بچوں کے نام پر mrs chatterjee vs norway
mrs chatterjee vs norway
دو عورتیں شیرخوار بچے اور پانچ سالہ بچی کو گود میں اٹھاکر کار میں بیٹھیں اور کار فراٹے بھرنے لگی، جس کے پیچھے ان بچوں کی ماں روتی چیختی دوڑی اور دوڑتے دوڑتے گرپڑی۔
اس سال ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ''مسز چیٹرجی ورسز ناروے'' کا یہ پہلا منظر دیکھ کر آپ کو لگے کا کہ یہ اغوا کا معاملہ ہے، لیکن کچھ ہی دیر میں آپ کی غلط فہمی دور ہوجائے گی، جب کُھلے گا کہ دراصل یہ ''قانونی اغوا'' کی واردات ہے، جس کا مقصد کم سِن اولاد کو ماں باپ سے ''تحفظ'' فراہم کرنا ہے!
Mrs. Chatterjee vs Norway کی کہانی ناروے میں قیام پذیر ایک بھارتی خاندان پر بیتنے والے دردناک لمحوں کا قصہ ہے۔
2007 میں بھارت سے ناروے منتقل ہونے والے انوروپ بھٹاچاریہ (Anurup Bhattacharya) اور سگاریکا چکرورتی (Sagarika Chakraborty ) کے دونوں بچوں بیٹے ابھی گیان اور بیٹی ایشوریا کو 2011 میں ناروے کے بچوں کے تحفظ کے لیے قائم ادارے ''Barnevernet'' (تحفظِ اطفال) نے جبراً اپنی تحویل میں لے لیا۔ انوروپ اور سگاریکا کا قصور یہ قرار پایا کہ Barnevernet کی نظر میں وہ اپنے بچوں کی پرورش ڈھنگ سے نہیں کر رہے تھے۔
ہوا یوں کہ سگاریکا نے کنڈرگارٹن اسکول میں پڑھتے اپنے بیٹے کی استانیوں کو توجہ دلائی کہ ان کا بچہ لوگوں سے آنکھیں نہیں ملاتا اور غصے کا بہت تیز ہے۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ سادہ سا اظہارتشویش ہوتے ہی ان پر سُرخ دائرہ لگادیا گیا ہے۔
اس کے بعد Barnevernet کے نمائندگان نے ان کے گھر آنا شروع کردیا۔ کہا یہ گیا کہ دورے اور گھر میں طویل قیام بچوں کے ماں باپ کو اضافی معاونت فراہم کرنے کے لیے ہے، لیکن کسی بھی قسم کی مدد یا راہ نمائی کے بجائے یہ نمائندہ خواتین کرسیوں پر بیٹھی اردگرد کا جائزہ لیتی اور کچھ تحریر کرتی رہتیں۔
ادارے کی جانب سے ان کے گھر بچوں کی نگہ داشت سے متعلق جاننے کے لیے تواتر سے آنی والی خاتون نمائندوں کی جانب سے اس جوڑے پر الزامات عاید کیے گئے تھے کہ وہ ''بچوں کو اپنے ساتھ ہی سُلاتے ہیں، ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں (جسے نارویجین حکام بہ زور کھلانا تصور کرتے ہیں) ماں نے بیٹے سے دھمکی آمیز انداز اپنایا (سگاریکا نے ابھی گیان کو اس وقت تھپڑ کے لیے ہاتھ اٹھا کر صرف ڈرایا تھا جب وہ باورچی خانے میں کھانا فرش پر پھینک رہا تھا) اور اس نے ایشوریا کو اس کا ڈائپر بدلتے ہوئے تنہا چھوڑ دیا تھا۔''
یہیں سے اپنے بچوں کے حصول کے لیے ایک ماں کی وہ جنگ شروع ہوئی جس کی بازگشت بھارتی میڈیا میں گونجنے لگی۔ سگاریکا ایک سال سے زیادہ عرصے تک تحفظ اطفال کے نارویجین ادارے کے خلاف قانونی لڑائی لڑتی رہیں۔ اس دوران انھیں نارویجین حکام کی جانب سے اس الزام کا بھی سامنا کرنا پڑا کہ وہ بچوں کی پرورش کے لیے ذہنی طور پر نااہل ہیں۔ اپنے بیسویں سال میں زندگی کرتی سگاریکا اس وقت
ناتجربہ کاری اور ممتا کے باعث جس جذباتی کیفیت کا شکار تھیں اسے نارویجین حکام نے ان کے خلاف استعمال کیا۔ بالآخر بھارتی رائے عامہ کے جذبات ناروے پر دہلی کے سفارتی دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اس وقت کے بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا نے اوسلو میں اپنے نارویجین ہم منصب سے ملاقات اور اس معاملے پر گفتگو کی۔ طویل مذاکرات کے بعد یہ طے پایا کہ بچوں کو ان کے چچا ارونا بھاس بھٹاچاریا کے حوالے کرتے ہوئے بھارت بھیج دیا جائے۔ اپریل 2012 میں اس فیصلے پر عمل ہونے کے بعد ناروے کی حد تک یہ معاملہ اختتام کو پہنچا، لیکن سگاریکا کی جنگ یہیں ختم نہیں ہوئی، بھارت میں بچوں کے حصول کے لیے انھیں ایک اور عدالتی معرکہ سر کرنا پڑا جس کے بعد وہ اپنے بچے حاصل کرنے میں کام یاب ہوئیں۔ اور اس سب میں سگاریکا کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہوگئی اور یہ گھر ٹوٹ گیا۔
گذشتہ برس سگاریکا کی خودنوشت "The Journey Of A Mother"شایع ہوئی، جس پر ''مسز چیٹرجی ورس ناروے'' کا اسکرپٹ استوار ہے۔ اس فلم میں رانی مکھرجی نے سگاریکا کا کردار ''دیبیکا' کے نام سے نبھایا اور اپنے اداکردہ شان دار کرداروں میں ایک اور اضافہ کردیا ہے۔
