یہ جنگ نہیں نسل کشی ہے

اس وقت لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، تقریباً 12 ہزار اب تک شہید ہیں، یہ جنگ نہیں ہے

اس وقت لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، تقریباً 12 ہزار اب تک شہید ہیں، یہ جنگ نہیں ہے (فوٹو: فائل)

غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ جرائم و مظالم ڈھانے کا سلسلہ جاری ہے، الشفا اسپتال کو زبردستی خالی کرایا گیا ہے۔

غزہ کے علاقے جبالیہ میں قائم اقوام متحدہ کے اسکول ال فخورہ میں قائم پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فورسز کی بمباری کے نتیجے میں 80 افراد شہید ہوگئے جب کہ مزید ایک رہائشی عمارت پر حملے کے نتیجے میں چھبیس سے زائد افراد شہید ہوگئے ہیں۔

درحقیقت اسپتالوں پر بمباری کرنا اور انھیں زبردستی خالی کروانا جنگی جرم ہے، جو اسرائیل کر رہا ہے اور اقوام عالم خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

اس وقت لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، تقریباً 12 ہزار اب تک شہید ہیں، یہ جنگ نہیں ہے، کیونکہ جنگ تو دو ہم پلہ فوجی طاقت رکھنے والے ملکوں کے درمیان لڑی جاتی ہے، یہ اسرائیلی جارحیت ہے، جس کے ذریعے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جا رہی ہے۔

ایک اخباری خبر کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں اور مظلوم فلسطینی عوام کے قتل عام کے آغاز کے چالیس دن بعد، پندرہ نومبر کو غزہ میں جنگ بندی کے بجائے، چند دنوں کے لیے جنگ میں وقفہ کی قرارداد پاس کی۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ قرار داد یورپی ملک مالٹا نے پیش کی جوکسی ویٹو یا مخالف ووٹ کے بغیر سلامتی کونسل کے 15 اراکین میں سے 12 ووٹوں سے پاس ہوئی۔ سلامتی کونسل کے تین مستقل اراکین، امریکا، برطانیہ اور روس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

دوسری جانب واشنگٹن اور نیویارک میں ہزاروں امریکیوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اسرائیلی حکومت کی حمایت کیے جانے کے خلاف مظاہرہ کر کے ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں امریکی عوام نے وائٹ ہاؤس کے سامنے اجتماع کر کے صیہونی حکومت کے جرائم اور امریکی حکومت کی جانب سے اس کی حمایت کی مذمت کی۔

مظاہرین نے مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت میں نعرے لگائے اور غزہ میں مکمل جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اسی کے ساتھ نیو یارک میں بھی '' فلسطین کے لیے کاروبار بند کرو'' کے زیر عنوان ایک کمپئین میں شامل ہوکر امریکی عوام نے اپنی دکانیں اور کاروبار بندکر دیے اور سڑکوں پر نکل کر صیہونی حکومت کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہروں میں شرکت کی۔

اقوام متحدہ نے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا ہے، جب کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد صرف فلسطینی اتھارٹی ہی غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھال سکتی ہے جب کہ دوسری جانب اسرائیل غزہ کی پٹی پر قابض ہونا چاہتا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ پر لگی پابندیوں سے پہلے ہی سے وہاں غریبی، بے روزگاری اور مایوسی کا ماحول عام تھا۔ پچھلی چار بارکی اسرائیلی جارحیت میں غزہ میں اسرائیلی حملوں کے باعث جو تباہی مچی تھی، اور جس طرح معیشت متاثر ہوئی تھی اس کے تناسب میں اب کی پانچویں جارحیت میں حماس کے زیر اثر فلسطینی علاقہ غزہ میں جان و مال کا نقصان کئی گنا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

غزہ میں بائیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی آبادی میں بچوں اور بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے۔ غزہ میں پھیلی غربت اور انتظامی ڈھانچے کی قلت کے باعث ایک رپورٹ میں یہ مایوس کن حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس گنجان اور چاروں طرف سے پابندیوں کے شکار خطے میں دس ہزار کی آبادی کے لیے اسپتالوں میں صرف تیرہ بیڈز ہی دستیاب ہیں، یعنی بیماریوں اور جنگ سے متاثرہ فلسطینیوں کے علاج کے لیے سہولیات بالکل ناکافی ہیں۔

غزہ کے اسپتالوں میں سرجری کے لیے آلات کی قلت کے باعث بغیر بے ہوشی کیے مریضوں کے آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ سلائی مشین کی سوئیاں(needles) اور باورچی خانے میں استعمال ہونے والا سرکہ زخمیوں کے علاج کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

جنگ بندی کے آثار فی الحال کم ہی نظر آرہے ہیں، اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی جانب سے جاری جارحیت کے خاتمے کی اپیل ان سنی رہ گئی ہے، گویا اس ادارے کی وقعت پر ایک بڑا سوال ہے، چند دن قبل غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے میں پانچ سو سے زائد زیر علاج مریض اور پناہ گزین فلسطینیوں کی ہلاکت پر دُنیا کے امن پسند ممالک اور عوام نے اسرائیل کے جارحانہ اور غیر انسانی اقدام کی بھرپور مذمت کی ہے، مگر امریکا جو دُنیا میں امن عالم کا علمبردار ہونے کا سوانگ بھرتا ہے اور خود کو حقوق انسانی کے تحفظ کا ٹھیکہ دار بتاتا رہا ہے، اس ملک کا کردار ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا ہے۔


