افریقا کے بہادر بونے

فطرت کے قریب رہنے والے اِن جنگلی انسانوں کی رہائش گاہ پہ جدید تہذیب و تمدن نے یلغار کر رکھی ہے

فوٹو : فائل

براعظم افریقا کے وسط میں کونگولین بارانی جنگلات (Congolian rainforests)کا سلسلہ آٹھ ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کا رقبہ تیرہ لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ یہ ایمیزن کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا بارانی جنگلا ت کا سلسلہ ہے۔

انہی جنگلات میں افریقا کے مشہور بونے بستے ہیں۔ یہ کرہ ارض پہ آخری انسان ہیںجو شکاری اور گھوم پھر کر غذا تلاش کرنے والے (gatherers)ہیں۔ باقاعدہ طور پر زراعت نہیں اپناتے اور نہ ہی مویشی پالتے ہیں۔ قد پانچ فٹ سے کم ہونے کی وجہ سے بونے (Pygmy)کہلاتے ہیں۔ ان کی آبادی ڈھائی لاکھ سے چھ لاکھ کے درمیان ہے۔

یہ افریقی بونے قدیم انسانوں کی اولاد ہیں۔ ہزارہا سال سے فطرت کے نزدیک تر رہ کر زندگی گذارتے چلے آ رہے ہیں۔ مگر اب انھیں اپنی بقا کے سلسلے میں مختلف خطرات لاحق ہو چکے۔ تاہم وہ بڑی بہادری سے اپنا رہن سہن، طرز ِزندگی، بودوباش اور تہذیب وثقافت جدید تبدیلیوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ بونے ہزاروں برس سے وسطی افریقا کے مالک چلے آ رہے ہیں۔ اب ان نیم بدوی' جانوروں کو گھیر کر شکار کرنے والوں کی تعدادکافی کم رہ گئی ہے۔ ان کی جنگلی زندگی کا غالب رقبہ سبززاروں (Savannas)میں تبدیل ہو چکا۔ انھیں اپنے پڑوسیوں کی طرف سے بھی خطرات لاحق ہیں۔

کونگولین بارانی جنگلات کے اسّی فیصد بونے باشندے شہد کی مکھیوں کے چھتے کی صورت بنی چھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ یہ لکڑیوں، پتوںاور گارے سے بنائی جاتی ہیں۔ جھونپڑیوں کے باہر بچوں کی ٹولیاں کھیلتی کودتی دکھائی دیتی ہیں۔ مرد و زن اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ مگر حقیقتاً یہ غربت اور بدحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے ان میں گلہڑ سمیت کئی بیماریاں عام ہیں۔ ہر پانچ نومولود بچوں میں سے ایک بچہ ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ بچوںکی اموات کے اسباب زیادہ تر ملیریا، اسہال اور وبا ہیں۔

ان بونوں کے بچے دس بارہ سال کی عمر تک نارمل قد و جسامت کے ہوتے ہیں۔ پھر ان کے قد نہیں بڑھ پاتے۔سائنس دان اب تک نہیں جان سکے کہ ان کی نشوونما تھم جانے کا راز کیا ہے۔

ان کی کوتاہ قامتی نے غالباً ہزاروں برس سے جنگلوںمیں بودوباش رکھنے کے سبب جنم لیا۔ جنگلوں میں رہنے والے لوگ کوتاہ قامت ہی ہوا کرتے ہیں مگر ان بونوں جیسے نہیں... ایک اوسط بونے کا قد چار فٹ تک ہوتا ہے۔ جبکہ عورت ڈیڑھ فٹ چھوٹی ہوتی ہے۔

ان بونوں میں شادی بیاہ کے لیے ایک میلا منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میں مرد عورتیں اپنی پسند کے ساتھی چن لیتے ہیں۔ پھر ان کی شادیاں ہوتی ہیں۔ اس موقع پر قدیم رسوم و رواج کے مطابق بونے روایتی گانے گاتے اور اپنے ساز بجاتے ہیں۔ تمام قبیلے کی دعوت کی جاتی ہے۔ خوبصورتی بڑھانے کے لیے دلہنوں کے اگلے دانت ریتی سے گھسا کر نوکیلے بنائے جاتے ہیں۔

