر امت کے کمزور حکمران
پتہ نہیں یہ حکمران کیا سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ساری عمر حکمران اور زندہ رہنا ہے؟
سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 92 میں کائنات کی حقیقی سپر طاقت، تمام جہانوں کے مالک و مختار اﷲ رب العزت نے مسلمانوں کو امت واحدہ قرار دیا ہے۔
اس آیت میں اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا ''بیشک تنہا تمہاری امت، امت واحدہ ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں، پس میری عبادت کرو''۔ یعنی مسلمان ایک امت ہیں، ان کے مقابلے میں کوئی دوسری امت، امت واحدہ نہیں ہے۔
نبی رحمت العالمین حضرت محمد مجتبیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ میری امت جسد واحدکی مانند ہے، ایک حصے میں تکلیف ہوگی تو پورا جسم مضطرب ہوگا۔ دنیا کے کسی کونے میں مسلمانوں پر کوئی کڑا وقت آیا تو امت مسلمہ کے 100% عوام اس حدیث نبوی کی تفسیر نظر آئے ، مگر بدقسمتی سے فلسطین کے مسئلے پرمسلم ممالک کی حکومتیں لاتعلق اور مصلحت کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر موقع پر امت مسلمہ منظم اور متحد ہونے کے بجائے منتشر نظر آئی۔
آج امت مسلمہ کو فلسطین کا مسئلہ درپیش ہے، پچھلے پانچ عشروں سے اس ارض مقدس کے مسلمان اپنی ہی سرزمین پر صیہونیت کے جبر و استبداد کا شکار ہیں۔ غزہ میں پندرہ ہزار فلسطینی لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں اکثریت معصوم نونہالان امت کی ہے، ایک لاکھ سے زائد امتی زخمی ہیں، پوری وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل بنی ہوئی ہے، دن رات فلسطینیوں پر گولہ بارود برسایا جارہا ہے۔
انھیں خوراک، پانی اور ادویات پہنچانے کے راستے مسدود ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے اسپتالوں پر بمباری ہورہی ہے۔ غزہ کے اسپتال قبرستان بننا شروع ہوچکے ہیں۔ ایسی خبریں چل رہی ہیں کہ غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کے آئی سی یو وارڈ کے تمام مریض دم توڑ چکے ہیں۔
اسرائیلی فوجی اسپتالوں سے عملے کو نکال رہے ہیں تاکہ زخمی فلسطینیوں کو علاج معالجے کی سہولت سے محروم رکھ کر سسک سسک کر مار دے۔ ایسا ظلم دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا جو اسرائیل آج اکیسویں صدی میں روا رکھے ہوئے ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس کو نہیں روک پا رہی بلکہ الٹا امریکا، بھارت اور یورپ اس کی پوری مدد کررہے ہیں۔ اسے جنگی ساز و سامان مہیا کیا جارہا ہے، امریکا کا بحری بیڑہ اسرائیل کی حفاظت کے لیے سمندر میں موجود ہے۔ امریکا سمیت دنیا کی تمام سامراجی طاقتیں اس وقت مظلوم فلسطینیوں کے بجائے ظالم اسرائیل کا دفاع کررہی ہیں۔
حالانکہ ان طاقتوں کا آپس میں کوئی تال میل نہیں، نہ مذہب کی بنیاد پر، نہ علاقے کی بنیاد پر، نہ زبان کی بنیاد پر، نہ نظریے اور فکر کی بنیاد پر۔ سب کے سب ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں لیکن مسلمان دشمنی میں سب ایک ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو امت واحدہ ہے، یعنی مسلمان، وہ بکھرے ہوئے ہیں۔ اسلامی ممالک مصلحت پسندی کا شکار ہیں۔کوئی آگے بڑھ کر فلسطینیوں کی فوجی مدد کے لیے تیارنہیں، کسی نے اسرائیل کو اس ظلم سے نہیں روکا۔
