بن بلایا مہمان اورحاضر دماغ میزبان…
زندگی میں بڑے فکاہیہ موڑ آتے ہیں ۔ مسائل میں گرفتار زندگی کے دوران کبھی کبھار بڑے دلچسپ مراحل آتے ہیں
زندگی میں بڑے فکاہیہ موڑ آتے ہیں ۔ مسائل میں گرفتار زندگی کے دوران کبھی کبھار بڑے دلچسپ مراحل آتے ہیں ، ذرا سنیے ۔ دروازے پر دستک ہوئی، چونکہ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا،خاتون خانہ نے نیم دروازہ کھولا۔ بھابھی ،السلام علیکم، کیا بھائی صاحب گھر پر نہیں ہیں کہ آپ نے تکلیف کی، خیر کوئی بات نہیں ۔ آئیے آئیے ، بھائی صاحب۔ اتنے میں بھائی صاحب بمعہ ایک بھاری بھرکم سوٹ کیس، براجمان ہوئے ۔ ارے بھابھی،کئی دنوں سے آپ کے پیغام مل رہے تھے کہ بہت دن ہوئے میں آپ کے ہاں آکر نہیں ٹھہرا۔ چلو اب آہی گیا ہوں،آپ لوگوں نے تو کم از کم 3 مہینے تو ٹھہرنے کی فرمائش کی تھی لیکن میں نے سوچا کہ یہ کچھ زیادہ ہی ہو جائے گا، میں نے صرف ایک مہینہ ٹھہرنے کا ہی سوچا ہے ۔ اب آپ لوگ زیادہ ٹھہرنے پر اصرار نہیں کیجیے گا۔وہاں بھی بہت سارے کام کرنے کے ہوتے ہیں۔
بھائی صاحب، آپ سفر کے تھکے ہوئے ہیں، نہا دھوکر آرام کیجیے ، اتنے میں دوپہر کے کھانے کا وقت ہو جائے گا، میں آپ کو جگا دوں گی۔ ارے بھابھی کیا بتاؤں، صبح سویرے گھر سے نکل رہا تھا، آپ کی بھابھی نے کہا کہ ناشتہ کرکے جائیں۔ بغیر ناشتہ کیے گھر سے نکلنا اچھا شگون نہیں ہوتا۔میں نے کہا، بھلی مانس، ایک گھنٹے کا سفر ہے ، وہاں جا کر ناشتہ کرونگا لیکن بھلا ہو ریل گاڑی کا، 3 گھنٹے لیٹ تھی۔ ہائے کیا انگریز کا زمانہ تھا ،مجال کہ گاڑی لیٹ ہو۔ لوگ اپنی گھڑیوں کا ٹائم گاڑیوں کو دیکھ کر سیٹ کرتے تھے ۔ اگر گاڑی ایک منٹ بھی لیٹ ہو جائے تو گارڈ کا محاسبہ کیا جاتا تھا، اب گھنٹوں لیٹ ہونے پر گارڈ اور عملے کو اوورٹائم ملتا ہے ۔مجھے تو شوکت تھانوی کی کتاب ''سودیشی ریل'' یاد آگئی۔ کیا نقشہ کھینچا تھا اس نے ہندوستان کی آزادی کے بعد کا۔
خیر ،بھابھی زیادہ تکلیف نہیں کریں،سادہ سا ناشتہ، 3،2 پراٹھے ، گھی میں رچے ہوئے ،2 ،3 انڈوں کا آملیٹ اور 2 کپ چائے ، بس کافی ہونگے ۔ زیادہ تکلیف ناں کیجیے گا، آخر دوپہر کا کھانا بھی تو کھانا ہے ۔ دوپہر کو بھی زیادہ تکلیف نہیں کیجیے گا۔فرائی مچھلی، گوشت کا سالن اور شامی کباب۔ ویسے میں بڑے کا گوشت تو نہیں کھاتا لیکن شامی کباب تو بڑے کے ہی اچھے ہوتے ہیں اور ان میں گوشت بھی تھوڑا سا ہی پڑتا ہے ، تو وہ چل جائے گا۔ رات کے کھانے میں تو بالکل بھی زیادہ تکلیف نہیں کیجیے گا۔ 2، 4 روٹیاں،مرغی کی بریانی، ابلے انڈوں کا سالن اور میٹھا۔ حکماء کا کہنا ہے کہ ویسے تو ہر کھانے کے بعد کچھ میٹھا ضرور کھانا چاہیے ، کہ ہاضمے کے لیے اچھا ہوتا ہے ، لیکن رات کے کھانے کے بعد تو ضرور۔فرنی ہو یا کسٹرڈ، ویسے سنا ہے کہ آپ کے شہر کی آئس کریم بہت لذیذ ہوتی ہے اور ہاں آپ کے ہاں کی فالودہ قلفی تو ضرب المثل ہوتی ہے ، ایسی اور کہیں بھی نہیں ملتی ۔