افریقی بونے شکار کے دیوانے ہیں۔ ان کے محبوب شکاری جانور چھوٹے ہرن اور بارہ سنگھے ہیں۔ انھیں یہ جال لگا کر پکڑتے ہیں۔یا پھر تیرکمان کی مدد سے شکار کرتے ہیں۔ یہ جنگل میںبہت اندر جا کر اس کی گہرائی میں اتر جاتے ہیں۔ وہاں گھنے درختوں کے سبب دن کو بھی رات جیسی تاریکی ہوتی ہے اور زمین پر پتوں کا قالین سا بچھا ہوتا ہے۔

یہ بونے زبردست قسم کے کھوجی بھی ہیں۔ الجھی ہوئی بیلوں، گھنی جھاڑیوں، گھاس پھونس اور کیچڑ میں باآسانی اپنا راستہ بناتے اور معلوم کر لیتے ہیں کہ وہاں سے ابھی کون جانور گزرے ہیں۔ جو بونا سب سے زیادہ ماہر شکاری اور کھوجی ہو، اسے تمام بونے اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں۔ جانوروں کا شکار کرنے کے لیے یہ ایک موزوں جگہ دیکھ کر وہاں جال بچھاتے ہیں۔ یہ جال انگور کی بیلوں سے بنتے ہیں۔

جال کے ذریعے جانوروں کا شکار کرنا آسان نہیں۔ کیونکہ چھوٹے ہرن اور دوسرے جانور جب شکاریوں کی آوازیں سنیں' تو فوراً بیل بوٹوں میںچھپ جاتے ہیں۔

شکاری انھیں خوف زدہ کرنے کے لیے خوب شور مچاتے اور انھیں جال کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جب کوئی جانور جال میں پھنس جائے، تو بونے خوب اچھلتے کودتے ناچتے گاتے ہیں۔پھل بھی ان کا من بھاتا کھاجا ہیں۔ جڑی بوٹیوں بھی خوراک ہیں۔ بعض بوٹیاں مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔


یہ بونے بھی عام انسانوں کی طرح راگ اور موسیقی کے رسیا ہیں۔ ایک امریکی، لوئیس سارنو نے ان کے گیت ریکارڈ کیے۔ وہ کہتا ہے ''بونوں کے بچے بولنے کے ساتھ ہی گانا بھی سیکھنے لگتے ہیں۔ گیبون سے لے کر کانگو تک تمام بونے ایک ہی لے میں گاتے ہیں۔''رات کو یہ آگ کا الاؤ جلاتے اور اس کے گرد بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں۔

بونوں کی زندگی گروہی ہے۔ شکار کی صورت انھیں جو خوراک ملے، وہ اسے مل جل کر کھاتے ہیں۔ ان میں خاندانی روابط بے حد مضبوط ہیں۔ ہر گروہ اپنے اصولوں کی سختی سے پاسداری کرتا ہے۔ ان سے روگردانی شاذ ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ بونوں میں لڑائی جھگڑے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ وہ کبھی دوسرے گروہوں سے بھی نہیں لڑتے۔گویا بہت امن پسند ہیں۔

یہ بونے کسی قسم کی کرنسی استعمال نہیں کرتے بلکہ جنگل سے باہر مقیم کسانوں سے مال کے بدلے مال کے طریقے پر تجارت کرتے ہیں۔

یہ گوشت، جنگلی شہد اور کھمبیوں کے بدلے ان سے اشیائے ضرورت لیتے ہیں مثلاً اناج، کپڑے وغیرہ۔ کسان دراز قامت ہیں۔ انھوں نے جب پہلی مرتبہ ان بونوں کو دیکھا تو بمشکل ہی یقین کیا کہ وہ واقعی سرزمین افریقا میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ انھوں نے بونوں کو شرمیلا، بے ضرر اور اپنے ہی خول میں بند رہنے والا پایا۔

بونے کسانوں کی انوکھی چیزوں مثلاً کھانا پکانے کے برتنوں، دھاتی نیزوں، تیروں اور خنجروں میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔ ا

ن کے حصول کی خاطر وہ کئی ماہ جنگل کی رہائش ترک کر کسانوں کے کھیتوں میں کام کرتے اور معاوضے میں یہ چیزیں حاصل کر لیتے ہیں۔بدقسمتی سے صدیوں تک زمین دار ان بونوں کو اپنے موروثی زرعی غلام سمجھتے رہے۔ ان کے درمیان تعصب کی دیوار اب تک کھڑی ہے۔ مغرور اور اونچے دماغ والے کسان بونوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