اس فلم نے ''چلڈرن فرسٹ'' کا دعویٰ کرنے والے ناروے کے بچوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے انتظام پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
یوں تو ایک عرصے سے اس نظام کا بے رحمانہ طرزعمل اور اس سے جُڑے واقعات زیربحث رہے ہیں، لیکن بولی وڈ کی اس موضوع پر ایک حقیقی واقعے کی بنیاد پر بنائی جانے والی فلم نے ناروے میں بچوں کی حفاظت کے لیے قائم ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کو تازہ کردیا ہے اور اس ادارے کی کارروائیاں، اختیارات اور ضوابط دنیا میں پوری شدت سے زیربحث آگئے ہیں۔
یہ فلم دیکھتے ہوئے بچوں کے تحویل میں لینے پر مُصر، اس ادارے کی ڈھٹائی اور ظالمانہ انداز کا راز اس وقت فاش ہوتا ہے جب ادارے کا وکیل ''دیبیکا'' کے دیور کو بچے حاصل کرنے کے لیے کہتے ہوئے بھاری رقم کا لالچ دیتا ہے، جس میں سے آدھی رقم ادارے کے اس معاملے سے متعلق حکام کو دینا ہوگی۔
سگاریکا پہلی ماں نہیں جس نے بچوں کی جبری تحویل کا درد سہا۔ ایسی کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ کچھ بچے جنھیں Barnevernet نے والدین سے چھین کر فوسٹرہومز بھیج دیا، بڑے ہوکر اس ادارے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ Tonje Omdahl بھی ان میں سے ایک ہے۔ اسے چھے ماہ کے لیے فوسٹر ہوم بھیجا گیا تھا۔
Omdahl کو تن تنہا پالنے والے اس کے والد پر اپنی بیٹی سے گالی گفتار اور اسے نظرانداز کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ وہ کہتی ہے ''یہ سچ نہیں تھا۔'' Omdahl بتاتی ہے کہ اس کے پرائمری اسکول میں اسے مسلسل تنگ کیا (bully) جارہا تھا، جس کے باعث وہ اسکول جانے کا سوچ کر ہی وہ خوف زدہ ہوجاتی تھی۔
اُس کے والد نے اس معاملے کی شکایت کی، جس کا ازالہ تو ایک طرف، اسکول کی انتظامیہ نے اُلٹا تحفظ اطفال کے ادارے سے رجوع کرکے کہا کہ Omdahl نامانوس طرزعمل کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس کے گھر میں کچھ گڑبڑ ہے۔ اپنی جائے نگہ داشت میں بیتے دنوں کا تجربہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ اس کی وجہ سے وہ زندگی بھر کے لیے صدمہ زدہ (traumatised) ہوگئی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ نارویجین اخبارات شاذونادر ہی ان معاملات پر کچھ لکھتے ہیں، اور اگر وہ ایسا کریں بھی تو حکامِ بالا اس سلسلے میں کچھ زیادہ نہیں کرتے۔
ناروے سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل Maurius Reikeras کے مطابق ایک تحقیق بتاتی ہے کہ بچوں کو ماں باپ سے چھین کر غیروں کی نگہ داشت میں دینے کی وجہ منشیات اور شراب کا استعمال یا ان کے گھروں کا زہرآلود ماحول نہیں، بلکہ Barnevernetکی جانب سے ''والدین کا پرورش کی صلاحیت سے نابلد ہونا'' اپنی مداخلت کا سرفہرست جواز بتایا جاتا ہے۔ تاہم نہ ہی یہ ادارہ اور نہ اس کے اقدامات کے حق میں آنے والے فیصلے وضاحت کرتے ہیں کہ آخر یہ پرورش کے اصول یا طریقے ہیں کیا؟
نارویجین قوانین کی رو سےBarnevernet کو کُھلی چھوٹ حاصل ہے اور وہ کسی عدالت کی اجازت کے بغیر بچوں کو اپنے تحویل میں لے سکتی ہے۔
خاص کر قانون ''ایمرجینسی کیئر آرڈر'' تحفظ اطفال کے ادارے کو یہ اختیار دیتا ہے۔ انسانی حقوق کے راہ نما عرصے سے ناروے میں تحفظ اطفال کے ادارے میں اصطلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر ان کی آواز اب تک صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ہے۔
تارکین وطن کے خاندانBarnevernet کا خاص ہدف بنتے رہے ہیں، جو پورے ناروے کے 400 بلدیاتی علاقوں میں سرگرم عمل ہے۔ بچوں، نوجوانوں اور خاندانی امور کے لیے قائم ناروے کے سرکاری ادارے، جس کا مخفف Bufdir ہے، کے مطابق 2021 تک 9 ہزار 938 بچے والدین سے لے کر افراد اور اداروں کی کفالت میں دیے گئے، جن میں سے 3 ہزار 561 یعنی 37 فی صد تارکین وطن کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ واضح رہے کہ تارکین وطن ناروے کی آبادی کا صرف 16فی صد ہیں۔
Inez Arnesenآٹھ بچوں کی ماں اور ناروے کے علاقے Tonsberg کی مقامی سیاست داں ہیں۔ ان کے چار بچوں کو 2013 میں سرکاری تحویل میں لیا گیا تھا، جن میں سے دو پانچ سال بعد 2018 میں گھر لوٹے۔ انیز پر الزام تھا کہ وہ بچوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالتی ہیں، جو ناروے میں قانوناً ممنوع ہے۔ اس الزام کے تحت انھیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اپنے اوپر لگنے والے الزام کے بارے میں انیز کہتی ہیں کہ یہ ان کا فرض تھا کہ ایک بچے سے دوسرے کو محفوظ رکھیں، جو اپنے بھائی کو پیٹنے سے باز نہیں آرہا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے پٹنے والے بچے کو بچانے کے لیے پیٹنے والے بچے کے تھپڑ جڑ دیا تھا۔
