کامیابی کی روشن راہ
’’جس نے ذرّہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘
دنیا کا ہر شخص کام یابی کے حصول کے لیے محنت کرتا ہے اور ناکامی سے بچنے کی تدابیر اختیار کرتا ہے۔
محسن انسانیت خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کی راہ نمائی فرماتے ہوئے مختصر الفاظ میں جامع ہدایات ارشاد فرمائی ہیں جنہیں سمجھ کر ابدی کام یابی حاصل کی جاسکتی ہے اور ناکامی سے بچا جاسکتا ہے۔ امام بیہقیؒ نے شعب الایمان آپ ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا ہے: ''اس امت کی کام یابی کی بنیادی چیزیں یقین کرنا اور دنیا سے بے رغبتی ہے اور اس امت کی بربادی کی بنیاد دو چیزوں پر ہے اور وہ بخل اور لمبی امیدیں ہیں۔''
آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرماے یا کہ کام یابی کے حصول کے لیے دو راستے ہیں جو شخص ان راستوں پر چلے گا یقیناً وہ کام یاب ہوگا ان میں پہلا راستہ اﷲ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین کرنے کا ہے۔ اس راستے پر چلنے سے اس کی زندگی میں خوشی، سکھ ، چین، راحت اور سکون و اطمینان نصیب ہوگا اور وہ ترقی کی تمام منزلیں آسانی سے طے کر لے گا۔
اس یقین کی چند اہم صورتیں ہیں۔
الیقین علی امر اﷲ:
اس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح بٹھا لے اور اس پر یقین کر لے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اﷲ کے حکم سے ہوتا ہے، نفع و نقصان کی مالک و مختار صرف اﷲ کی ذات ہے، کام یابی دلانا اور ناکامی سے بچانا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، اس کے چاہنے سے ہی عزت ملتی ہے اور وہی ذلت و رسوائی سے بچا سکتا ہے، رزق روزی اسی کے اختیار میں ہے، دکھ سکھ اسی کے ہاتھ میں ہے، زمین و آسمان اور کائنات کے ذرے ذرے میں اسی کی بادشاہت کار فرما ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ التکویر میں اسی بات کو یوں سمجھایا گیا ہے، مفہوم: ''تمہاری چاہت اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک دونوں جہانوں کے رب کی منشاء اس میں شامل نہ ہو جائے۔'' جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے اس کے دل سے مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے اور حق بات کہنے میں کسی سے خوف زدہ اور مرعوب نہیں ہوتا۔
الیقین علی قدرۃ اﷲ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اﷲ رب العزت کی قدرت کاملہ پر یقین رکھے اور اس عقیدے پر اپنی زندگی گزارے کہ جو اﷲ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اسے ضرور ملے گا۔ نہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے ایک ذرہ زیادہ۔ اور جو مقدر میں نہیں لکھا وہ اسے کبھی بھی نہیں مل سکتا۔ مال و دولت، آل و اولاد کا ملنا ہو یا اس کا ختم ہونا، رزق کی فراخی ہو یا قلت و تنگ دستی، حوادثات زمانہ سے محفوظ رہنا ہو یا مصائب میں الجھنا ال غرض ہر بات میں اﷲ کی قدرت کاملہ اس کی ساری تدابیر پر غالب رہتی ہے۔ جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہوجائے وہ دنیا کے حصول میں میانہ روی اختیار کر لیتا ہے اور غیر شرعی مصروفیات سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے ، خدا نہ خواستہ کبھی نقصان ہو بھی جائے تو اس کا دل اﷲ کی رضا پر راضی رہتا ہے، صبر و شکر کا عادی بن جاتا ہے جو اسے ڈپریشن سے نجات دلاتی ہے۔
الیقین علی علم اﷲ
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنا یہ عقیدہ بنائے کہ اﷲ تعالی کو میرے ہر عمل کا علم ہے۔ میرے قول و فعل اور ظاہر و باطن سے بہ خوبی واقف ہے، وہ ذات رات کے اندھیروں میں، دن کے اجالے میں، آبادیوں اور ویرانوں میں، جنگلوں اور پہاڑوں میں، زمینوں اور آسمانوں میں جو کوئی جو کچھ کر رہا ہے وہ اس کے احاطہ علم میں ہے۔ کوئی چیز بھی اس کی نظروں سے پوشیدہ اور غائب نہیں۔ قرآن کریم کی سورۃ الرعد میں اس بات کو یوں سمجھایا گیا ہے، مفہوم : ''اﷲ کے علم میں ہے وہ جو حمل والی خواتین کے پیٹ میں ہے اور جو کچھ رحم مادر میں بڑھتا یا سکڑتا ہے اور ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک پیمانہ مقرر ہے وہ پوشیدہ کو بھی جانتا ہے اور ظاہر کو بھی، وہ سب سے بڑا اور برتر ہے اس کے ہاں برابر ہے کوئی آہستہ بولے یا زور سے وہ سب سن لیتا ہے اس طرح اس کے لیے یہ بات بھی برابر ہے جو رات کو چھپ جائے یا دن کو ظاہر ہو کر پھرے۔'' جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے گا اس کے لیے ظاہر و باطن کی اصلاح کرنا آسان ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں فکر پیدا ہوتی ہے جو فکر دونوں جہانوں کی ترقی کا زینہ بنتی ہے۔ وہ کھلے عام بھی برائیوں کو چھوڑ دیتا ہے اور چھپ کر بھی گناہ کرنے سے خود کو بچاتا ہے تاکہ اس کا اﷲ ناراض نہ ہو جائے۔
الیقین علی یوم الجزاء :
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ اپنائے کہ ایک دن ضرور اپنے رب کے پاس پہنچے گا جہاں اس کو اپنے اعمال کی جزا یا سزا ملے گی۔ نیکیوں کا صلہ بھی ملے گا اور گناہوں کا عذاب بھی، اس دن اس کا ہر عمل اس کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ قرآن کریم کی سورۃ الزلزال میں اس بات کو یوں سمجھایا گیا ہے، مفہوم: ''جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔'' جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے وہ عبادت خداوندی اور اطاعت نبویؐ پر چل پڑتا ہے۔ اپنے نامہ اعمال سے گناہوں کو ختم کرنے کے لیے توبہ کرنے لگ جاتا ہے اور اس کا دل ہر وقت اﷲ کی یاد میں رہنے لگتا ہے۔
یقین کے یہ چار درجے حاصل کرنے کے لیے ہمیں سنجیدگی سے فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز جس پر کام یابی ملتی ہے وہ ہے زُہد۔
زُہد کیا ہے؟:
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا میں رہتے ہوئے خالق اور مخلوق دونوں کے حقوق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔ لوگوں سے میل جول رکھے، اچھا لباس، اچھی خوراک، عمدہ رہائش اگر میسر ہے تو اسے اﷲ کی نعمت سمجھ کر استعمال کرے اور اس پر شکر ادا کرے۔ اس کا دل دنیا سے بے نیاز ہو اور ہر معاملے میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتا ہو۔ آخرت کے نقصان سے بچنے کے لیے دنیا کے نقصان برداشت کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے۔
یہاں ایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہے، حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں: دنیا سے بے رغبتی یہ نہیں کہ تم روکھا سوکھا کھاؤ اور پھٹا پرانا لباس پہنو بل کہ زہد کی اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی امیدوں اور آرزوں کو کم کر دو۔'' شریعت میں جائز اور حلال چیزوں سے نفع حاصل کرنے کو ناجائز خیال کر رکے رہنا زُہد کی حقیقت نہیں بل کہ زُہد کی حقیقت سے لا علمی ہے۔ سب سے الگ تھلگ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کر لینا رہبانیت ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ امام مالکؒ نے زہد کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ زرق حلال کمایا جائے اور دنیا کی لمبی آرزوں کو چھوڑ دینا چاہیے۔
رسول اﷲ ﷺ ہادی کامل ہیں۔ صرف کام یابی کی روشن قندیلوں تک راہ نمائی ہی نہیں کی بل کہ ناکامی کے راستوں کی نشان دہی بھی کر دی ہے تاکہ اس سے بچا جا سکے۔ چناں چہ آپؐ نے بخل اور امل (دنیا کی لمبی امیدوں) کو ناکامی کے تاریک راستے قرار دیا۔ جس پر چل کر انسان دونوں جہانوں میں ناکام و نامراد رہتا ہے۔
بخل کیا ہے ؟:
اس کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرنے کے مواقع پر بھی انسان خرچ نہ کرے ، اس سے دنیا کی محبت ، لالچ ، طمع اور حرص پیدا ہوتی ہے انسان ہر وقت پیسوں کو گن گن کر جوڑنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اپنے آپ پر، آل اولاد پر، عزیز واقارب پر اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنا اور ان کے مالی حقوق ادا کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے، اس کی طبیعت اور مزاج میں سب رشتوں کی قدر مال و دولت سے کم ہوتی ہے، اﷲ کے راہ میں خرچ نہ کرنا، واجبی صدقات زکوٰۃ ، عشر اور قربانی نہ کرنا اور یتمیوں، مسکینوں اور غریبوں سے انسانی ہم دردی ختم ہو جاتی ہے اس لیے وہ خالق اور مخلوق دونوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے اس بری صفت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اسے فساد امت کی جڑ قرار دیا ہے۔
