مشرف پھانسی کیس خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے سپریم کورٹ
مشرف پھانسی کیس؛ خصوصی عدالت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتے، وفاقی حکومت
مشرف پھانسی کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جج اطہر من اللہ نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے۔
ادھر وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتے۔
سابق صدر پرویز مشرف کو سزا دینے کے خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے اپیل چلانے سے متعلق پرویز مشرف کے اہلخانہ سے ہدایات لینے کے لیے وکیل کو مزید ایک ہفتے کی مہلت دے دی
سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سوالات اٹھاتے ہوئے وکیل حامد خان سے معاونت طلب کر لی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں چار رکنی بنچ نے سماعت کی۔
سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر روسٹر پر آئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ سابق صدر جب زندہ تھے تو رابطہ میں تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ان کی اپیل سماعت کے لیے مقرر ہو جائے، پرویز مشرف کے اہلخانہ سے 8 سے 10 بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے اپیل چلانے کے لیے ابھی تک کوئی ہدایت نہیں ملی، میں ان اپیلوں کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلمان صفدر صاحب اس فیصلے کے مستقبل کی نسلوں پر اثرات ہوں گے، پرویز مشرف کی پینشن اور دیگر مرعات بھی متاثر ہوں گی۔
وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف کی فیملی اپیل کی پیروی چاہتی تھی ان سے رابطہ کے لیے ایک ہفتہ مزید دیا جائے۔ عدالت نے وکیل کی مزید مہلت کی استدعا کو منظور کر لیا۔
سپریم کورٹ میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی حیثیت سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر بھی سماعت ہوئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش ہوکر بتایا کہ وفاقی حکومت لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ فیصلے کے خلاف اس اپیل کی حمایت کرتے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اپیل کی حمایت کے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا دفاع تو نہیں کر رہے نا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا دفاع بھی نہیں کر رہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ سنا دینے کے بعد لاہور ہائیکورٹ کی کارروائی غیر موثر ہو چکی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے۔
لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف درخواست میں حامد خان کی جانب سے آج دلائل مکمل نہ کیے جا سکے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہائیکورٹ نے اس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کیسے لکھا، کیا اس سے پہلے ایسی کوئی نظیر موجود ہے، ہائیکورٹ کے جج نے لکھ دیا ان کی رائے میں سپریم کورٹ نے آئین کی درست تشریح نہیں کی، ہائیکورٹ کی یہ رائے درست بھی ہو تو کیا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کر سکتی ہے؟
دوران سماعت چیف جسٹس نے سوالات اٹھائے کہ لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر اور مقرر ہونے پر کوئی سوالات ہیں؟ رجسٹرار کے اعتراضات کے بعد درخواست پہلے سنگل بینچ اور پھر تین رکنی بینچ میں کیسے لگی؟ حامد خان اس معاملے کو بھی دیکھیں اور اس پر معاونت کریں، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔
ادھر وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتے۔
سابق صدر پرویز مشرف کو سزا دینے کے خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے اپیل چلانے سے متعلق پرویز مشرف کے اہلخانہ سے ہدایات لینے کے لیے وکیل کو مزید ایک ہفتے کی مہلت دے دی
سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سوالات اٹھاتے ہوئے وکیل حامد خان سے معاونت طلب کر لی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں چار رکنی بنچ نے سماعت کی۔
سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر روسٹر پر آئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ سابق صدر جب زندہ تھے تو رابطہ میں تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ان کی اپیل سماعت کے لیے مقرر ہو جائے، پرویز مشرف کے اہلخانہ سے 8 سے 10 بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے اپیل چلانے کے لیے ابھی تک کوئی ہدایت نہیں ملی، میں ان اپیلوں کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلمان صفدر صاحب اس فیصلے کے مستقبل کی نسلوں پر اثرات ہوں گے، پرویز مشرف کی پینشن اور دیگر مرعات بھی متاثر ہوں گی۔
وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف کی فیملی اپیل کی پیروی چاہتی تھی ان سے رابطہ کے لیے ایک ہفتہ مزید دیا جائے۔ عدالت نے وکیل کی مزید مہلت کی استدعا کو منظور کر لیا۔
سپریم کورٹ میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی حیثیت سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر بھی سماعت ہوئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش ہوکر بتایا کہ وفاقی حکومت لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ فیصلے کے خلاف اس اپیل کی حمایت کرتے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اپیل کی حمایت کے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا دفاع تو نہیں کر رہے نا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا دفاع بھی نہیں کر رہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ سنا دینے کے بعد لاہور ہائیکورٹ کی کارروائی غیر موثر ہو چکی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے۔
لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف درخواست میں حامد خان کی جانب سے آج دلائل مکمل نہ کیے جا سکے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہائیکورٹ نے اس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کیسے لکھا، کیا اس سے پہلے ایسی کوئی نظیر موجود ہے، ہائیکورٹ کے جج نے لکھ دیا ان کی رائے میں سپریم کورٹ نے آئین کی درست تشریح نہیں کی، ہائیکورٹ کی یہ رائے درست بھی ہو تو کیا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کر سکتی ہے؟
دوران سماعت چیف جسٹس نے سوالات اٹھائے کہ لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر اور مقرر ہونے پر کوئی سوالات ہیں؟ رجسٹرار کے اعتراضات کے بعد درخواست پہلے سنگل بینچ اور پھر تین رکنی بینچ میں کیسے لگی؟ حامد خان اس معاملے کو بھی دیکھیں اور اس پر معاونت کریں، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