آخرکار 2016 میں ایک فوج داری عدالت کی جانب سے انھیں اس الزام سے بری کرنے کے بعد ان بچوں کی واپسی ممکن ہوئی۔
ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں زندگی کرتی اور شوہر کے بنا بچے پالنے میں مصروف Cecilie کی آپ بیتی بھی بچوں کے تحفظ کے نام پر ہونے والی ظلم کی کتھا ہے۔ سیسیلی سے اس کی بچی چھیننے کا سبب یہ بتایا گیا کہ وہ اپنی بیٹی کی مناسب دیکھ بھال نہیں کررہی اور اس نے اس ضمن میں کسی قسم کی مدد لینے سے انکار کردیا۔ ادارے کی رپورٹ میں لکھا گیا، ''ماں اور بیٹی کے مابین قدرتی میل ملاپ (تعامل) نہیں۔''
سیسیلی کا کہنا ہے کہ اس کی ہر بات کو منفی معنی پہنائے گئے۔ مثال کے طور پر، سیسیلی کے بقول، ''کرسمس کے کچھ دن بعد ایک مقامی اسٹور پر جنجربریڈ نہایت سستے داموں، صرف ایک کرون (نارویجین کرنسی) میں، فروخت ہورہی تھی۔
میں نے تفریحاً خرید لی تاکہ میں اور میری بیٹی اس سے جنجربریڈ مین (انسانی شبیہ کا بسکٹ) بناسکیں۔'' جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سیسیلی کے معاشی حالات بہت خراب ہیں، کیوں کہ اس نے یہ خریداری کرسمس کے بعد کی۔
سیسیلی کا دکھ ہر صاحب اولاد سمجھ سکتا ہے، ''میں اس کی بڑھتی عمر کا سفر نہیں دیکھ سکی۔ میں نے اپنی بیٹی کا بچپن کھودیا۔''
شام میں مصائب سہنے کے بعد ناروے کو بہشت سمجھ کر وہاں پناہ لینے والے ایک فلسطینی خاندان کو بھی وہ درد جھیلنا پڑا جو اس ملک کے بے شمار والدین کا مقدر ہے۔ صحافت سے وابستہ طلاب، بشارالاسد کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر شام میں پانچ سال اسیری کاٹنا پڑی، جس کے بعد وہ اپنے کنبے سمیت ناروے چلے گئے تھے، جہاں یہ خاندان تقسیم ہوگیا۔
طلاب اور ان کی بڑی بیٹی حبا اور بیٹا ناروے ہی میں رہے جب کہ ان کی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی لین کو ایک بار پھر پناہ لینے کے عمل سے گزرنے پولینڈ جانا پڑا۔ بہ طور نرس فرائض انجام دینے والی حبا بتاتی ہے کہ ایک دن اس کی بہن،''اسکول گئی اور پھر واپس نہیں آئی۔ میرے والدین اور بھائی گھنٹوں اسے ڈھونڈتے رہے۔
وہ ہر جگہ گئے اور اسے گلیوں میں دیوانوں کی طرح تلاش کرتے پھرے، مگر وہ نہ ملی۔ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد تحفظ اطفال کے ادارے کے دو افسران ہمارے دروازے پر آئے اور بتایا کہ لین ان کے پاس ہے۔ انھوں نے اس کے زیراستعمال چیزیں طلب کیں اور کہا کہ اسے ایمرجینسی کیئر آرڈر کے تحت لے جایا گیا ہے۔ اس نے اسکول نرس کو بتایا تھا کہ اسے گھر میں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔''
لین پہلے فوسٹرہوم لے جائی گئی، پھر اسے دیکھ بھال کے ایک ادارے کو سونپ دیا گیا، اس کے بعد وہ اسپتال منتقل کی گئی، اس سارے عمل میں ایک سال گزر گیا، اور ایک دن وہ اسپتال سے بھاگ کر اپنی ماں کے پاس آپہنچی، جو اسے لے کر پولینڈ فرار ہوگئی۔
لین کی والدہ کا کہنا ہے کہ دراصل جسمانی تشدد کا الزام اسکول کے ایک اور بچے نے لگایا تھا۔
''میں اپنے بڑے بچوں کو بڑھتے ہوئے نہ دیکھ پایا، کیوں کہ شام میں مجھے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جب ناروے میں لین پیدا ہوئی تو ہمارے لیے یہ خدا کا تحفہ تھا۔ ہم اس کے ساتھ بدسلوکی کیسے کر سکتے تھے؟'' طلاب اپنی بیٹی سے ظالمانہ سلوک کے الزام کو بے ہودہ مذاق قرار دیتے ہیں۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی تیسری اولاد کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے قد نکالتا اور بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھتا نہ دیکھ پائے۔
2017 ناروے میں بچوں کے تحفظ کے ادارے کی سرگرمیوں پر مزید سنجیدہ سوال اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جب اس ادارے سے وابستہ ایک ماہرنفسیات انٹرنیٹ پر بچوں سے متعلق فحش مواد پر مبنی تصاویر دیکھنے میں ملوث پایا گیا۔