انسانی حقوق کی انجمنیں ہر جگہ مظلوم، دبے کچلے ہوئے اور ناانصافی کے شکار لوگوں کو انصاف دلانے اور ان کی حالت سدھارنے کے لیے سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔ لیکن وسطی افریقا کے بونوں کو وہ عموماً نظر انداز کرتی ہیں۔

روانڈا، کانگو اور گیبون میں بستے بونوں کے ساتھ بھی بڑی بے رحمی کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ انھیں اپنی محنت کا خاطر خواہ معاوضہ نہیں ملتا۔ آجر ان کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک بھی نہیں کرتے۔ حکومتیں جنگلوں پر ان کے حقوق مالکانہ تسلیم نہیں کرتیں حالانکہ وہ صدیوں سے وہاں آباد ہیں۔

بونے جنگل کی زندگی ترک کرنے کو تیار نہیں۔ پھر بھی وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا پسند کرتے ہیں۔ایک بونا کہتا ہے ''میں اپنے بچوں کو دونوں دنیاؤں میں زندگی گزارنے کی تعلیم دلاؤں گا۔ ایک جنگل کی دنیا ' دوسرے شہر والی... یہ قدیم رسوم و رواج پر کاربند رہتے ہوئے جدید دنیا کے تقاضے پورے کرنے کی بہترین مثال ہے۔ لیکن کیا اسکولوں میں تعلیم پا کر نکلنے والے بونے بچے جنگلی زندگی کی طرف پلٹ سکیں گے؟ پتھر کے زمانے سے لے کرکتاب کے زمانے کے درمیان واقع خلا پھلانگنا آسان بات نہیں۔

بچوں کی تعلیم زیادہ تر پرائمری کی سطح تک ہی محدود رہتی ہے۔ چند ایک ہی ثانوی اسکولوں میں جا پاتے ہیں۔ ان بونوں کی جدید زمانے میںکامیاب ترین ترقی جمہوریہ وسطی افریقا کے علاقے، موناساؤ میں بنے کیتھولک مشن میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہاں ایک ہزار کے لگ بھگ بونے زمین داروں کی مداخلتِ بے جا سے آزاد مونگ پھلی اور دیگر نقد آور اجناس کی کاشت کاری میں مصروف ہیں۔ اس محنت کے بدلے انھیں اشیائے ضرورت دینے کے ساتھ ہی مسیحیت قبول کرنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے جسے قبول کرنا ان کے لیے مشکل ہے۔

افریقی بونوں کے مذہب میں جنگل بنیادی مرکز ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا دیوتا جنگل میں رہتا ہے۔ چناں چہ جنگل کی نعمتوں سے انھیں سرفراز کرتا ہے۔بونے مختلف رسومات اور رواجوں کی مدد سے اپنے دیوتا اور اجداد سے رابطہ رکھتے ہیں۔یہ آخرت پہ یقین رکھتے ہیں۔ بونوں کو روحانیت (Animism)پر بھی یقین ہے،یعنی یہ کہ ہر شے اپنا روحانی وجود بھی رکھتی ہے ۔

افریقی بونوں کو لاحق سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ان کا ٹھکانہ...جنگل رفتہ رفتہ سکڑ رہے ہیں۔ کہیں لکڑی پانے کے لیے انھیں کاٹا جا رہا ہے۔ کہیں کانیں بنانے کی خاطر جنگل صاف کیے جا رہے ہیں۔ کہیں نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں تو کہیں نئے کارخانے لگ رہے ہیں۔ اس تبدیلی سے سبھی بونے پریشان ہیں کیونکہ ان کی فطری رہائش گاہ آہستہ آہستہ مختصر ہورہی ہے۔ابویمیم امورا (Aboumyem Amoura)کانگو میں آباد بونوں کا سردار ہے۔ وہ کہتا ہے:

''آج کا انسان ہمارے گھر ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔ ہم رنجیدہ و پریشان ہیں مگر خوفزدہ نہیں۔ ہم کبھی جنگل چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ ہمارا جینا مرنا یہیں ہو گا۔ ہم کسی اور جگہ بسنے کو تیار نہیں چاہے جدید انسان ہم پہ جتنے مرضی ظلم ڈھا لے۔''
Load Next Story