بعض لوگ کفایت شعاری اور بخل میں فرق نہیں کرتے جس کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں اور دونوں کو باہم خلط ملط کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ کفایت شعاری بہت ضروری ہے، اسے اپنانے کا حکم ہے جب کہ بخل ناپسندیدہ بات سے اس سے بچنے کا حکم ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان فضول خرچی سے بچے لیکن ضرورت کے مواقع پر مناسب طریقے سے خرچ کرے، اپنی حیثیت کے مطابق اپنے آپ پر، اہل خانہ، آل و اولاد پر، قریبی رشتہ داروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرے۔ جب کہ بخل کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کا خون سفید ہو جائے اور اس کی نگاہ میں خونیں رشتوں، انسانی قدروں اور معاشرتی تقاضوں کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے بس پیسہ ہی سب کچھ ہو۔
اَمَل کیا ہے ؟:
اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی لمبی لمبی امیدیں باندھنا اور ان امیدوں کی تکمیل میں آخرت کو بھول جانا۔ آج ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری حالت ایسی ہوتی جا رہی ہے کہ ہم نے اپنی دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی پروا نہیں کرتے، اپنی تمام تر توانائیاں فقط دنیاوی مال و متاع کے حصول میں لگا رہے ہیں، آخرت کو بھول چکے ہیں۔ موت، قبر، میدان محشر، جنت، جہنم اور اخروی انعام و عذاب کو یکسر بھول بیٹھے ہیں ہر وقت اپنے دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ جب کہ ایک پل کا علم نہیں کہ کب جان نکل جائے۔ اس لیے ہمیں نبی کریم ﷺ کی مبارک تعلیمات پر چلنا ہوگا ورنہ دنیا و آخرت میں ہماری نجات ممکن نہیں۔
اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
محسن انسانیت خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کی راہ نمائی فرماتے ہوئے مختصر الفاظ میں جامع ہدایات ارشاد فرمائی ہیں جنہیں سمجھ کر ابدی کام یابی حاصل کی جاسکتی ہے اور ناکامی سے بچا جاسکتا ہے۔ امام بیہقیؒ نے شعب الایمان آپ ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا ہے: ''اس امت کی کام یابی کی بنیادی چیزیں یقین کرنا اور دنیا سے بے رغبتی ہے اور اس امت کی بربادی کی بنیاد دو چیزوں پر ہے اور وہ بخل اور لمبی امیدیں ہیں۔''
آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرماے یا کہ کام یابی کے حصول کے لیے دو راستے ہیں جو شخص ان راستوں پر چلے گا یقیناً وہ کام یاب ہوگا ان میں پہلا راستہ اﷲ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین کرنے کا ہے۔ اس راستے پر چلنے سے اس کی زندگی میں خوشی، سکھ ، چین، راحت اور سکون و اطمینان نصیب ہوگا اور وہ ترقی کی تمام منزلیں آسانی سے طے کر لے گا۔
اس یقین کی چند اہم صورتیں ہیں۔
الیقین علی امر اﷲ:
اس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح بٹھا لے اور اس پر یقین کر لے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اﷲ کے حکم سے ہوتا ہے، نفع و نقصان کی مالک و مختار صرف اﷲ کی ذات ہے، کام یابی دلانا اور ناکامی سے بچانا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، اس کے چاہنے سے ہی عزت ملتی ہے اور وہی ذلت و رسوائی سے بچا سکتا ہے، رزق روزی اسی کے اختیار میں ہے، دکھ سکھ اسی کے ہاتھ میں ہے، زمین و آسمان اور کائنات کے ذرے ذرے میں اسی کی بادشاہت کار فرما ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ التکویر میں اسی بات کو یوں سمجھایا گیا ہے، مفہوم: ''تمہاری چاہت اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک دونوں جہانوں کے رب کی منشاء اس میں شامل نہ ہو جائے۔'' جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے اس کے دل سے مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے اور حق بات کہنے میں کسی سے خوف زدہ اور مرعوب نہیں ہوتا۔