یہ ماہرنفسیات (جس کا نام پردۂ اخفا میں رکھا گیا) ان ماہرین میں شامل تھا جنھوں نے بچوں سے مبینہ بدسلوکی اور نامناسب رویوں کے متعدد معاملات اپنے سامنے پیش ہونے پر بچوں کی والدین سے علیحدگی کا فیصلہ سنایا تھا۔ اِس اعتراف کے بعد کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر متعین یہ ماہرنفسیات بچوں سے جنسی زیادتی کے مناظر پر مشتمل 2 لاکھ تصاویر اور 12 ہزار سے زیادہ وڈیوز ڈاؤن لوڈ کرچکا ہے، اسے 22 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ یہ سب بیس سال سے دیکھ رہا تھا، جن میں شیرخوار بچوں سے جنسی زیادتی پر مبنی مواد بھی شامل تھا۔
اگرچہ اس ماہرنفسیات کے اپنے شعبے میں کام کرنے پر ہمیشہ کے لیے پابندی عاید کردی گئی مگر ناروے میں یہ بحث چھڑگئی کہ ایک ایسا بدفطرت شخص بچوں کی زندگی کے اہم ترین معاملے کا فیصلہ کرتا اور حقوقِ اطفال کا محافظ بنا رہا جو بچوں کے جنسی استحصال کے مناظر سے لطف اٹھانے کا عادی اور شوقین ہے!
Barnevernet سے متعلق سارے سوالوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس ادارے کے حکام، اہل کار اور اس سے وابستہ ماہرین بچوں کو والدین سے الگ کرنے کے لیے اتنے بے تاب کیوں رہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جواز پیش کرکے اور الفاظ وواقعات کو من مانا مفہوم پہنا کر اپنا مقصد حاصل کرنے پر بضد رہتے ہیں؟ فلم ''مسز چیٹرجی ورس ناروے'' کے مناظر میں اٹھایا جانے والا مالی منفعت کا نکتہ اس سوال اور اس سے جُڑے سارے سوالوں کا جواب دینے کے لیے کافی ہے۔
انسانی حقوق کے وکیل Marius Reikeras کا بھی یہی کہنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ناروے کے تحفظ اطفال کے نظام کا بنیادی محرک مالی منافع ہے۔ ''ناروے ایک امیر ملک ہے، جہاں کی پانچ ملین آبادی تحفظ اطفال کے نظام کے لیے ہر سال 3 بلین ڈالر فراہم کرتی ہے۔ نتیجتاً لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا مفاد اس نظام کے برقرار رہنے سے وابستہ ہے۔ جتنے زیادہ بچے آئیں گے، اتنا ہی زیادہ پیسہ حاصل ہوگا۔''
میرین انجنیئر Ove Dag Knarvik، جنھیں Barnevernet ان کے دو بچوں سے محروم کرچکا ہے، اس سارے کھیل کا محور پیسے ہی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے،''آپ کے بچے کو لے لیے جانے کے بعد جو بھی آپ سے واسطہ رکھتا ہے، جیسے وکیل، ماہرنفسیات، سماجی کارکن، منصف، وہ اس نظام کا حصہ ہوتا اور اس کا معاشی انحصار (بچوں کی والدین سے) علیحدگی پر ہوتا ہے۔''
وہ کہتے ہیں کہ کنڈرگارٹن، اسکول اور صحت سے متعلق ادارے Barnevernet
کو اطلاعات پہنچانے کے پابند ہیں، اور وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ Knarvik انکشاف کرتے ہیں کہ والدین سے جُدا کیے جانے والے بچوں کو جن نگہ داشت کرنے والوں یا فوسٹر پیرنٹس کے حوالے کیا جاتا ہے انھیں اس فریضے کی ادائی کے لیے بھاری رقم ملتی ہے، اور ان کے تحفظ اطفال کے نظام کے کارکنان سے مراسم ہوتے ہیں۔
بچوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ اگر وہ احتجاج یا فرار ہونے کی کوشش کریں گے تو پولیس کی مدد لی جائے گی اور ان کا فون اور لیپ ٹاپ ضبط کرلیا جائے گا۔ والدین سے علیحدگی بچوں کے لیے جذباتی اور نفسیاتی طور پر تباہ کُن ہوتی ہے۔ ان میں سے بہت سے سیکھنے کے عمل میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، اسکول چھوڑ جاتے ہیں، بھاگ جاتے اور منشیات استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ان بچوں میں آتش زنی اور خودکشی کی شرح بلندی پر ہے اور وہ خودانحصاری کے بجائے اداروں پر منحصر زندگی گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔
بچوں کے تحفظ اور ان کی خوشی کے نام پر ان کا یہ استحصال مغرب کی زرپرستی کی ایک اور سیاہ مثال ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ جمہوریت، انسانی حقوق، انسانیت اور صحت کی طرح مغربی ممالک میں بچپن کو بھی حفاظت کی آڑ میں مالی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔
اس سال ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ''مسز چیٹرجی ورسز ناروے'' کا یہ پہلا منظر دیکھ کر آپ کو لگے کا کہ یہ اغوا کا معاملہ ہے، لیکن کچھ ہی دیر میں آپ کی غلط فہمی دور ہوجائے گی، جب کُھلے گا کہ دراصل یہ ''قانونی اغوا'' کی واردات ہے، جس کا مقصد کم سِن اولاد کو ماں باپ سے ''تحفظ'' فراہم کرنا ہے!
