مخدوم محی الدین۔۔۔۔ ایک انقلابی شاعر 

مخدوم نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا اور بعد کے آنے والوں کے لیے وہ ایک مینارہ نور تھے

fatimaqazi7@gmail.com

حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

یہ شعر معروف انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کا ہے جو اندور، ضلع مڈک (انڈیا) میں 4 فروری 1908 میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام ابو سعید مخدوم محی الدین خذری تھا۔ مخدوم بنیادی طور پر ترقی پسند شاعر تھے وہ قائدانہ صلاحیت اور رہنمایانہ مزاج کے حامل تھے۔ ترنم سے پڑھنا ان کی خصوصیت تھی وہ انقلابی شاعری کا ایک مینارہ نور تھے۔

اردو شاعری کو خصوصاً ترقی پسند شاعری کو جن شعرا نے بام عروج پر پہنچایا ان میں مخدوم کا نام سرفہرست ہے۔ ان کے ہم عصر شعرا میں علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور فیض تھے۔ انھوں نے اپنے ترانوں اور نظموں سے اردو شاعری کو جلا بخشی۔ مخدوم انقلابی شاعری کا ایک مینارہ نور تھے۔

مخدوم جب چار سال کے تھے تو ان کے والد مخدوم غوث محی الدین کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنے چچا بشیر الدین کے زیر سایہ آگئے۔ ان کے چچا کا ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا، جس کی وجہ سے مخدوم کی تعلیم مسلسل نہ ہو سکی۔ انھوں نے 1934 میں جامعہ عثمانیہ سے بی۔ اے کی ڈگری لی اور پھر 1936 میں یہیں سے ایم۔اے کی ڈگری لی جس کے بعد ان کا تقرر سٹی کالج میں بحیثیت لیکچرر کے ہو گیا۔

مخدوم کی سب سے پہلی نظم ''پیلا دوشالہ'' ہے۔ ان کے دوست کا دوشالہ گم ہو گیا تھا جس پر انھوں نے یہ نظم لکھی جو دراصل ایک پیروڈی ہے۔ یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ نواب حیدرآباد دکن نے خود اس نظم کو سنا اور پسند فرمایا۔ 1934 میں مخدوم کمیونسٹ پارٹی سے منسلک ہوگئے اور سٹی کالج کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔مخدوم کی زندگی بہت مسائل سے گزری وہ ایک پکے اور سچے کمیونسٹ تھے اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔

1952 میں جب کمیونسٹ پارٹی سے پابندی اٹھا لی گئی تو مخدوم کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئیں۔ وہ کئی پارٹیوں سے منسلک ہوگئے اور ترقی پسند شاعری کے ارتقا کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے لگے۔ مخدوم ٹریڈ یونین کے صدر بنائے گئے۔ مخدوم نے مزدوروں کے لیے کام کیا، لگان کے خلاف تحریک چلائی اور کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے استحصالی طبقے کے حق کے لیے آواز بلند کی۔ اپنی نظموں میں اس کا اظہار کیا، ان کی نظم ،چاند تاروں کا بن' چارہ گر اور ''حویلی'' اشتراکی سوچ اور خیالات کی نمایندہ نظمیں ہیں۔

ان کے علاوہ ان کی مشہور نظموں میں انقلاب، تلنگانہ، بنگال، لخت جگر، قید، اندھیرا، دھواں، رقص، جان غزل، سناٹا، احساس کی رات، آج کی رات، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ مخدوم کا پہلا شاعری کا مجموعہ ''سرخ سویرا'' 1944 میں شایع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ''گل تر'' 1962 میں اور تیسرا مجموعہ ''بساط رقص'' 1966میں شایع ہوا تھا۔ مخدوم کا شمار صف اول کے شعرا میں ہوتا تھا۔ وہ اپنے زمانے کے بڑے پرکشش اور قدآور شخصیت تھے۔ انھوں نے بڑی خوبصورت اور منفرد نظمیں کہی ہیں۔ان کی بعض نظمیں فلموں میں بھی لے لی گئیں، مثلاً فلم بازار کی یہ نظم:

پھر چھڑی آج بات پھولوں کی

رات ہے یا برات پھولوں کی

یا پھر مبارک بیگم کی گائی ہوئی یہ نظم جس میں مبارک بیگم کی آواز کا سحر بھی ہے:

آپ کی یاد آتی رہی رات بھر

چشم نم مسکراتی رہی رات بھر

رات پھر درد کی شمع جلتی رہی

غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر

بانسری کی سُریلی سہانی صدا

یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر

یاد کے چاند دل میں اُترتے رہے

چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر

کوئی دیوانہ گلیوں میں پھرتا رہا


کوئی آواز آتی رہی رات بھر

مخدوم نے نہ صرف اپنے ہم عصروں میں ممتاز مقام پایا بلکہ جونیئر شعرا کی بھی رہنمائی کی۔ ان کی شخصیت میں لطافت اور پاکیزگی دونوں تھیں، وہ زندگی میں بہت سے مسائل کا شکار رہے تھے۔ وہ مختلف شعرا کی تصاویر فریم کروا کے فروخت کرتے تھے۔ ان کی ایک اور نظم بڑی دلکش ہے جو کسی فلم میں بھی لی گئی تھی:

میکدے سے ذرا دور اس موڑ پر

دو بدن پیار کی آگ میں جل گئے

اک چنبیلی کے منڈوے تلے

پیار حرف وفا پیار ان کا خدا

پیار ان کی کتاب

دو بدن پیار کی آگ میں جل گئے

کالی کالی لٹوں سے لپٹ کر رخسار پر

ہم نے دیکھا انھیں ہم نے چاہا انھیں

دو بدن پیار کی آگ میں جل گئے

ایک چنبیلی کے منڈوے تلے

مخدوم بے شک ایک انقلابی شاعر تھے، لیکن ان کی بیشتر نظموں میں جمالیاتی آہنگ اور بلند ادبی ذوق شامل ہے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں، یہ اشعار دیکھیے:

دلوں میں اژدہام آرزو لب بند رہتے تھے

نظر سے گفتگو ہوتی تھی' دم اُلفت کا بھرتے تھے

نہ ماتھے پہ شکن ہوتی نہ جب تیور بدلتے تھے

خدا بھی مسکرا دیتا تھا' جب ہم پیار کرتے تھے

وقت کے ساتھ ساتھ مخدوم کی شاعری نکھرتی چلی گئی۔ ان کی نظمیں رومان سے انقلاب کی طرف آگئیں۔ نظم ''آتش کدہ'' اور ''سپاہی'' اس کی بہترین مثال ہیں۔

مخدوم کی شاعری ان کی چچا زاد سے 1933 میں ہوئی۔ ان کے چار بچے ہیں۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ بیٹوں کے نام نصرت محی الدین اور ظفر محی الدین اور بیٹیوں کے نام ذکیہ اور اساوری ہیں۔ ان کا انتقال 25 اگست 1969 میں دلی میں ہوا اور تدفین حیدرآباد میں شاہ خاموش کی درگاہ کے احاطے میں ہوئی۔ مخدوم محی الدین جیسے شاعر روز روز پیدا نہیں ہوتے۔

مخدوم نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا اور بعد کے آنے والوں کے لیے وہ ایک مینارہ نور تھے۔ ان کی شاعری سماج کے ان کچلے ہوئے لوگوں کے لیے مسیحائی کا کام کرنے کے علاوہ جمالیاتی ذوق اور احساس مروت کا امتزاج تھی۔
Load Next Story