پانچ عشروں کے بعد او آئی سی کا سربراہی اجلاس سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہوا لیکن زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا۔ امت واحدہ کے نمایندے فکری طور پر بکھرے ہوئے پائے گئے۔ حسب سابق و روایت کوئی ٹھوس فیصلہ نہ کرپائے۔ روایتی طور پر ایک مذمتی بیان، چند مطالبات اور ایک مشترکہ مگر پھسپھسا سا اعلامیہ جاری کر کے جان چھڑا لی گئی۔
ایسا محسوس ہوا جیسے اسلامی ممالک کی اس نمایندہ تنظیم کا اجلاس اسرائیل کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اسرائیل کی جارحیت کا جواب دینے کا دوٹوک اعلان ہوا نہ کسی مسلمان ملک کی حکومت نے اسرائیل کا سفارتی بائیکاٹ کیا، نہ سوشل بائیکاٹ، اور نہ ہی تجارتی بائیکاٹ کا اعلان سامنے آیا اور نہ اسرائیل کوا سٹیل کی سپلائی، تیل اور گیس کی ترسیل روکنے کی دھمکی، نہ خوراک کی ترسیل بند کرنے کا فیصلہ اور نہ ہی اس کی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کی تجویز پیش ہوئی۔
او آئی سی نے ایک بار پھر یہ بات باور کرا دی کہ یہ تنظیم ایک مردہ گھوڑا ہی رہے گی ۔ مفاد پرست حکومتیں اور مصلحت اندیش قیادت اسے کبھی زندہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے امت کو متبادل مسلم قیادت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ وہ قیادت جو امت کو امت واحدہ سمجھے، روئے زمین پر کسی مسلمان کو کانٹا چبھے تو تکلیف وہ محسوس کرے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اب بھی امت مسلمہ میں درد امت رکھنے والے قائدین موجود ہیں جس دن سے فلسطین پر اسرائیلی بمبارمنٹ ہورہی ہے، اسی دن سے پوری دنیا میں احتجاج جاری ہے، عوامی سطح پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کے بعد امت مسلمہ کا جسد واحد کا تاثر ابھر کر سامنے آیا۔
عوام نے امریکا، یورپ، اسرائیل کے ساتھ حکمرانوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ ہم ہر حال میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہمارا خون ان کا خون ہے۔ ہماری عزت ان کی عزت ہے اور ہم ان کی آزادی کی جنگ میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔ میں صرف اتنا کہوں گا۔ اے امت مسلمہ کے حکمرانو! آپ لوگوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ایک فلسطینی بزرگ کو خون آلود سفید کفنوں میں ملبوس اپنے خاندان کے شہید کم سن بچوں ''نونہالان امت'' کی لاشوں سے مخاطب نہیں سنا؟
اگر نہیں سنا تو سن لیں، وہ بزرگ ان کو کہتے ہیں کہ ''اے میرے بہادر ننھے شہیدو! جب حشر کے میدان میں نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات ہو تو ان کو شکایت کرنا کہ جب ہم پر اسرائیلی درندے حملہ آور تھے تو امت مسلمہ کے حکمرانوں نے ہمیں بے یارو مددگار چھوڑا مگر ہم نے مسجد اقصیٰ کی حرمت پر اپنی ننھی جانیں نچھاور کیں۔