Mrs. Chatterjee vs Norway کی کہانی ناروے میں قیام پذیر ایک بھارتی خاندان پر بیتنے والے دردناک لمحوں کا قصہ ہے۔
2007 میں بھارت سے ناروے منتقل ہونے والے انوروپ بھٹاچاریہ (Anurup Bhattacharya) اور سگاریکا چکرورتی (Sagarika Chakraborty ) کے دونوں بچوں بیٹے ابھی گیان اور بیٹی ایشوریا کو 2011 میں ناروے کے بچوں کے تحفظ کے لیے قائم ادارے ''Barnevernet'' (تحفظِ اطفال) نے جبراً اپنی تحویل میں لے لیا۔ انوروپ اور سگاریکا کا قصور یہ قرار پایا کہ Barnevernet کی نظر میں وہ اپنے بچوں کی پرورش ڈھنگ سے نہیں کر رہے تھے۔
ہوا یوں کہ سگاریکا نے کنڈرگارٹن اسکول میں پڑھتے اپنے بیٹے کی استانیوں کو توجہ دلائی کہ ان کا بچہ لوگوں سے آنکھیں نہیں ملاتا اور غصے کا بہت تیز ہے۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ سادہ سا اظہارتشویش ہوتے ہی ان پر سُرخ دائرہ لگادیا گیا ہے۔
اس کے بعد Barnevernet کے نمائندگان نے ان کے گھر آنا شروع کردیا۔ کہا یہ گیا کہ دورے اور گھر میں طویل قیام بچوں کے ماں باپ کو اضافی معاونت فراہم کرنے کے لیے ہے، لیکن کسی بھی قسم کی مدد یا راہ نمائی کے بجائے یہ نمائندہ خواتین کرسیوں پر بیٹھی اردگرد کا جائزہ لیتی اور کچھ تحریر کرتی رہتیں۔
ادارے کی جانب سے ان کے گھر بچوں کی نگہ داشت سے متعلق جاننے کے لیے تواتر سے آنی والی خاتون نمائندوں کی جانب سے اس جوڑے پر الزامات عاید کیے گئے تھے کہ وہ ''بچوں کو اپنے ساتھ ہی سُلاتے ہیں، ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں (جسے نارویجین حکام بہ زور کھلانا تصور کرتے ہیں) ماں نے بیٹے سے دھمکی آمیز انداز اپنایا (سگاریکا نے ابھی گیان کو اس وقت تھپڑ کے لیے ہاتھ اٹھا کر صرف ڈرایا تھا جب وہ باورچی خانے میں کھانا فرش پر پھینک رہا تھا) اور اس نے ایشوریا کو اس کا ڈائپر بدلتے ہوئے تنہا چھوڑ دیا تھا۔''
یہیں سے اپنے بچوں کے حصول کے لیے ایک ماں کی وہ جنگ شروع ہوئی جس کی بازگشت بھارتی میڈیا میں گونجنے لگی۔ سگاریکا ایک سال سے زیادہ عرصے تک تحفظ اطفال کے نارویجین ادارے کے خلاف قانونی لڑائی لڑتی رہیں۔ اس دوران انھیں نارویجین حکام کی جانب سے اس الزام کا بھی سامنا کرنا پڑا کہ وہ بچوں کی پرورش کے لیے ذہنی طور پر نااہل ہیں۔ اپنے بیسویں سال میں زندگی کرتی سگاریکا اس وقت
ناتجربہ کاری اور ممتا کے باعث جس جذباتی کیفیت کا شکار تھیں اسے نارویجین حکام نے ان کے خلاف استعمال کیا۔ بالآخر بھارتی رائے عامہ کے جذبات ناروے پر دہلی کے سفارتی دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اس وقت کے بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا نے اوسلو میں اپنے نارویجین ہم منصب سے ملاقات اور اس معاملے پر گفتگو کی۔ طویل مذاکرات کے بعد یہ طے پایا کہ بچوں کو ان کے چچا ارونا بھاس بھٹاچاریا کے حوالے کرتے ہوئے بھارت بھیج دیا جائے۔ اپریل 2012 میں اس فیصلے پر عمل ہونے کے بعد ناروے کی حد تک یہ معاملہ اختتام کو پہنچا، لیکن سگاریکا کی جنگ یہیں ختم نہیں ہوئی، بھارت میں بچوں کے حصول کے لیے انھیں ایک اور عدالتی معرکہ سر کرنا پڑا جس کے بعد وہ اپنے بچے حاصل کرنے میں کام یاب ہوئیں۔ اور اس سب میں سگاریکا کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہوگئی اور یہ گھر ٹوٹ گیا۔
گذشتہ برس سگاریکا کی خودنوشت "The Journey Of A Mother"شایع ہوئی، جس پر ''مسز چیٹرجی ورس ناروے'' کا اسکرپٹ استوار ہے۔ اس فلم میں رانی مکھرجی نے سگاریکا کا کردار ''دیبیکا' کے نام سے نبھایا اور اپنے اداکردہ شان دار کرداروں میں ایک اور اضافہ کردیا ہے۔
اس فلم نے ''چلڈرن فرسٹ'' کا دعویٰ کرنے والے ناروے کے بچوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے انتظام پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
یوں تو ایک عرصے سے اس نظام کا بے رحمانہ طرزعمل اور اس سے جُڑے واقعات زیربحث رہے ہیں، لیکن بولی وڈ کی اس موضوع پر ایک حقیقی واقعے کی بنیاد پر بنائی جانے والی فلم نے ناروے میں بچوں کی حفاظت کے لیے قائم ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کو تازہ کردیا ہے اور اس ادارے کی کارروائیاں، اختیارات اور ضوابط دنیا میں پوری شدت سے زیربحث آگئے ہیں۔