کل صبح نہاری ہو جائے تو کیا کہنا۔ 2، 4 پراٹھے ، تھوڑا سا مغز، 4،2 قتلے کلیجی کے ، حلوہ (میدے کا، سوجی کا نہیں)، سویاں (گھر کی بنی ہوئی ،بازاری نہیں)۔ مجھے تو سردیوں میں گڑ کا پراٹھا (گھی میں رچا ہوا) ، جو آپ نے پچھلے سال کھلایا تھا، بڑا پسند ہے ،پچھلے سال کا چسکہ ابھی تک منہ میں ہے )، لیکن اب کہ گرمیوں میں آیا ہوں، آیندہ سردیوں میں آئونگا تو کھلائیے گا۔ہاں بھائی صاحب حاضر، آیندہ سال سردیوں میں آئیے گا، تو بھی کھلائوں گی، لیکن ایک مسئلہ ہے ۔آپ کے بھائی صاحب ویسے تو زیادہ وقت گھر پہ ہی رہتے ہیں، لیکن اگر کوئی ضرورتمند آجاتا ہے تو اس کی مدد کے لیے دوڑے جاتے ہیں۔ ویسے گھر پر ہر وقت لاکھ سوا کی رقم موجود رکھتے ہیں، لیکن اگرکوئی ضرورتمند آجائے تو پوری رقم لے کر چل پڑتے ہیں، گھر پر ایک روپیہ بھی نہیں رکھتے ، کہ کہیں کم نہ پڑ جائیں۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔
جاتے وقت کہہ گئے کہ بہت ضروری کام سے جا رہا ہوں، دیر سویر ہو جائے تو فکر نہیں کرنا۔ ویسے آپ بھی تو ہمیشہ آتے ہی 5، 5 ہزار کے نوٹ بچوں کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں، میں منع بھی کرتی تھی، تب بھی آپ ہاتھ نہیں روکتے تھے ، لیکن آج بچوں نے بھی اسکول سے آنے میں دیر کردی ہے ۔ اب آپ ایک ہزار روپیہ ادھار دے دیں تاکہ آپ کی مطلوبہ کھانے کی اشیاء منگوا لوں۔ آپ کے بھائی صاحب آئیں گے تو لوٹا دونگی۔یہ سننا تھا کہ مہمان صاحب نے کہا، بھابی میں بھی بڑا بھلکڑ ہو گیا ہوں۔ آج ہی ایک دوست سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے ساتھ تحصیلدار صاحب کے پاس جانا تھا کہ وہ میرا ہم مکتب ہے ۔ کوئی ضروری کام تھا۔ اوہو میرا دوست بھی انتظار کر رہا ہوگا۔ کہیں وہ یہ ناں سمجھے کہ میں ٹال گیا۔ آخر وعدے کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔
یہ کہہ کر مہمان صاحب نے سوٹ کیس سنبھالا اور نہ سلام نہ دعا، چلتا بنا۔ اب قارئین ہی فیصلہ کریں کہ نہلے پہ دہلا کیسا رہا۔ویسے بن بلائے مہمانوں کی کہانیاں بھی ہماری روزمرہ کی زندگی میں بہت ساری ہوتی ہیں۔ ایک صاحب بن بلائے آئے تو گھر والوں نے دال کھلانا شروع کی۔ ایک واقف کار نے پوچھا، بھئی کب سے آئے ہوئے ہو؟جواب دیا، دال کھائے ہوئے تو دس دن ہو گئے ہیں، باقی کا کچھ یاد نہیں ہے۔ایک اور صاحب کسی کے ہاں مہمان آئے ۔ ایک قریبی رشتے دار کو بھی اسے روایتاً اپنے گھر بلانا تھا لیکن دعوت اس طریقے سے دینی تھی کہ اگلا منع کردے ۔
اس لیے بیٹے سے کہا کہ فلاں گھر میں جو چاچا آئے ہوئے ہیں اس سے جاکر کہو کہ بابا نے آپ کو کھانے پر بلایا ہے ۔زیادہ نہیں بولنا، صرف یہ کہہ کر جلدی سے واپس مڑ لینا۔ لڑکے نے یہ کہا تو مہمان نے کہا اچھا بھائی، میں رات کو آجائونگا۔ جب لڑکے نے آکر بتایا کہ وہ تو رات کو آئینگے ۔ باپ اس گھر میں گیا اور دروازے پر ہی کھڑے ہوکر کہا، ہاں بھائی آپ ہم غریبوں کی دعوت کہاں قبول کرتے ہیں۔ آپ بڑے آدمی ہیں، ہم ٹھہرے غریب، آپ کہاں ہمارے آئینگے ۔ مہمان نے کہا، بھائی آپ سے کیا تکلف، آپ کے بیٹے نے کہا اور میں نے حامی بھر لی۔ میزبان نے کہا ناں بھائی، آپ کہاں آئینگے ہمار ے گھر۔ نہیں نہیں بھائی، آپ ہمارے گھر نہیں آئینگے ۔ یہ کہہ کر میزبان چلتا بنا۔کیسی رہی مہمان سے جان چھڑانے کی ترکیب۔
بھائی صاحب، آپ سفر کے تھکے ہوئے ہیں، نہا دھوکر آرام کیجیے ، اتنے میں دوپہر کے کھانے کا وقت ہو جائے گا، میں آپ کو جگا دوں گی۔ ارے بھابھی کیا بتاؤں، صبح سویرے گھر سے نکل رہا تھا، آپ کی بھابھی نے کہا کہ ناشتہ کرکے جائیں۔ بغیر ناشتہ کیے گھر سے نکلنا اچھا شگون نہیں ہوتا۔میں نے کہا، بھلی مانس، ایک گھنٹے کا سفر ہے ، وہاں جا کر ناشتہ کرونگا لیکن بھلا ہو ریل گاڑی کا، 3 گھنٹے لیٹ تھی۔ ہائے کیا انگریز کا زمانہ تھا ،مجال کہ گاڑی لیٹ ہو۔ لوگ اپنی گھڑیوں کا ٹائم گاڑیوں کو دیکھ کر سیٹ کرتے تھے ۔ اگر گاڑی ایک منٹ بھی لیٹ ہو جائے تو گارڈ کا محاسبہ کیا جاتا تھا، اب گھنٹوں لیٹ ہونے پر گارڈ اور عملے کو اوورٹائم ملتا ہے ۔مجھے تو شوکت تھانوی کی کتاب ''سودیشی ریل'' یاد آگئی۔ کیا نقشہ کھینچا تھا اس نے ہندوستان کی آزادی کے بعد کا۔
خیر ،بھابھی زیادہ تکلیف نہیں کریں،سادہ سا ناشتہ، 3،2 پراٹھے ، گھی میں رچے ہوئے ،2 ،3 انڈوں کا آملیٹ اور 2 کپ چائے ، بس کافی ہونگے ۔ زیادہ تکلیف ناں کیجیے گا، آخر دوپہر کا کھانا بھی تو کھانا ہے ۔ دوپہر کو بھی زیادہ تکلیف نہیں کیجیے گا۔فرائی مچھلی، گوشت کا سالن اور شامی کباب۔ ویسے میں بڑے کا گوشت تو نہیں کھاتا لیکن شامی کباب تو بڑے کے ہی اچھے ہوتے ہیں اور ان میں گوشت بھی تھوڑا سا ہی پڑتا ہے ، تو وہ چل جائے گا۔ رات کے کھانے میں تو بالکل بھی زیادہ تکلیف نہیں کیجیے گا۔ 2، 4 روٹیاں،مرغی کی بریانی، ابلے انڈوں کا سالن اور میٹھا۔ حکماء کا کہنا ہے کہ ویسے تو ہر کھانے کے بعد کچھ میٹھا ضرور کھانا چاہیے ، کہ ہاضمے کے لیے اچھا ہوتا ہے ، لیکن رات کے کھانے کے بعد تو ضرور۔فرنی ہو یا کسٹرڈ، ویسے سنا ہے کہ آپ کے شہر کی آئس کریم بہت لذیذ ہوتی ہے اور ہاں آپ کے ہاں کی فالودہ قلفی تو ضرب المثل ہوتی ہے ، ایسی اور کہیں بھی نہیں ملتی ۔
کل صبح نہاری ہو جائے تو کیا کہنا۔ 2، 4 پراٹھے ، تھوڑا سا مغز، 4،2 قتلے کلیجی کے ، حلوہ (میدے کا، سوجی کا نہیں)، سویاں (گھر کی بنی ہوئی ،بازاری نہیں)۔ مجھے تو سردیوں میں گڑ کا پراٹھا (گھی میں رچا ہوا) ، جو آپ نے پچھلے سال کھلایا تھا، بڑا پسند ہے ،پچھلے سال کا چسکہ ابھی تک منہ میں ہے )، لیکن اب کہ گرمیوں میں آیا ہوں، آیندہ سردیوں میں آئونگا تو کھلائیے گا۔ہاں بھائی صاحب حاضر، آیندہ سال سردیوں میں آئیے گا، تو بھی کھلائوں گی، لیکن ایک مسئلہ ہے ۔آپ کے بھائی صاحب ویسے تو زیادہ وقت گھر پہ ہی رہتے ہیں، لیکن اگر کوئی ضرورتمند آجاتا ہے تو اس کی مدد کے لیے دوڑے جاتے ہیں۔ ویسے گھر پر ہر وقت لاکھ سوا کی رقم موجود رکھتے ہیں، لیکن اگرکوئی ضرورتمند آجائے تو پوری رقم لے کر چل پڑتے ہیں، گھر پر ایک روپیہ بھی نہیں رکھتے ، کہ کہیں کم نہ پڑ جائیں۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔
جاتے وقت کہہ گئے کہ بہت ضروری کام سے جا رہا ہوں، دیر سویر ہو جائے تو فکر نہیں کرنا۔ ویسے آپ بھی تو ہمیشہ آتے ہی 5، 5 ہزار کے نوٹ بچوں کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں، میں منع بھی کرتی تھی، تب بھی آپ ہاتھ نہیں روکتے تھے ، لیکن آج بچوں نے بھی اسکول سے آنے میں دیر کردی ہے ۔ اب آپ ایک ہزار روپیہ ادھار دے دیں تاکہ آپ کی مطلوبہ کھانے کی اشیاء منگوا لوں۔ آپ کے بھائی صاحب آئیں گے تو لوٹا دونگی۔یہ سننا تھا کہ مہمان صاحب نے کہا، بھابی میں بھی بڑا بھلکڑ ہو گیا ہوں۔ آج ہی ایک دوست سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے ساتھ تحصیلدار صاحب کے پاس جانا تھا کہ وہ میرا ہم مکتب ہے ۔ کوئی ضروری کام تھا۔ اوہو میرا دوست بھی انتظار کر رہا ہوگا۔ کہیں وہ یہ ناں سمجھے کہ میں ٹال گیا۔ آخر وعدے کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔
یہ کہہ کر مہمان صاحب نے سوٹ کیس سنبھالا اور نہ سلام نہ دعا، چلتا بنا۔ اب قارئین ہی فیصلہ کریں کہ نہلے پہ دہلا کیسا رہا۔ویسے بن بلائے مہمانوں کی کہانیاں بھی ہماری روزمرہ کی زندگی میں بہت ساری ہوتی ہیں۔ ایک صاحب بن بلائے آئے تو گھر والوں نے دال کھلانا شروع کی۔ ایک واقف کار نے پوچھا، بھئی کب سے آئے ہوئے ہو؟جواب دیا، دال کھائے ہوئے تو دس دن ہو گئے ہیں، باقی کا کچھ یاد نہیں ہے۔ایک اور صاحب کسی کے ہاں مہمان آئے ۔ ایک قریبی رشتے دار کو بھی اسے روایتاً اپنے گھر بلانا تھا لیکن دعوت اس طریقے سے دینی تھی کہ اگلا منع کردے ۔
اس لیے بیٹے سے کہا کہ فلاں گھر میں جو چاچا آئے ہوئے ہیں اس سے جاکر کہو کہ بابا نے آپ کو کھانے پر بلایا ہے ۔زیادہ نہیں بولنا، صرف یہ کہہ کر جلدی سے واپس مڑ لینا۔ لڑکے نے یہ کہا تو مہمان نے کہا اچھا بھائی، میں رات کو آجائونگا۔ جب لڑکے نے آکر بتایا کہ وہ تو رات کو آئینگے ۔ باپ اس گھر میں گیا اور دروازے پر ہی کھڑے ہوکر کہا، ہاں بھائی آپ ہم غریبوں کی دعوت کہاں قبول کرتے ہیں۔ آپ بڑے آدمی ہیں، ہم ٹھہرے غریب، آپ کہاں ہمارے آئینگے ۔ مہمان نے کہا، بھائی آپ سے کیا تکلف، آپ کے بیٹے نے کہا اور میں نے حامی بھر لی۔ میزبان نے کہا ناں بھائی، آپ کہاں آئینگے ہمار ے گھر۔ نہیں نہیں بھائی، آپ ہمارے گھر نہیں آئینگے ۔ یہ کہہ کر میزبان چلتا بنا۔کیسی رہی مہمان سے جان چھڑانے کی ترکیب۔