یہ صرف ایک بزرگ اور خاندان کی کہانی نہیں روز کا معمول ہے کہ جب گھر کے سربراہ اپنے بچوں کو قبر میں اتارتے ہیں تو یہی الفاظ ان کے کانوں میں دہراتے ہیں اور اس طرح روز سیکڑوں شکایتیں ان بے حس حکمرانوں کے خلاف اﷲ رب العزت کے دربار میں درج ہو رہی ہیں یہ شکایتیں اور آہیں صرف فلسطینیوں کی نہیں، پرسوں رات 12 بجے میں دفتر سے واپس آیا تو میری اہلیہ ام عمر سسکیاں لے لے کر زار و قطار رو رہی تھی، میں پریشان ہوا اور پوچھا تو پتہ چلا کہ انھوں دو گھنٹے پہلے نونہالان فلسطین کی خون میں بکھرے ہوئے لاشوں کی وڈیو دیکھی تھی، وہ رو رہی تھی اور مسلمان حکمرانوں کو بد دعائیں دے رہی تھی کہ اسلامی ممالک کی حکومتیں فلسطینیوں پر اسرائیل کا یہ ظلم و جبر کیسے برداشت کر رہی ہیں اور اگر وہ اتنے کمزور ہیں تو پھر ہم مسلمان ان حکمرانوں کو کیوں برداشت کر رہے۔ یہ ایک گھر کی کہانی اور صرف ام عمر کے جذبات نہیں، یہ امت مسلمہ کے ہر گھر کی کہانی ہے۔
آخر کیوں مسلم ممالک کے حکمران ہوش کے ناخن لینے پر راضی نہیں۔ پرسوں سوشل میڈیا پر آئرلینڈ کے ایک خاتون پارلیمنٹیرین کی اسرائیلی درندوں کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی وائرل تقریر سنی اور سیکڑوں سامعین کے جذبات اور احساسات کو دیکھا تو حیران ہوا، مجھے یقین ہے کہ اگر مسلمان حکمران یہ کلپ دیکھ اورسن لیتے تو خوف اور مصلحت کے بت پاش پاش ہوجاتے۔ مسلمان حکمرانوں کی ساری مصلحتیں اس عورت پر قربان کرنے کو جی چاہتا ہے۔
پتہ نہیں یہ حکمران کیا سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ساری عمر حکمران اور زندہ رہنا ہے؟ موت ایک اٹل حقیقت ہے سب کو مرنا ہے مگر میں حیران ہوں کہ مسلم قیادت اور امت کے بااثر ترین طبقات حشر کے میدان میں کس طرح ان ننھے شہدائے فلسطین سے اپنا گریبان چھڑائیں گے اور کس منہ سے نبی رحمتﷺ کی شفاعت کے دعویدار رہیں گے۔ یا مولائے کائنات ہم سے اور برداشت نہیں ہورہا یہ ظلم دیکھنا فلسطین کے مظلوموں پر رحم فرما اور اسرائیلی درندوں کو نیست و نابود کردے۔ دلیر امت کو دلیر حکمران عطا فرما۔
اس آیت میں اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا ''بیشک تنہا تمہاری امت، امت واحدہ ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں، پس میری عبادت کرو''۔ یعنی مسلمان ایک امت ہیں، ان کے مقابلے میں کوئی دوسری امت، امت واحدہ نہیں ہے۔
نبی رحمت العالمین حضرت محمد مجتبیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ میری امت جسد واحدکی مانند ہے، ایک حصے میں تکلیف ہوگی تو پورا جسم مضطرب ہوگا۔ دنیا کے کسی کونے میں مسلمانوں پر کوئی کڑا وقت آیا تو امت مسلمہ کے 100% عوام اس حدیث نبوی کی تفسیر نظر آئے ، مگر بدقسمتی سے فلسطین کے مسئلے پرمسلم ممالک کی حکومتیں لاتعلق اور مصلحت کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر موقع پر امت مسلمہ منظم اور متحد ہونے کے بجائے منتشر نظر آئی۔
آج امت مسلمہ کو فلسطین کا مسئلہ درپیش ہے، پچھلے پانچ عشروں سے اس ارض مقدس کے مسلمان اپنی ہی سرزمین پر صیہونیت کے جبر و استبداد کا شکار ہیں۔ غزہ میں پندرہ ہزار فلسطینی لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں اکثریت معصوم نونہالان امت کی ہے، ایک لاکھ سے زائد امتی زخمی ہیں، پوری وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل بنی ہوئی ہے، دن رات فلسطینیوں پر گولہ بارود برسایا جارہا ہے۔