یہ فلم دیکھتے ہوئے بچوں کے تحویل میں لینے پر مُصر، اس ادارے کی ڈھٹائی اور ظالمانہ انداز کا راز اس وقت فاش ہوتا ہے جب ادارے کا وکیل ''دیبیکا'' کے دیور کو بچے حاصل کرنے کے لیے کہتے ہوئے بھاری رقم کا لالچ دیتا ہے، جس میں سے آدھی رقم ادارے کے اس معاملے سے متعلق حکام کو دینا ہوگی۔
سگاریکا پہلی ماں نہیں جس نے بچوں کی جبری تحویل کا درد سہا۔ ایسی کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ کچھ بچے جنھیں Barnevernet نے والدین سے چھین کر فوسٹرہومز بھیج دیا، بڑے ہوکر اس ادارے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ Tonje Omdahl بھی ان میں سے ایک ہے۔ اسے چھے ماہ کے لیے فوسٹر ہوم بھیجا گیا تھا۔
Omdahl کو تن تنہا پالنے والے اس کے والد پر اپنی بیٹی سے گالی گفتار اور اسے نظرانداز کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ وہ کہتی ہے ''یہ سچ نہیں تھا۔'' Omdahl بتاتی ہے کہ اس کے پرائمری اسکول میں اسے مسلسل تنگ کیا (bully) جارہا تھا، جس کے باعث وہ اسکول جانے کا سوچ کر ہی وہ خوف زدہ ہوجاتی تھی۔
اُس کے والد نے اس معاملے کی شکایت کی، جس کا ازالہ تو ایک طرف، اسکول کی انتظامیہ نے اُلٹا تحفظ اطفال کے ادارے سے رجوع کرکے کہا کہ Omdahl نامانوس طرزعمل کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس کے گھر میں کچھ گڑبڑ ہے۔ اپنی جائے نگہ داشت میں بیتے دنوں کا تجربہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ اس کی وجہ سے وہ زندگی بھر کے لیے صدمہ زدہ (traumatised) ہوگئی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ نارویجین اخبارات شاذونادر ہی ان معاملات پر کچھ لکھتے ہیں، اور اگر وہ ایسا کریں بھی تو حکامِ بالا اس سلسلے میں کچھ زیادہ نہیں کرتے۔
ناروے سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل Maurius Reikeras کے مطابق ایک تحقیق بتاتی ہے کہ بچوں کو ماں باپ سے چھین کر غیروں کی نگہ داشت میں دینے کی وجہ منشیات اور شراب کا استعمال یا ان کے گھروں کا زہرآلود ماحول نہیں، بلکہ Barnevernetکی جانب سے ''والدین کا پرورش کی صلاحیت سے نابلد ہونا'' اپنی مداخلت کا سرفہرست جواز بتایا جاتا ہے۔ تاہم نہ ہی یہ ادارہ اور نہ اس کے اقدامات کے حق میں آنے والے فیصلے وضاحت کرتے ہیں کہ آخر یہ پرورش کے اصول یا طریقے ہیں کیا؟
نارویجین قوانین کی رو سےBarnevernet کو کُھلی چھوٹ حاصل ہے اور وہ کسی عدالت کی اجازت کے بغیر بچوں کو اپنے تحویل میں لے سکتی ہے۔
خاص کر قانون ''ایمرجینسی کیئر آرڈر'' تحفظ اطفال کے ادارے کو یہ اختیار دیتا ہے۔ انسانی حقوق کے راہ نما عرصے سے ناروے میں تحفظ اطفال کے ادارے میں اصطلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر ان کی آواز اب تک صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ہے۔
تارکین وطن کے خاندانBarnevernet کا خاص ہدف بنتے رہے ہیں، جو پورے ناروے کے 400 بلدیاتی علاقوں میں سرگرم عمل ہے۔ بچوں، نوجوانوں اور خاندانی امور کے لیے قائم ناروے کے سرکاری ادارے، جس کا مخفف Bufdir ہے، کے مطابق 2021 تک 9 ہزار 938 بچے والدین سے لے کر افراد اور اداروں کی کفالت میں دیے گئے، جن میں سے 3 ہزار 561 یعنی 37 فی صد تارکین وطن کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ واضح رہے کہ تارکین وطن ناروے کی آبادی کا صرف 16فی صد ہیں۔
Inez Arnesenآٹھ بچوں کی ماں اور ناروے کے علاقے Tonsberg کی مقامی سیاست داں ہیں۔ ان کے چار بچوں کو 2013 میں سرکاری تحویل میں لیا گیا تھا، جن میں سے دو پانچ سال بعد 2018 میں گھر لوٹے۔ انیز پر الزام تھا کہ وہ بچوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالتی ہیں، جو ناروے میں قانوناً ممنوع ہے۔ اس الزام کے تحت انھیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اپنے اوپر لگنے والے الزام کے بارے میں انیز کہتی ہیں کہ یہ ان کا فرض تھا کہ ایک بچے سے دوسرے کو محفوظ رکھیں، جو اپنے بھائی کو پیٹنے سے باز نہیں آرہا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے پٹنے والے بچے کو بچانے کے لیے پیٹنے والے بچے کے تھپڑ جڑ دیا تھا۔
