اسرائیلی جارحیت

فلسطینیوں کی نسل کشی کا یہ منصوبہ دہائیوں پرانا ہے اور اس میں اسرائیل کو پوری مغربی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے

فلسطینیوں کی نسل کشی کا یہ منصوبہ دہائیوں پرانا ہے اور اس میں اسرائیل کو پوری مغربی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ فوٹو: فائل

اسرائیل نے غزہ کے انڈونیشین اسپتال پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں ڈاکٹروں سمیت 12فلسطینی شہید ہوگئے۔ اس کے علاوہ اسپتال سے نکلنے کی کوشش کرنے والوں پر بھی فائرنگ کی گئی۔

عرب میڈیا کے مطابق غزہ میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 13 ہزار ہوگئی ہے۔ شہدا میں 5 ہزار 600 بچے اور 3 ہزار 550 خواتین بھی شامل ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی جارحیت ڈیڑھ ماہ سے جاری ہے، بین الاقوامی جنگی قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے اسرائیلی افواج نے بلاتفریق حملوں میں سویلین رہائشی علاقوں، پناہ گزین کیمپوں، اسکولوں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں کو بھی نہ بخشا۔

اسرائیلی جارحیت محض فلسطین پر نہیں، پوری انسانیت پر حملہ ہے، اسرائیل بندوق کی نوک پر فلسطینیوں کو بے دخل کر رہا ہے، جب کہ بچوں، عورتوں سمیت ہزاروں معصوم شہریوں کی شہادت کا مرتکب ہوا ہے، انسانی ضمیر کے لیے یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

مشرق وسطیٰ کے ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اسرائیلی جس انداز میں غزہ کا انتظامی ڈھانچہ تباہ کر رہے ہیں، ان کا مقصد اس علاقے کو ناقابل انتظام بنانا ہے۔

سب سے زیادہ تشویش ناک بات ایک اسرائیلی وزیرکا یہ کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ یہ اشتعال انگیز بیان بازی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ کے لیے اسرائیل کا طویل مدتی منصوبہ علاقے میں نسلی صفائی کرنا بھی ہے؟

مغربی میڈیا اسرائیل کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی بھرپور کاوشیں کر رہا ہے مگر آج دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ غزہ میں معصوم بچوں، بزرگوں اور خواتین سمیت ہزاروں مسلمان شہید ہوچکے ہیں اور حالات غزہ کے اندر ایسے پیدا کیے جا چکے ہیں کہ نہ انھیں خوراک مل رہی ہے نہ ہی دوسری ضروریات زندگی بلکہ اسپتالوں میں زخمیوں کے آپریشن بغیر بے ہوش ہی کیے جا رہے ہیں لیکن فلسطینی انتہائی نامساعد حالات میں بھی ہمت نہیں ہارے اور اسرائیلی ظلم و جبر کے سامنے پوری خندہ پیشانی سے سینہ سپر ہیں۔

فلسطینی مزاحمت کررہے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ انھیں اسرائیلی مظالم سے نجات ملے نہ ملے، ان کی اگلی نسلیں ضرور سحر دیکھیں گی۔

اگر ہم اسرائیل کا محل وقوع دیکھیں تو واقعی یہ ثابت ہوتا ہے کہ مغرب نے یہ خنجر مشرق وسطی کے قلب میں پیوست کیا تھا، اسرائیل شمال سے لبنان، شمال مشرق سے اردن، جنوب سے سمندر، شمال مغرب سے مصر اور مغربی کنارے سے فلسطین سے گھرا ہوا ہے ، اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود صرف اور صرف معیشت کے بل پوری دنیا کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہے ۔

عرب ممالک سمیت عالمی ادارے اور اقوام متحدہ چیخ چیخ کر وحشیانہ بمباری روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اسرائیل کسی مطالبے یا قرارداد پرکوئی توجہ ہی نہیں دے رہا ہے۔ اگر عالمی صف بندی کی حرکیات پر غور کیا جائے تو سمجھ آجائے گا کہ اسرائیل کے مقاصدکیا ہیں جہاں وہ بزور طاقت اپنے مقاصد کا حصول کرسکتا ہے وہ کررہا ہے اور جہاں وہ روایتی عیاری اور مکاری کا سہارا لے سکتا ہے تو وہ بھی کررہا ہے۔

اسرائیل ایک جانب عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو دوسری جانب تنازع کی اصل وجہ مسئلہ فلسطین کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جا رہی ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے جامع اور منصفانہ حل کو قبول نہیں کرنا چاہتا، جس میں فلسطینی سر زمین پر مکمل خود مختاری کے ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے، جس کا دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس ہو۔


اسرائیلی وزیراعظم اور وزراء کے بیانات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسرائیل فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے اور یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں ہے کہ جب سعودی حکومت برملا اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات فلسطین کی خود مختار ریاست کے قیام کی کوششوں پر منحصر ہے، جب کہ اسرائیل کو تسلیم کرنیوالے دیگر عرب ممالک کا بھی یہی مؤقف تھا کہ آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی سمت کا تعین کرے گی لیکن آزاد اور خود مختار تو دور فلسطینیوں پر تاریخ کے بدترین ظلم اور نسل کشی کے باوجود ان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔

اس وقت جوکچھ غزہ میں ہورہا ہے وہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ریاستی دہشت گردی ہے جس کا شکار معصوم شہریوں کو بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل شمالی غزہ میں بارڈر کے قریبی علاقے کو خالی کروانا چاہ رہا ہے تاکہ وہاں سے اسرائیل کے خلاف راکٹ نہ چلائے جا سکیں۔

فلسطینیوں کی نسل کشی کا یہ منصوبہ دہائیوں پرانا ہے اور اس میں اسرائیل کو پوری مغربی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ امریکا نے اپنے اس اتحادی کے لیے نہ صرف بحری بیڑہ بھیجا ہے بلکہ وہ اس کی سفارتی اور مالی معاونت بھی کررہا ہے جب کہ وہ خود اپنے شہریوں کی صحت کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہے، اگر مغربی میڈیا کی بات کی جائے تو یہ واضح ہے کہ مغربی میڈیا فلسطینیوں کے درد کو بیان نہیں کر رہا ،اسرائیل حکام میڈیا پر اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی لیے عالمی میڈیا میں اسرائیل کو ترجیح دی جاتی ہے۔

انھوں نے فلسطینی خاندانوں کی تصاویر لے کر مغربی میڈیا میں اسرائیلی خاندانوں کی تصاویر کے طور پر پیش کیں جنھیں فلسطینیوں کے راکٹوں کا نشانہ بتایا گیا، وہ حقائق کو تبدیل کر کے عالمی برادری کو قائل کرنا چاہ رہے ہیں کہ اصل مظلوم (victim) وہ ہیں اور عالمی برادری مان لیتی ہے کیونکہ میڈیا اُن کے ہاتھ میں ہے۔ او آئی سی کے ستاون اسلامی ممالک کے کنٹرول میں کونسا میڈیا ہے جو ہ مغرب میں اثر انداز ہو سکتا ہے ؟

مغربی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر آکر دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ بیشک ان کی ریاست اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہو لیکن بڑی تعداد میں عوام فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔حتیٰ کہ امریکا جو اسرائیل کا پکا اتحادی سمجھا جاتا ہے، وہاں کے شہریوں کے مؤقف میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکا میں بسنے والے یہودیوں نے وائٹ ہاؤس اور نائب صدر کمیلا ہیرس کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کیا جس میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس ریلی میں نوجوان کارکنان اور وہ ربی بھی شریک تھے جنھوں نے ہولوکاسٹ میں اپنے پیاروں کو کھو دیا تھا، اگرچہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا لیکن ان مظاہرین نے ایک سخت پیغام دیا جو یہ تھا کہ وہ امریکا کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسرائیل کی ہتھیاروں سے مدد کرے جو کہ یہودیوں کا نام استعمال کرکے غزہ میں ایک اور ہولو کاسٹ انجام دینا چاہتا ہے۔

جہاں تک موجودہ بحران کے حل کا تعلق ہے تو اس میں بعض قُوتیں موثر اور تعمیری کردار ادا تو کر سکتی ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ اِس کے لیے کس قدر پُر عزم ہیں؟ مثلاً امریکا ہے، اقوامِ متحدہ ہے اور اسلامی دُنیا ہے۔

کیا اقوام عالمی مذمتی بیانات اور قراردادوں تک محدود رکھے گی یا پھر اسرائیل جارحیت کو روکنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کرے گی؟ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کے بغیر پائیدار امن ہمیشہ خطرے میں رہے گا۔

اقوام متحدہ کا ادارہ اس لیے عمل میں آیا تھا کہ اقوام عالم کے باہمی تنازعات کو بغیر جنگ کے پرامن طریقے سے حل کیا جائے کیونکہ دنیا دو عالمی جنگیں لڑ چکی تھی 'ان جنگوں کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ کوئی ایسا فورم موجود نہیں تھا۔

جہاں اس وقت کے ممالک اپنے تنازعات کو گفتگو سے حل کر سکیںلیکن اقوام متحدہ جس مقصد کے لیے قائم کی گئی تھی 'گو اس نے کسی حد تک اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن یہ کردار اس لیے زیادہ اہم نہیں ہے کہ بہت سے تنازعات ایسے ہیں جو نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے چلے آ رہے ہیں 'ان تنازعات کے نتیجے میں کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور لاکھوں جانیں ضایع ہو چکی ہیں' ایسے ہی تنازعات میں سرفہرست کشمیر کا تنازعہ ہے۔

یہاں بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا' دوسرا اہم ترین تنازعہ فلسطین کا ہے' اس تنازعہ کو بھی بڑی طاقتوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر حل نہیں ہونے دیا بلکہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کی ریاست عسکری طور پر بھی مضبوط ہوئی ہے اور اس کا رقبہ اور آبادی بھی پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اب حالات زیادہ خراب ہو رہے ہیں 'وقت کا تقاضا ہے کہ اس تنازعے کو حل کیا جائے۔
Load Next Story