غزہ کے آنسو
غزہ کے یتیم بچے، بیوائیں، بزرگ اور زخمی سب خون کے آنسو رو رہے ہیں
جنگ عظیم اول کے بعد برطانیہ اور فرانس نے شام، لبنان، فلسطین، عراق اور اردن پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ مصطفی کمال، جو اتا ترک کے نام سے مشہور ہے، اس نے اپنی حکومت و طاقت سے ترکی کی آزاد ریاست قائم کر لی۔
1947 میں جب برطانیہ نے ہندوستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو برصغیر کو پاکستان اور انڈیا میں تقسیم کر دیا گیا جب کہ 1948 برطانیہ اور امریکا کی مدد، تائید اور حمایت سے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کی سیکولر ریاست قائم کر لی ہے۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق عربوں سے فلسطین کا چھینا جانا مغربی طاقتوں کے ہاتھوں اسلامی دنیا کی تذلیل کی ایک علامت بن گیا اور بدقسمتی یہ کہ مسلم دنیا کے اکابرین کا ضمیر لاکھوں فلسطینیوں کی مستقل بے وطنی اور اسرائیل کے ہاتھوں معصوم و نہتے فلسطینی بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں، عورتوں اور بزرگوں کے قتل و خون پر ملامت کرتا اور اسرائیل کے خلاف کوئی فیصلہ کن عملی اقدام اٹھاتا نظر نہیں آتا۔
57 اسلامی ممالک کی تنظیم اور عرب لیگ کے ممالک جو دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، فلسطینیوں اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق خود ارادیت دلانے میں آج تک ناکام چلے آ رہے ہیں۔
فلسطین پر گزشتہ ماہ اکتوبر کی 7 تاریخ سے اسرائیلی حملوں کے باعث آگ و خون کا الاؤ روشن ہے۔ گیارہ ہزار سے زائد فلسطینی شہری جن میں چار ہزار سے زائد معصوم بچے بھی شامل ہیں، اب تک شہید ہو چکے ہیں، غزہ میں قیامت صغریٰ برپا ہے، عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، اسپتال زخمیوں اور لاشوں سے بھرے پڑے ہیں، فضا میں بارودکی بو پھیلتی جا رہی ہے، بے گناہ فلسطینیوں کی المدد، المدد کی چیخوں سے آسمان لرز رہا ہے، لیکن مسلم حکمرانوں کے دل میں اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن عملی اقدام اٹھانے کی جرأت ہی نہیں ہے۔
مسلم دنیا اپنے اپنے مفادات کی غلام بنی ہوئی ہے۔ اس کا تازہ ثبوت سعودی عرب میں ہونے والا عرب لیگ اور او آئی سی کا مشترکہ اجلاس ہے جو اسرائیلی بربریت کے خلاف کسی حتمی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا۔
او آئی سی کے مذکورہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق مسلم حکمرانوں نے اسرائیل کے اس حق دفاع کو صریحاً مسترد کردیا کہ وہ تو صرف اپنے دفاع میں غزہ پر حملے کر رہا ہے۔
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کرے، غزہ کا محاصرہ ختم کرے، امدادی کارروائیوں کی اجازت دے اور کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیلی بربریت روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدام اٹھائے۔
او آئی سی اور عرب لیگ کے اس غیر معمولی اہم اجلاس سے میزبان ملک سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح طور پرکہا کہ موجودہ صورت حال کا ذمے دار اسرائیل ہے انھوں نے سلامتی کونسل کو غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکامی کا بھی ذمے دار ٹھہرایا اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت روکنے اور غزہ کی پٹی کو ریاست فلسطین کا لازمی جزو قرار دیتے ہوئے مقدس مقامات کی بے حرمتی اور قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ مگر اب وزیر اعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ نے عالمی برادری سے غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کے محاصرے کے خاتمے اور متاثرہ لوگوں تک امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
مذکورہ اجلاس سے ایران، ترکیہ، مصر کے صدور اور قطر کے امیر سمیت سب ہی شرکا نے اسرائیلی جارحیت اور بربریت کی مذمت کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مطالبات کرتے ہوئے عالمی برادری پر بحران کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاہم اسرائیل کے خلاف عملی اقدام اٹھانے سے گریزکیا اور یوں یہ اجلاس بھی اپنی سابقہ روایات کے مطابق نشستند وگفتند و برخاستند کی فارسی ضرب المثل سے آگے نہ بڑھ سکا۔
اگست 2008 میں بیروت میں ہونے والی عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس میں لبنان کے وزیر اعظم پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے اور اپیل کی تھی کہ ان کے ملک کو اسرائیلی بربریت سے بچایا جائے۔ ہم اپنے موقف کی بنیاد بیواؤں، شہید بچوں، زخمیوں اور بے گھر افراد کے دکھوں پر رکھ رہے ہیں، آج غزہ میں بھی یہی صورت حال ہے۔