آخرکار 2016 میں ایک فوج داری عدالت کی جانب سے انھیں اس الزام سے بری کرنے کے بعد ان بچوں کی واپسی ممکن ہوئی۔
ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں زندگی کرتی اور شوہر کے بنا بچے پالنے میں مصروف Cecilie کی آپ بیتی بھی بچوں کے تحفظ کے نام پر ہونے والی ظلم کی کتھا ہے۔ سیسیلی سے اس کی بچی چھیننے کا سبب یہ بتایا گیا کہ وہ اپنی بیٹی کی مناسب دیکھ بھال نہیں کررہی اور اس نے اس ضمن میں کسی قسم کی مدد لینے سے انکار کردیا۔ ادارے کی رپورٹ میں لکھا گیا، ''ماں اور بیٹی کے مابین قدرتی میل ملاپ (تعامل) نہیں۔''
سیسیلی کا کہنا ہے کہ اس کی ہر بات کو منفی معنی پہنائے گئے۔ مثال کے طور پر، سیسیلی کے بقول، ''کرسمس کے کچھ دن بعد ایک مقامی اسٹور پر جنجربریڈ نہایت سستے داموں، صرف ایک کرون (نارویجین کرنسی) میں، فروخت ہورہی تھی۔
میں نے تفریحاً خرید لی تاکہ میں اور میری بیٹی اس سے جنجربریڈ مین (انسانی شبیہ کا بسکٹ) بناسکیں۔'' جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سیسیلی کے معاشی حالات بہت خراب ہیں، کیوں کہ اس نے یہ خریداری کرسمس کے بعد کی۔
سیسیلی کا دکھ ہر صاحب اولاد سمجھ سکتا ہے، ''میں اس کی بڑھتی عمر کا سفر نہیں دیکھ سکی۔ میں نے اپنی بیٹی کا بچپن کھودیا۔''
شام میں مصائب سہنے کے بعد ناروے کو بہشت سمجھ کر وہاں پناہ لینے والے ایک فلسطینی خاندان کو بھی وہ درد جھیلنا پڑا جو اس ملک کے بے شمار والدین کا مقدر ہے۔ صحافت سے وابستہ طلاب، بشارالاسد کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر شام میں پانچ سال اسیری کاٹنا پڑی، جس کے بعد وہ اپنے کنبے سمیت ناروے چلے گئے تھے، جہاں یہ خاندان تقسیم ہوگیا۔
طلاب اور ان کی بڑی بیٹی حبا اور بیٹا ناروے ہی میں رہے جب کہ ان کی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی لین کو ایک بار پھر پناہ لینے کے عمل سے گزرنے پولینڈ جانا پڑا۔ بہ طور نرس فرائض انجام دینے والی حبا بتاتی ہے کہ ایک دن اس کی بہن،''اسکول گئی اور پھر واپس نہیں آئی۔ میرے والدین اور بھائی گھنٹوں اسے ڈھونڈتے رہے۔
وہ ہر جگہ گئے اور اسے گلیوں میں دیوانوں کی طرح تلاش کرتے پھرے، مگر وہ نہ ملی۔ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد تحفظ اطفال کے ادارے کے دو افسران ہمارے دروازے پر آئے اور بتایا کہ لین ان کے پاس ہے۔ انھوں نے اس کے زیراستعمال چیزیں طلب کیں اور کہا کہ اسے ایمرجینسی کیئر آرڈر کے تحت لے جایا گیا ہے۔ اس نے اسکول نرس کو بتایا تھا کہ اسے گھر میں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔''
لین پہلے فوسٹرہوم لے جائی گئی، پھر اسے دیکھ بھال کے ایک ادارے کو سونپ دیا گیا، اس کے بعد وہ اسپتال منتقل کی گئی، اس سارے عمل میں ایک سال گزر گیا، اور ایک دن وہ اسپتال سے بھاگ کر اپنی ماں کے پاس آپہنچی، جو اسے لے کر پولینڈ فرار ہوگئی۔
لین کی والدہ کا کہنا ہے کہ دراصل جسمانی تشدد کا الزام اسکول کے ایک اور بچے نے لگایا تھا۔
''میں اپنے بڑے بچوں کو بڑھتے ہوئے نہ دیکھ پایا، کیوں کہ شام میں مجھے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جب ناروے میں لین پیدا ہوئی تو ہمارے لیے یہ خدا کا تحفہ تھا۔ ہم اس کے ساتھ بدسلوکی کیسے کر سکتے تھے؟'' طلاب اپنی بیٹی سے ظالمانہ سلوک کے الزام کو بے ہودہ مذاق قرار دیتے ہیں۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی تیسری اولاد کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے قد نکالتا اور بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھتا نہ دیکھ پائے۔
2017 ناروے میں بچوں کے تحفظ کے ادارے کی سرگرمیوں پر مزید سنجیدہ سوال اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جب اس ادارے سے وابستہ ایک ماہرنفسیات انٹرنیٹ پر بچوں سے متعلق فحش مواد پر مبنی تصاویر دیکھنے میں ملوث پایا گیا۔
