نئے دور کے تقاضے
پاکستان کو اب لاقانونیت کے کلچر سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ریاست کے علاوہ کسی بھی ادارے یا گروہ کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مسلح کارروائی ناقابل قبول ہے، بغیر کسی مذہبی، صوبائی، قبائلی، لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ یا کسی اور امتیاز کے پاکستان تمام پاکستانیوں کا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر یہ باتیں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام اور مشائخ سے جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں ملاقات کے دوران کہی۔ علماء اور مشائخ نے متفقہ طور پر انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی مذمت کی اور ملک میں رواداری، امن اور استحکام لانے کے لیے ریاستی اور سیکیورٹی فورسز کی انتھک کوششوں کے لیے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھنے کا عزم اظہارِ کیا۔
علما ء کرام کا کہنا تھا کہ اسلام امن اور ہم آہنگی کا مذہب ہے۔ بعض عناصر کی طرف سے مذہب کی مسخ شدہ تشریحات صرف ان کے ذاتی مفادات کے لیے ہیں جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آرمی چیف نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ذریعے پھیلائے جانے والے گمراہ کن پروپیگنڈے کے خاتمے کے لیے علماء کرام کے فتویٰ پیغام پاکستان کو سراہا۔
پاک فوج کے سربراہ کی باتیں عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔بلاشبہ ایک مقتدر،آزاد اور خودمختار ریاست کی حدود میں کسی مسلح تنظیمی یا گروہ کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی گروہ مذہب کے نام پر فرقہ وار، نفرت یا اشتعال پھیلا سکتا ہے ۔ پاکستان کا آئین اور قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے اس قسم کے مسلح گروہوں کی بیخ کنی ریاست پاکستان کی بقاء اور سالمیت کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔
ریاست زیادہ دیر تک ان معاملات کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ ریاست میں صرف ایک مسلح ادارہ ہوتاجو اس ریاست کی فوج ہوتی ہے، ریاست کسی مسلح گروہ کو برداشت نہیں کر سکتی۔ پاک فوج کے سربراہ نے دوٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ اس معاملے میں کوئی اگرمگر کی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان عالمی سطح پر جس سفارتی تنہائی کا شکار ہوا، اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں انتہاپسند تنظیموں کا غیرآئینی اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا اور دہشت گردی کو فروغ دینا ہے۔
افغانستان میں سوویت یونین اور امریکا اور نیٹو کے درمیان سردجنگ کا جو آخری راؤنڈ لڑا گیا، اس کی وجہ سے بھی ہمارے خطے میں کلاشنکوف کلچر، منشیات، ڈرگز، جدید اور ممنوعہ اسلحے کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کو فروغ ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلیک اکانومی کا پھیلاؤ ہوا جس کا حجم اب خطرے کی لائن سے اوپر چلا گیا ہے۔
بلیک اکانومی سے وابستہ طبقہ بے پناہ دولت مند ہوا اور اسی رفتار سے اس کے سیاسی اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہوا۔ اس طبقے نے ریاستی سسٹم کو کرپٹ کرنے کے لیے اپنی دولت کا استعمال کیا۔ یوں یہ طبقہ سسٹم میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہونا شروع ہوا جس کی وجہ سے پاکستان کے وائٹل انٹرسٹ متاثر ہونا شروع ہو گئے۔
دہشت گردوں نے حساس تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا کیونکہ سسٹم میں موجود اس کے کل پرزے معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان گروہوں نے مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کے لیے رقوم خرچ کی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ یہ تنظیم اپنے گروہی اور مالی مفادات کے لیے مذہب کی من مانی تعبیر وتشریح کر کے سادہ لوح عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے علماء و مشائخ سے گمراہ کن پروپیگنڈے کی تشہیر اور اس کے تدارک اور اندرونی اختلافات کو دور کرنے پر زور دیا ہے۔ انھوں نے فکری اور تکنیکی علوم کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تفہیم اور کردار سازی کے لیے نوجوانوں کو راغب کرنے میں علماء کرام کے کردار کی نشاندہی بھی کی۔
فورم نے متفقہ طور پر حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی، دستاویزی نظام (پاسپورٹ) کے نفاذ، انسداد اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کے خلاف اقدامات کی حمایت کی۔ فورم نے افغان سرزمین سے پیدا ہونے والی دہشت گردی پر پاکستان کے مؤقف اور تحفظات کی مکمل حمایت کرتے ہوئے افغانستان پر سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیا۔
