کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی غیر ضروری بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے سندھ ہائیکورٹ
قبضہ ختم کروانے کے لیے آخری مہلت دے رہے ہیں، عدالت نے ڈی جی کے ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا
سندھ ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی غیر ضروری، بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے۔
احکامات کے باوجود پلاٹ سے تجاوزات ختم نہ کرانے سے متعلق کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے حکام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا،۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی غیر ضروری، بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے۔
جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو احکامات کے باوجود تجاوزات ختم نہ کرانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جس میں وکیل نے مؤقف دیا کہ درخواست گزار فیض محمد لاشاری نے گلستان جوہر بلاک 40 میں 1991ء میں پلاٹ نمبر اے 2 اور اے 3 خریدا تھا۔ کے ڈی اے کے پلاٹ پر قبضہ کرلیا گیا۔ پلاٹ سے قبضہ ختم کرایا جائے یا متبادل پلاٹ دیا جائے۔
احکامات کے باوجود تجاوزات ختم نہ کرانے پر عدالت کے ڈی اے حکام پر برہم ہوگئی۔ جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیے کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی غیر ضروری، بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے۔ ایک تو اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتا، دوسرا عدالت حکم دے تو اس پر بھی عمل درآمد بھی نہیں کیا جاتا۔پہلے تجاوزات قائم ہونے دیں، اب عدالت حکم دے رہی ہے تو ختم نہیں کرائے جا رہے۔
جسٹس ندیم اختر نے کہا کہ بار بار کہا جا رہا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کریں۔ اگر ہم نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کروانا شروع کردیا تو درخواست گزار کے گھر جاکر پلاٹ دے کر آئیں گے۔ جسٹس ندیم اختر نے ڈائریکٹر لینڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کے ڈی اے قانون کے مطابق اپنی ذمے داری پوری نہیں کررہا۔
جسٹس عبدالرحمن نے ڈائریکٹر لینڈ سے استفسار کیا کہ سوک سینٹر میں آپ کا دفتر کس فلور پر ہے؟ ڈائریکٹر لینڈ نے کہا کہ کے ڈی اے کا دفتر تیسری منزل پر ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اینٹی انکروچمنٹ والوں کا دفتر کس فلور ہے؟ ڈائریکٹر لینڈ نے بتایا کہ ان کا دفتر بھی تیسری منزل پر ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک ہی عمارت کے ایک ہی فلو پر اینٹی انکروچمنٹ والوں کا بھی دفتر ہے تو قبضہ ختم کیوں نہیں کرارہے؟ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اینٹی انکروچمنٹ والے جواب نہیں دہتے۔ ہم آخری مہلت دے رہے ہیں۔ درخواست گزار کو متبادل پلاٹ فراہم کریں یا قبضہ ختم کرائیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
احکامات کے باوجود پلاٹ سے تجاوزات ختم نہ کرانے سے متعلق کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے حکام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا،۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی غیر ضروری، بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے۔
جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو احکامات کے باوجود تجاوزات ختم نہ کرانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جس میں وکیل نے مؤقف دیا کہ درخواست گزار فیض محمد لاشاری نے گلستان جوہر بلاک 40 میں 1991ء میں پلاٹ نمبر اے 2 اور اے 3 خریدا تھا۔ کے ڈی اے کے پلاٹ پر قبضہ کرلیا گیا۔ پلاٹ سے قبضہ ختم کرایا جائے یا متبادل پلاٹ دیا جائے۔
احکامات کے باوجود تجاوزات ختم نہ کرانے پر عدالت کے ڈی اے حکام پر برہم ہوگئی۔ جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیے کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی غیر ضروری، بے کار اور نکما ترین ادارہ ہے۔ ایک تو اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتا، دوسرا عدالت حکم دے تو اس پر بھی عمل درآمد بھی نہیں کیا جاتا۔پہلے تجاوزات قائم ہونے دیں، اب عدالت حکم دے رہی ہے تو ختم نہیں کرائے جا رہے۔
جسٹس ندیم اختر نے کہا کہ بار بار کہا جا رہا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کریں۔ اگر ہم نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کروانا شروع کردیا تو درخواست گزار کے گھر جاکر پلاٹ دے کر آئیں گے۔ جسٹس ندیم اختر نے ڈائریکٹر لینڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کے ڈی اے قانون کے مطابق اپنی ذمے داری پوری نہیں کررہا۔
جسٹس عبدالرحمن نے ڈائریکٹر لینڈ سے استفسار کیا کہ سوک سینٹر میں آپ کا دفتر کس فلور پر ہے؟ ڈائریکٹر لینڈ نے کہا کہ کے ڈی اے کا دفتر تیسری منزل پر ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اینٹی انکروچمنٹ والوں کا دفتر کس فلور ہے؟ ڈائریکٹر لینڈ نے بتایا کہ ان کا دفتر بھی تیسری منزل پر ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک ہی عمارت کے ایک ہی فلو پر اینٹی انکروچمنٹ والوں کا بھی دفتر ہے تو قبضہ ختم کیوں نہیں کرارہے؟ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اینٹی انکروچمنٹ والے جواب نہیں دہتے۔ ہم آخری مہلت دے رہے ہیں۔ درخواست گزار کو متبادل پلاٹ فراہم کریں یا قبضہ ختم کرائیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