یہ ماہرنفسیات (جس کا نام پردۂ اخفا میں رکھا گیا) ان ماہرین میں شامل تھا جنھوں نے بچوں سے مبینہ بدسلوکی اور نامناسب رویوں کے متعدد معاملات اپنے سامنے پیش ہونے پر بچوں کی والدین سے علیحدگی کا فیصلہ سنایا تھا۔ اِس اعتراف کے بعد کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر متعین یہ ماہرنفسیات بچوں سے جنسی زیادتی کے مناظر پر مشتمل 2 لاکھ تصاویر اور 12 ہزار سے زیادہ وڈیوز ڈاؤن لوڈ کرچکا ہے، اسے 22 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ یہ سب بیس سال سے دیکھ رہا تھا، جن میں شیرخوار بچوں سے جنسی زیادتی پر مبنی مواد بھی شامل تھا۔
اگرچہ اس ماہرنفسیات کے اپنے شعبے میں کام کرنے پر ہمیشہ کے لیے پابندی عاید کردی گئی مگر ناروے میں یہ بحث چھڑگئی کہ ایک ایسا بدفطرت شخص بچوں کی زندگی کے اہم ترین معاملے کا فیصلہ کرتا اور حقوقِ اطفال کا محافظ بنا رہا جو بچوں کے جنسی استحصال کے مناظر سے لطف اٹھانے کا عادی اور شوقین ہے!
Barnevernet سے متعلق سارے سوالوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس ادارے کے حکام، اہل کار اور اس سے وابستہ ماہرین بچوں کو والدین سے الگ کرنے کے لیے اتنے بے تاب کیوں رہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جواز پیش کرکے اور الفاظ وواقعات کو من مانا مفہوم پہنا کر اپنا مقصد حاصل کرنے پر بضد رہتے ہیں؟ فلم ''مسز چیٹرجی ورس ناروے'' کے مناظر میں اٹھایا جانے والا مالی منفعت کا نکتہ اس سوال اور اس سے جُڑے سارے سوالوں کا جواب دینے کے لیے کافی ہے۔
انسانی حقوق کے وکیل Marius Reikeras کا بھی یہی کہنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ناروے کے تحفظ اطفال کے نظام کا بنیادی محرک مالی منافع ہے۔ ''ناروے ایک امیر ملک ہے، جہاں کی پانچ ملین آبادی تحفظ اطفال کے نظام کے لیے ہر سال 3 بلین ڈالر فراہم کرتی ہے۔ نتیجتاً لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا مفاد اس نظام کے برقرار رہنے سے وابستہ ہے۔ جتنے زیادہ بچے آئیں گے، اتنا ہی زیادہ پیسہ حاصل ہوگا۔''
میرین انجنیئر Ove Dag Knarvik، جنھیں Barnevernet ان کے دو بچوں سے محروم کرچکا ہے، اس سارے کھیل کا محور پیسے ہی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے،''آپ کے بچے کو لے لیے جانے کے بعد جو بھی آپ سے واسطہ رکھتا ہے، جیسے وکیل، ماہرنفسیات، سماجی کارکن، منصف، وہ اس نظام کا حصہ ہوتا اور اس کا معاشی انحصار (بچوں کی والدین سے) علیحدگی پر ہوتا ہے۔''
وہ کہتے ہیں کہ کنڈرگارٹن، اسکول اور صحت سے متعلق ادارے Barnevernet
کو اطلاعات پہنچانے کے پابند ہیں، اور وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ Knarvik انکشاف کرتے ہیں کہ والدین سے جُدا کیے جانے والے بچوں کو جن نگہ داشت کرنے والوں یا فوسٹر پیرنٹس کے حوالے کیا جاتا ہے انھیں اس فریضے کی ادائی کے لیے بھاری رقم ملتی ہے، اور ان کے تحفظ اطفال کے نظام کے کارکنان سے مراسم ہوتے ہیں۔
بچوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ اگر وہ احتجاج یا فرار ہونے کی کوشش کریں گے تو پولیس کی مدد لی جائے گی اور ان کا فون اور لیپ ٹاپ ضبط کرلیا جائے گا۔ والدین سے علیحدگی بچوں کے لیے جذباتی اور نفسیاتی طور پر تباہ کُن ہوتی ہے۔ ان میں سے بہت سے سیکھنے کے عمل میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، اسکول چھوڑ جاتے ہیں، بھاگ جاتے اور منشیات استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ان بچوں میں آتش زنی اور خودکشی کی شرح بلندی پر ہے اور وہ خودانحصاری کے بجائے اداروں پر منحصر زندگی گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔
بچوں کے تحفظ اور ان کی خوشی کے نام پر ان کا یہ استحصال مغرب کی زرپرستی کی ایک اور سیاہ مثال ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ جمہوریت، انسانی حقوق، انسانیت اور صحت کی طرح مغربی ممالک میں بچپن کو بھی حفاظت کی آڑ میں مالی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