فورم نے غزہ میں جاری جنگ اور غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا اور انھیں انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے علمائے کرام کی ملاقات نماز جمعہ سے قبل ہوئی۔ تمام علماء کرام نے نماز جمعہ جی ایچ کیو مسجد میں ادا کی۔
پاکستان کے چیلنجز کے کئی رخ ہیں، لہٰذا ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی کثیرالجہتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات میں انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے قانون سازی کرنا، اسلحے کے نجی کاروبار پر مکمل پابندی عائد کرنا، جن علاقوں میں نجی طور پر اسلحہ تیار کیا جاتا ہے، ان علاقوں کا مکمل سروے کر کے نجی شعبے میں اسلحہ سازی بند کرا دی جائے، کسی شہری نے حفاظتی مقاصد کے لیے کوئی ہتھیار رکھنا ہے تو اسے ریاستی اداروں کے تیار کردہ ہتھیار دیا جائے اور اس سے اس کی قیمت بنا کر لائسنس جاری کیا جائے۔
اس طریقے سے اسلحے کی اسمگلنگ کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ اس اسلحے کو فروخت کرنے کے لیے مارکیٹ ہی نہیں ہو گی۔ دوا ساز اداروں کی مانیٹرنگ کا میکنزم جدید ٹیکنالوجی کے زیراثر لایا جائے تاکہ ادویات کے خام مال کی درآمد کی آڑ میں ممنوعہ کیمیکلز وغیرہ نہ منگوائے جا سکیں کیونکہ انتہاپسند اور دہشت گرد گروہ بیالوجیکل اور کیمیکل ویپنز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ رسائی نجی شعبے میں موجود ان کے سہولت کاروں کے تعاون سے ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس معاملے پر بھی کڑی نگرانی اور گہری توجہ کی ضرورت ہے۔
لاء انفورسمنٹ انسٹیٹیوشنز کی اوورہالنگ کی بھی انتہائی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قانونی چیک اینڈ بیلنس قائم کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کا معلوماتی سسٹم انتہائی کمزور ہے، اسپیشل برانچ، سی آئی اے اور تھانہ پولیس آج بھی پرانے طریقہ کار کے تحت چلائے جا رہے ہیں، پولیس ملازمین کی ذہنی اور نفسیاتی تربیت اور علاج انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
کرائمز کی جدید طریقے اور ٹیکنالوجی سے تحقیق وتفتیش کے بغیر موجودہ دور کے مجرموں تک پہنچنا بہت مشکل کام ہو گیا ہے کیونکہ جرائم پیشہ افراد موبائل فونز، انٹرنیٹ اور دیگر سوشل میڈیا ٹولز کو بڑی مہارت سے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پولیس ملازمین کی ٹریننگ اور ٹیکنالوجی کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ سائبر کرائمز کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنے کے لیے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ضروری ہو چکا ہے۔
تھانے کی سطح سے لے کر ٹاپ سطح تک پولیس ایکٹ میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں آپریشنز اور انوسٹی گیشن میں شفافیت لانے کے لیے پولیس ملازموں کے احتساب کا قانون بھی بنایا جانا چاہیے۔ اگر کسی کیس کا تفتیشی افسر غلط تفتیش کرتا ہے یا اس کی تفتیش نامکمل ہے اور وہ نامکمل چالان عدالت میں پیش کر دیتا ہے تو اس کا احتساب بھی ہونا چاہیے اور اس کے لیے محکمہ جاتی کمیٹی کے بجائے عدالتی کارروائی ہونی چاہیے۔ اس طریقے سے شہروں اور دیہات کے اندر جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کی گرفت کرنا ممکن ہو جائے گا۔
انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے ملک کے علمائے کرام، مشائخ اور مدارس کے اساتذہ کا کردار بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے بھی اگر کوئی قانون سازی کی ضرورت ہے، تو وہ بھی ہونی چاہیے کیونکہ ریاست کے اندر مذہب کے نام پر من مانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حوالے سے علمائے کرام، مشائخ اور دینی مدارس کے اساتذہ کو رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان کو اب لاقانونیت کے کلچر سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے تعلیمی نصاب میں بھی غیرروایتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کالجز اور یونیورسٹی سطح کے اساتذہ اور طلبہ میں بھی انتہاپسندی دیکھنے میں آئی ہے۔ کئی واقعے ایسے ہوئے ہیں جس میں طلبہ نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر قتل تک کا جرم کر دیا اور اس کام کے لیے آڑ مذہب کی لی گئی۔
پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اپنی خامیوں پر غور کی ضرورت ہے۔ کوئی ملک دوسرے کسی ملک کے خلاف سازش اسی وقت کرتا ہے جب اس کو حالات سازگار ملتے ہیں۔ سازشی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے سہولت کاری دستیاب ہوتی ہے۔ معاشرہ نظریاتی اور فکری طور پر تقسیم ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے سے نفرت اور اشتعال کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسے ملک غیرملکی قوتوں کی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر یہ باتیں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام اور مشائخ سے جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں ملاقات کے دوران کہی۔ علماء اور مشائخ نے متفقہ طور پر انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی مذمت کی اور ملک میں رواداری، امن اور استحکام لانے کے لیے ریاستی اور سیکیورٹی فورسز کی انتھک کوششوں کے لیے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھنے کا عزم اظہارِ کیا۔
علما ء کرام کا کہنا تھا کہ اسلام امن اور ہم آہنگی کا مذہب ہے۔ بعض عناصر کی طرف سے مذہب کی مسخ شدہ تشریحات صرف ان کے ذاتی مفادات کے لیے ہیں جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آرمی چیف نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ذریعے پھیلائے جانے والے گمراہ کن پروپیگنڈے کے خاتمے کے لیے علماء کرام کے فتویٰ پیغام پاکستان کو سراہا۔
پاک فوج کے سربراہ کی باتیں عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔بلاشبہ ایک مقتدر،آزاد اور خودمختار ریاست کی حدود میں کسی مسلح تنظیمی یا گروہ کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی گروہ مذہب کے نام پر فرقہ وار، نفرت یا اشتعال پھیلا سکتا ہے ۔ پاکستان کا آئین اور قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے اس قسم کے مسلح گروہوں کی بیخ کنی ریاست پاکستان کی بقاء اور سالمیت کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔
ریاست زیادہ دیر تک ان معاملات کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ ریاست میں صرف ایک مسلح ادارہ ہوتاجو اس ریاست کی فوج ہوتی ہے، ریاست کسی مسلح گروہ کو برداشت نہیں کر سکتی۔ پاک فوج کے سربراہ نے دوٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ اس معاملے میں کوئی اگرمگر کی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان عالمی سطح پر جس سفارتی تنہائی کا شکار ہوا، اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں انتہاپسند تنظیموں کا غیرآئینی اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا اور دہشت گردی کو فروغ دینا ہے۔
افغانستان میں سوویت یونین اور امریکا اور نیٹو کے درمیان سردجنگ کا جو آخری راؤنڈ لڑا گیا، اس کی وجہ سے بھی ہمارے خطے میں کلاشنکوف کلچر، منشیات، ڈرگز، جدید اور ممنوعہ اسلحے کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کو فروغ ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلیک اکانومی کا پھیلاؤ ہوا جس کا حجم اب خطرے کی لائن سے اوپر چلا گیا ہے۔
بلیک اکانومی سے وابستہ طبقہ بے پناہ دولت مند ہوا اور اسی رفتار سے اس کے سیاسی اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہوا۔ اس طبقے نے ریاستی سسٹم کو کرپٹ کرنے کے لیے اپنی دولت کا استعمال کیا۔ یوں یہ طبقہ سسٹم میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہونا شروع ہوا جس کی وجہ سے پاکستان کے وائٹل انٹرسٹ متاثر ہونا شروع ہو گئے۔
دہشت گردوں نے حساس تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا کیونکہ سسٹم میں موجود اس کے کل پرزے معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان گروہوں نے مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کے لیے رقوم خرچ کی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ یہ تنظیم اپنے گروہی اور مالی مفادات کے لیے مذہب کی من مانی تعبیر وتشریح کر کے سادہ لوح عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے علماء و مشائخ سے گمراہ کن پروپیگنڈے کی تشہیر اور اس کے تدارک اور اندرونی اختلافات کو دور کرنے پر زور دیا ہے۔ انھوں نے فکری اور تکنیکی علوم کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تفہیم اور کردار سازی کے لیے نوجوانوں کو راغب کرنے میں علماء کرام کے کردار کی نشاندہی بھی کی۔
فورم نے متفقہ طور پر حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی، دستاویزی نظام (پاسپورٹ) کے نفاذ، انسداد اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کے خلاف اقدامات کی حمایت کی۔ فورم نے افغان سرزمین سے پیدا ہونے والی دہشت گردی پر پاکستان کے مؤقف اور تحفظات کی مکمل حمایت کرتے ہوئے افغانستان پر سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیا۔
فورم نے غزہ میں جاری جنگ اور غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا اور انھیں انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے علمائے کرام کی ملاقات نماز جمعہ سے قبل ہوئی۔ تمام علماء کرام نے نماز جمعہ جی ایچ کیو مسجد میں ادا کی۔