الیقین علی قدرۃ اﷲ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اﷲ رب العزت کی قدرت کاملہ پر یقین رکھے اور اس عقیدے پر اپنی زندگی گزارے کہ جو اﷲ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اسے ضرور ملے گا۔ نہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے ایک ذرہ زیادہ۔ اور جو مقدر میں نہیں لکھا وہ اسے کبھی بھی نہیں مل سکتا۔ مال و دولت، آل و اولاد کا ملنا ہو یا اس کا ختم ہونا، رزق کی فراخی ہو یا قلت و تنگ دستی، حوادثات زمانہ سے محفوظ رہنا ہو یا مصائب میں الجھنا ال غرض ہر بات میں اﷲ کی قدرت کاملہ اس کی ساری تدابیر پر غالب رہتی ہے۔ جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہوجائے وہ دنیا کے حصول میں میانہ روی اختیار کر لیتا ہے اور غیر شرعی مصروفیات سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے ، خدا نہ خواستہ کبھی نقصان ہو بھی جائے تو اس کا دل اﷲ کی رضا پر راضی رہتا ہے، صبر و شکر کا عادی بن جاتا ہے جو اسے ڈپریشن سے نجات دلاتی ہے۔
الیقین علی علم اﷲ
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنا یہ عقیدہ بنائے کہ اﷲ تعالی کو میرے ہر عمل کا علم ہے۔ میرے قول و فعل اور ظاہر و باطن سے بہ خوبی واقف ہے، وہ ذات رات کے اندھیروں میں، دن کے اجالے میں، آبادیوں اور ویرانوں میں، جنگلوں اور پہاڑوں میں، زمینوں اور آسمانوں میں جو کوئی جو کچھ کر رہا ہے وہ اس کے احاطہ علم میں ہے۔ کوئی چیز بھی اس کی نظروں سے پوشیدہ اور غائب نہیں۔ قرآن کریم کی سورۃ الرعد میں اس بات کو یوں سمجھایا گیا ہے، مفہوم : ''اﷲ کے علم میں ہے وہ جو حمل والی خواتین کے پیٹ میں ہے اور جو کچھ رحم مادر میں بڑھتا یا سکڑتا ہے اور ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک پیمانہ مقرر ہے وہ پوشیدہ کو بھی جانتا ہے اور ظاہر کو بھی، وہ سب سے بڑا اور برتر ہے اس کے ہاں برابر ہے کوئی آہستہ بولے یا زور سے وہ سب سن لیتا ہے اس طرح اس کے لیے یہ بات بھی برابر ہے جو رات کو چھپ جائے یا دن کو ظاہر ہو کر پھرے۔'' جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے گا اس کے لیے ظاہر و باطن کی اصلاح کرنا آسان ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں فکر پیدا ہوتی ہے جو فکر دونوں جہانوں کی ترقی کا زینہ بنتی ہے۔ وہ کھلے عام بھی برائیوں کو چھوڑ دیتا ہے اور چھپ کر بھی گناہ کرنے سے خود کو بچاتا ہے تاکہ اس کا اﷲ ناراض نہ ہو جائے۔
الیقین علی یوم الجزاء :
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ اپنائے کہ ایک دن ضرور اپنے رب کے پاس پہنچے گا جہاں اس کو اپنے اعمال کی جزا یا سزا ملے گی۔ نیکیوں کا صلہ بھی ملے گا اور گناہوں کا عذاب بھی، اس دن اس کا ہر عمل اس کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ قرآن کریم کی سورۃ الزلزال میں اس بات کو یوں سمجھایا گیا ہے، مفہوم: ''جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔'' جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے وہ عبادت خداوندی اور اطاعت نبویؐ پر چل پڑتا ہے۔ اپنے نامہ اعمال سے گناہوں کو ختم کرنے کے لیے توبہ کرنے لگ جاتا ہے اور اس کا دل ہر وقت اﷲ کی یاد میں رہنے لگتا ہے۔
یقین کے یہ چار درجے حاصل کرنے کے لیے ہمیں سنجیدگی سے فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز جس پر کام یابی ملتی ہے وہ ہے زُہد۔
زُہد کیا ہے؟:
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا میں رہتے ہوئے خالق اور مخلوق دونوں کے حقوق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔ لوگوں سے میل جول رکھے، اچھا لباس، اچھی خوراک، عمدہ رہائش اگر میسر ہے تو اسے اﷲ کی نعمت سمجھ کر استعمال کرے اور اس پر شکر ادا کرے۔ اس کا دل دنیا سے بے نیاز ہو اور ہر معاملے میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتا ہو۔ آخرت کے نقصان سے بچنے کے لیے دنیا کے نقصان برداشت کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے۔