غزہ کے یتیم بچے، بیوائیں، بزرگ اور زخمی سب خون کے آنسو رو رہے ہیں اور عالم اسلام سے فریاد کر رہے ہیں کہ انھیں اسرائیلی درندگی اور سفاکیت سے بچایا جائے۔ افسوس! کہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے مسلم امہ کی بے بسی دیکھ کر یہ سوال تو بنتا ہے کہ غزہ کے آنسو کون پونچھے گا؟
1947 میں جب برطانیہ نے ہندوستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو برصغیر کو پاکستان اور انڈیا میں تقسیم کر دیا گیا جب کہ 1948 برطانیہ اور امریکا کی مدد، تائید اور حمایت سے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کی سیکولر ریاست قائم کر لی ہے۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق عربوں سے فلسطین کا چھینا جانا مغربی طاقتوں کے ہاتھوں اسلامی دنیا کی تذلیل کی ایک علامت بن گیا اور بدقسمتی یہ کہ مسلم دنیا کے اکابرین کا ضمیر لاکھوں فلسطینیوں کی مستقل بے وطنی اور اسرائیل کے ہاتھوں معصوم و نہتے فلسطینی بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں، عورتوں اور بزرگوں کے قتل و خون پر ملامت کرتا اور اسرائیل کے خلاف کوئی فیصلہ کن عملی اقدام اٹھاتا نظر نہیں آتا۔
57 اسلامی ممالک کی تنظیم اور عرب لیگ کے ممالک جو دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، فلسطینیوں اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق خود ارادیت دلانے میں آج تک ناکام چلے آ رہے ہیں۔
فلسطین پر گزشتہ ماہ اکتوبر کی 7 تاریخ سے اسرائیلی حملوں کے باعث آگ و خون کا الاؤ روشن ہے۔ گیارہ ہزار سے زائد فلسطینی شہری جن میں چار ہزار سے زائد معصوم بچے بھی شامل ہیں، اب تک شہید ہو چکے ہیں، غزہ میں قیامت صغریٰ برپا ہے، عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، اسپتال زخمیوں اور لاشوں سے بھرے پڑے ہیں، فضا میں بارودکی بو پھیلتی جا رہی ہے، بے گناہ فلسطینیوں کی المدد، المدد کی چیخوں سے آسمان لرز رہا ہے، لیکن مسلم حکمرانوں کے دل میں اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن عملی اقدام اٹھانے کی جرأت ہی نہیں ہے۔
مسلم دنیا اپنے اپنے مفادات کی غلام بنی ہوئی ہے۔ اس کا تازہ ثبوت سعودی عرب میں ہونے والا عرب لیگ اور او آئی سی کا مشترکہ اجلاس ہے جو اسرائیلی بربریت کے خلاف کسی حتمی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا۔
او آئی سی کے مذکورہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق مسلم حکمرانوں نے اسرائیل کے اس حق دفاع کو صریحاً مسترد کردیا کہ وہ تو صرف اپنے دفاع میں غزہ پر حملے کر رہا ہے۔
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کرے، غزہ کا محاصرہ ختم کرے، امدادی کارروائیوں کی اجازت دے اور کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیلی بربریت روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدام اٹھائے۔
او آئی سی اور عرب لیگ کے اس غیر معمولی اہم اجلاس سے میزبان ملک سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح طور پرکہا کہ موجودہ صورت حال کا ذمے دار اسرائیل ہے انھوں نے سلامتی کونسل کو غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکامی کا بھی ذمے دار ٹھہرایا اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت روکنے اور غزہ کی پٹی کو ریاست فلسطین کا لازمی جزو قرار دیتے ہوئے مقدس مقامات کی بے حرمتی اور قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ مگر اب وزیر اعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ نے عالمی برادری سے غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کے محاصرے کے خاتمے اور متاثرہ لوگوں تک امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
مذکورہ اجلاس سے ایران، ترکیہ، مصر کے صدور اور قطر کے امیر سمیت سب ہی شرکا نے اسرائیلی جارحیت اور بربریت کی مذمت کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مطالبات کرتے ہوئے عالمی برادری پر بحران کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاہم اسرائیل کے خلاف عملی اقدام اٹھانے سے گریزکیا اور یوں یہ اجلاس بھی اپنی سابقہ روایات کے مطابق نشستند وگفتند و برخاستند کی فارسی ضرب المثل سے آگے نہ بڑھ سکا۔
اگست 2008 میں بیروت میں ہونے والی عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس میں لبنان کے وزیر اعظم پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے اور اپیل کی تھی کہ ان کے ملک کو اسرائیلی بربریت سے بچایا جائے۔ ہم اپنے موقف کی بنیاد بیواؤں، شہید بچوں، زخمیوں اور بے گھر افراد کے دکھوں پر رکھ رہے ہیں، آج غزہ میں بھی یہی صورت حال ہے۔
غزہ کے یتیم بچے، بیوائیں، بزرگ اور زخمی سب خون کے آنسو رو رہے ہیں اور عالم اسلام سے فریاد کر رہے ہیں کہ انھیں اسرائیلی درندگی اور سفاکیت سے بچایا جائے۔ افسوس! کہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے مسلم امہ کی بے بسی دیکھ کر یہ سوال تو بنتا ہے کہ غزہ کے آنسو کون پونچھے گا؟