لاڈلہ کون
حد تو یہ ہے کہ لاڈلوں کے لاڈلے بچے بھی کھیلنے کو چاند مانگ رہے ہیں
ہمارے خاندانی سسٹم میں ایک لفظ بکثرت استعمال ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی بھی شخصیت کی تعریف و توصیف اور اہمیت مقصود ہوتی ہے۔
عموماً گھر میں بچوں سے بہت لاڈ پیار کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک بچہ ایسا ہوتا ہے جس کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دی جاتی ہے، وہ بیٹا بھی ہو سکتا ہے اور بیٹی بھی لیکن جب بھی اس کے ناز نخرے اٹھانے ہوں یا اس کی کسی غلطی پر اس کو ڈانٹنا ہو تو اس ایک لفظ کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ تو ماں یا باپ کا لاڈلہ جو ہے۔
ماں اپنے بچے پر غصہ ہو تو فوراً اسے باپ کے لاڈلہ کا خطاب دے دیتی ہے، اسی طرح والد بھی خاص طور پر بیٹوں کے معاملے میں لاڈ پیار کے لیے ماں کو ذمے دار ٹھہراتا ہے۔
لاڈ پیار ایک ایسا فطری عمل ہے جس سے کوئی مبرا نہیں ہو سکتا، ہر کوئی کسی نہ کسی کا لاڈلہ ضرور ہوتا ہے ۔البتہ لاڈلے پن میں کمی بیشی ضرور ہو سکتی ہے لیکن لاڈلہ پن موجود رہتا ہے ۔ اسی لاڈ پیار کو شاعری میں انوکھا لاڈلہ کہا گیا ہے اور نظم کا ایک مصرعہ 'انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ' بہت مقبول ہے۔
آج کل پاکستانی سیاست دان لاڈلے کا تذکرہ کر کے ایک دوسرے پر طنز کر رہے ہیں ۔ گو کہ لاڈلے کے محاورے کا استعمال مدتوں سے چلا آرہا ہے لیکن پاکستانی سیاست دانوں نے اس کااستعمال گزشتہ دور حکومت میں شروع کیا تھا اور وہ چیئر مین تحریک انصاف کو مقتدر حلقوں کا لاڈلہ کہتے تھے ۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو جو دبنگ اور جارح سیاسی مزاج رکھتے ہیں،میاں نواز شریف کو لاڈلے کا خطاب دے چکے ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں اس کا تواتر سے اظہار کر رہے ہیں ۔
تھوڑا سا ماضی میں جایا جائے تو ہر دور میں کوئی نہ کوئی سیاست دان مقتدرہ کا لاڈلہ ضرور رہا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کسی سے لاڈ پیار بہت زیادہ کیا گیا اور کسی کو بیچ چوراہے میں چھوڑ دیا گیا۔
سنتے ہیں کہ بھٹو صاحب بھی فیلڈ مارشل ایوب خان کے بہت لاڈلے تھے ۔ لاڈلے ہونے کے ناطے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہو گئے اور ایٹم بم بنانے جیسے انقلابی کام شروع کر دیے جو دنیا کی بڑی طاقتوں کے ناقابل قبول تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دنیا کے بیشتر حکمرانوں سے قریبی تعلق کے باوجود بھی تختہ دار پر جھول گئے۔ ان کا لاڈلہ پن کسی کام نہ آیا اور وہ عالم اسلام کے رہنماؤں کی جانب سے مدد کے انتظار میں ہی اپنی جان پاکستانی ایٹم بم پر قربان کر گئے۔
پاکستان کی تاریخ میں دوسرے لاڈلے میاں نواز شریف تھے جن پر جنرل ضیاء الحق کی نظر پڑ گئی ۔ ضیاء الحق کو جب بہ امر مجبوری انتخابات پر مجبور کر دیا گیا تو انھوںنے سندھ سے ایک شریف النفس شخصیت محمد خان جونیجو کا بطور وزیر اعظم انتخاب کیا لیکن پنجاب کے لیے ان کی نظر جناب نواز شریف پر ہی ٹھہر گئی اور ایک وقت وہ بھی آیا جب دنیا نے دیکھا کہ ضیاء الحق نے میاں نواز شریف کے لیے دعا کی کہ میری عمر بھی ان کو لگ جائے ۔