امریکا کی اسرائیل کے لیے حمایت نے موجودہ صورتحال کو سامراجیت کا نیا رنگ دیا ہے۔ اسرائیل غزہ کے اسپتالوں، مساجد، مکانوں، گرجا گھروں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔

امریکا کی ایران اور روس اور دیگر ممالک کو اس جنگ سے دور رہنے کی تلقین پر بھی کئی سوال اٹھ رہے ہیں، گویا امریکا نہتے فلسطینیوں کی غزہ میں ہر طرح کی بربادی کا خواہاں ہے۔ مشرق وسطیٰ میں موجودہ صورتحال کے باعث حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں، اسرائیل اپنے حامیوں کی مستقل حمایت کے تکبر میں ہر دن نئے نئے دعوے اور دھمکیاں دیتا آرہا ہے۔

ایران کی جانب سے حزب اللہ اور حماس کی حمایت سے باز رہنے کی آواز دیتے ہوئے اسرائیل نے گویا دُنیا کے ممالک میں اپنی غیر اختلافی پوزیشن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

ایران اور لبنان کو جنگ میں کسی بھی طرح کی شمولیت کے سنگین نتائج کی دھمکی دے کر اسرائیل نے غزہ کی تباہی کا اعادہ کرتے ہوئے جنگ کے دورانیہ کو دراز رکھنے کی سمت اپنے جارحانہ موقف کو واضح کیا ہے۔

فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے امریکا کے ساتھ اسرائیل کے جنگی اقدامات کی حمایت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیارات کو بھی بے اثر کرکے رکھ دیا ہے۔بانیان پاکستان نے مسئلہ فلسطین کی بھرپور حمایت کی تھی۔ 1931 میں علامہ اقبال نے انگلستان کا سفر کیا تو وہاں اقبال نے جہاں بھی موقع ملا فلسطین کی حمایت کی اور انگریزوں سے مطالبہ کیا کہ '' معاہدہ بالفور'' کو منسوخ کردینا چاہیے۔

علامہ اقبال نے 1931 میں معتمر عالم اسلامی ( اسلامی کانفرنس) میں شرکت کی غرض سے فلسطین کا دورہ کیا، کانفرنس کے داعی امین الحسینی تھے۔

کانفرنس میں 27 ممالک کی منتخب شخصیات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے متعدد مقاصد میں ایک اہم مقصد مسلمانوں کو فلسطین پر یہود کے ناجائز قبضے کی سنگینی کا احساس دلانا اور صہیونی خطرے کے خلاف عالم اسلام کی تدابیر پر غور کرنا تھا۔ فلسطین میں قیام کے دوران اقبال نے ایک موثر تقریر کی جس میں عالم اسلام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ '' اسلام کو الحاد مادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔

میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام دشمنوں سے اندیشہ نہیں بلکہ خود مسلمانوں سے خدشہ ہے۔''ایک طرف جہاں دُنیا میں حماس اور اسرائیل کی جاری جنگ کے نتیجے میں لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔

ایک اسرائیل کی جارحیت کے طرفدار، دوسرے مظلوم فلسطینیوں کے حامی، کئی ممالک میں فلسطینیوں کی حمایت اور جنگ بندی کی خاطر مظاہرے ہو رہے ہیں، مگر ہندوستان میں اس کی اجازت پولیس اور حکام کی جانب سے نہیں دی جا رہی ہے، جب کہ ہندوستان، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن اور دو خود مختار مملکتوں کے قیام کا حامی رہا ہے، بلکہ فلسطینی کاز کے حوالے سے ہندوستان فلسطین کا حامی رہا ہے۔

7اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے فوری بعد وزیر اعظم مودی نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کر دیا، مگر بعد میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہندوستان کا دو رُخی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے جنگ بندی اور فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا، مگر باوجود اس کے فلسطینی کاز کے لیے وطن عزیز میں کسی بھی نوعیت کے مظاہرے اور حمایت کے لیے پابندیاں جاری ہیں، جو ہر لحاظ سے غیر جمہوری اقدام ہے۔

غزہ کے متاثرین کے لیے طبی اور دیگر ضروری آباد کاری کی اشیاء کی فراہمی کے لیے انسانیت نواز امداد کا سلسلہ اب شروع ہوچکا ہے۔ ایندھن کی قلت نے بالخصوص اسپتالوں میں جنریٹرز کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس لیے ایندھن کی دیگر ممالک سے غزہ کے لیے امداد پر اب بھی اسرائیل بضد ہے کہ یہ امداد فراہم نہ کی جائے۔

اسلحہ، بربریت اور بمباری پر لگام کسنے، اسرائیل اور اس کے حریف حماس کو گفتگو پر آمادہ کرنے کے لیے عرب اور دیگر امن کے خواہاں ممالک کے سربراہوں کی ثالثی اور مداخلت کارگر ہوسکتی ہے، ورنہ یوکرین میں جاری جنگ جو تقریباً بیس مہینوں سے تباہی کی نذر ہو رہی ہے۔

اسی طرح ریزہ ریزہ بکھرے اور ٹوٹے ہوئے غزہ کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے، بے قصور باشندوں کو انتقام کا نتیجہ بنانے سے بچانے کے لیے عملی طور پر امن کے خواہاں ممالک کی مداخلت ناگزیر ہے۔
Load Next Story