سنکیانگ میں مساجد کیخلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آگئی ہیومن رائٹس واچ
چین کی ثقافت سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر مساجد کے گنبد، میناروں اور نقش و نگار کو تبدیل کیا جا رہا ہے
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چین کے شہر سنکیانگ اور اس کے اطراف بالخصوص یغور مسلمانوں اور مساجد کے خلاف کریک ڈاؤن آپریشن میں تیزی آگئی۔
عرب نیوز کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے سنکیانگ میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مذہبی آزادی سلب کرتے ہوئے کچھ مساجد کو بند اور کچھ کو مسمار کردیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی علاقے ننگشیا اور گانسو صوبے میں 5 سے زائد مساجد کو بند کیا گیا حالانکہ یہاں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور یہ مساجد برسوں سے یہاں موجود تھیں۔
اسی طرح چین کی ثقافت سے ہم آہنگ کرانے کے نام پر زبردستی کچھ مساجد کے گنبد، میناروں اور نقش و نگار کو تبدیل کرایا گیا۔ مساجد کے کچھ حصوں کو غیر تجاوزات قرار دیکر منہدم بھی کیا گیا۔
یاد رہے کہ 2016 سے سنکیانگ کے مغربی علاقے میں یغور مسلمانوں کو سخت نگرانی میں رکھا جا رہا ہے اس علاقے میں 11 ملین مسلمان آباد ہیں جب کہ اسلام قبول کرنے والے چینیوں کو بحالی مراکز میں رکھ کر ذہن سازی کی جاتی تاکہ وہ مذہب کو چھوڑ دیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے یہ بحالی مراکز دراصل حراستی مراکز ہیں میں 10 لاکھ ایغو مسلمانوں کو رکھا گیا جن کے بارے میں شُبہ تھا کہ وہ چین کی حکومت کے خلاف برسرپیکار اور علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔
چین سنکیانگ میں یغور مسلمانوں اور مساجد کے خلاف کریک ڈاؤن آپریشن کی خبروں کو مسترد کرتا آیا ہے اور اس پروپیگنڈے کو امریکی سازش قرار دیتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے سنکیانگ میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مذہبی آزادی سلب کرتے ہوئے کچھ مساجد کو بند اور کچھ کو مسمار کردیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی علاقے ننگشیا اور گانسو صوبے میں 5 سے زائد مساجد کو بند کیا گیا حالانکہ یہاں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور یہ مساجد برسوں سے یہاں موجود تھیں۔
اسی طرح چین کی ثقافت سے ہم آہنگ کرانے کے نام پر زبردستی کچھ مساجد کے گنبد، میناروں اور نقش و نگار کو تبدیل کرایا گیا۔ مساجد کے کچھ حصوں کو غیر تجاوزات قرار دیکر منہدم بھی کیا گیا۔
یاد رہے کہ 2016 سے سنکیانگ کے مغربی علاقے میں یغور مسلمانوں کو سخت نگرانی میں رکھا جا رہا ہے اس علاقے میں 11 ملین مسلمان آباد ہیں جب کہ اسلام قبول کرنے والے چینیوں کو بحالی مراکز میں رکھ کر ذہن سازی کی جاتی تاکہ وہ مذہب کو چھوڑ دیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے یہ بحالی مراکز دراصل حراستی مراکز ہیں میں 10 لاکھ ایغو مسلمانوں کو رکھا گیا جن کے بارے میں شُبہ تھا کہ وہ چین کی حکومت کے خلاف برسرپیکار اور علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔
چین سنکیانگ میں یغور مسلمانوں اور مساجد کے خلاف کریک ڈاؤن آپریشن کی خبروں کو مسترد کرتا آیا ہے اور اس پروپیگنڈے کو امریکی سازش قرار دیتا ہے۔