انھیں خوراک، پانی اور ادویات پہنچانے کے راستے مسدود ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے اسپتالوں پر بمباری ہورہی ہے۔ غزہ کے اسپتال قبرستان بننا شروع ہوچکے ہیں۔ ایسی خبریں چل رہی ہیں کہ غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کے آئی سی یو وارڈ کے تمام مریض دم توڑ چکے ہیں۔
اسرائیلی فوجی اسپتالوں سے عملے کو نکال رہے ہیں تاکہ زخمی فلسطینیوں کو علاج معالجے کی سہولت سے محروم رکھ کر سسک سسک کر مار دے۔ ایسا ظلم دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا جو اسرائیل آج اکیسویں صدی میں روا رکھے ہوئے ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس کو نہیں روک پا رہی بلکہ الٹا امریکا، بھارت اور یورپ اس کی پوری مدد کررہے ہیں۔ اسے جنگی ساز و سامان مہیا کیا جارہا ہے، امریکا کا بحری بیڑہ اسرائیل کی حفاظت کے لیے سمندر میں موجود ہے۔ امریکا سمیت دنیا کی تمام سامراجی طاقتیں اس وقت مظلوم فلسطینیوں کے بجائے ظالم اسرائیل کا دفاع کررہی ہیں۔
حالانکہ ان طاقتوں کا آپس میں کوئی تال میل نہیں، نہ مذہب کی بنیاد پر، نہ علاقے کی بنیاد پر، نہ زبان کی بنیاد پر، نہ نظریے اور فکر کی بنیاد پر۔ سب کے سب ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں لیکن مسلمان دشمنی میں سب ایک ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو امت واحدہ ہے، یعنی مسلمان، وہ بکھرے ہوئے ہیں۔ اسلامی ممالک مصلحت پسندی کا شکار ہیں۔کوئی آگے بڑھ کر فلسطینیوں کی فوجی مدد کے لیے تیارنہیں، کسی نے اسرائیل کو اس ظلم سے نہیں روکا۔
پانچ عشروں کے بعد او آئی سی کا سربراہی اجلاس سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہوا لیکن زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا۔ امت واحدہ کے نمایندے فکری طور پر بکھرے ہوئے پائے گئے۔ حسب سابق و روایت کوئی ٹھوس فیصلہ نہ کرپائے۔ روایتی طور پر ایک مذمتی بیان، چند مطالبات اور ایک مشترکہ مگر پھسپھسا سا اعلامیہ جاری کر کے جان چھڑا لی گئی۔
ایسا محسوس ہوا جیسے اسلامی ممالک کی اس نمایندہ تنظیم کا اجلاس اسرائیل کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اسرائیل کی جارحیت کا جواب دینے کا دوٹوک اعلان ہوا نہ کسی مسلمان ملک کی حکومت نے اسرائیل کا سفارتی بائیکاٹ کیا، نہ سوشل بائیکاٹ، اور نہ ہی تجارتی بائیکاٹ کا اعلان سامنے آیا اور نہ اسرائیل کوا سٹیل کی سپلائی، تیل اور گیس کی ترسیل روکنے کی دھمکی، نہ خوراک کی ترسیل بند کرنے کا فیصلہ اور نہ ہی اس کی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کی تجویز پیش ہوئی۔
او آئی سی نے ایک بار پھر یہ بات باور کرا دی کہ یہ تنظیم ایک مردہ گھوڑا ہی رہے گی ۔ مفاد پرست حکومتیں اور مصلحت اندیش قیادت اسے کبھی زندہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے امت کو متبادل مسلم قیادت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ وہ قیادت جو امت کو امت واحدہ سمجھے، روئے زمین پر کسی مسلمان کو کانٹا چبھے تو تکلیف وہ محسوس کرے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اب بھی امت مسلمہ میں درد امت رکھنے والے قائدین موجود ہیں جس دن سے فلسطین پر اسرائیلی بمبارمنٹ ہورہی ہے، اسی دن سے پوری دنیا میں احتجاج جاری ہے، عوامی سطح پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کے بعد امت مسلمہ کا جسد واحد کا تاثر ابھر کر سامنے آیا۔