یہ لاڈلے پن کی انتہاء تھی ۔ میاں نواز شریف نے سیاسی اسرار و رموز کے داؤ پیچ نہایت مدبرانہ اور عقلمندانہ طریقے سے استعمال کر کے مقتدرہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو پروان چڑھایا اور تین دفعہ وزیر اعظم کے منصب پر پہنچنے میں کامیاب رہے لیکن پھر وہ بھی غلطی کر گئے اور انھوں نے بم کو ہی لات ماردی جس کے نتیجہ میں پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیااور انھیں ملک بدر بھی کر دیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی بات کی جائے تو وہ پاکستان کے بااثر حلقوں میں کبھی پسندیدہ نہیں رہیں، وہ دونوں دفعہ عوام کی طاقت سے اقتدار میں آئیں لیکن انھیں اپنی حکومت چلانے میں مشکلات کا سامنا رہا جس کے نتیجے میں انھیں بہت جلد اقتدار سے رخصت بھی کر دیا گیا۔
بینظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کر لیا اور میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کے داؤ پیچ استعمال کر کے سیاسی مفاہمت کا ڈول ڈال کر اپنی پارٹی کو پانچ سال اقتدار میں رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔
انھوں نے اپنی فہم وفراست سے حکومت کی مدت پوری کی لیکن ان ان کولاڈلے کا خطاب نہ مل سکا۔ پاکستان کی تاریخ کے آخری سیاسی لاڈلے چیئرمین تحریک انصاف تھے جن سے مقتدرہ نے بے انتہا اور بے جا لاڈ پیار کیا لیکن وہ اس لاڈ پیار کو سنبھال نہ سکے اور لاڈلے پن میں انتہا سے گزر گئے ۔
حد تو یہ ہے کہ لاڈلوں کے لاڈلے بچے بھی کھیلنے کو چاند مانگ رہے ہیں لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی لاڈلہ ہوتا ہے ، یہ بچے ابھی انتظار کریں ۔ ان کا وقت بھی آجائے گا جب صرف یہی لاڈلے ہوں گے ۔
عموماً گھر میں بچوں سے بہت لاڈ پیار کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک بچہ ایسا ہوتا ہے جس کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دی جاتی ہے، وہ بیٹا بھی ہو سکتا ہے اور بیٹی بھی لیکن جب بھی اس کے ناز نخرے اٹھانے ہوں یا اس کی کسی غلطی پر اس کو ڈانٹنا ہو تو اس ایک لفظ کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ تو ماں یا باپ کا لاڈلہ جو ہے۔
ماں اپنے بچے پر غصہ ہو تو فوراً اسے باپ کے لاڈلہ کا خطاب دے دیتی ہے، اسی طرح والد بھی خاص طور پر بیٹوں کے معاملے میں لاڈ پیار کے لیے ماں کو ذمے دار ٹھہراتا ہے۔
لاڈ پیار ایک ایسا فطری عمل ہے جس سے کوئی مبرا نہیں ہو سکتا، ہر کوئی کسی نہ کسی کا لاڈلہ ضرور ہوتا ہے ۔البتہ لاڈلے پن میں کمی بیشی ضرور ہو سکتی ہے لیکن لاڈلہ پن موجود رہتا ہے ۔ اسی لاڈ پیار کو شاعری میں انوکھا لاڈلہ کہا گیا ہے اور نظم کا ایک مصرعہ 'انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ' بہت مقبول ہے۔
آج کل پاکستانی سیاست دان لاڈلے کا تذکرہ کر کے ایک دوسرے پر طنز کر رہے ہیں ۔ گو کہ لاڈلے کے محاورے کا استعمال مدتوں سے چلا آرہا ہے لیکن پاکستانی سیاست دانوں نے اس کااستعمال گزشتہ دور حکومت میں شروع کیا تھا اور وہ چیئر مین تحریک انصاف کو مقتدر حلقوں کا لاڈلہ کہتے تھے ۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو جو دبنگ اور جارح سیاسی مزاج رکھتے ہیں،میاں نواز شریف کو لاڈلے کا خطاب دے چکے ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں اس کا تواتر سے اظہار کر رہے ہیں ۔
تھوڑا سا ماضی میں جایا جائے تو ہر دور میں کوئی نہ کوئی سیاست دان مقتدرہ کا لاڈلہ ضرور رہا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کسی سے لاڈ پیار بہت زیادہ کیا گیا اور کسی کو بیچ چوراہے میں چھوڑ دیا گیا۔
سنتے ہیں کہ بھٹو صاحب بھی فیلڈ مارشل ایوب خان کے بہت لاڈلے تھے ۔ لاڈلے ہونے کے ناطے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہو گئے اور ایٹم بم بنانے جیسے انقلابی کام شروع کر دیے جو دنیا کی بڑی طاقتوں کے ناقابل قبول تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دنیا کے بیشتر حکمرانوں سے قریبی تعلق کے باوجود بھی تختہ دار پر جھول گئے۔ ان کا لاڈلہ پن کسی کام نہ آیا اور وہ عالم اسلام کے رہنماؤں کی جانب سے مدد کے انتظار میں ہی اپنی جان پاکستانی ایٹم بم پر قربان کر گئے۔
پاکستان کی تاریخ میں دوسرے لاڈلے میاں نواز شریف تھے جن پر جنرل ضیاء الحق کی نظر پڑ گئی ۔ ضیاء الحق کو جب بہ امر مجبوری انتخابات پر مجبور کر دیا گیا تو انھوںنے سندھ سے ایک شریف النفس شخصیت محمد خان جونیجو کا بطور وزیر اعظم انتخاب کیا لیکن پنجاب کے لیے ان کی نظر جناب نواز شریف پر ہی ٹھہر گئی اور ایک وقت وہ بھی آیا جب دنیا نے دیکھا کہ ضیاء الحق نے میاں نواز شریف کے لیے دعا کی کہ میری عمر بھی ان کو لگ جائے ۔
یہ لاڈلے پن کی انتہاء تھی ۔ میاں نواز شریف نے سیاسی اسرار و رموز کے داؤ پیچ نہایت مدبرانہ اور عقلمندانہ طریقے سے استعمال کر کے مقتدرہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو پروان چڑھایا اور تین دفعہ وزیر اعظم کے منصب پر پہنچنے میں کامیاب رہے لیکن پھر وہ بھی غلطی کر گئے اور انھوں نے بم کو ہی لات ماردی جس کے نتیجہ میں پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیااور انھیں ملک بدر بھی کر دیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی بات کی جائے تو وہ پاکستان کے بااثر حلقوں میں کبھی پسندیدہ نہیں رہیں، وہ دونوں دفعہ عوام کی طاقت سے اقتدار میں آئیں لیکن انھیں اپنی حکومت چلانے میں مشکلات کا سامنا رہا جس کے نتیجے میں انھیں بہت جلد اقتدار سے رخصت بھی کر دیا گیا۔
بینظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کر لیا اور میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کے داؤ پیچ استعمال کر کے سیاسی مفاہمت کا ڈول ڈال کر اپنی پارٹی کو پانچ سال اقتدار میں رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔
انھوں نے اپنی فہم وفراست سے حکومت کی مدت پوری کی لیکن ان ان کولاڈلے کا خطاب نہ مل سکا۔ پاکستان کی تاریخ کے آخری سیاسی لاڈلے چیئرمین تحریک انصاف تھے جن سے مقتدرہ نے بے انتہا اور بے جا لاڈ پیار کیا لیکن وہ اس لاڈ پیار کو سنبھال نہ سکے اور لاڈلے پن میں انتہا سے گزر گئے ۔
حد تو یہ ہے کہ لاڈلوں کے لاڈلے بچے بھی کھیلنے کو چاند مانگ رہے ہیں لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی لاڈلہ ہوتا ہے ، یہ بچے ابھی انتظار کریں ۔ ان کا وقت بھی آجائے گا جب صرف یہی لاڈلے ہوں گے ۔