پاکستان کے چیلنجز کے کئی رخ ہیں، لہٰذا ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی کثیرالجہتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات میں انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے قانون سازی کرنا، اسلحے کے نجی کاروبار پر مکمل پابندی عائد کرنا، جن علاقوں میں نجی طور پر اسلحہ تیار کیا جاتا ہے، ان علاقوں کا مکمل سروے کر کے نجی شعبے میں اسلحہ سازی بند کرا دی جائے، کسی شہری نے حفاظتی مقاصد کے لیے کوئی ہتھیار رکھنا ہے تو اسے ریاستی اداروں کے تیار کردہ ہتھیار دیا جائے اور اس سے اس کی قیمت بنا کر لائسنس جاری کیا جائے۔
اس طریقے سے اسلحے کی اسمگلنگ کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ اس اسلحے کو فروخت کرنے کے لیے مارکیٹ ہی نہیں ہو گی۔ دوا ساز اداروں کی مانیٹرنگ کا میکنزم جدید ٹیکنالوجی کے زیراثر لایا جائے تاکہ ادویات کے خام مال کی درآمد کی آڑ میں ممنوعہ کیمیکلز وغیرہ نہ منگوائے جا سکیں کیونکہ انتہاپسند اور دہشت گرد گروہ بیالوجیکل اور کیمیکل ویپنز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ رسائی نجی شعبے میں موجود ان کے سہولت کاروں کے تعاون سے ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس معاملے پر بھی کڑی نگرانی اور گہری توجہ کی ضرورت ہے۔
لاء انفورسمنٹ انسٹیٹیوشنز کی اوورہالنگ کی بھی انتہائی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قانونی چیک اینڈ بیلنس قائم کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کا معلوماتی سسٹم انتہائی کمزور ہے، اسپیشل برانچ، سی آئی اے اور تھانہ پولیس آج بھی پرانے طریقہ کار کے تحت چلائے جا رہے ہیں، پولیس ملازمین کی ذہنی اور نفسیاتی تربیت اور علاج انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
کرائمز کی جدید طریقے اور ٹیکنالوجی سے تحقیق وتفتیش کے بغیر موجودہ دور کے مجرموں تک پہنچنا بہت مشکل کام ہو گیا ہے کیونکہ جرائم پیشہ افراد موبائل فونز، انٹرنیٹ اور دیگر سوشل میڈیا ٹولز کو بڑی مہارت سے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پولیس ملازمین کی ٹریننگ اور ٹیکنالوجی کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ سائبر کرائمز کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنے کے لیے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ضروری ہو چکا ہے۔
تھانے کی سطح سے لے کر ٹاپ سطح تک پولیس ایکٹ میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں آپریشنز اور انوسٹی گیشن میں شفافیت لانے کے لیے پولیس ملازموں کے احتساب کا قانون بھی بنایا جانا چاہیے۔ اگر کسی کیس کا تفتیشی افسر غلط تفتیش کرتا ہے یا اس کی تفتیش نامکمل ہے اور وہ نامکمل چالان عدالت میں پیش کر دیتا ہے تو اس کا احتساب بھی ہونا چاہیے اور اس کے لیے محکمہ جاتی کمیٹی کے بجائے عدالتی کارروائی ہونی چاہیے۔ اس طریقے سے شہروں اور دیہات کے اندر جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کی گرفت کرنا ممکن ہو جائے گا۔
انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے ملک کے علمائے کرام، مشائخ اور مدارس کے اساتذہ کا کردار بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے بھی اگر کوئی قانون سازی کی ضرورت ہے، تو وہ بھی ہونی چاہیے کیونکہ ریاست کے اندر مذہب کے نام پر من مانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حوالے سے علمائے کرام، مشائخ اور دینی مدارس کے اساتذہ کو رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان کو اب لاقانونیت کے کلچر سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے تعلیمی نصاب میں بھی غیرروایتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کالجز اور یونیورسٹی سطح کے اساتذہ اور طلبہ میں بھی انتہاپسندی دیکھنے میں آئی ہے۔ کئی واقعے ایسے ہوئے ہیں جس میں طلبہ نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر قتل تک کا جرم کر دیا اور اس کام کے لیے آڑ مذہب کی لی گئی۔
پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اپنی خامیوں پر غور کی ضرورت ہے۔ کوئی ملک دوسرے کسی ملک کے خلاف سازش اسی وقت کرتا ہے جب اس کو حالات سازگار ملتے ہیں۔ سازشی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے سہولت کاری دستیاب ہوتی ہے۔ معاشرہ نظریاتی اور فکری طور پر تقسیم ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے سے نفرت اور اشتعال کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسے ملک غیرملکی قوتوں کی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