عوام نے امریکا، یورپ، اسرائیل کے ساتھ حکمرانوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ ہم ہر حال میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہمارا خون ان کا خون ہے۔ ہماری عزت ان کی عزت ہے اور ہم ان کی آزادی کی جنگ میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔ میں صرف اتنا کہوں گا۔ اے امت مسلمہ کے حکمرانو! آپ لوگوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ایک فلسطینی بزرگ کو خون آلود سفید کفنوں میں ملبوس اپنے خاندان کے شہید کم سن بچوں ''نونہالان امت'' کی لاشوں سے مخاطب نہیں سنا؟
اگر نہیں سنا تو سن لیں، وہ بزرگ ان کو کہتے ہیں کہ ''اے میرے بہادر ننھے شہیدو! جب حشر کے میدان میں نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات ہو تو ان کو شکایت کرنا کہ جب ہم پر اسرائیلی درندے حملہ آور تھے تو امت مسلمہ کے حکمرانوں نے ہمیں بے یارو مددگار چھوڑا مگر ہم نے مسجد اقصیٰ کی حرمت پر اپنی ننھی جانیں نچھاور کیں۔
یہ صرف ایک بزرگ اور خاندان کی کہانی نہیں روز کا معمول ہے کہ جب گھر کے سربراہ اپنے بچوں کو قبر میں اتارتے ہیں تو یہی الفاظ ان کے کانوں میں دہراتے ہیں اور اس طرح روز سیکڑوں شکایتیں ان بے حس حکمرانوں کے خلاف اﷲ رب العزت کے دربار میں درج ہو رہی ہیں یہ شکایتیں اور آہیں صرف فلسطینیوں کی نہیں، پرسوں رات 12 بجے میں دفتر سے واپس آیا تو میری اہلیہ ام عمر سسکیاں لے لے کر زار و قطار رو رہی تھی، میں پریشان ہوا اور پوچھا تو پتہ چلا کہ انھوں دو گھنٹے پہلے نونہالان فلسطین کی خون میں بکھرے ہوئے لاشوں کی وڈیو دیکھی تھی، وہ رو رہی تھی اور مسلمان حکمرانوں کو بد دعائیں دے رہی تھی کہ اسلامی ممالک کی حکومتیں فلسطینیوں پر اسرائیل کا یہ ظلم و جبر کیسے برداشت کر رہی ہیں اور اگر وہ اتنے کمزور ہیں تو پھر ہم مسلمان ان حکمرانوں کو کیوں برداشت کر رہے۔ یہ ایک گھر کی کہانی اور صرف ام عمر کے جذبات نہیں، یہ امت مسلمہ کے ہر گھر کی کہانی ہے۔
آخر کیوں مسلم ممالک کے حکمران ہوش کے ناخن لینے پر راضی نہیں۔ پرسوں سوشل میڈیا پر آئرلینڈ کے ایک خاتون پارلیمنٹیرین کی اسرائیلی درندوں کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی وائرل تقریر سنی اور سیکڑوں سامعین کے جذبات اور احساسات کو دیکھا تو حیران ہوا، مجھے یقین ہے کہ اگر مسلمان حکمران یہ کلپ دیکھ اورسن لیتے تو خوف اور مصلحت کے بت پاش پاش ہوجاتے۔ مسلمان حکمرانوں کی ساری مصلحتیں اس عورت پر قربان کرنے کو جی چاہتا ہے۔
پتہ نہیں یہ حکمران کیا سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ساری عمر حکمران اور زندہ رہنا ہے؟ موت ایک اٹل حقیقت ہے سب کو مرنا ہے مگر میں حیران ہوں کہ مسلم قیادت اور امت کے بااثر ترین طبقات حشر کے میدان میں کس طرح ان ننھے شہدائے فلسطین سے اپنا گریبان چھڑائیں گے اور کس منہ سے نبی رحمتﷺ کی شفاعت کے دعویدار رہیں گے۔ یا مولائے کائنات ہم سے اور برداشت نہیں ہورہا یہ ظلم دیکھنا فلسطین کے مظلوموں پر رحم فرما اور اسرائیلی درندوں کو نیست و نابود کردے۔ دلیر امت کو دلیر حکمران عطا فرما۔