یہاں ایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہے، حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں: دنیا سے بے رغبتی یہ نہیں کہ تم روکھا سوکھا کھاؤ اور پھٹا پرانا لباس پہنو بل کہ زہد کی اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی امیدوں اور آرزوں کو کم کر دو۔'' شریعت میں جائز اور حلال چیزوں سے نفع حاصل کرنے کو ناجائز خیال کر رکے رہنا زُہد کی حقیقت نہیں بل کہ زُہد کی حقیقت سے لا علمی ہے۔ سب سے الگ تھلگ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کر لینا رہبانیت ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ امام مالکؒ نے زہد کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ زرق حلال کمایا جائے اور دنیا کی لمبی آرزوں کو چھوڑ دینا چاہیے۔
رسول اﷲ ﷺ ہادی کامل ہیں۔ صرف کام یابی کی روشن قندیلوں تک راہ نمائی ہی نہیں کی بل کہ ناکامی کے راستوں کی نشان دہی بھی کر دی ہے تاکہ اس سے بچا جا سکے۔ چناں چہ آپؐ نے بخل اور امل (دنیا کی لمبی امیدوں) کو ناکامی کے تاریک راستے قرار دیا۔ جس پر چل کر انسان دونوں جہانوں میں ناکام و نامراد رہتا ہے۔
بخل کیا ہے ؟:
اس کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرنے کے مواقع پر بھی انسان خرچ نہ کرے ، اس سے دنیا کی محبت ، لالچ ، طمع اور حرص پیدا ہوتی ہے انسان ہر وقت پیسوں کو گن گن کر جوڑنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اپنے آپ پر، آل اولاد پر، عزیز واقارب پر اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنا اور ان کے مالی حقوق ادا کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے، اس کی طبیعت اور مزاج میں سب رشتوں کی قدر مال و دولت سے کم ہوتی ہے، اﷲ کے راہ میں خرچ نہ کرنا، واجبی صدقات زکوٰۃ ، عشر اور قربانی نہ کرنا اور یتمیوں، مسکینوں اور غریبوں سے انسانی ہم دردی ختم ہو جاتی ہے اس لیے وہ خالق اور مخلوق دونوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے اس بری صفت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اسے فساد امت کی جڑ قرار دیا ہے۔
بعض لوگ کفایت شعاری اور بخل میں فرق نہیں کرتے جس کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں اور دونوں کو باہم خلط ملط کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ کفایت شعاری بہت ضروری ہے، اسے اپنانے کا حکم ہے جب کہ بخل ناپسندیدہ بات سے اس سے بچنے کا حکم ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان فضول خرچی سے بچے لیکن ضرورت کے مواقع پر مناسب طریقے سے خرچ کرے، اپنی حیثیت کے مطابق اپنے آپ پر، اہل خانہ، آل و اولاد پر، قریبی رشتہ داروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرے۔ جب کہ بخل کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کا خون سفید ہو جائے اور اس کی نگاہ میں خونیں رشتوں، انسانی قدروں اور معاشرتی تقاضوں کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے بس پیسہ ہی سب کچھ ہو۔
اَمَل کیا ہے ؟:
اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی لمبی لمبی امیدیں باندھنا اور ان امیدوں کی تکمیل میں آخرت کو بھول جانا۔ آج ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری حالت ایسی ہوتی جا رہی ہے کہ ہم نے اپنی دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی پروا نہیں کرتے، اپنی تمام تر توانائیاں فقط دنیاوی مال و متاع کے حصول میں لگا رہے ہیں، آخرت کو بھول چکے ہیں۔ موت، قبر، میدان محشر، جنت، جہنم اور اخروی انعام و عذاب کو یکسر بھول بیٹھے ہیں ہر وقت اپنے دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ جب کہ ایک پل کا علم نہیں کہ کب جان نکل جائے۔ اس لیے ہمیں نبی کریم ﷺ کی مبارک تعلیمات پر چلنا ہوگا ورنہ دنیا و آخرت میں ہماری نجات ممکن نہیں۔
اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین