اسلامیہ کالج منتقلی کے ایک برس بعد بھی شدید مسائل سے دوچار داخلوں میں 80 فیصد کمی

تجربہ گاہیں بند ہوگئیں، کلاسیں طلبا اور فرنیچر دونوں ہی سے خالی، فاصلہ بڑھ جانے کے باعث طلبا کالج آنے سے گریزاں

فوٹو: ایکسپریس

سن 60 کے اوائل میں کراچی میں قائم کیا گیا اسلامیہ کالج اپنے تاریخی مقام سے منتقلی کے بعد شدید چیلنجز سے گزر رہا ہے، دہائیوں پرانے اسلامیہ کالج کی اکیڈمک و انتظامی صورتحال دگرگوں ہے، طلبا کے انٹر سال اول میں داخلوں کا تناسب 70 سے 80 فیصد تک کم ہوگیا ہے۔

یہ عمومی تصویر اور سائنس اور آرٹس و کامرس کی فیکلٹی میں تقسیم اسلامیہ سائنس اور اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج کی ہے جو سندھ حکومت کے محکمہ کالج ایجوکیشن کی غفلت و لاپرواہی کے سبب اسے درپیش ہے، اور کراچی کے دیگر کالجوں کی طرح اب یہ کالج بھی نگراں وزیر اعلی سندھ کے اچانک یا سرپرائز دورے کا منتظر ہے۔

اگرچہ سائنس کالج کی انتظامیہ نے اپنے بل بوتے یا اپنی مدد آپ کے تحت اسے کچھ سہارا دینے کی کوشش کی ہے تاہم حکام کی عدم دلچسپی کے سبب اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج کی صورتحال ابتری سے دوچار ہے۔

یہ انکشافات اسلامیہ کالج کی منتقلی کو ایک سال پورا ہونے پر "ایکسپریس" کی جانب سے کالج کی نئی جگہ کے دورے کے موقع پر سامنے آئے ہیں۔



واضح رہے کہ سابق اسلامیہ ٹرسٹ کے تحت اسلامیہ کالج 1962 میں مزار قائد کے قریب میں قائم ہوا تھا جو بعد میں ایک کمپلیکس کی شکل اختیار کرگیا تھا جسے 1972 میں دیگر نجی اداروں کی طرح قومیا لیا گیا تھا۔

ازاں بعد گذشتہ چند برسوں قبل اسلامیہ ٹرسٹ کے نام سے کمپلیکس کی دعویدار ایک نجی پارٹی سامنے آئی تو دوسری جانب حکومت سندھ اس سلسلے میں عدالت میں اپنا ٹھوس موقف نہ دے سکی اور عدالتی احکامات کے بعد سابق وزیر تعلیم سردار شاہ کے دور میں محکمہ کالج ایجوکیشن کو اسلامیہ کالج مذکورہ کمپلیکس سے کوسوں دور نارتھ کراچی میں منتقل کرنا پڑا۔

اسلامیہ کالج کی منتقلی گزشتہ برس دسمبر 2022 میں ہوئی تھی۔ "ایکسپریس" نے جب اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج مارننگ کی بفرزون میں قائم موجودہ عمارت کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ کالج میں طلبا کے لیے لائبریری موجود نہیں ہے کیونکہ یہ لائبریری کمپلیکس سے نئی عمارت میں منتقل ہی نہیں ہوسکی اور اب کالج بغیر کتب خانے ہی کے چلایا جارہا ہے۔



مزید براں ابتدا میں کالج میں طلبا، اساتذہ اور عملے کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر تک نہیں تھا تاہم کالج پرنسپل پروفیسر علی راز شر کے مطابق اب طلبا کو 30 ڈیسک دی گئی ہیں اور ہر کلاس روم میں چند ڈیسک لگادی گئی ہیں۔

کالج پرنسپل کے مطابق کالج میں ایک سال سے پانی نہیں تھا جو اب چند روز قبل کافی کوشش کے بعد ملا ہے۔ ایک سوال پر معلوم ہوا کہ اس سال کالج میں انٹر سال اول میں مجموعی طور پر 400 سے کچھ زائد داخلے ہوئے ہیں۔

کالج پرنسپل علی راز شر کے مطابق گزشتہ برس مذکورہ دونوں فیکلٹی میں 2600 داخلے ہوئے تھے تاہم جب طلبا کو معلوم ہوتا ہے کہ کالج اتنی دور چلا گیا ہے تو طلبا داخلے نہیں لیتے، کالج پرنسپل کا کہنا تھا کہ ہم نے کیپ حکام سے کہا تھا کہ داخلوں کو "ای کیپ" کے بعد طلبا کے لیے اوپن کردیں لیکن نہیں کیا گیا جس کے سبب انرولمنٹ اس قدر کم ہوگئی۔

واضح رہے کہ اسی عمارت میں فرسٹ فلور پر گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج (ایوننگ) قائم ہے جہاں نہ کوئی طالب علم پڑھنے آتا ہے اور نہ ہی ان کے لیے فرنیچر دستیاب ہے، کالج کے فرسٹ فلور پر تمام کمرہ جماعت خالی پڑے ہیں اور انھیں تالا لگا کر چھوڑ دیا گیا ہے، کالج میں دھول مٹی اڑ رہی ہے بتایا جارہا ہے کہ دوپہر میں کالج کا عملہ کچھ دیر کے لیے آتا ہے۔

"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں سیکریٹری کالج ایجوکیشن صدف شیخ سے رابطے کی کوشش کی اور ان سے ایس ایم ایس کے ذریعے سوال کیا کہ منتقلی کے بعد اب کالج کی اس دگرگوں صورتحال پر وہ کیا رائے رکھتی ہیں تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔




ریجنل ڈائریکٹر کالجز پروفیسر سلیمان سیال سے رابطہ کرکے جب کالج کی موجودہ صورتحال کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کورٹ آرڈر پر یہ کالج منتقل کرنا پڑا تھا، اطراف میں کوئی عمارت موجود نہیں تھی لہذا اتنی دور کالج لے گئے، اسی سبب سے بچے کالج میں نہیں آتے اور داخلے بھی کم ہوئے ہیں۔

لیب اور لائبریری کی صورتحال پر ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس سلسلے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، میں معلوم کرکے بتا پائوں گا۔ سلیمان سیال کا کہنا تھا کہ ہم نے اس معاملے پر کورٹ میں اپیل کررکھی ہے لیکن کافی عرصہ گزرنے کے بعد اب تک سماعت نہیں ہوئی ہمیں امید ہے کہ ہم کالج واپس لے لیں گے۔

دوسری جانب گورنمنٹ اسلامیہ سائنس کالج جو آرٹس اینڈ کامرس کالج سے بھی تقریباً 6 سے 8 کلومیٹر کلومیٹر مزید مسافت پر ہے، اس کے دورے پر معلوم ہوا کہ کالج کی پرانی عمارت میں 17 لیبس تھی تاہم اب نئی عمارت میں صرف 4 لیبس ہیں جس کے باعث 2 یا تین لیبس کلاس رومز میں بنائی گئی ہیں اور گنجائش نہ ہونے کے سبب کالج انتظامیہ کو مائیکرو بیالوجی اور بائیو کیمسٹری کی تجربہ گاہ ایک ہی احاطے میں بنانی پڑی ہے۔

یہاں یہ انکشاف بھی ہوا کہ autoclave , Incubator اور oven سمیت لیب کا مزید کچھ سامان گزشتہ عمارت میں ہی رہ گیا اور وہاں سے نکل نہیں سکا۔ شعبہ کے سربراہ کے مطابق ان وجوہات کے باعث مائیکرو بیالوجی کی لیب غیر فعال یا بند ہوگئی ہے جبکہ اتنی دور سے پرانے طلبا یہاں نہیں آتے، اسی لیب میں متعلقہ مضامین کی کتابیں سیمینار لائبریری نہ ہونے کے سبب ڈبوں میں بند کردی گئی ہیں۔

لائبریری کے دورے کے موقع پر وہاں کے انچارج نے بتایا کہ پرانے کمپلیکس میں لائبریری میں کتابیں 34 الماریوں میں رکھ دی گئی تھیں تاہم یہاں صرف 9 الماریاں ہی آسکیں باقی کتابیں الماریوں سمیت کمپلیکس میں ہی بند ہیں، یہ لائبریری بھی ایک کلاس روم میں بنی ہوئی ہے۔



مزید براں گزشتہ کمپلیکس میں قائم ایک عظیم الشان زولوجی میوزیم اب ایک راہداری میں موجود ہے اور اس میوزیم کے 24 میں سے صرف 6 شو کیس یہاں آسکے ہیں جنہیں جگہ نہ ہونے کے سبب راہداری میں رکھا گیا ہے۔

کالج پرنسپل پروفیسر نسیم حیدر کے مطابق اسلامیہ سائنس کالج میں بھی گزشتہ برس انٹر سال اول میں ای کیپ کے ذریعے ڈھائی ہزار کے لگ بھگ داخلے ہوئے تھے تاہم اس برس صرف 200 سے کچھ زائد داخلے ہوئے جس میں سے صرف 100 ای کیپ سے ہوئے۔

اس کالج میں ای کیپ کے بعد داخلوں کو ہر طالب علم کے لیے اوپن کردیا گیا جس کے سبب "سی ،ڈی اور ای گریڈ" کے طلبا کیپ کے ذریعے داخلے لینے والے اے ون اور اے گریڈ کے طلبا کے ساتھ آگئے۔

کالج کی منتقلی کے بعد پرانے طلبا کی ایک بڑی تعداد اس لیے کالج نہیں آتی کہ ان کے گھروں اور پرانے کمپلیکس سے 20 کلومیٹر سے زائد کی مسافت پر ہے۔

پرانے کالج سے طویل مسافت کے معاملے پر اسلامیہ سائنس کالج کے پرانے طلبا کا موقف ہے کہ ہمارا کالج پرانے کمپلیکس سے 20 کلومیٹر سے زائد کی مسافت پر ہے، مہنگائی کے اس دور میں ہمیں روز آنے جانے میں ہی کئی سو روپے خرچ کرنے ہوتے ہیں۔

طلبا نے کہا کہ اگر حکومت ہمارے لیے کوئی شٹل سروس پرانے کالج سے چلادے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے، فی الحال تو ہم چند پرانے طلبا ہی کالج آتے ہیں لیکن ہم بھی پریکٹیکل کے لیے یہاں آتے ہیں کیونکہ اب روز آنا ممکن نہیں رہا پھر کالج میں لائبریری سمیت پرانی جیسی سہولیات گزشتہ سال کی طرح نہیں ہیں۔

 
Load Next Story